حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ

حضرت سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ

مولانا معین الدین احمد ندوی

نام ونسب

سنان نام، ابو ایاس کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، سنان بن عبدالله بن عبدالله بن قشیر بن خزیمہ بن مالک بن سلامان بن اسلم اقصی۔ (مستدرک حاکم:3/562)

اسلام وہجرت

ارباب سیران کے زمانہ اسلام کے بارہ میں خاموش ہیں، مگر اس قدر مسلم ہے کہ 6ھ سے پہلے مشرف با سلام ہوئے، اسلام کے بعد ہجرت کا شرف حاصل کیا۔ اکثر مہاجرین نے مع بال بچوں کے ہجرت کی تھی، لیکن سلمہ رضی الله عنہ نے راہ خدا میں بال بچوں کو بھی چھوڑ کر مدینہ کی غربت اختیار کی۔

غزوات

مدینہ آنے کے بعد قریب قریب تمام غزوات میں شریک رہے، سب سے پہلے غزوہ حدیبیہ میں شریک ہوئے اور خلعت امتیاز حاصل کیا، صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں بیعت رضوان کو تاریخ اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے، جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت کی خبر سن کر، مسلمانوں سے موت پر بیعت لینا شروع کی توحضرت سلمہ رضی الله عنہ نے تین مرتبہ بیعت کی، پہلی مرتبہ سب سے اول جماعت کے ساتھ بیعت کرچکے تھے، دوبارہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی نظر پڑی تو فرمایا سلمہ! بیعت کرو، عرض کی یا رسول الله! جاں نثار پہلے ہی بیعت کرچکا ہے، فرمایا کیا حرج ہے دوبارہ سہی، اس وقت حضرت سلمہ رضی الله عنہ نہتے تھے، آں حضرت صلی الله علیہ و سلم نے ایک ڈھال عنایت فرمائی، تیسری مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کی نظر پڑی تو فرمایا کہ سلمہ! بیعت نہ کرو گے؟ عرض کی یا رسول الله! دو مرتبہ بیعت کرچکا ہوں، فرمایا تیسری مرتبہ سہی، چناں چہ انہوں نے سہ بارہ بیعت کی، آں حضرت صلی الله علیہ و سلم نے پوچھا سلمہ ! ڈھال کیا کی؟ عرض کی کہ میرے چچا بالکل خالی ہاتھ تھے، ان کو دے دی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے کہ اس نے دعا کی کہ خدایا! مجھ کو ایسا دوست دے جو مجھ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو، ابھی بیعت کا سلسلہ جاری تھا کہ اہل مکہ اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو گئی اور لوگ مطمئن ہو کر ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے، حضرت سلمہ رضی الله عنہ بھی ایک درخت کے نیچے لیٹ رہے ، اتنے میں چار مشرکین آئے او ران کے قریب بیٹھ کر آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگے جو ان کو ناگوار ہوئیں، اٹھ کر دوسرے درخت کے نیچے چلے گئے، ان کے جانے کے بعد چاروں ہتھیار اتار کر اطمینان سے لیٹ گئے، ابھی لیٹے ہی تھے کہ کسی نے نعرہ لگایا مہاجرین دوڑنا، ابن زنیم قتل کر دیے گئے ، آواز سن کرحضرت سلمہ رضی الله عنہ نے ہتھیار سنبھال لیے اور مشرکوں کی طرف لپکے، یہ سب سو رہے تھے،حضرت سلمہ رضی الله عنہ نے ان کے اسلحہ پر قبضہ کرکے ان سے کہا خیراسی میں ہے کہ سیدھے میرے ساتھ چلو، خدا کی قسم! جس نے سر اٹھایا، اس کی آنکھیں پھوڑ دو گا، چناں چہ ان سب کو کشاں کشاں لا کر آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا، ان کے چچا عامر بھی ستراکہتر مشرک گرفتار کرکے لائے تھے، لیکن رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی:﴿وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُم بِبَطْنِ مَکَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ ﴾․(فتح:3)

ترجمہ:”اور وہ خدا ہی تھا، جس نے عین مکہ میں تم کو کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد ،ان کے ہاتھوں کو تم سے او رتمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا“۔

مسلمانوں کا قافلہ مدینہ سے واپسی میں ایک پہاڑ کے قریب خیمہ زن ہوا، مشرکین کی نیت کچھ بد تھی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہو گئی اور پڑاؤ کی نگرانی کی ضرورت محسوس ہوئی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کی جو پہاڑ پر چڑھ کر نگرانی کرے،حضرت سلمہ  نے یہ سعادت حاصل کی اور رات بھر میں کئی مرتبہ پہاڑی پر چڑھ کر آہٹ لیتے رہے۔ (مسلم:2/99-98 مطبوعہ مصر)

غزوہٴ ذی قرد

آں حضرت صلی الله علیہ سلم کے کچھ اونٹ ذی قرد کی چراگاہ میں چرتے تھے، ان کو بنو غطفان ہنکالے گئے، سلمہ بن اکوع رضی ا لله عنہ طلوع فجر سے قبل گھر سے نکلے، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کے غلام نے ان سے کہا کہ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کے اونٹ لٹ گئے۔ پوچھا کس نے لوٹا؟ کہا ابن غطفان نے۔ یہ سن کے آپ نے ایک زور کا نعرہ لگایا کہ مدینہ کے اس سرے سے اس سرے تک آواز گونج گئی او رتن تنہا ڈاکوؤں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ وہ پانی کی تلاش کر رہے تھے کہ حضرت سلمہ رضی الله عنہ پہنچ گئے، یہ بڑے قادر انداز تھے، تاک تاک کر تیر برسانا شروع کر دیے، تیر برساتے جاتے تھے اور یہ رجز پڑھتے جاتے تھے
انا ابن الاکوع الیوم یوم الرضع
میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کا دن سخت جنگ کا دن ہے۔

او راس قدر تیر باری کی کہ ڈاکوؤں کو اونٹ چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا اور بد حواسی میں اپنی چادریں بھی چھوڑ گئے، اس درمیان میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم بھی لوگوں کو لے کر پہنچ گئے،حضرت سلمہ رضی الله عنہ نے عرض کیا، یا رسول الله ! میں نے ان لوگوں کو پانی نہیں پینے دیا، اگر ابھی ان کا تعاقب کیا جائے تو مل جائیں، لیکن رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قابو پانے کے بعد درگزر کرو۔ (بخاری جلد دوم ، کتاب المغازی، باب غزوہ ذی قرد اور مسلم جلد دوم ،حوالہ مذکور)

خیبر

اس کے بعد خیبر کی مہم میں دادِ شجاعت دی، فتح خیبر کے بعد اس شان سے لوٹے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دست مبارک میں ہاتھ دیے ہوئے تھے۔ (ایضا ،باب غزوہ خیبر)

غزوہ ثقیف وہوازن

خیبر کے بعد غزوہ ثقیف وہوازن میں شریک ہوئے۔ اس غزوہ کے دوران میں ایک شخص مسلمانوں کے لشکر گاہ میں اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اس کو باندھ کر مسلمانوں کے ساتھ ناشتہ میں شریک ہو گیا، اس کے بعد چاروں طرف نظر ڈال کر مسلمانوں کی طاقت کا جائزہ لیا اور سوار ہو کر تیزی سے نکل گیا، اس طرح اچانک آنے اور فوراً چلے جانے سے مسلمانوں کو جاسوسی کا شبہ ہوا، ایک شخص نے اس کا تعاقب کیا، سلمہ  نے بھی پیچھا کیا اور آگے بڑھ کر اس کو پکڑ لیا اور تلوار کا ایسا کاری وار کیا کہ ایک ہی وار میں وہ ڈھیر ہو گیا اور اس کی سواری پر قبضہ کرکے واپس ہوئے ، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا؟ لوگوں نے عرض کیا سلمہ نے۔ فرمایا تو مقتول کا سب سامان ان کا ہے۔ ( مسند احمد بن حنبل:4/51)

سریہٴ بنی کلاب

7ھ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک دستہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی امارت میں بنو فزارہ کی طرف بھیجا، اس میں حضرت سلمہ رضی الله عنہ بھی تھے، انہوں نے تنہا سات خانوادوں کو تہہ تیغ کیا، جو لوگ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان کی عورتوں کو گرفتار کر لیا، ان میں ایک لڑکی نہایت حسین تھی، اسے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے حضرت سلمہ رضی الله عنہ کو دے دیا، وہ جب اسے لے کر مدینہ آئے تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، سلمہ! یہ لڑکی میرے حوالہ کر دو، عرض کی یا رسول الله ! میں نے ابھی تک اس کو ہاتھ نہیں لگایا ہے، لڑکی لا کر حاضر کردی، آں حضرت صلی الله علیہ و سلم نے اس کو مکہ بھیج کر، اس کے بدلہ میں ان چند مسلمانوں کو آزاد کرایا جو کفار کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے تھے۔ ( ابن سعد، حصہ مغازی، سریہ ابی بکر الصدیق رضی الله عنہ۔ سات خانوادوں کے قتل کا ذکر مسند احمد بن حنبل:4/46 میں بھی ہے)۔

اسلام کے بعد بیشتر غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا، بعض روایتوں میں ہے کہ 14 غزوات میں انہوں نے شرکت کی، ان میں سے سات میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا اور سات وہ تھے جو آں حضرت صلی الله علیہ و سلم نے مختلف اطراف میں بھیجے۔ (استیعاب:2/584) اور مستدرک کی روایت کے مطابق ان غزوات کی تعداد سولہ تک پہنچ جاتی ہے۔ (اصابہ:3/118)

وفات

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے برابر مدینہ میں رہے، حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ چھوڑ کر ربذہ میں سکونت اختیار کر لی، وہاں شادی کی اور اولادیں ہوئیں۔ بخاری کی روایت کے مطابق74ھ میں پھر مدینہ واپس ہوئے ، واپسی کے دو ہی چار دن کے بعد وفات پائی او رگھوم پھر کر بالآخر دیار حبیب کی خاک کا پیوند ہوئے۔ (اصابہ:3/118)

فضل وکمال

حضرت سلمہ رضی الله عنہ شرف صحبت سے بھی فیض یاب تھے اورغزوات میں آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کے ہم رکاب رہنے کا زیادہ موقع ملا تھا او رحاشیہ نشینان بارگاہ نبوت سے بھی استفادہ کرتے تھے، چناں چہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم کے علاوہ حضرت عمر، عثمان اور طلحہ رضی الله عنہم سے بھی روایتیں کی ہیں، اس لیے ان کی مرویات کی تعداد77 تک پہنچ جاتی ہے، جن میں سے 16 متفق علیہ ہیں اور 5 میں بخاری اور 9 میں امام مسلم منفرد ہیں۔ ( تہذیب الکمال، ص:148) ان کے رواة میں ایاس بن سلمہ، یزید بن عبید، عبدالرحمن بن عبدالله او رمحمد بن حنفیہ قابل ذکر ہیں۔ ( تہذیب التہذیب، تذکرہٴ سلمہ بن اکوع )

صدقات سے اجتناب

مگر اپنی ذات کے لیے صدقہ کا مال حرام سمجھتے تھے، اگر کسی چیز میں صدقہ کا شائبہ بھی ہوتا تو اس کا استعمال نہ کرتے، چناں چہ اپنی صدقہ کی کوئی چیز دوبارہ بقیمت خریدنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ ( ایضاً)

شدت احتیاط

تمام اوامر ونواہی میں احتیاط کا یہی حال تھا۔ (ابن سعد جز4ق:1/40) چناں چہ بعض ایسے کھیل جن میں جوئے کی مشابہت کا شائبہ نکلتا تھا اپنے بچوں کو نہ کھیلنے دیتے تھے۔ (اصابہ:3/118)

شجاعت

شجاعت وبہادری، خصوصاً پیدل تیز دوڑنے میں تمام صحابہ رضی الله عنہم میں ممتاز تھے۔ صاحب اصابہ لکھتے ہیں ”کان من الشجعان، ویسبق الفرس عَدوا“․ (اصابہ:3/118) یعنی وہ بہادروں میں سے ایک تھے اور دوڑ میں گھوڑوں سے مقابلہ کرتے تھے او ران سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہتر سواروں میں ابو قتادہ رضی الله عنہ او ربہتر پیادوں میں سلمہ بن اکوع رضی الله عنہ ہیں، اس تعریف کے بعد آپ کو دو حصے دیے۔ سوار کا الگ اور پیدل کا الگ۔ (ابن سعد جز4ق:2/39) 

بہشت کے باسی سے متعلق