حضرت طلحہ رضی الله عنہ

حضرت طلحہ رضی الله عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام و نسب خاندان

طلحہ نام ،ابو محمد کنیت، فیاض اور خیر لقب، والد کا نام عبید اللہ اور والدہ کا نام صعبہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے طلحہ بن عبید اللہ بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب القرشی التیمی، چوں کہ مرہ بن کعب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اجداد میں ہوتے ہیں، اس لیے حضرت طلحہ رضی الله عنہ کانسب چھٹی ساتویں پشت میں حضرت سرور کائناتصلی الله علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

حضرت طلحہ رضی الله عنہ کے والد عبید اللہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے یا کم سے کم حضرت طلحہ رضی الله عنہ کے اسلام قبول کرنے سے قبل وفات پائی، البتہ ان کی والدہ حضرت صعبہ رضی الله عنہا نے نہایت طویل زندگی پائی، مسلمان ہوئیں اور حضرت عثمان رضی اللہ کے محصور ہونے کے وقت تک زندہ تھیں، چناں چہ امام بخاری کی تاریخ الصغیر میں ایک روایت ہے کہ جب صبعہ رضی الله عنہا کو امیر المومنین رضی الله عنہ کے محصور ہونے کی خبر ملی تو وہ گھر سے نکل آئیں اور اپنے صاحب زادہ طلحہ رضی اللہ عنہ سے خواہش کی کہ وہ اپنے اثر سے مفسدین کو دور کر دیں، اس وقت خود حضرت طلحہ رضی الله عنہ کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ تھی، اس لیے اگر تاریخ الصغیر کی روایت صحیح ہے تو حضرت صبعہ رضی الله عنہ نے اسی برس سے زیادہ عمر پائی ۔
حضرت طلحہ رضی اللہ ہجرت نبوی سے چوبیس پچیس برس قبل پیدا ہوئے، ابتدائی حالات نا معلوم ہیں، لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کو بچپن ہی سے تجارتی مشاغل میں مصروف ہونا پڑا اور عنفوان شباب ہی میں دور دراز ممالک کے سفر کا اتفاق ہوا۔

اسلام

ایک دفعہ جب کہ غالباً سترہ یا اٹھارہ برس کی عمر تھی، تجارتی اغراض سے بصری تشریف لے گئے وہاں ایک راہب نے حضرت سرور کائنات میں صلی الله علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی بشارت دی، لیکن یوم ولادت سے اس وقت تک جس قسم کی آب و ہوا میں پرورش پائی تھی اور گرد و پیش جس قسم کے مذہبی چرچے تھے اس کا اثر صرف ایک راہب کی پیشین گوئی سے زائل نہیں ہو سکتا تھا، بلکہ ابھی مزید تعلیم و تلقین کی ضرورت تھی، مکہ واپس آئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت اور ان کے مخلصانہ وعظ و پند نے تمام شکوک رفع کر دیے، چناں چہ ایک روز صدیق اکبررضی الله عنہ کی وساطت سے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور خلت ایمان سے مشرف ہو کر واپس آئے، اس طرح حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ان آٹھ آدمیوں میں سے ہیں جو ابتدائے اسلام میں نجمِ صداقت کی پر تو ضیاء سے ہدایت یاب ہوئے اورآخر کار خود بھی آسمانِ اسلام کے روشن ستارے بن کر چمکے۔ (ابن سعد ،قسم اول:3/153)
اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہ رضی الله عنہ عام مسلمانوں کی طرف کفار کے ظلم وستم سے محفوظ نہ رہے، عثمان بن عبید اللہ نے جو نہایت سخت مزاج اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا حقیقی بھائی تھا، ان کو اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک ہی رسی میں باندھ کر مارا کہ اس تشدد سے اپنے نئے مذہب کو ترک کر دیں، لیکن توحید کا نشہ ایسا نہ تھا جو چڑھ کر اتر جاتا۔(اسد الغابہ:3/59)

مواخات

مکہ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے ان کا بھائی چارہ کرا دیا۔

ہجرت

حضرت طلحہرضی الله عنہ نے مکہ میں نہایت خاموش زندگی بسر کی اور اپنے تجارتی مشاغل میں مصروف رہے، چناں چہ جس وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ تشریف لے جا رہے تھے اس وقت وہ اپنے تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے ،راہ میں ملاقات ہوئی، انہوں نے ان دونوں کی خدمت میں کچھ شامی کپڑے پیش کیے اور عرض کی کہ اہل مدینہ نہایت بے چینی اور اضطراب کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں، غرض آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نہایت عجلت کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے مکہ پہنچ کر اپنے تجارتی کاروبار سے فراغت حاصل کی اور حضرت ابو بکررضی الله عنہ کے اہل و عیال کو لے کر مدینہ پہنچے ۔ حضرت اسعد بن زرارہ رضی الله عنہ نے ان کو اپنا مہمان بنایا اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب انصاری رضی الله عنہ سے ان کا بھائی چارہ کرا دیا۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزثالث، ص:154)

غزوات اور دیگر حالات

ہجرت مدینہ کے دوسرے سال سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا اور کفر و اسلام کی پہلی آویزش جنگ بدر کی صورت میں ظاہر ہوئی، لیکن حضرت طلحہ رضی الله عنہ کسی خاص مہم پر مامور ہو کر ملک شام تشریف لے گئے تھے ،اس لیے اس میں شریک نہ ہو سکے، وہاں سے واپس آئے تو دربار رسالت صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہو کر غزوہ بدر کے مالِ غنیمت میں سے اپنے حصے کی درخواست کی ۔ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم نے مالِ غنیمت میں حصہ دیا اور فرمایا کہ تم جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہیں رہو گے ۔

بعض اہل سیر کا بیان ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے تجارتی اغراض سے شام گئے تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں مالِ غنیمت میں حصہ طلب کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی، نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو شام کی طرف قریش کے قافلہ کی تحقیق حال کی خدمت پر مامور کر کے بھیجا تھا، اس روایت سے بھی ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے، بہر حال اگر چہ حضرت طلحہ رضی الله عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ تھے، تاہم وہ اپنی کارگزاریوں کے باعث اس کے اجر و ثواب سے محرومنہیں رہے۔ (اسعد الغابہ:3/159)

غزوہٴ احد

3ھ میں غزوہ اُحد پیش آیا ،اس جنگ میں پہلے مسلمانوں کی فتح ہوئی اور کفار بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن مسلمان جیسے ہی اپنی اپنی جگہ سے ہٹ کرمال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوئے، کفار نے پھر پلٹ کر حملہ کر دیا، اس ناگہانی حملہ نے مسلمانوں کو ایسا بدحواس کیا کہ ان کو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کا بھی خیال نہ رہا اور جو جس طرف تھا اس طرف سے بھاگ کھڑا ہوا۔ میدانِ جنگ میں صرف دس بارہ آدمی ثابت قدم رہ گئے تھے، لیکن وہ سب بھی شمع ہدایت سے دور تھے اور اس وقت صرف حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ پروانہ دار فدویت و جان نثاری کے حیرت انگیز مناظر دکھا رہے تھے، کفار کا ہر طرف سے نرغہ تھا، تیروں کی بارش ہو رہی تھی، خون آشام تلواریں چمک چمک کر آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں اور صد ہا کفار صرف ایک مقدس ہستی کو فنا کر دینے کے لیے ہر طرف سے یورش کر رہے تھے، اس نازک وقت میں جمالِ نبوت کا یہ شیدائی ہالہ بن کر خورشید نبوت کو آگے پیچھے، داہنے بائیں ہر طرف سے بچا رہا تھا، تیروں کی بوچھاڑ کو ہتھیلی پر روکتا تلوار اور نیزہ کے سامنے اپنے سینہ کو سپر بنا تا ،پھر اسی حال میں کفار کا نرغہ زیادہ ہو جاتا تو شیر کی طرح تڑپ کر حملہ کرتا اور دشمن کو پیچھے ہٹا دیتا، ایک دفعہ کسی نابکار نے ذات قدس صلی الله علیہ وسلم پر تلوار کا وار کیا، خادم جاں نثار یعنی طلحہ رضی الله عنہ جاں باز نے اپنے ہاتھ پر روک لیا اور انگلیاں شہید ہو گئیں تو آہ کے بجائے زبان سے نکلا ”حس “یعنی خوب ہوا ۔سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اس لفظ کے بجائے بسم اللہ کہتے تو ملائکہ آسمانی تمہیں ابھی اٹھا لے جاتے، غرض حضرت طلحہ رضی الله عنہ دیر تک حیرت انگیز جاں بازی اور بہادری کے ساتھ مدافعت کرتے رہے، یہاں تک کہ دوسرے صحابہ رضی الله عنہم بھی مدد کے لیے آپہنچے، مشرکین کا ہلّہ کسی قدر کم ہوا تو سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کو اپنی پشت پر سوار کر کے پہاڑی پر لے آئے اور مزید حملوں سے محفوظ کر دیا۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:155)

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد میں فدویت، جان نثاری اور شجاعت کے جو بے مثل جو ہر دکھائے یقینا تمام اقوام عالم کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کیے تھے۔ (فتح الباری:7/66) دربار رسالت سے اس جان بازی کے صلہ میں خیر کا لقب مرحمت ہوا، صحابہ رضی الله عنہم کو واقعہ اُحد میں ان کی اس غیر معمولی شجاعت اور جاں بازی کا دل سے اعتراف تھا، حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ غزوہ اُحد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے کہ یہ طلحہ (رضی الله عنہ)کا مخصوص دن تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو صاحب ِاُحد فرمایا کرتے تھے، خود حضرت طلحہ رضی الله عنہ کو بھی اس پُر فخر کارنامہ پر بڑا ناز تھا اور ہمیشہ لطف و انبساط کے ساتھ اس کی داستان سنایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب المغازی ،غزوہ اُحد)

متفرق غزوات

غزوہ احد کے بعد فتح مکہ تک جس قدر غزوات ہوئے، حضرت طلحہ رضی اللہ سب میں نمایاں طور پر شریک رہے، بیعت رضوان کے وقت بھی موجود تھے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے ۔

فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین پیش آیا ،اس معرکہ میں بھی غزوہ اُحد کی طرح پہلے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، لیکن چند بہادر اور ثابت قدم مجاہدین کے استقلال و ثبات نے پھر اس کو سنبھال لیا اور اس طرح جم کر لڑے کہ غنیم کی فتح شکست سے بدل گئی اوربے شمار سامان اور مال غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس جنگ میں بھی ثابت قدم اصحاب رضی الله عنہم کی صف میں تھے۔

9ھ میں آں حضرتصلی الله علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قیصر روم بڑے ساز و سامان کے ساتھ عرب پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی الله عنہم کو تیاری کا حکم دیا اور جنگی اسباب و سامان کے لیے مال و زر صدقہ کرنے کی ترغیب دی، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر ایک بیش قرار رقم پیش کی اور بارگاہ رسالت سے فیاض کا لقب حاصل کیا ہے۔(اسد الغابہ:3/59)

سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ایک طرف حملہ قیصر کے مدافعانہ اہتمام میں مصروف تھے، دوسری طرف منافقین، جو ہمیشہ درپے تخریب رہتے تھے، اس موقع پر بھی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور مدینہ سے کچھ فاصلہ پر سویلم یہودی کے مکان میں مجتمع ہو کر ان تدابیر پر غور کرتے تھے جن سے مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہو اور اس مہم میں شرکت سے انحراف کریں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسباب و سامان کے لیے مال وزر صدقہ کرنے کی ترغیب دی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس کو اس خانہ برانداز جماعت کی تنبیہ پر مامور فرمایا، انہوں نے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر نہایت مستعدی کے ساتھ سویلم کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور اس میں آگ لگا دی، ضحاک بن خلیفہ نے مکان کے پشت سے کود کر حملہ کیا اور اس حالت میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اس کے ساتھی اس کو مسلمانوں کے پنجہ اقتدار سے بچا کر لے بھاگے۔(سیرت ابن ہشام:2/315)

غرض تیس ہزار مجاہدین نہایت جاہ و جلال کے ساتھ رومیوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے، تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی، اس لیے وہاں چودہ دن قیام کر کے سب لوگ واپس آئے، پھر10ھ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے آخری حج کیا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، ہم رکاب تھے ۔ حج سے واپس آنے کے بعد12 ربیع الاول 11ھ دو شنبہ کے دن آفتاب رسالت دنیا سے غروب ہوا ۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو اس سانحہ کبری ٰسے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جس وقت سقیفہ بنی ساعدہ میں سیادت وخلافت کا فیصلہ ہو رہا تھا، اس وقت یہ کسی گوشہ تنہائی میں مصروف گریہ تھے۔

عہد صدیقی

سقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق کیا، حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے بھی کچھ دنوں کے بعد بیعت کی اور مہمات امور میں رائے اور مشورہ کے لحاظ سے جانشین رسول صلی الله علیہ وسلم کے ہمیشہ دست و بازو ثابت ہوئے، سوا دو برس کی خلافت کے بعد جب خلیفہ اول مرض الموت کے بستر پر تھے اور انہوں نے منصب کے لیے فاروق اعظم رضی الله عنہکو نام زد کیا تو حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے نہایت آزادی کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ سے جا کر کہا کہ آپ کے موجود ہوتے عمر کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا ؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے؟ آپ اب خدا کے ہاں جاتے ہیں، یہ سوچ لیجیے کہ خدا کو کیا جواب دیجیے گا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر کیا جو ان میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔

عہد فاروقی

حضرت عمر رضی الله عنہ کے متعلق حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی جو رائے تھے وہ کسی بغض و عداوت سے ملوث نہ تھی، بلکہ اکثر صحابہ رضی الله عنہم کی یہی رائے تھی کہ ان کا تشدد نا قابل تحمل ہوگا، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے طرزعمل سے ثابت کر دیا کہ وہ اس منصب عظیم کے لیے سب سے موزوں ہیں تو دفعةً حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا خیال بھی بدل گیا اور مجلس شوریٰکے ایک رکن کی حیثیت سے انہوں نے ہمیشہ فاروق اعظم رضی الله عنہ کی اعانت کی، اختلافی مسائل میں ساتھ دیا اور اہم امور میں نہایت مخلصانہ مشورے دیے ایک دفعہ عہد فاروقی میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ممالک مفتوحہ مجاہدین میں باہم تقسیم کر دیے جائیں اور ایک بڑی جماعت اس کی موید ہو گئی، صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور چند دوسرے صحابہ رضی الله عنہم کو اس سے اختلاف تھا، تین دن تک بحث ہوتی رہی ،حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید کی ،یہاں تک کہ ان ہی کی رائے پر آخری فیصلہ ہوا، اسی طرح معرکہ نہاوند کے موقع پر ایرانی ٹڈی دل نے فاروق اعظم رضی الله عنہ کو مشوش کر دیا اور انہوں نے صحابہ رضی الله عنہم سے اس کے متعلق مشورہ چاہا تو حضرت طلحہرضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر کہاآپ ہم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، البتہ ہم لوگ تعمیل حکم کے لیے تیار ہیں ۔

فاروق اعظم رضی الله عنہ نے23 ھ میں دس برس کی خلافت کے بعد سفر آخرت کی تیاری کی اور عہدہ خلافت کے لیے چھ آدمیوں کا نام پیش کیا، ان میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ،لیکن انہوں نے نہایت فراخ حوصلگی کے ساتھ حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دی اور ان کا نام اس منصب کے لیے پیش کیا، چناں چہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ کی کوشش اور حضرت طلحہ رضی الله عنہ کی تائید سے وہی خلیفہ منتخب ہوئے ۔

عہد عثمانی

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ برس تک خلافت کی، لیکن آخری شش سالہ عہدخلاقت میں تمام ملک عام طور پر شورش و بے چینی کا آماج گاہ ہو گیا تھا اور ہر طرف ریشہ روانی و فتنہ پردازی کا بازار گرم تھا، حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے دربار خلافت کو مشورہ دیا کہ اسباب شورش کی تفتیش وتحقیق کے لیے تمام ملک میں وفود روانہ کیے جائیں، چناں چہ یہ رائے پسند کی گئی اور 35ھ میں محمد بن مسلمہ ، اسامہ بن زید عمار بن یاسر اور عبد اللہ بن عمررضی الله عنہم مختلف حصص ملک میں روانہ کیے گئے ،ان لوگوں نے واپس آ کر اپنی تحقیقات کا جو نتیجہ پیش کیا اس پر عمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ مفسدین نے بارگاہ خلافت کا محاصرہ کر لیا، گو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ کی کوئی خاص اعانت نہیں کی، تاہم وہ اکثر خود ایک غیر جانب دار شخص کی حیثیت سے دریافت حال کے لیے محاصرین کی جماعت میں تشریف لے گئے، چناں چہ وہ ایک دفعہ وہاں موجود تھے کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ نے اپنے احسانات اور فضائل و مناقب بیان کر کے ان سے تصدیق چاہی توانہوں نے مفسدین کے سامنے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ اس کی تصدیق کی ۔(ابن سعد، جز3 ،قسم اوّل،ص:47)

آخر میں جب محاصرہ زیادہ خطر ناک ہو گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیررضی الله عنہکی طرح حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے صاحب زادہ محمد کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے متعین کر دیا، چناں چہ جب مفسدین نے یورش کی تو محمد بن طلحہرحمة الله علیہ نے نہایت تندہی اور جاں فشانی سے ان کا مقابلہ کیا۔(ابن اثیر :3/40)

محافظین نے باوجود قلت تعداد کے اس سیلاب کو روکے رکھا، لیکن چند نابکار دوسری طرف سے اندر گھس آئے اور صبر وحلم کے آفتاب کو ہمیشہ کے لیے خونیں شفق کے پردہ میں نہاں کر دیا، حضرت طلحہرضی الله عنہ کو معلوم ہوا تو افسوس کے ساتھ فرمایا: خدا عثمان رضی الله عنہ پر رحم کرے۔ لوگوں نے کہا مفسدین اب اپنے فعل پر نادم ہیں، فرمایا خدا انہیں ہلاک کرے۔ اس کے بعد آیت پڑھی:﴿فَلَا یَسْتَطِیعُونَ تَوْصِیَةً وَلَا إِلَی أَہْلِہِمْ یَرْجِعُونَ﴾․ (یس:3)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مصریوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عنان خلافت سنبھالنے پر مجبور کیا اور مسجد نبوی میں لوگوں کو بیعت عام کے لیے جمع کیا ،حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ گو برابر کے دعوے دار تھے تا ہم اس شورش و ہنگامہ کے وقت زبان نہ ہلا سکے اور بیعت کر لی ۔

خلیفہ وقت کے مقابلہ میں خروج اور اس کی وجہ

خلیفہ وقت کا قتل کوئی معمولی حادثہ نہ تھا ،اس سے تمام خلافت میں شورش اور بدنظمی پھیل گئی اور مفسدین کی مطلق العنانی نے خود مدینہ کو پرفتن بنا دیا حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کامل چار ماہ تک خاموشی کے ساتھ اس فتنہ و فساد کا تماشا دیکھتے رہے، لیکن جب دربار خلافت کی طرف سے اس کے انسداد کی کوئی امید نہ رہی تو خود علم اصلاح بلند کرنے کے لیے حضرت زبیررضی الله عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ سے مکہ چلے آئے، حضرت عائشہ رضی الله عنہاحج کے خیال سے مکہ آئی تھیں اور مدینہ کی شورشوں کا حال سن کر اس وقت تک یہیں مقیم تھیں، اس لیے ان دونوں نے سب سے پہلے ام المومنین رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر مدینہ کی کیفیت بیان کی اور علم اصلاح بلند کرنے پر آمادہ کیا، تھوڑی دیر کے بحث و مباحثہ کے بعد حضرت عائشہ رضی الله عنہا راضی ہو گئیں اور حضرت طلحہ رضی الله عنہ کی رائے کے مطابق بصرہ جانے کی تیاری ہوئی، کیوں کہ وہاں ان کے طرف داروں کی ایک بڑی جماعت موجود تھی اور نہایت آسانی کے ساتھ اس مہم کی شرکت پر آمادہ ہو سکتی تھی ۔

بصرہ پر قبضہ

غرض داعیان اصلاح کی ایک ہزار جماعت مکہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوئی، بنوامیہ بھی جو مدینہ سے بھاگ کر مکہ میں پناہ گزین تھے جوش انتقام میں ساتھ ہو گئے، بصرہ کے قریب پہنچے تو عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی بصرہ نے مزاحمت کی پہلے کچھ دنوں تک ان سے مصالحت کی سلسلہ جنبانی ہوتی رہی، لیکن جب وہ راہ پر نہ آئے تو بزور شہر پر قابض ہو گئے اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے حامیوں نے جوش و خروش کے ساتھ اہل دعوت کو لبیک کہا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے مقابلہ کے لیے بڑھنا

حضرت علی رضی اللہ کو مدعیان اصلاح کے خروج کا حال معلوم ہو چکا تھا ،اس لیے مدینہ سے روانہ ہو کر ذی قار پہنچے اور یہاں سے تقریباً کوفہ کے نو ہزار جنگ آزما نو جوان ساتھ لے کر بصرہ کی طرف بڑھے، حضرت طلحہ و زبیر رضی الله عنہما نے اس فوج کا حال سنا تو انہوں نے بھی اپنی فوج کو منتظم ومرتب کر کے آگے بڑھایا، دسویں جمادی الآخر36 ھ میں دونوں فوجوں میں مڈ بھیڑ ہوئی ۔

شہادت

جنگ شروع ہونے سے پہلے صلح کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی یاد دلائی کہ اس وقت ان کا دل بھی متزلزل ہوا اور جنگ سے کنارہ کش ہونے کی رائے قائم کر لی، مروان نے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے معاملہ میں ان سے بدظن تھا، اس موقعہ کو غنیمت جان کر ایک تیر مارا، جو اگر چہ پاؤں میں لگا ،لیکن ان کے لیے تیر قضا ثابت ہوا۔(مستدرک حاکم:2/371) لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی تو فرمایا چھوڑ دو ،یہ تیر نہیں بلکہ پیام خداوندی ہے۔

تجہیز و تکفین

اختلاف روایات حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے باسٹھ یا چونسٹھ برس کی عمر میں شہادت حاصل کی اور غالباً اسی میدانِ جنگ کے کسی گوشہ میں مدفون ہوئے، لیکن یہ زمین نشیب میں تھی اس لیے اکثر غرق آب رہتی تھی، ایک شخص نے مسلسل تین دفعہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی لاش کو اس قبر سے منتقل کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما نے خواب کا حال سنا تو حضرت ابو بکرہ صحابی رضی اللہ عنہ کا مکان دس ہزار درہم میں خرید کر ان کی لاش کو اس میں منتقل کر دیا۔دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اتنے دنوں کے بعد بھی یہ جسم خاکی اسی طرح مضمون ومحفوظ تھا، یہاں تک کہ آنکھوں میں جو کافور لگایا گیا تھا وہ بھی بعینہ موجود تھا۔ (اسد الغابہ:3/161)

اخلاق و عادات

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا اخلاقی پایہ نہایت ارفع و اعلیٰ تھا، خشیت الہی اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی محبت سے ان کا پیمانہ لبریز تھا، معرکہ اُحد اور دوسرے غزوات میں جس جوش و فداکاری کے ساتھ پیش پیش رہے وہ اسی جذبہ کا اثر تھا، اس راہ میں ان کو جان کے ساتھ مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ تھا۔

چناں چہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ غزوات کے مصارف کے لیے اپنا مال راہِ خدا میں دیا کریں گے اس نذر کو انہوں نے اس پابندی کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کی کہ خاص قرآن پاک میں ان کی مدح میں یہ آیت نازل ہوئی :
﴿رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ فمنہم من قضی نحبہ﴾․ (احزاب:3)

” یعنی کچھ آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو کچھ عہد کیا اس کو سچا کر دکھایا،چناں چہ بعض ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کی“۔

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوت میں حاضرہوئے تو ارشاد ہوا طلحہ (رضی اللہ عنہ)! تم بھی ان لوگوں میں ہو جنہوں نے اپنی نذر پوری کی ہے۔

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اقلیم سخاوت کے بادشاہ تھے، فقراء ومساکین کے لیے ان کا دروازہ کھلا رہتا تھا، قیس ابن ابی حازم کا بیان ہے کہ میں نے طلحہ رضی الله عنہ سے زیادہ کسی کو بے طلب کی بخشش میں پیش پیش نہ دیکھا ۔(فتح الباری:7/66)

غزوہ ذی القرد میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم مجاہدین کے ساتھ پانی کے ایک چشمہ پر سے گزرے، جس کا نام بیسان مالح تھا، حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے اس کو خرید کر وقف کر دیا ۔(اصابہ:3/291) اسی طرح غزوہ ذی العسرہ میں تمام مجاہدین کی دعوت کی ،غزوہ تبوک کے موقع پر ،جب کہ عموما تمام مسلمان افلاس و ناداری کی مصیبت اور فلاکت میں مبتلا تھے، انہوں نے مصارف جنگ کے لیے ایک گراں قدر رقم پیش کی اور دربار رسالت سے فیاض کا خطاب حاصل کیا ۔(اسد الغابہ:3/60)

ایک دفعہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ اپنی جائیدادسات لاکھ درہم میں فروخت کی اور سب راہ خدا میں صرف کر دیا۔ آپ کی بیوی سعدی بنت عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے انہیں غمگین دیکھا ،پوچھا آپ اس قدر اداس کیوں ہیں؟ مجھ سے کوئی خطا تو سرزد نہیں ہوئی؟ بولے: نہیں !تم نہایت اچھی بیوی ہو، تمہاری کوئی بات نہیں ہے ۔اصل قصہ یہ ہے کہ میرے پاس ایک بہت بڑی رقم جمع ہوگئی ہے ،اس وقت اس کی فکر میں تھا کہ کیا کروں؟ میں نے کہا:” اس کو تقسیم کرا دیجیے“ ۔یہ سن کر انہوں نے اس وقت لونڈی کوبلایا اور چار لاکھ کی رقم اپنی قوم میں تقسیم کرا دی۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزثالث،ص:157)

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بنوتیم کے تمام محتاج و تنگ دست خاندانوں کی کفالت کرتے تھے، لڑکیوں اور بیوہ عورتوں کی شادی کر دیتے تھے، جو لوگ مقروض تھے ان کا قرض ادا کر دیتے تھے، چناں چہ صبیحہ تیمی پر تیس ہزار درہم قرض تھا ،وہ سب انہوں نے اپنے پاس سے ادا کر دیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے بھی خاص عقیدت تھی اور ہر سال دس ہزار درہم پیش کش خدمت کرتے تھے ۔(ایضاً،ص:158)

مہمان نوازی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا خاص شیوہ تھا، ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین آدمی مدینہ آ کر مشرف بہ اسلام ہوئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے؟ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کی میں یا رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) اور تینوں نو مسلم مہمانوں کو خوشی خوشی گھر لے آئے، ان میں سے دو نے یکے بعد دیگرے مختلف غزوات میں شہادت حاصل کی اور تیسرے نے بھی ایک مدت کے بعد حضرت طلحہ رضی الله عنہ کے مکان میں وفات پائی۔ ان کو اپنے مہمانوں سے جو انس پیدا ہو گیا تھا اس کا اثر یہ تھا کہ ہر وقت ان کی یاد تازہ رہتی تھی اور رات کے وقت خواب میں ان ہی کا جلوہ نظر آتا تھا، ایک روز خواب دیکھا کہ وہ اپنے تینوں مہمانوں کے ساتھ جنت کے دروازہ پر کھڑے ہیں، لیکن جو سب سے پیچھے مرا تھا وہ سب سے آگے ہے اور جو سب سے پہلے شہید ہوا تھا وہ سب سے پیچھے ہے ۔حضرت طلحہ رضی الله عنہ کو اس تقدم و تاخر پر سخت تعجب ہوا، صبح کے وقت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم سے خواب کا واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا اس میں تعجب کی کیا بات ہے جو زیادہ دنوں تک زندہ رہا اس کو عبادت و نیکوکاری کا زیادہ موقع ملا، اس لیے وہ جنت کے داخلہ میں اپنے ساتھیوں سے پیش (آگے ) تھا ۔(مسند ابن حنبل:1/163)

احباب کی مسرت و شادمانی ان کے لیے بھی سامانِ انبساط بن جاتی تھی، حضرت کعب بن مالک رضی اللہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کے باعث معتوب بارگاہ تھے، ایک مدت کے بعد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ان کی خطا معاف کر دی اور وہ خوش خوش در بار رسالت صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے دوڑ کر ان سے مصافحہ کیا اور مبارک باد دی، حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں طلحہ (رضی اللہ عنہ) کے اس اخلاق کو کبھی نہ بھولوں گا، کیوں کہ مہاجرین میں سے کسی نے ایسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔(بخاری ،باب غزوہٴ تبوک)

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو دوستوں کی خدمت گزاری سے بھی دریغ نہ تھا، ایک دفعہ ایک اعرابی مہمان ہوا اور اس نے درخواست کی کہ بازار میں میرا اونٹ فروخت کرا دیجیے، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”گورسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری دیہاتی کا معاملہ نہ چکائے، تاہم میں تمہارے ساتھ چلوں گا“۔ اور اس کے ساتھ جا کر مناسب قیمت پر اس کا اونٹ فروخت کرا دیا۔اعرابی نے اس کے بعد خواہش ظاہر کی کہ دربار رسالت صلی الله علیہ وسلم سے زکوٰة کی وصولی کا ایک مفصل ہدایت نامہ دلوا دیجیے) تا کہ عمال کو اسی کے مطابق دیا کروں۔ حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے اپنے مخصوص تقرب کے باعث اس کی یہ خواہش بھی پوری کر دی۔ (بخاری، باب غزوہٴ تبوک)

رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو طرز عمل بنانا ہر مسلمان کی سب سے بڑی سعادت ہے ۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس سعادت کے حصول کو اپنے فرائض میں شامل کر لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مختلف صحبتوں میں جو کچھ دیکھتے یا سنتے اس کو ہمیشہ یاد رکھتے اور اگر اتفاق سے کبھی کوئی بات بھول جاتے تو سخت مغموم و رنجیدہ نظر آتے، ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغموم دیکھ کر پوچھا ”تمہارا حال کیسا ہے؟“ کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟ کہنے لگے نہیں!میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا تھا کہ ”اگر کوئی بندہ موت کے وقت ایک کلمہ زبان سے ادا کرے تو نزوع کی مصیبت دور ہو جائے گی اور اس کا چہرہ چمکنے لگے گا“۔ مجھے اس وقت وہ کلمہ معلوم تھا، لیکن اب یاد نہیں آتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تم اس کلمہ سے بھی زیادہ با عظمت و پر اثر کلمہ جانتے ہو جس کا رسول اللہ ا نے حکم دیا تھا، یعنی لا الہ الا اللہ۔ حضرت طلحہ رضی الله عنہ سن کر اُچھل پڑے ،فرمایا:ہاں! خدا کی قسم! یہی کلمہ ہے“۔(مسندجلد:161)

حسن معاشرت

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے، وہ اپنے کنبہ میں جس لطف و محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے اس کا اندازہ صرف اس سے ہو سکتا ہے کہعتبہ بن ربیعہ کی لڑکی ام ابان سے اگر چہ بہت سے معزز اشخاص نے شادی کی درخواست کی، لیکن انہوں نے حضرت طلحہ رضی الله عنہ کو سب پر ترجیح دی، لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا: میں ان کے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں ،وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے ،باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے، کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے، اگر کوئی کام کر دو شکر گذار ہوتے ہیں اور خطا ہو جائے تو معاف کر دیتے ہیں“۔(کنز العمال:6/413)

ذریعہ معاش

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا چناں چہ نیر اسلام کے طلوع ہونے کی بشارت بھی اس تجارتی سفر میں ملی تھی، جب مدینہ پہنچے تو زراعت کا شغل بھی شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس کو نہایت وسیع پیمانہ پر پھیلا دیا، خیبر کی جاگیر کے علاوہ عراق عرب میں متعدد علاقے حاصل کیے، ان میں سے قناة اور سراة نہایت مشہور ہے، ان دونوں مقامات میں کاشت کاری کا نہایت وسیع اہتمام تھا، صرف قناة کے کھیتوں پر بیس اونٹ سیرابی کا کام کرتے تھے، ان علاقوں کی پیداوار کا صرف اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینار تھا۔ (طبقات ابن سعد ،قسم ،اوّل جز ثالث،ص:158)

تمول

غرض تجارت و زراعت نے ان کو غیر معمولی دولت و ثروت کا مالک بنا دیا تھا، چناں چہ لاکھوں دینار و درہم راہ خدا میں لٹا دینے کے بعد بھی اہل وعیال کے لیے ایک عظیم الشان دولت چھوڑ گئے، ایک دفعہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے والد نے کس قدر دولت چھوڑی تو انہوں نے کہا:” بائیس لاکھ درہم اور دو لاکھ دینار، اس کے علاوہ نہایت کثیر مقدار میں سونا اور چاندی“ ۔یہ نقدی کی تفصیل تھی، جائیداد غیر منقولہ اس کے علاوہ تھی، جس کی کل قیمت کا اندازہ تین کروڑ درہم تھا۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جز ثالث،ص:158)

غذا ولباس

طرز معاش نہایت سادہ تھا، کپڑے اکثر رنگین پہنتے تھے، ایک دفعہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حالت احرام میں رنگین لباس زیب جسم دیکھا۔ بولے ”طلحہ یہ کیا ہے؟“ عرض کی:”امیر المومنین یہ گیروا رنگ ہے“۔ فرمایا : آپ لوگ ائمہ دین ہیں، عوام آپ کا اتباع کرتے ہیں ،کوئی جاہل دیکھ لے گا تو وہ بھی رنگین کپڑے استعمال کرے گا اور دلیل پیش کرے گا کہ میں نے طلحہ( رضی اللہ عنہ) کو حالت احرام میں پہنے ہوئے دیکھا تھا“۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جز ثالث،ص:156)

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی، جس میں نفیس سرخ یا قوت کا رنگ جڑا ہوا تھا، لیکن بعد کو یا قوت نکال کر معمولی پتھر سے مرصع کرایا تھا۔ دستر خوان بھی وسیع تھا، لیکن پر تکلف نہ تھا۔

حلیہ

حلیہ یہ تھا: قد میانہ، بلکہ ایک حد تک پست، چہرہ کا رنگ سرخ وسفید، بدن خوب گھٹا ہوا، سینہ چوڑا، پاؤں نہایت پر گوشت اور ہاتھ کی انگلیاں غزوہ اُحد میں شل ہو گئی تھیں ۔

اولاد و از واج

حضرت طلحہ رضی الله عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں، بیویوں کے نام یہ ہیں حمنہ بنت جحش، ام کلثوم بنت ابو بکر الصدیق، سعدی بنت عوف، ام ابان بنت عتبہ بن ربیعہ،خولہ بن القعقاع، ان میں سے ہر ایک کے بطن سے متعد د اولاد ہوئی تھی، لڑکوں کے نام یہ ہیں:

محمد ، عمران، عیسی، یحییٰ، اسماعیل ،اسحاق، زکریا، یعقوب، موسیٰ، یوسف۔ ان کے علاوہ چار صاحب زادیاں تھیں، ان کے نام یہ ہیں:
ام اسحاق ، عائشہ ، صعبہ ، مریم۔ 

بہشت کے باسی سے متعلق