صدر المبلغین ، مناظر اسلام، مجاہد تحفظ ختم نبوت، حضرت مولانا سید مرتضی حسن صاحب چاند پوری رحمة اللہ علیہ علماءِ حقہ کے اس قافلہ سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے دین متین کے تحفظ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتے ہیں اور تمام زندگی خدمت اسلام اور خدمت مسلمین میں گزار دیتے ہیں ۔
آپ1285ء کو قصبہ چاند پورضلع بجنور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حکیم سید بنیاد علی صاحب ضلع بجنور کے مشہور اور حاذق طبیب تھے۔ آپ کے اجداد میں عارف باللہ شیخ طریقت اور صاحب کرامات بزرگ حضرت سید عارف علی شاہ صاحب تھے، جن کا سلسلہ نسب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ سے جاملتا ہے۔ آپ درس نظامی کی تکمیل کے لیے1297 ھ میں مرکز علوم اسلامیہ دارالعلوم دیو بند میں داخل ہوئے اور بڑی امتیازی شان سے سند فراغت تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے جلیل القدر اور ممتاز اساتذہ میں استاذ الاساتذہ حضرت مولا نا محمد یعقوب صاحب نانوتوی، شیخ الہند حضرت مولا نا محمودحسن دیو بندی، حضرت مولانا ذوالفقار علی دیو بندی اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی وغیرہ شامل ہیں، جن کی خدمت میں ایک عرصہ تک رہ کر دورہ حدیث پڑھا اور فیض صحبت حاصل کیا ۔ چوں کہ آپ کو فن معقولات سے خاص دل چسپی تھی، اس لیے اس فن میں تحصیل کمال کی غرض سے معقولات کے نامور اور ماہر استاذ مولانا احمد حسن صاحب کی خدمت میں کان پور حاضر ہوئے اور معقولات کی اعلیٰ کتب پڑھ کر اس فن میں کمال و مہارت تامہ حاصل کی۔ تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن چاند پور واپس آگئے اور اپنے والد کے مطب میں مشغول ہو کر تشخیص امراض و تجویز نسخہ جات وفن دوا سازی میں درجہ کمال حاصل کیا اور ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر و حاذق طبیب بھی بن گئے ۔ اسی زمانہ میں مولانا منور علی صاحب خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی نے دربھنگہ کے قریب مدرسہ امداد یہ قائم کیا اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سے ایک اعلیٰ و قابل مدرس کی فرمائش کی، تب حکیم الامت حضرت تھانوی کی فرمائش پر آپ طبی شغل چھوڑ کر دربھنگہ تشریف لے گئے اور وہاں علمی درس میں مشغول ہو گئے اور ایک زمانہ تک وہیں صدر مدرس رہے۔ پھر کچھ عرصہ مدرسہ امداد یہ مراد آباد میں رہے، اس دوران میں آپ نے آریہ سماج کے ردمیں متعدد رسائل تحریر فرمائے اور بابورام چندر سے مشہور تاریخی مناظرہ کیا ۔1920ء میں حضرت شیخ الہند نے مالٹا سے واپسی پر پھر دارالعلوم دیوبند واپس آنے کا حکم دیا اور مولانا حافظ محمد احمد صاحب قاسمی اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے غیر معمولی اصرار فرمایا، چناں چہ آپ رحمہ الله دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں آپ کو ناظم تعلیمات مقرر فرما دیا گیا۔ ساتھ ہی سلسلہ تدریس بھی جاری رہا۔ اس دور میں آپ رحمہ الله نے قادیانیت کے رد میں بکثرت رسائل تحریر فرمائے، جو خصوصیت کے ساتھ پنجاب وصوبہ سرحد میں بہت مقبول اور پسندیدہ ہوئے، چوں کہ عوارضات ضعف پیری عیاں ہو چکے تھے، اس لیے تقریباً نصف صدی سے زائد اپنے وطن چاند پور سے باہر رہ کر واپس یہاں صرف ذکر و عبادت اوراوراد میں تاحیات مصروف رہے، آپ کے علمی شغف کا یہ حال تھا کہ آپ کی تمام عمر کا ذخیرہ تقریبا آٹھ دس ہزار کتب منتخبہ کی صورت میں موجود ہے۔
تحریک ختم نبوت اور تحریک پاکستان میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اور پورے بر صغیر کا دورہ فرماتے رہے ،تحریک پاکستان میں اپنے رفقا شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ،مفتی اعظم مولانامحمدشفیع دیوبندی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مفتی عبدالکریم گمتھلوی اور مولانا شبیر علی تھانوی رحمة اللہ علیہم کے شانہ بشانہ کام کیا اور قائد اعظم اور دوسرے مسلم لیگی زعماء کو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے نقطہ نظر سے آگاہ فرماتے رہے۔ قادیانیت کے خلاف ملک کے کونے کونے کا دورہ کیا اور مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور مولانا سید بدر عالم میرٹھی کے ہم راہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں مرزائیت کے خلاف تقریریں اور مناظرے کرتے رہے۔
بہر حال آپ حضرت حکیم الامت کی طرح اس دور کے مشہور ومعروف مقرر، واعظ اور مناظر تھے، ملک کے اطراف و اکناف کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ ہو گا جو آپ کے مواعظ حسنہ سے مستفید نہ ہوا ہو ۔ آپ کو فن تقریر میں ملکہ تامہ حاصل تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وعظ سے قبل دل میں کوئی مضمون نہیں ہوتا، خطبہ پڑھنے کے بعد جو بھی مضمون اس وقت ذہن میں آتا ہے اس پر بعو نہ تعالیٰ تقریر شروع کر دیتا ہوں۔ آپ کی تقریر پند و نصائح کے ساتھ لطائف علمیہ و نکات حکمیہ، معرفت عبادات، قصص و حکایات سے پُر ہوتی تھی۔ آپ کو فن مناظرہ میں ید طولی حاصل تھا۔ ابتدا میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی تردید میں بکثرت رسائل تصنیف فرمائے ۔ آپ کے زمانہ قیام مراد آباد میں آریہ سماج مراد آباد کی جانب سے بنام اہل مراد آباد متعدد سوالات شائع کئے گئے تھے۔ مولانا نے ان کے بے مثال جوابی رسائل تحریر فرمائے ۔ اس زمانے میں آریہ سماج کے مشہور و معروف مقرر پنڈت رام چندر سے امروہہ میں مناظرہ ہوا اور پنڈت کو لاجواب ہو کر دہلی واپس جانا پڑا۔ فراغت علوم کے بعد جب آپ اپنے والد کے پاس طبی مشغلہ میں مصروف تھے، اس زمانہ میں حکیم بنیاد علی اپنے دونوں صاحب زادوں کے ہمراہ حج پر روانہ ہو گئے، اس وقت حضرت حاجی امداد اللہ مکی بقید حیات تھے، حکیم صاحب کو حضرت حاجی صاحب سے بے حد عقیدت تھی اور حضرت کو بھی حکیم صاحب سے خصوصی تعلق تھا۔حکیم صاحب نے مع مولانا چاند پوری حج کی سعادت حاصل کی اور ساتھ ہی حضرت حاجی صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے ،بعد فراغت حجحکیم صاحب کامدینہ منورہ میں ہی انتقال ہو گیا۔ صاحب زادگان کو حکیم صاحب کی جدائی کا بے حد صدمہ ہوا۔ حضرت حاجی صاحب نے دونوں صاحب زادوں کی سرپرستی فرمائی اور ان کو تسلی و تشفی دیتے رہے۔ دوسری مرتبہ جب مولانا چاند پوری حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو وہاں سے کتب علمیہ کا کافی ذخیرہ خرید کر لائے تھے۔ تیسری مرتبہ آپ نے حاجی صاحب کے علاوہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی کی رفاقت میں حج کیا ۔ اس سفر میں صرف مخصوص رفقاء شامل تھے، جب فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد سب لوگ مدینہ منورہ پہنچے تو کچھ عرصہ قیام کے بعد مولانا چاند پوری اور دیگر رفقاء کو حضرت شیخ الہند نے واپسی وطن کا حکم دیا، چناں چہ آپ ہندوستان تشریف لائے ۔
آپ تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب، خلیفہ حضرت شاہ عبد الغنی دہلوی سے بیعت ہوئے اور حضرت شاہ صاحب کی صحبت میں رہ کر تعلیم و تربیت سے مستفیض ہوئے اور زمانہ قیام مکہ معظمہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کی خدمت میں رہ کر استفادہ فرمایا ۔ حضرت شاہ رفیع الدین کے انتقال کے بعد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ سے بیعت کی اور مکرر حدیث پڑھی اور تعلیم و تربیت و ارشاد سے ایک عرصہ تک مستفیض ہوتے رہے ۔ زمانہ قیام کا ن پوراکثر حضرت مولا نا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کی خدمت میں برابر حاضر ہوتے رہے۔ حضرت گنگوہی کے انتقال کے بعد آپ نے حضرت شیخ الہند کی طرف رجوع کیا، پھر حضرت شاہ عبد الرحیم را ئپوری کی سر پرستی میں زندگی بسر کرنے لگے، ان کے انتقال کے بعد حضرت مولانا محمد علی مونگیری کو سر پرست و مربی بنایا۔ حضرت مونگیری کے انتقال کے بعد آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ سب ہی بزرگ اور سر پرست اللہ کو پیارے ہو گئے، بڑا بد نصیب ہے وہ شخص جس کا کوئی سر پرست یا بزرگ نہیں، بھائی! میں نے تو اب اپنا بزرگ و سر پرست حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی کو بنا لیا ہے، اللہ تعالیٰ مولانا تھانوی کے فیوض جاریہ سے مجھ کو بھی مستفید فرمائے ۔ باوجود یکہ مولانا تھانوی آپ کے ہمعصر تھے اور دونوں حضرات نے ایک ہی اساتذہ سے استفادہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود حضرت تھانوی سے آپ کو تعلق و عقیدت ایسی ہی تھی جیسے اکابر اسلاف سے تھی اور حضرت تھانوی کو بھی نسبت بیعت سے قبل آپ سے خصوصیت رہی۔ چناں چہ جب کبھی آپ تھا نہ بھون تشریف لے گئے حضرت تھانوی نے آپ کو اپنا مہربان اور خصوصی مہمان بنایا اور بعد ظہر مجلس ارشاد میں کسی کو بولنے کی جرأت نہ تھی، صرف مولانا چاند پوری اس سے مستثنیٰ رہے اور آپ اکثر علمی سوالات کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ زمانہ قیام تھانہ بھون میں آپ کے صاحب زادوں اور قریبی عزیزوں کو مولانا تھانوی نے مدعو کیا۔ مولا نا چاند پوری نے حضرت تھانوی قدس سرہ سے درخواست کی کہ آپ ان چاروں کو بیعت فرمالیں ۔ حضرت تھانوی نے درخواست منظور فرماتے ہوئے کہا ۔ آپ کے ساتھ یہ خصوصیت ہے اور اسی خصوصیت کی بنا پر اور آپ کے صرف ایک مرتبہ کہنے پر ان چاروں لڑکوں کو بیعت کرتا ہوں۔
الغرض ساری زندگی خدمت اسلام میں مصروف رہے۔ دسمبر1951ء کو عشاء کے وضو کے بعد سردی معلوم ہوئی اور نماز کے بعد حرارت بھی ہو گئی، اس حالت میں زبان متحرک اور مصروف ذکر رہی۔ ایک ہفتہ تک یہی حالت رہی، آخر کار21/دسمبر1951ء کو بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ انا لله وانا الیہ راجعون․
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے