اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تین طرح کی مخلوقات پیدا کی ہیں، جمادات ، نباتات اور حیوانات ، جمادات سے مراد ایسی چیزیں ہیں جن میں نمو اور حرکت کی صلاحیت نہیں ہوتی، جیسے پتھر ، زمین ، لوہا۔ نباتات سے مراد پودے ہیں، جن میں بڑھوتری اور افزائش تو ہوتی ہے، لیکن وہ نقل و حرکت کی صلاحیت سے محروم اور بظاہر احساس وشعور سے عاری ہیں، حیوانات سے مراد جان دار مخلوق ہیں، جن میں شعور و احساس ہے، کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ادراک کی صلاحیت اور نقل و حرکت کی قوت ہے ، جمادات اور نباتات دراصل اس تیسری مخلوق کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، پتھر جہاں نصب کر دیے جائیں ، نصب رہتے ہیں ، لوہے کو آپ جس سانچے میں چاہیں ڈھال لیں ، لکڑی کو آپ جس مقصد کے لیے چاہیں استعمال کریں ، درخت آپ جہاں چاہیں لگا دیں ، انہیں کوئی انکار نہیں اور نہ ان کی طرف سے کوئی احتجاج سامنے آئے گا، گویا یہ جان دار مخلوقات کے لیے قدرت ہی کی طرف سے خادم اور اپنی اعلیٰ تر مخلوق کے غلام ہیں ، اس غلامی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
لیکن جو جان دار مخلوقات ہیں، ان کا معاملہ ان سے مختلف ہے، شیر اور ہاتھی سے لے کر چیونٹی اورمکھی تک اگر آپ کسی کو بھی اپنی قید میں لانا چاہیں تو وہ ضرور احتجاج کریں گے، انکار کا رویہ اختیار کریں گے،اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق وار کرنے یا راہ فرار اختیار کرنے سے نہیں چوکیں گے اور کسی طور آپ کی گرفت میں آنا پسند نہیں کریں گے، گویا فطری طور پر ان کو غلامی سے انکار ہے اور یہ آزادی کے طلب گار ہیں، جان دار مخلوقات میں سب سے عظیم ترین مخلوق انسان ہیں ، ان کو اللہ تعالی نے عقل و شعور اور فہم وادراک کی ایسی صلاحیت ودیعت کی ہے کہ کسی اور جان دار مخلوق کو شاید اس کا سوواں حصہ بھی حاصل نہ ہو،اس لیے انسان میں آزاد رہنے کا جذبہ زیادہ ہے اور اس کی فطرت غلامی سے اَباء کرتی ہے، انسان کے نو مولود شیر خوار بچہ کو بھی اس کے مزاج اور طبیعت کے خلاف کوئی بات پیش آجائے ، تو اس کی طرف سے ضرور ہی احتجاج اور ردعمل کا اظہار ہوتا ہے، وہ روتا ہے اور بے تحاشہ آنسو بہا کر اپنی ناگواری کا اظہار کرتا ہے ، یہ اسی صدائے آزادی کی بازگشت ہے، جو انسانی فطرت میں رکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے انسان پتھر اور لکڑی کی طرح ہر عمل پر خاموش اور رد عمل سے عاری نہیں رہ سکتا اور مزاج و مذاق کے خلاف پیش آنے والی بات پر ناگواری کے اظہار کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے اور یہ اس کے بے چین دل کے لیے کسی قدر سکون و طمانیت کا باعث بنتا ہے۔
اسلام دین ِ فطرت ہے اور وہ سلیم فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنے آیا ہے، نہ کہ اس کو دبانے اور اس کا گلا گھونٹنے ، اسلام کا پورا نظام حیات اسی بنیادی تصور پر مبنی ہے، اس میں کہیں قانون فطرت سے تصادم اور ٹکراؤ نہیں ، اس نے انسان کے آزاد رہنے کے اس فطری حق کو تسلیم کیا ہے، اس کی بہترین ترجمانی ان کلمات سے ہوتی ہے جو عالم اسلام کے سفیر صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم نے رستم ایران کے دربار میں کہے تھے اور ان پر اپنا مقصد و منشا واضح کیا تھا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو انسان کی بندگی اور غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کریں ۔” اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة اللہ․“(البدایة والنہایة7/39)
انسان کے اس فطری حق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عمر نے اپنے ایک گورنر کو فر مایا کہ ان کو ان کی ماؤں نے تو آزاد جنا تھا، تم نے ان کو کب سے غلام بنالیا ہے؟ یہ آزادی کے اسی فطری حق کا اعلان و اظہار ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ایک حصہ ہے، اس لیے آزادی ایک انسانی اور اسلامی حق ہے۔
آزادی کے تصور کو طاقت پہنچانے کی غرض سے اسلام نے سب سے پہلے انسانی مساوات کا تصور دیا کہ تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں، محض رنگ و نسل ، خاندان و نسب اور علاقہ و وطن کی بنیاد پر ان میں ایک دوسرے سے بڑا نہیں، بہتری اور کہتری انسان کے عمل اور کردار سے متعلق ہے:﴿إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ﴾․ (الحجرات:13)
یہ وہ بنیادی تصور ہے جس کے بعد ایک انسان کا پیدائشی طور پر حکم راں اور دوسروں کا محکوم ہونا غلط قرار پاتا ہے، اسلام سے پہلے قریب قریب پوری دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں ، روم، ایران ، حبش ، یمن ، ہندوستان ، غرض اس وقت کی معلوم دنیا میں ہر جگہ شاہانہ طرز حکومت مروج تھا اور مخصوص خاندانوں کو حکومت کا اہل سمجھا جاتا تھا ، اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ اس آمرانہ طرز حکومت کو مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا ، ایران میں لوگ شاہی خاندان کو خدا کا کنبہ تصور کرتے تھے، مغرب میں رفتہ رفتہ کلیسا نے انسان کو اپنا مکمل غلام بنا لیا تھا ، وہ نہ صرف اپنے آپ کو لوگوں کی آخرت کا ٹھیکے دار تصور کرتے تھے۔بلکہ دنیا میں بھی اپنے فیصلہ کو خدائی فیصلہ باور کرتے تھے اور یہی عقیدہ لوگوں کے ذہن میں راسخ کر دیا گیا تھا ، ایک طرف وہ مغفرت نامے تقسیم کرتے اور لوگوں کے لیے جنت کی رجسٹری کرتے اور دوسری طرف مملکت کے نظام کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھ کر، نہایت جابرانہ طرز عمل اختیار کرتے اور جو ان کی رائے سے سرِمُو انحراف کرتا ان کو لرزا دینے والے عقوبت خانوں میں تختہ مشق بنایا جاتا اور زندہ جلا دینے کی سزا دی جاتی بالآخر 1789ء کے انقلاب فرانس پر یہ ظالمانہ کلیسائی نظام یورپ سے ختم ہوا، گویا ایک آمریت تھی جو مذہب اور خدا کے نام پر روا رکھی گئی تھی ، اس لیے یورپ میں جو انقلابی تحریکیں اٹھیں ان کا خمیر مذہب کی مخالفت اور عناد سے تیار ہوا۔
اسلام نے اس طرح کی خاندانی بادشاہت کو سند جواز عطا نہیں کیا اور ایک ایسے آزاد طرز حکومت کا تصور پیش کیا ، جس میں رنگ ونسل کے بجائے صلاحیت اور کردار کی بنیاد پر فرمانرواں کا انتخاب عمل میں آئے ، اور پھر یہ بھی بتا دیا کہ حکم راں کوئی مافوق العادت حیثیت کا حامل نہیں ہوتا ، بلکہ وہ بھی عام لوگوں ہی میں کا ایک شخص ہوتا ہے، اس کے فیصلے غلط بھی ہو سکتے ہیں، اس کی ذات تنقید سے بالا تر نہیں ہوتی اور عوام کو ان کے احتساب کا پورا حق حاصل ہوتا ہے، یہ بات کہ حق حکم رانی ”اتفاق“سے متعلق نہیں کہ کوئی شخص کسی خاندان میں پیدا ہو جائے تو وہ حکم رانی کا حق دار ہے، بلکہ یہ حق انسان کے کردار اور اکتساب سے متعلق ہے، یہ ایک انقلابی فکر ہے ،جس سے آزادی کا تصور ابھرتا ہے اور غلامی کی نفی ہوتی ہے۔
پھر اسلام نے تفصیل کے ساتھ مختلف شعبہائے زندگی سے متعلق انسان کے بنیادی حقوق کو متعین کیا ، قرآن نے کہا کہ ہر شخص کو جینے کا حق ہے اور کسی بھی نفس انسانی کو زندہ قتل کر دیا جائے تو اس کے وارث کو قاتل سے بدلہ لینے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ (الاسراء :33)گویا انسان اپنی زندگی کے لیے کسی کے رحم و کرم کا محتاج نہیں ، ہر شخص کو اپنے مال پر ملکیت کا حق ہے، دوسروں کو حق نہیں کہ وہ ناروا طریقہ پر، اس کی رضا مندی کے بغیر، اس کے مال پر قابض ہو جائے ۔ (نساء:29) پھر کسب معاش کے لیے ہر شخص آزاد ہے کہ وہ جس پیشہ کو چاہے اختیار کرے ، اس کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اس کے خاندان میں پہلے سے کوئی ایسا پیشہ آ رہا ہو جسے لوگ کمتر سمجھتے ہوں، تو وہ وہی پیشہ اختیار کرے۔ ہاں، اگر کوئی شخص کسی کام کا اہل نہیں ، جیسے اس نے میڈیکل تعلیم حاصل نہ کی ہو اور لوگوں کا علاج کرنے لگے تو عام لوگوں کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اسے اس سے روکا جاسکتا ہے، خود حدیث نبوی میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔
عزت و آبرو کا تحفظ ایک بنیادی حق ہے اور کسی قوم کے لیے گنجائش نہیں کہ وہ دوسری قوم کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرے: ﴿لاَیَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ﴾ (الحجرات:11)
۔ عدل و انصاف ہر شخص کا حق ہے، اسلام نے اس کا شفاف اور مساوات پر مبنی نظام دیا ہے اور انصاف کے معیارات بھی یکساں رکھے ہیں ، اس میں حکم ران و محکوم اور سماج کے باو جاہت اور معمولی لوگوں کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا، یہاں تک کہ اگر مسلمانوں کی کسی قوم سے عداوت ہو تب بھی حکم دیا گیا کہ پیمانہ انصاف میں کوئی فرق نہ ہونے پائے:﴿وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَیٰ أَلَّا تَعْدِلُوا﴾
ہر شخص کو رائے اورضمیر کی آزادی عطا کی گئی اور وہ جس چیز کو غلط سمجھے اس کے اظہار کی اجازت دی گئی ، جسے قرآن کی زبان میں نہی عن المنکر کہا جاتا ہے ( آل عمران:10)۔ ملک کے ہر شہری کو احتجاج اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق دیا گیا ہے:﴿لَّا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوء ِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ﴾․(نساء:148)
اسلام ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر و اعتقاد کے مطابق خود زندگی گزارے﴿لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ﴾․(البقرة:256)
سزا کے نظام میں بھی مساوات و برابری اور ہر بالغ و مکلف کے لیے یکساں سزا رکھی گئی ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قریش کی ایک معزز خاتون کا ہاتھ چوری کے جرم میں کٹوایا اور اس سلسلہ میں اپنے قریب ترین لوگوں کی سفارش کو رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی اس کی مرتکب ہوتی تو اسے بھی یہی سزا دی گئی ہوتی اسلام نے ایک ایسے نظام مملکت کا تصور دیا جو شورائیت پر مبنی ہو:﴿وَأَمْرُہُمْ شُورَیٰ بَیْنَہُمْ﴾ (الشوری:38 )
غرض اسلام ایک ایسے سیاسی نظام کا نقیب وتر جمان ہے جو غلامی کے بجائے آزادی پر مبنی ہو، جو انسانی تفریق کے بجائے مساوات پر قائم ہو، جس میں رنگ ونسل کے بجائے اخلاق وکردار کو تولا جاتا ہو، جس میں انصاف کا ایک ہی پیما نہ ہو، جس میں اصحاب اقتدار کے احتساب کی اس قدر گنجائش ہو، جتنی ایک ادنی رعایا کی اور جو انسانی کرامت و شرافت کے بنیادی تصور پر استوار ہو۔
ہاں! یہ ضرور ہے کہ آزادی کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ضروری ہیں، سڑک پر ہر شخص کو چلنے کا حق ہے، لیکن اگر لوگ یہ سمجھیں کہ یہ آزادی ان کو ٹریفک کے قواعد سے بھی آزاد کرتی ہے تو یقینا یہ آزادی پروانہ ہلاکت بن جائے گی ، اس لیے آزادی کے بھی دائرے ہیں اور یہ دائرہ اخلاقی اقدار کا ہے، آزادی ایسی نہ ہو کہ جس سے اخلاق کے بندھن ٹوٹ جائیں، جو شرم وحیا کے الفاظ کو انسانی ڈکشنری سے مٹا کر رکھ دے، جو انسان کو ظلم و استبداد کے لیے آزاد کر دے، جو فطرت انسانی کی تسلیم شدہ حقیقتوں پر بھی خط نسخ پھیر دے، یہ آزادی رحمت نہیں، بلکہ زحمت ہے اور سامان عافیت نہیں، بلکہ ابتلا و مصیبت ہے، افسوس کہ مغرب میں کلیسائی نظام کے خلاف جو بغاوت ہوئی ، اس نے مذہب بے زاری کی ایسی برقی رو، دوڑ ادی کہ جس نے فکر و نظر کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے اور لوگوں نے سمجھا کہ آزادی یہ ہے کہ انسان مادر و پدر سے آزاد ہو جائے ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمہ اخلاقی قدروں کو بھی غلامی کی علامت سمجھ لیا گیا، مخرب اخلاق اسباب کو بھی آزادی کا پروانہ دے دیا گیا اور انسان کے لیے یہ بات مشکل ہو گئی کہ وہ اپنے پیکر آزادی پر اخلاق وشرافت کی قید و بند کا کوئی تار لباس باقی رہنے دے۔
اسلام ایسی بے قید آزادی کا قائل نہیں ، اسی لیے اس نے انتظام و تدبیر انسان کے ہاتھ میں رکھا اور قانون کی لگام خدا کے ہاتھ میں دی:﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ﴾
کیوں کہ انسان کے خالق سے بڑھ کر انسان کی آزادی کے حدود اور اس کی بھلائی کے لیے مطلوب پابندیوں اور قیود کو کوئی اور ذات نہیں سمجھ سکتی، یہ آزادی کا ایک متوازن ، معتدل تصور ہے، جس میں نہ صرف آخرت کی فلاح ہے، بلکہ دنیا کی بھی بھلائی ہے کہ خدا کی غلامی ہی اصل میں انسان کی آزادی ہے، جو شخص خدا کا غلام بننے کو تیار نہ ہو تو اسے ضرور مخلوق کا غلام بننا پڑے گا ، اگر وہ دوسروں کا غلام نہ بنے ، تو کم سے کم خود اپنے نفس کی غلامی اسے قبول کرنی ہوگی ، اسی کو مرد حق آگاہ شاعر اسلام علامہ اقبال نے کہا ہے کہ #
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات