نام، نسب
عثمان نام، ابو السائب کنیت ،والد کا نام مظعون اور والدہ کا نام سخیلہ بنت العنیس تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے:
عثمان بن مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح بن عمرو بن مصیص بن کعب بن لوی بن غالب القرشی جمحی(اسد الغابہ:3/385)
قبل اسلام
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، فطرةً سلیم الطبع، نیک نفس و پاک باز تھے، ایام جاہلیت میں عرب کا ہر بچہ مست خرابات تھا، لیکن ان کی زبان اس وقت بھی بادہٴ ارغوانی کے ذائقہ سے نا آشنا تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ ایسی چیز پینے سے کیا فائدہ جس سے انسان کی عقل میں فتور آ جائے، ذلیل و کم رتبہ آدمی اس کو مضحکہ بنائیں اور نشہ کی حالت میں ماں بہن کی تمیز بھی جاتی رہے؟! (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جز ثالث،ص:386)
اسلام
اس فطری پاک بازی کے باعث ان کا لوح دل بالکل صاف تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تبلیغ و تلقین نے بہت جلد توحید کا نقش ثبت کر دیا۔ ارباب سیر کا بیان ہے کہ اس وقت تک صرف تیرہ صحابہ رضی الله عنہم ایمان لائے تھے ۔(اسد الغابہ:3/385) ابن سعد کی ایک روایت ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبیدہ بن الحارث، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی الله عنہما آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ارقم بن ابی ارقم رضی الله عنہ کے مکان میں پناہ گزین ہونے سے پہلے ایک ساتھ مشرف باسلام ہوئے تھے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث:286)
ہجرت حبشہ و معاودت
5 نبوی میں بلاکشانِ اسلام کی ایک جماعت نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اجازت سے ملک حبش کی راہ لی، حضرت عثمان بن مظعون رضی الله عنہ اس بے خانماں گروہ کے امیر تھے ۔(سیرت ابن ہشام جلد1، باب الہجرة الی الحبشة) ایک عرصہ تک وہاں مقیم رہنے کے بعد اس غلط افواہ کی بنا پر کہ تمام قریش نے اسلام قبول کر لیا ۔ پھر واپس تشریف لائے، لیکن جب مکہ کے قریب پہنچ کر خبر بے بنیاد نکلی تو سخت پریشان ہوئے، کیوں کہ دوبارہ اتنی دور لوٹ جانا بھی دشوار تھا اور دوسری طرف مکہ میں داخل ہونے سے مشرکین کا خوف دامن گیر ہوتا تھا۔ غرض اس حیص بیص میں جہاں تک پہنچے تھے وہیں رک گئے اور جب ان کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے اپنے مشرک اعزہ و احباب کی پناہ میں پہنچ گئے تو وہ بھی ولید بن مغیرہ کی حمایت حاصل کر کے مکہ میں داخل ہوئے ۔(اسد الغابہ:3/385)
ولید بن مغیرہ کے اثر نے گو حضرت عثمان رضی الله عنہکو اذیتوں سے محفوظ کر دیا تھا، تاہم وہ خود رسول اللہصلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مبتلائے مصیبت دیکھ کر اس ذاتی راحت واطمینان کو گوارا نہ کر سکے اور ایک روز خود بخو داپنے نفس کو ان الفاظ میں ملامت فرمائی، افسوس!میرے احباب اور خاندان والے راہ خدا میں طرح طرح کے مصائب برداشت کر رہے ہیں اور میں ایک مشرک کی حمایت میں اس چین اور اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوں!خدا کی قسم! یہ میرے نفس کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ اس خیال نے بے تاب کر دیا، اسی وقت ولید بن مغیرہ کے پاس پہنچے اور فرمایا:اے ابو عبد شمس!تمہاری ذمہ داری پوری ہو چکی، اس وقت تک میں تمہاری پناہ میں تھا، لیکن اب خدا اور اس کے رسول کی حمایت میں رہنا پسند کرتا ہوں، میرے لیے رسول خدا صلی الله علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کا نمونہ بس ہے “۔ ولید نے کہا ”شاید تمہیں کسی نے اذیت پہنچائی! “ بولے ”نہیں، اصل یہ ہے کہ اب مجھے خدا کے سوا اور کسی کی حمایت درکار نہیں، تم ابھی میرے ساتھ خانہ کعبہ چلو اور جس طرح تم نے میری حمایت کا اعلان کیا تھا اسی طرح اس کو واپس لینے کا اعلان کر دو“ ۔غرض ولید نے اصرار سے مجبور ہو کر ان کی خواہش کو مجمع عام میں بیان کیا، حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اس کی تصدیق کی اور فرمایا:صاحبو! میں نے ولید کو نہایت ہی با وفا اور مہربان پایا؛ لیکن چوں کہ اب مجھے خدا کے سوا اور کسی کی حمایت پسند نہیں ہے، اس لیے میں خودہی اس بار احسان سے سبک دوش ہوتا ہوں ۔
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اس اعلان کے بعد لبید بن ربیعہ کے ساتھ قریش کی ایک مجلس میں تشریف لائے، لبید چوں کہ اس زمانہ کا مشہور شاعر تھا، اس لیے اس کے پہنچتے ہی شعر و شاعری شروع ہو گئی، اس نے جب اپنا قصیدہ سناتے ہوئے یہ مصرعہ پڑھا :”الا کل شیء ما خلا اللہ باطل“
یعنی خدا کے سوا تمام چیزیں باطل ہیں۔ تو حضرت عثمان رضیعنہ نے بے اختیار داد دی کہ:” تم نے سچ کہا“ لیکن جب اس نے دوسرا مصرعہ پڑھا۔
وکل نعیم لا محالة زائل
: ”یعنی تمام نعمتیں یقینازائل ہو جائیں گی“۔
تو بول اُٹھے کہ جھوٹ کہتے ہو ۔اس پر ایک دفعہ تمام مجمع نے ان کی طرف نگاہ غضب آلود ڈال کر لبید سے اس شعر کو مکرر پڑھنے کی فرمائش کی، اس نے اعادہ کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر پہلے مصرعہ کی تصدیق اور دوسرے کی تکذیب کر کے فرمایا:تم جھوٹ کہتے ہوں، جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہ ہوں گی۔ لبید نے خفیف ہو کر کہا‘:”گروہ قریش!خدا کی قسم! تمہاری مجلسوں کا حال یہ نہ تھا“۔ اس اشتعال انگیز جملہ سے تمام مجمع میں برہمی پھیل گئی اور ایک بد کردار نے حضرت عثمان رضی اللہ کی طرف بڑھ کر اس زور سے طمانچہ مارا کہ ایک آنکھ زرد پڑ گئی، لوگوں نے کہا عثمان!خدا کی قسم! تم ولید کی حمایت میں نہایت معزز تھے اور تمہاری آنکھ اس صدمہ سے محفوظ تھی“ بولے ”خدا کی حمایت سب سے زیادہ با امن و ذی عزت ہے اور جو میری آنکھ صیح و تن درست ہے وہ بھی اپنے رفیق کے صدمہ میں شریک ہونے کی متمنی ہے“۔ ولید نے کہا ”کیا اب بھی تم میری پناہ میں آنا قبول کرتے ہو؟“ فرمایا: ”میرے لیے صرف خدا کی پناہ بس ہے“۔(اسد الغابہ:3/386-285)
ہجرت مدینہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، ایک عرصہ تک مکہ میں صبر و سکون کے ساتھ مظالم برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے عموماً تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ، جس میں ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن مظعون رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادہ سائب بن عثمان رضی اللہ عنہ شامل تھے، اس سرز مین امن میں پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سلمہ عجلانی رضی اللہ عنہ کے مکان پر فروکش ہوئے ۔ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے اپنے اعزہ سے اس طرح مکہ کو خالی کر دیا تھا کہ ان کے خاندان کا ایک ممبر بھی وہاں رہنے نہ پایا اور تمام مکانات بند کر دیے گئے ۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:288)
مواخات
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائیوں کو مستقل سکونت کے لیے وسیع قطعات زمین مرحمت فرمائے اور ابوالہیثم بن التیہان رضی اللہ عنہ سے بھائی چارہ کرا دیا۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جزء ِثالث،ص:288)
غزوہ بدر اور وفات
حق و باطل کی اول کش مکش یعنی معرکہ بدر میں شریک تھے، میدانِ جنگ سے واپس آ کر اسی سال بیمار ہوئے ،انصاری بھائی اور ان کی بیوی بچوں نے دل سوزی کے ساتھ تیمار داری کی، لیکن موت کا ازالہ ممکن نہ تھا، ہجرت کے 30 ماہ بعد یعنی2 ھ کے اخیر میں وفات پائی۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزءِ ثالث، ص:288)
حضرت ام العلاء انصاریہ رضی الله عنہا (جن کے گھر میں انہوں نے وفات پائی) فرماتی ہیں کہ جب تجہیز و تکفین کے بعد جنازہ تیار ہوا تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے کہا:”ابو السائب !تم پر خدا کی رحمت ہو، میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا نے تم کو معزز کیا“۔ ارشاد ہوا: ”تمہیں کس طرح معلوم ہوا کہ خدا نے معزز کیا ؟“ میں نے عرض کی میرا باپ آپ پر فدا ہو ،یا رسول اللہ( صلی الله علیہ وسلم)پھر خدا کس کو معزز کرے گا ؟“ فرمایا:” عثمان کو درجہ یقین حاصل تھا اور میں اس کے لیے بہتری کی امید رکھتا ہوں، لیکن خدا کی قسم! میں رسول خدا ہو کر بھی نہیں جانتا کہ میرا کیا انجام ہوگا؟“(بخاری، کتاب الجنائز:1/166)
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا حزن و ملال
آں حضرتصلی الله علیہ وسلم کو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی مفارقت کا شدید غم تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین دفعہ جھک کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اس قدر چشم پرنم ہوئے کہ اشک مبارک سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رخسارے تر ہو گئے ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:288) پھر سر مبارک اُٹھا کر بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا:”ابوسائب!میں تم سے جدا ہوتا ہوں، تم دنیا سے اس طرح نکل گئے کہ تمہارا دامن ذرا بھی اس سے ملوث نہ ہوا‘۔‘(اسد الغابہ:3/387)
قبر
اس وقت تک مدینہ میں مسلمانوں کا کوئی خاص قبرستان نہ تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مقام بقیع کو اس کے لیے منتخب فرمایا ،چناں چہ وہ پہلے تھے جو اس گور غریباں میں مدفون ہوئے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنازہ کی نماز پڑھائی، قبر کے کنارے کھڑے ہو کر اپنے اہتمام سے دفن کرایا اور قبر کے سرے پر کوئی چیز بطور علامت نصب کر کے فرمایا:” اب جو مرے گا وہ اس کے آس پاس مدفون ہو گا“۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جزءِ ثالث،ص:291)
اخلاق
حضرت عثمان رضی الله عنہ کا اخلاقی پایہ نہایت ارفع تھا، شراب سے ایام جاہلیت ہی میں متنفر تھے، صبر، تحمل اور اسلامی حمیت کے نمونے پہلے گزر چکے ہیں، مزاج میں شرم وحیا کا عنصر غالب تھا ،ایک روز بارگاہ نبوت میں عرض کی یا رسول اللہ ! میں اپنی بیوی کو بھی اپنا ستر عورت دکھانا پسند نہیں کرتا۔ ارشاد ہوا: کیوں؟ عرض کی حیا دامن گیر ہوتی ہے۔ فرمایا: خدا نے اس کو تمہارے لیے اور تم کو اس کے لیے بے پردہ بنایا ہے ۔ وہ جب کچھ دیر کے بعد دربار سے چلے گئے تو آپ نے فرمایا: عثمان بن مظعون نہایت ہی با حیا وپردہ پوش ہے۔
رہبانیت کی طرف میلان طبع
تبتل ورہبانیت کی طرف شدید میلان تھا ،ایک دفعہ انہوں نے چاہا کہ قوائے شہوانیہ کوفناکر کے صحرا نوردی اختیار کریں، لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے باز رکھا اور فرمایا:”کیا میری ذات تمہارے لیے اسوہ حسنہ نہیں ہے؟ میں اپنی بیویوں سے ملتا ہوں، گوشت کھاتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار کرتا ہوں بے شک میری امت کا خصی ہونا صرف روزے رکھنا ہے اس لیے جو شخص خصی کرے گا یا خصی بنے گا وہ میری امت سے نہیں ہے۔
عبادت
عبادت و شب زندہ داری حضرت عثمان رضی الله عنہ کا نہایت ہی پر لطف مشغلہ تھا ،رات رات بھر نمازیں پڑھتے، دن کو عموماً روزے رکھتے، انہوں نے اپنے گھر میں عبادت کے لیے ایک حجرہ مخصوص کر دیا تھا، جس میں رات دن معتکف رہتے تھے ،ایک روز آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اس حجرہ کے پاس تشریف لائے اور اس کی چوکھٹ پکڑ کر دو یا تین مرتبہ فرمایا:
”عثمان (رضی الله عنہ)! خدا نے مجھے رہبانیت کے لیے مبعوث نہیں کیا ہے ،سہل اور آسان دین حنیفی خدا کے نزدیک تمام ادیان سے بہتر ہے ۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:287)
شوق عبادت نے بیوی بچوں سے بالکل بے نیاز کر دیا تھا، ایک روز ان کی زوجہ محترمہ حرم نبوی صلی الله علیہ وسلممیں آئیں، امہات المومنین رضی الله عنہن نے ان کو خراب حالت میں دیکھ کر پوچھا ”تم نے ایسی ہیئت کیوں بنا رکھی ہے؟ تمہارے شوہر سے زیادہ تو قریش میں کوئی دولت مند نہیں!“ بولیں ” مجھے ان سے کیا سروکار ؟ وہ رات رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں، دن کو روزے رکھتے ہیں“۔ امہات المومنین رضی الله عنہن نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ اس وقت حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”عثمان بن مظعون!کیا میری ذات تمہارے لیے نمونہ نہیں ہے؟“ بولے ” میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں! کیا بات ہوئی ؟“
ارشاد ہوا ”تم رات بھر عبادت کرتے ہو، دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہو؟ “عرض کی ”ہاں !ایسا کرتا ہوں“ حکم ہوا ”ایسا نہ کرو، تمہاری آنکھ کا، تمہارے جسم کا اور تمہارے اہل و عیال کا تم پر حق ہے، نمازیں بھی پڑھو اور آرام بھی کرو ،روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو“۔غرض اس فہمائش کے بعد ان کی بیوی پھر امہات المومنین رضی الله عنہن کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو ایک دلہن کی طرح معطر تھیں ۔(طبقات ابن سعد جز ثالث ،ص:287)
اہل و عیال
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی الله عنہاسے دولڑ کے عبدالرحمن اور سائب یادگار چھوڑے۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جز ثالث،ص:286)