نام و نسب
خالد نام، ابوسعید کنیت ۔سلسلہ نسب یہ ہے خالد بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشی اموی۔ نانہالی تعلق ثقیف سے تھا۔(اصابہ:6/132)
اسلام
حضرت خالد رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو اس وقت مشرف با سلام ہوئے، جب چند بندگانِ خدا کے سوا ساری دنیا توحید کی آواز سے نا آشنا تھی، ان ہی کے اسلام سے ان کے گھر میں اسلام کی روشنی پھیلی ۔ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انہوں نے خواب دیکھا کہ یہ ایک آتشیں غار کے کنارے کھڑے ہیں اور ان کے والد ان کو اس میں دھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم گلا پکڑے ہوئے روک رہے ہیں، اس خواب پریشان نے آنکھ کھول دی، گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ خدا کی قسم! یہ خواب حقیقت ہے اور اس کو حضرت ابوبکر رضی اللہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مشرف باسلام ہو گے، اس لیے میں تم کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو جاؤ اور تمہارے والد اس آتشیں غار میں گریں گے، لیکن تم کو اسلام اس میں گرنے سے بچالے گا۔ چناں چہ خالد رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بلا شرکت غیر خدائے واحد کی پرستش کرو، مجھ کو اس کا بندہ اور رسول مانو اور ان پتھروں کی پوجا چھوڑ دو جو تمہارے نفع اور نقصان کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے، حتی کہ اس سے بھی لاعلم ہیں کہ ان کی پرستش کے دعوے داروں میں کون ان کی پرستش کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ یہ تعلیمات سن کر، دل کے ساتھ زبان نے بھی، خدا کی وحدانیت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کر دی۔ (مستدرک حاکم:3/248)
آزمائش اور استقامت
اسلام لانے کے بعد گھر والوں سے چھپ کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دعوت اسلام میں مصروف ہو گئے ،والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑنے کے لیے بھیجا، وہ ان کو گرفتار کر کے لے گئے، پہلے اسلام چھوڑنے کا مطالبہ ہوا، یہاں جواب صاف تھا کہ جان جائے لیکن محمد (صلی الله علیہ وسلم)کا مذہب نہیں چھوٹ سکتا، اس جواب پر پہلے زجر و تو بیخ شروع ہوئی، جب یہ بے اثر ثابت ہوئی تو زدو کوب کی نوبت آئی اور اس بے دردی سے مارے گئے کہ سر پر پڑتے پڑتے لکڑی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی، جب مارتے مارتے تھک گئے تو پھر باز پرس شروع ہوئی کہ تم نے محمد ( صلی الله علیہ وسلم)کی حرکتوں کو جانتے ہوئے ان کا ساتھ کیوں دیا ؟ تم آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ وہ پوری قوم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے معبودوں اور ان کے آباو اجداد کو برا بھلا کہتے ہیں اور اس میں تم بھی ان کی ہمنوائی کرتے ہو، مگر اس مار کے بعد بھی اس بادہٴ حق کے سرشار کی زبان سے نکلا کہ” خدا کی قسم!وہ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور اس میں، میں ان کے ساتھ ہوں“ ۔ جب سنگ دل باپ ہر طرح سے تھک چکا تو عاجز ہو کر قید کر کے، کھانا پینا بند کر دیا اور لوگوں کو منع کر دیا کہ کوئی شخص ان سے گفت گو نہ کرئے، چناں چہ یہ تین دن تک بے آب و دانہ تنہائی کی قید جھیلتے رہے، چوتھے دن موقع پا کر بھاگ نکلے اور اطراف مکہ میں روپوش ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد جز4 قسم1ص:68 واستیعاب:1/155)
ہجرت حبشہ
جب مسلمانوں کا دوسرا قافلہ حبشہ جانے لگا تو یہ بھی اپنی بیوی امیمہ یا امینہ اور بھائی عمرو کو ساتھ لے کر حبشہ چلے گئے، یہیں ان کے صاحب زادہ سعید اور صاحب زادی ام خالد پیدا ہوئیں ۔(اسد الغابہ:2/91)
ہجرت مدینہ اور غزوات
غزوہ خیبر کے زمانہ میں حبشہ سے مدینہ آئے گو یہ اس میں شریک نہیں ہوئے تھے، لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا، اس کے بعد عمرة القضا ،فتح مکہ ،حنین، طائف اور تبوک وغیرہ سب میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے ۔ (استیعاب:1/154)
ابتدائی غزوات بدر واحد وغیرہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے ،اس محرومی پر ہمیشہ متاسف رہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی ،یا رسول اللہ !ہم لوگ بدر کے شرف سے محروم رہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دو کا ؟۔(ابن سعد ،جز4 ،ق:1/72)
مدینہ کا قیام
مدینہ آنے کے بعد سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم صلی الله علیہ وسلم نے مراسلات کا عہدہ ان کے متعلق کر دیا تھا اور وہ تحریری نامہ و پیام کی خدمت انجام دیتے تھے ،9ھ میں بنو ثقیف کا جو وفد آیا تھا ،اس کے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے درمیان گفت گو کی خدمت ان ہی نے انجام دی تھی، اوروفد کے مشرف باسلام ہونے کے بعد معاہدہ بھی ان ہی نے تحریر کیا تھا۔(زرقانی:4/9)
یمن کی گورنری
حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے کنبہ بھر میں حکومت کی صلاحیت تھی، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے تینوں بھائیوں کو حکومت کے عہدوں پر ممتاز کیا تھا، ابان کو بحرین پر، عمرو کو تیماء پر اور خالد رضی الله عنہ کو یمن پر مامور کیا، یہ تینوں تاحیات نبوی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے، حضرت ابو بکررضی الله عنہ نے دوبارہ بھیجنا چاہا اور فرمایا کہ تم لوگ آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکے مقرر کردہ عامل ہو، تم سے زیادہ کون اس عہدہ کا مستحق ہو سکتا ہے؟ لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم ابی احیحہ کی اولاد ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔ (استیعاب:1/155)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت میں تاخیر
خالد رضی الله عنہ کو ابتدا ہی میں حضرت ابو بکررضی الله عنہ کی خلافت سے اختلاف تھا، چناں چہ دو مہینہ تک بیعت نہ کی اور حضرت علی اور عثمان رضی الله عنہما بھی سے جا کر کہا کہ آپ لوگوں نے غیروں کی خلافت کس طرح ٹھنڈے دل سے قبول کر لی؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تو کوئی باز پرس نہیں کی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت برہم ہوئے۔ (طبری، ص:207) مگر پھر خالد رضی اللہ عنہ نے دو مہینے کیبعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر بیعت کر لی۔ حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں فتنہ ارتداد کی روک تھام میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، مشہور مرتد عمرو بن معدی کرب زبیدی کو جو اسود عنسی کے حلقہ میں تھا، زخمی کیا اور اس کی تلوار اور گھوڑا چھین لیا، مگر وہ بیچ کر بھاگ گیا ۔(ابن اثیر:2/288) فتنہ ارتداد فرو ہونے کے بعد شام کی فوج کشی کے سلسلہ میں حضرت ابوبکررضی الله عنہ نے ان کو فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار بنایا ،لیکن حضرت عمر رضی الله عنہ نے اختلاف کیا کہ جس شخص نے بیعت میں لیت ولعل کی ہو وہ ہرگز اعتماد کے لائق نہیں، پھر وہ کوئی ایسے نبرد آزما بھی نہیں کہ فوجی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ پہلے مترود ہوئے، لیکن آخر میں حضرت عمر رضی الله عنہ کے اصرار سے مجبور ہو گئے، تاہم معزول نہیں کیا، لیکن سپہ سالاری کے عہدہ سے تنزل کر کے تیماء کی امدادی فوج کے دستہ کا امیر بنا دیا اور ان کی جگہ پر یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہما کا تقرر کیا اور خالد رضی الله عنہ کو یہ ہدایتیں دے کر تیماء روانہ کیا کہ راستہ میں ان مسلمانوں کو جو پہلے ارتداد کی شورش میں نہ شریک ہوئے ہوں ساتھ لے لینا اور بغیر میرا حکم ملے ہوئے خود حملہ کی ابتدا نہ کرنا، رومیوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے بہت سے عربی قبائل کو لے کر مختلف اطراف میں چھاپے مارنا شروع کر دیے خالد رضی اللہ عنہ کے بڑھتے بڑھتے رومی منتشر ہو گئے اور عربی قبائل جو ان کے ساتھ ہو گئے تھے، پھر اسلام لے آئے، خالد رضی الله عنہ نے دوبارہ اطلاع بھیجی ۔ آپ نے حکم دیا کہ ابھی پیش قدمی جاری رکھو ،مگر اس طرح کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کر سکیں ۔ اس حکم کے مطابق یہ آگے بڑھے، باہان رومی مقابلہ کو نکلا، لیکن شکست کھائی، انہوں نے اس کی اطلاع در بار خلافت میں بھیجی، نیز مزید امدادی فوج طلب کی ۔ (طبری :4/2079، وابن اثیر:2/208)
اسی دوران میں عام لشکر کشی ہوئی، عکرمہ ذوالکلاع اور ولید خالدرضی الله عنہم کی مدد کے لیے بھیجے گئے، ان کے پہنچتے ہی خالد رضی اللہ عنہ رومیوں کے مقابلہ میں نکلے ،با ہان بطریق روم اپنی فوج کو دمشق کی طرف ہٹا لے گیا، لیکن یہ برابر بڑھتے ہوئے چلے گئے اور دمشق وواقوصہ کے درمیان خیمہ زن ہوئے ،باہان کا مسلح دستہ تاک میں لگا ہوا تھا، اس نے ہر چہار طرف سے ناکہ بندی کر دی اور خود حملہ کرنے کے لیے بڑھا، راستہ میں خالد رضی الله عنہ کے صاحب زادہ سعید ملے، ان کو گھیر کر شہید کر دیا، خالد رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو وہ ایسے سراسیمہ ہوئے کہ پیش قدمی روک کر پیچھے ہٹ آئے اور عکرمہ رضی اللہ نے ہوشیاری کے ساتھ باہان کو ان کے تعاقب سے روک دیا اور خالد رضی اللہ عنہ ذ والمروہ میں آکر مقیم ہو گئے، پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ گئے ،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی کم زوری پر مناسب تنبیہ کی اور فرمایا: واقعی عمر (رضی اللہ عنہ)اور علی (رضی الله عنہ)ان کا زیادہ تجربہ رکھتے تھے۔ کاش! میں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا ہوتا ۔(طبری ،ص:2084 تا2086) اس کے بعد برابرلڑائیوں میں شریک ہوتے رہے اور گذشتہ کمزوری کی تلافی میں بڑے جوش سے لڑتے تھے، چناں چہ نخل دمشق وغیرہ میں بڑی جانبازی دکھائی ۔
شہادت
فحل کی مہم کے بعد اسلامی فوج نے مرج صفر کا رخ کیا، اسی درمیان میں خالد رضی اللہ عنہ نے ام حکیم سے عقد کر لیا اور مرج صفر پہنچ کر بیوی سے ملنے کا قصد کیا، بیوی نے کہا اس معرکہ کے بعد اطمینان سے ملنا زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے جواب دیا میرا دل کہتا ہے کہ اس لڑائی میں جام شہادت پیوں گا، غرض مرج صفر ہی میں بیوی سے ملاقات کی اور صبح کو احباب کی دعوت کی، ابھی لوگ کھانے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ رومی میدان میں آگئے، ایک رومی نے مبارز طلبی کی، خالدرضی الله عنہ مقابلہ کے لیے نکلے اور نکلتے ہی شہید ہو گئے۔ ان کی عروس(دلہن) کا یہ سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے کہ جزع فزع اور سوگ نشینی کے بجائے شوہر کے خون کے انتقام کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور مردوں کے دوش بدوش لڑ کر سات رومیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔(فتوح البلدان بلاذری ص:125 ۔تفصیل ابن سعد سے ماخوذ ہے)
اولاد
خالد کے امیمہ یا امینہ بنت خلف کے بطن سے دو اولادیں ہوئیں، سعید اور امہ یا ام خالد۔ سعید خالد رضی اللہ عنہ کی زندگی میں شہید ہو گئے تھے ،امہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے بیاہی تھیں ۔
خاتم نبوی
خالد رضی الله عنہ کی انگوٹھی کا نقش بھی محمد رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) تھا، یہ انگوٹھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے ان سے لے لی تھی، جو ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں رہی ۔(استیعاب:1/155)
فضل و کمال
عرب کے عام دستور کے خلاف ان کو لکھنے پڑھنے میں مہارت حاصل تھی، چناں چہ یمن والوں کو جو امان نامہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دیا تھا، اس کی کتابت ان ہی نے کی تھی۔(ابوداؤد:2/25)