حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ

حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام نسب

سلسلہ نسب یہ ہے۔ صہیب نام ،ابو یحییٰ کنیت، والد کا نام سنان اور والدہ کا نامی سلمٰی بنت قعید تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے۔

صہیب بن سنان بن مالک بن عبد عمرو بن عقیل بن عامر بن جندلہ بن جذیمہ بن کعب بن سعد بن اسلم بن اوس مناة بن النمری بن قاسط بن ہنب بن افصی بن دعمی بن جدیلہ بن اسد بن ربیعہ بن نزار الربعی النمری۔(اسد الغابہ :3/330)

ابتدائی حالات

حضرت صہیب رضی الله عنہ کا اصلی وطن ایک قریہ تھا، جو باختلاف روایات موصل کے قریب، لب دجلہ یا الجزیرہ میں واقع تھا ،ان کے والد اور چچا کسریٰ کی طرف سے اُبلہ کے عامل تھے، انہوں نے ابھی دنیا کی صرف چند بہاریں دیکھی تھیں کہ رومی فوجوں نے اُبلہ پر چڑھائی کی اور دوسرے مال واسباب کے ساتھ اس نو نہال کو بھی ساتھ لے گئے، سنان کے چمن زار پر اس گل سرسبد کے فقدان سے خزاں آگئی ،ان کی بہن امیمہ اور چچالبید نے ان کی تلاش و جستجو میں دنیا کی خاک چھان ڈالی، تمام مجامع، میلوں اور موسمی بازاروں کا جائزہ لیا، لیکن اس یوسف گم گشتہ کا کہیں سراغ نہ لگا۔(اصابہ جلد3 تذکرہ صہیب بن سنان رضی الله عنہ)

وہ رومیوں ہی میں پرورش پا کر جوان ہوئے، بنی کلب نے ان کو خرید کر مکہ پہنچایا اور ان سے عبداللہ بن جدعان نے لے کر آزاد کر دیا۔(مستدرک حاکم:3/397)

لیکن ایک دوسری روایت ہے کہ وہ خود بھاگ کر آئے تھے اور عبد اللہ سے صرف حلیفانہ تعلق تھا، غرض وہ مکہ میں اس کی زندگی تک اس کے ساتھ رہے ۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث، ص:161)

اسلام

مکہ میں اسلام کا غلغلہ بلند ہوا تو تفتیش و تحقیق کے خیال سے آستانہٴ نبوت پر حاضر ہوئے ،اتفاق سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ بھی اسی خیال سے آ رہے تھے، انہوں نے ان کو دیکھ کر پوچھا تم کس ارادہ سے آئے ہو؟ بولے پہلے تم اپنا مقصد ظاہر کرو۔ انہوں نے کہا ”میں محمد صلی الله علیہ وسلمسے مل کر ان کی گفت گو سننا چاہتا ہوں“ ۔ بولے ”میرا بھی یہی مقصد ہے“۔ غرض دونوں ایک ساتھ حاضر خدمت ہو کر مشرف باسلام ہوئے۔ (اسد الغابہ جلد 4،تذکرہ عمار بن یاسر رضی الله عنہما) حضرت صہیب رضی الله عنہ پہلے رومی تھے جنہوں نے صدائے توحید کو لبیک کہا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ صہیب روم کا پہلا پھل ہے، آپ اس وقت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں پناہ گزین تھے اور تیس سے زیادہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اس دائرہ میں داخل ہو چکے تھے، جن میں سے اکثروں نے مشرکین کے خوف سے اس کو ظاہر نہیں کیا تھا۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:162)

ابتلا و استقامت

حضرت صہیب رضی الله عنہ گو غریب الوطن تھے اور اس سرزمین کفر میں ان کا کوئی حامی و معاون نہ تھا، تاہم غیرت ایمان نے چھپ کر رہنا پسند نہ کیا، انہوں نے ابتدا ہی میں اپنے تبدیل مذہب کا حال ظاہر کر دیا اور راہ خدا میں گوناگوں مصائب و مظالم برداشت کیے، لیکن استقامت ،صبر اور تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا ۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:162)

ہجرت

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سب سے آخری مہاجر تھے، انہوں نے رخت سفر درست کر کے ہجرت کا قصد فرمایا، تو مشرکین قریش نہایت سختی کے ساتھ سد راہ ہوئے اور بولے” تم ہمارے یہاں مفلس و محتاج آئے تھے، مکہ میں رہ کر دولت و ثروت جمع کی اور اب یہ تمام سرمایہ اپنے ساتھ لے جاتے ہو، خدا کی قسم! ایسا نہ ہوگا۔“ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے اپنا ترکش دکھا کر کہا اے گروہ قریش ! تم جانتے ہو کہ میں تم لوگوں میں سے سب سے زیادہ صحیح نشانہ باز ہوں، خدا کی قسم ! جب تک اس میں ایک بھی تیر ہے تم میرے قریب نہیں آ سکتے، اس کے بعد پھر اپنی تلوار سے مقابلہ کروں گا، ہاں! اگر مال و دولت چاہتے ہو تو کیا اس کو لے کر میرا راستہ چھوڑ دو گے؟ مشرکین نے اس پر رضا مندی ظاہر کی اور حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اپنے مال و متاع کے عوض متاع ایمان کا سودا خرید کر مدینہ پہنچے۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جز ثالث، ص:162)

حضرت خیر الا نام صلی الله علیہ وسلم قباء میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مہمان تھے، حضرت ابوبکر وعمر رضی الله عنہابھی حاضر خدمت تھے، کھجوروں کا نقل ہو رہا تھا کہ حضرت صہیب رضی الله عنہ پہنچے اور بھوک کی شدت سے بے تاب ہو کر اس پر ٹوٹ پڑے ، چوں کہ سفر میں ان کی ایک آنکھ آشوب کر آئی تھی، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ نے تعجب سے کہا یا رسول اللہ! آپ صہیب رضی اللہ کو ملاحظہ نہیں فرماتے کہ آشوب چشم کے باوجود کھجور کھا رہے ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”صہیب!تمہاری آنکھ جوش کر آئی ہے اور تم کھجوریں کھا رہے ہو؟“ مزاج نہایت بذلہ سنج تھا، بولے ”میں صرف اپنی ایک تن درست آنکھ سے کھاتا ہوں“ ۔ اس حاضر جوابی سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بے اختیار ہنس پڑے ۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل ،جز ثالث،ص:162)

جب بھوک کی شدت کسی قدر دفع ہوئی تو شکوہ و شکایت کا دفتر کھلا، حضرت ابو بکر رضی الله عنہ سے کہنے لگے کہ آپ نے باوجود وعدہ مجھے شریک سفر نہ فرمایا۔ حضرت رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ !آپ نے بھی خیال نہ فرمایا ۔قریش نے مجھے تنہا دیکھ کر روک رکھا، بالآخر تمام دولت و ثروت کے عوض اپنی جان خرید کر حاضر ہوا ۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جز ثالث، ص:163) ارشاد ہوا ابویحییٰ! تمہاری تجارت پر منفعت رہی، اس کے بعد ہی قرآن پاک نے اس عظیم الشان قربانی کی ان الفاظ میں داد دی۔ (ایضاً مستدرک حاکم:3/398)

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّہِ﴾․(بقرہ)

”لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کی رضا جوئی کے لیے اپنی جانیں بیچ دیتے ہیں“۔

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ مدینہ میں حضرت سعید بن خیثمہ رضی اللہ عنہ کے مہمان ہوئے اور حضرت حارث بن الصمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مواخات ہوئی ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جز ثالث،ص:162)

غزوات

تیراندازی میں کمال رکھتے تھے، غزوہ بدر، أحد، خندق اور تمام دوسرے معرکوں میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے، عالم پیری میں وہ لوگوں کو جمع کر کے نہایت لطف کے ساتھ اپنے جنگی کارناموں کی دلچسپ داستان سنایا کرتے تھے۔

سہ روزہ خلافت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے حسن ظن رکھتے تھے اور خاموش لطف و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، انہوں نے وفات کے وقت وصیت فرمائی کہ حضرت صہیب ہی ان کے جنازہ کی نماز پڑھائیں اور اہل شوری جب تک مسئلہ خلافت کا فیصلہ نہ کریں، وہ امام کا فرض انجام دیں، چناں چہ انہوں نے تین دن تک نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اس فرض کو انجام دیا۔(اس الغابہ:3/33)

وفات

38ھ میں پیمانہ حیات لبریز ہو گیا، 72برس کی عمر میں وفات پائی اوربقیع کے گور غریباں میں مدفون ہوئے ۔(اسد الغابہ:3/33)

اخلاق

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سر چشمہ اخلاق سے بہت زیادہ مستفیض ہوئے تھے، فرماتے ہیں کہ نزول وحی سے پہلے ہی مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی مصاحبت کا فخر حاصل تھا ۔(استیعاب تذکرہ صہیب) اس بنا پر ان میں تمام اوصاف حسنہ مجتمع ہو گئے تھے، حسن خلق، فضل و کمال کے ساتھ، حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی نے ان کی صحبت کو نہایت پر لطف بنا دیا تھا۔ (اسد الغابہ:3/33)

مہمان نوازی، سخاوت و غرباء پروری میں نہایت کشادہ دست تھے، یہاں تک کہ لوگوں کو اسراف کا دھوکا ہوتا تو ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: صہیب تمہاری تین باتیں مجھے نا پسند ہیں، اول یہ کہ تم نے ابو یحییٰ کنیت قرار دی، جو ایک پیغمبر کا نام ہے اور اس نام کی تمہاری کوئی اولاد نہیں، دوسرے اسراف کرتے ہو اور تیسرے یہ کہ اپنے کو عرب کہتے ہو۔ بولے یہ کنیت میری نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تجویز کردہ ہے ،رہا اسراف تو میں میرا اساس عمل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

”خیارکم من اطعم الطعام و رد السلام“․

” یعنی تم لوگوں میں سب بہتر وہ ہے جو لوگوں کو کھانا کھلائے اور سلام کا جواب دے“۔

امرسوم کا جواب یہ ہے کہ میں حقیقت میں عرب ہوں، چوں کہ رومیوں نے بچپن ہی میں مجھے غلام بنا کر اہل وعیال سے جدا کر دیا، اس لیے میں اپنے خاندان اور قوم کو بھول گیا۔ (مسند احمد بن حنبل:6/16)

حلیہ

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا حلیہ یہ تھا:
قد میانہ بلکہ ایک حد تک کوتاہ، چہرہ نہایت سرخ، سر کے بال گھنے، زمانہ پیری میں مہندی کاخضاب کرتے تھے ۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:161) زبان میں لکنت تھی، ایک دفعہ وہ اپنے ایک باغ میں یحنس غلام کو نیاس، نیاس کہہ کر پکار رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنا تو تعجب سے پوچھا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے جو لوگوں کو پکار رہے ہیں؟ حضرت اسلم رضی الله عنہ نے عرض کی ”وہ لوگوں کو نہیں پکارتے، بلکہ اپنے غلام یحنس کو پکار رہے ہیں، لیکن لکنت کی وجہ سے اس نام کو ادا نہیں کر سکتے۔(اسد الغابة:3/32)

بہشت کے باسی سے متعلق