ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
یہود نے اپنے آخری نبی حضرت عیسی علیہ السلا م کو ہی ماننے سے انکار کر دیا تھا ،بلکہ آپ کے دعویٰ نبوت کو جھوٹا قرار دے کر شریعت موسوی کا مرتد قرار دیا، آپ کو جان سے مارنا ان کا سب سے اہم ہدف بن گیا۔ کیوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے شکم پرست علما او رمشائخ کو او رمادہ پرست یہودی عوام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے والی یہ قوم اپنے مصلح کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے درپے آزار ہو گئی، رومی گورنر کو اعتماد میں لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کے گرفتار کرنے اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی کرکے سزا دینے کا پروانہ حاصل کر لیا، جب یہودیوں نے آپ کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا اور صلیب پر چڑھانا چاہا اس وقت الله تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ایک یہودی پر ڈال دی گئی، یہودیوں نے اسے مسیح سمجھ کر مقدمہ چلایا اور صلیب کا فیصلہ کرکے اسی وقت صلیب پر چڑھا دیا، ہر چند اس نے واویلا کیا، شوروغل مچایا، مگر یہود پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اسے ما رکر ہی چھوڑا، شریعت موسوی میں صلیب کی موت کو لعنتی موت کہا جاتا ہے اور پاک باز انسان اس لعنتی موت سے دو چار نہیں ہوتا، اس لیے یہود نے اپنے اس دعوی کو سچائی کے لیے کہ” حضرت عیسی علیہ السلام الله کے نبی نہیں تھے“۔لوگوں میں اعلان کیا کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہوتے تو ان کو لعنتی موت نہ آتی۔ قرآن کریم نے یہود کے دعوے کی تردید کی اور واضح کیا کہ انہوں نے نہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کیا ہے، نہ صلیب پر چڑھایا ہے، ہاں! حقیقت حال ان پر مشتبہ کر دی گئی ہے، ایک دوسرے شخص کو صلیب پر چڑھا کر اسے مسیح سمجھ بیٹھے ہیں ﴿وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَٰکِن شُبِّہَ لَہُمْ﴾
․
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا مسیحی نظریہ
یہودی پروپیگنڈے سے متاثر ہو مسیحی قوم نے بھی یہی عقیدہ اختیار کر لیا کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو صلیب پر موت دے دی گئی تھی، چوں کہ شریعت موسویہ میں صلیبی موت لعنتی موت کہلاتی ہے، جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقدس پر حرف لازم آتا تھا، اس مشکل سے نکلنے کے لیے مسیحی علما نے عقیدہ کفارہ ایجاد کیا۔ عقیدہ کفارہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جو غلطی جنت میں شجرہ ممنوعہ کھانے کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی وہ گناہ ان کی ساری اولاد میں منتقل ہوا ،اب یہ اولاد دوبارہ جنت میں اس وقت تک نہیں جاسکتی جب تک اس کا کفارہ ادا نہ کیا جائے اور وہ کفارہ حضرت عیسٰی مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دے کر ادا کر دیا ہے۔ ان کی آمد ہی اسی کفارہ اور نجات کے لیے تھی، اس لیے یہ موت لعنتی نہیں ہے، بلکہ مبارک موت ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کو نجات ملی۔ تمام مسیحی فرقوں نے اس عقیدے کو اپنے مذہب کا بنیادی عقیدہ بنا کرمشہور کر رکھا ہے اور حضرت مسیح کے مصلوب ہونے پر فخر کرتے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے مصلوبیت کو ثابت کرتے ہیں۔
مسیحی حضرات کی طرف سے آیت قرآنیہ کی تاویل
مسیحی علما کہتے ہیں چوں کہ ظہور مسیح کے زمانے میں یہودی با اختیار نہیں تھے، بلکہ رومی اقتدار کے ماتحت زندگی بسر کر رہے تھے، اس لیے یہود کی شکایت اور احتجاج پر رومی حکومت کے عہدے داروں نے آپ کو گرفتار کرکے مقدمہ چلایا اور صلیب پر چڑھا دیا، قرآن کریم یہود کے دعوی قتل وصلیب کی تردید کرتا ہے، نفس صلیب کی تردید نہیں کرتا: ﴿وماصلبوہ﴾میں ضمیر مستتر یہود کی طرف لوٹ رہی ہے۔ یہودی فخر سے دعویٰ کرتے تھے کہ ہم نے صلیب پر چڑھایا۔ قران اس کے جواب میں کہتا ہے تم نے صلیب پر نہیں چڑھایا۔ تمہارے مجرمانہ ہاتھوں سے حضرت مسیح محفوظ رہے، ہاں! رومیوں نے صلیب پر چڑھایا۔
اس کا جواب یہ ہے قرانی آیت میں رومیوں کا سیاق وسباق میں کوئی تذکرہ نہیں ہے اور ضمیر کا خیالی مرجع بنانے سے مفہوم تبدیل نہیں ہوسکتا، اگر رومیوں نے یہ فعل کیا تھا تو ان کے لیے حقیقت حال کو مشتبہ کیوں کیا گیا؟
…… بالفرض تھوڑی دیر کے لیے تصور کر لیا جائے کہ رومیوں نے صلیب دی تھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کے کہنے پر؟ کس کی شکایت پر؟ کس کے احتجاج پر صلیب دی تھی؟ سب کا اتفاق ہے یہودیوں نے آپ کی مخالفت کی تھی ، آپ کو سزا دلوانے میں وہی سر گرم تھے…… اس لیے فعل کی نسبت یہود کی طرف ہوگی۔ مسیحی علما کی تفسیر کسی بھی طرح عربی گرائمر، حدیث، تاریخ اور قرائن کی رو سے درست نہیں ہے۔
مصلوبیت مسیح کے دلائل کا تجزیہ
مسیحی علما نے حضرت عیسی مسیح کی مصلوبیت پر ایسی انا جیل کی عبارتوں کا سہارا لیا جو حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے کئی دہائیوں بعد لکھی گئیں اور ان لکھنے والوں میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جس نے حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی زیارت کی ہو۔ اور وہ اناجیل بھی تحریف وتبدیل کے کئی مقام سے گزر چکی ہیں۔
اس کے باوجود مسیحی علماء کی طرف سے حضرت عیسٰی مسیح علیہ السلام کی مصلوبیت پر جان دینے کی جتنی عبارتیں پیش کی جاتی ہیں وہ اہل اسلام کے موقف کے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ قرآن کریم تو صاف صاف کہتاہے﴿وَلَٰکِن شُبِّہَ لَہُمْ﴾
حضرت مسیح کے معاملے کو مشتبہ کر دیا گیا، یعنی ان کی شبیہ مخبر ( یہوداہ اسکریوتی) پر ڈال گئی تھی، اسے یہودیوں نے مسیح جان کر صلیب پر چڑھا دیا، مسیحی علماء نے یہود کی باتوں پراعتماد کرکے اسے اپنا عقیدہ بنا لیا او راپنی اناجیل میں بھی درج کر دیا۔
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ میں تمہاری نجات کے لیے آیا ہوں اور صلیب پر جان دے کر تمہارے گناہ کا کفارہ ادا کروں گا۔ اگر یہ مسیحی مذہب کا بنیادی عقیدہ ہوتا تو اسے انا جیل میں واضح الفاظ اور جزئیات کے ساتھ درج ہونا چاہیے تھا، بلکہ مختلف مواقع پر نجات کے متعلق سوال آپ سے کیے گئے، مگر آپ نے نجات کی صورت کفارے والی بیان نہیں کی، مثلاً متّی میں لکھا ہے۔
” ایک شخص نے پاس آکر اس سے ( مسیح سے ) کہا: اے استاذ! میں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟ اس نے اس سے کہا: تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں پوچھتا ہے؟ نیک تو ایک ہی ہے لیکن اگرتو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر۔ اس نے اس سے کہا کون سے حکموں پر؟ یسوع نے کہا یہ کہ خون نہ کر، زنا نہ کر، چوری نہ کر، جھوٹی گواہی نہ دے، اپنے باپ کی او رماں کی عزت کر اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔ (انجیل متّی:19/19-16) اور لوقانے اپنی انجیل میں یہ واقعہ لکھا ہے:
” ایک عالم شرع اٹھا اور یہ کہہ کر اس کی ( مسیح کی) آزمائش کرنے لگا کہ استاذ میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ اس نے اس سے کہا کہ توریت میں کیا لکھا ہے ؟ تو کس طرح پڑھتاہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان او راپنی ساری طاقت اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ، اس نے کہا تونے ٹھیک جواب دیا۔ یہی کر، تو تُوجئے گا۔(انجیل لوقا:10/27-25)
دیکھیے! حضرت مسیح علیہ السلام سے نجات کا پوچھا جارہا ہے اور جواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو عقیدہ کفارہ اور طریقہ نجات کا مکمل صلیبی طریقہ بتانا چاہیے تھا اور واضح کرنا چاہیے تمہار ی نجات کے لیے میں کفارہ دے دوں گا ،مگر انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، بلکہ نجات کے لیے نیک اعما ل اپنانے کا حکم دیا۔
مسیحی علما عقیدہ نجات اور کفارہ کو بہت مبہم جملوں سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جیسے متی نے اپنے انجیل میں فرشتہ کے یہ الفاظ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق نقل کیے ہیں۔
”اس کے ( مریم کے ) بیٹا ہو گا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا، کیوں کہ وہی اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے نجات دے گا“۔ (متی:1/21)
لوقا کی انجیل میں فرشتہ کی یہ بشارت نقل کی گئی ہے۔ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لیے ایک منجی (نجات دہندہ) پیدا ہوا ہے ،یعنی مسیح خداوند“۔ (لوقا:2/11-10)
انصاف سے بتائیں اس طرح کے جملوں سے عقیدہ نجات ثابت ہوتا ہے ؟جسے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی مصلوبیت کو جواز بخشنے کے لیے گھڑا گیا ہے، بلکہ نجات دہندہ کی اصطلاح حضرت مسیح علیہ السلام کے علاوہ دیگر انبیاء کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے ،کیا وہ بھی صلیب پر کفارہ دینے کے پابند تھے؟
انجیل لوقا میں ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے بیٹے یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:”خداوند اسرائیل کے خدا کی حمد ہو، کیوں کہ اس نے اپنی امت پر توجہ کرکے اس کو چھٹکارا دیا او راپنے خادم داؤد کے گھرانے میں ہمارے لیے نجات کا سینگ نکالا“۔ ( انجیل لوقا:1/69-68)
اس عبارت میں حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نجات کا سینگ قراردیا، لیکن یہاں کوئی مسیحی عالم نجات دہندہ سے عقیدہ کفارہ کا استدلال نہیں کرتا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے مصلوب نہ ہونے کے دلائل
اہل اسلام کا موقف ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام الله تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے اور خرق عادت کے طور پر حضرت مریم علیہا السلام کے بطن مبارک سے، بغیر جنسی مواصلت کے محض قدرت الہٰی سے پیدا ہوئے، یہود نے ان کی تکذیب کی، آمادہ قتل ہوئے، الله تعالیٰ نے ان کو موت دیے بغیر جسم وروح کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے، قرب قیامت میں نزول فرما کر اہل اسلام کی مدد کریں گے اور طبعی موت پاکر روضہ رسول میں مدفون ہوں گے۔
یہود ونصاریٰ کا دعوی مصلوبیت ِمسیح جھوٹ پر مبنی ہے، یہود کا یہ اصرار تو بجاہے، کیوں کہ اس دعوی میں ان کو اپنے دشمن کے خلاف نفسیاتی برتری کا احساس ہوتا ہے۔ اور مسیحیوں نے مصلوبیت مسیح کو عقیدہ کفارہ کے لبادے میں مقدس بنا کر دل کی تسلی کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ قرآن کریم نے ان کے سارے بھونڈے نقاب اتار دیے ہیں۔
مسیحی علما کے ساتھ جہاں کہیں حضرت مسیح کی مصلوبیت کی بحث چھڑتی ہے مسیحی علماء قرآن کریم کی یہ آیت: ﴿فَإِن کُنتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ فَاسْأَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَؤُونَ الْکِتٰبَ مِن قَبْلِک﴾(سورہ یونس، آیت:94)
پڑھ کر فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے اختلافات او رمقام شک میں اطمینان کرنے کے لیے سابقہ آسمانی کتابوں کو پڑھنے کا حکم دیا ہے لہٰذا انجیل کو پڑھ کر فیصلہ کیا جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام کی مصلوبیت آشکار ہو جائے گی۔
مسیحی علما کی کج فہمی ہے یا ہٹ دھرمی، جس قرآنی آیت کا وہ حوالہ دیتے ہیں وہ سورت یونس میں بنی اسرائیل اور فرعون کے مابین پیش آنے والے واقعات کے سیاق سباق میں مذکور ہوئی ہے کہ یہ واقعات سابقہ کتابوں میں بھی موجود ہیں، اس سے تمام اختلافی موضوعات پر سابق کتابوں کو فیصل اورمعیار حق وباطل بنانا لازم نہیں آتا، کیوں کہ قرآن کریم ہی حق وباطل میں فیصل بننے کا حق رکھتا ہے، کیوں کہ تحریف وتبدیل سے محفوظ ہے اور الله تعالیٰ نے سورة آل عمران قرآن کو فرقان قرار دیا ہے:﴿وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ﴾․(آل عمران:4)
یعنی حق وباطل میں فرق کرنے والی کتاب اور قرآن کریم اعلان کرتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام قتل ہوئے نہ صلیب پر مارے گئے۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے حواریوں سے فرمایا تھا: ” میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے“۔( متی:26/31) چناں چہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیش گوئی پوری ہوئی، جب آپ کے ساتھی سورہے تھے، آپ کا محاصرہ ہوچکا تھا تو آپ کو اٹھا لیا گیا اور مخبر یہودا اسکریوتی پر حضرت مسیح علیہ السلام کی شبیہ ڈال دی گئی اور وہی گرفتار ہو کر صلیب پر چڑھا، جسے یہودی اور مسیحی حضرات مسیح سمجھتے رہے، پس جو پیشن گوئی ٹھوکر کھانے کے متعلق مسیح نے کی تھی قرآن نے اس کو ﴿ وَلَٰکِن شُبِّہَ لَہُمْ﴾
سے بیان فرمایا ہے۔
پطرس کہتا ہے جب مسیح کو گرفتار کرکے لے جایاگیا میں پیچھے پیچھے چلتا گیا، تاکہ مقدمہ کی کارروائی دیکھ سکوں کہ آگے کیا ہوگا؟ متی کی زبان سے خود سنیے:
”اور پطرس دور دور اس کے پیچھے پیچھے سردار کاہن کے دیوان خانہ تک گیا اور اندرجاکر پیادوں کے ساتھ نتیجہ دیکھنے کو بیٹھ گیا۔ (متی:26/58) (جاری)