نام نسب
زید نام، ابو اسامہ کنیت، حب رسول صلی الله علیہ وسلم لقب، والد کا نام حارثہ اور والدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے، زید بن حارثہ بن شرحبیل بن کعب بن عبدالعزیٰ بن امرایٴ القیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللاث بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن وبرہ بن ثعلب بن حلوان بن عمران بن الحاف بن قضاعہ ۔
ابتدائی حالات
گزشتہ بالا نسب سے ظاہر ہوا ہوگا کہ حضرت زید رضی الله عنہ کے والد حارثہ بنی قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے، جو یمن کا ایک نہایت معزز قبیلہ تھا، ان کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ بنی معن سے تھیں، جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی، وہ ایک مرتبہ اپنے صغیر السن بچے حضرت زید رضی الله عنہ کو ساتھ لے کر اپنے میکے گئیں، اسی اثناء میں بنو قین کے سوار، جو غارت گری سے واپس آرہے تھے، اس نو نہال کو خیمہ کے سامنے سے اٹھا لائے اور غلام بنا کر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا۔ ستارہ اقبال بلند تھا، غلامی میں بھی سیادت مقدر تھی، حکیم بن حزام نے چارسو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلدرضی الله عنہا کی خدمت میں پیش کیا، جن کی وساطت سے سرور عالم صلی الله علیہ وسلمکی غلامی کا شرف نصیب ہوا،جس پر ہزاروں آزادیاں اور تمام دنیا کی شہنشاہیاں قربان ہیں۔(طبقات ابن سعد، جلد ثانی، قسم اوّل،ص:27)
حضرت زیدرضی الله عنہ کے والد حارثہ بن شرحبیل کو قدرةً اپنے لخت جگر کے گم ہو جانے کا شدید غم ہوا، آنکھوں سے سیل اشک بہائے ،دل آتش فراق سے بھڑک اُٹھا اور محبت پدری نے الفاظ کی رنگ آمیزی سے اس طرح رنج والم کا نقشہ کھینچا # بکیت علی زید ولم ادر ما فعل
احی فیرجی ام اتی دونہ الاجل
”میں نے زید پر گریہ وزاری کی، لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کیا ہو گیا، آیا زندہ ہے جس کی امید رکھی جائے یا اسے موت آگئی“۔ فواللہ ما ادری وان کنت سائلا
اغالک سہل الأرض ام غالک الحیل
”خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں اگر چہ پوچھتا بھی ہوں کہ کیا تجھے نرم زمین نگل گئی یا پہاڑ کھا گیا ؟“
فیالیت شعری ہل لک الدہر رجعة
فحسبی من الدنیا رجوعک لی بحل
کاش!میں جانتا کہ آیا تیرا آنا کبھی ممکن ہے؟ پس تیرا واپس آنا ہی میرے لیے دنیا میں کافی ہے“۔
تذکرینہ الشمس عند طلوعہا
وتعرض ذکراہ إذا اقارب الطفل
” آفتاب اپنے طلوع ہونے کے وقت اس کو یاد دلاتا ہے اور جب غروب کاوقت قریب آ جاتا ہے تو اس کی یاد کو پھر تازہ کر دیتا ہے“۔
وان ہبت الارواح ہیجن ذکرہ
فیاطول ما حزنی علیہ ویا وجل
” باد بہاری کی لپٹ اس کی یاد کو برانگیختہ کر دیتی ہے، آہ!مجھے اس پر کس قدرشدید رنج والم ہے“۔
ساعمل نص العیش فی الأرض جاہداً
ولا اسام التطواف او تسام الابل
” عنقریب میں اونٹ کی طرح چل کر تمام دنیا چھان ماروں گا، میں اس آوارہ گردی سے اپنی زندگی بھر نہیں تھکوں گا، یہاں تک کہ اونٹ تھک جائے گا“۔
حیاتی او تاتی علي منیتی
وکل امرء فان وان غرہ الامل
” یا مجھ پر موت آجائے…ہر آدمی فانی ہے، اگر چہ سراب امید سے دھوکا دے“۔
واوصی بہ قیسا وعمرا کلیہما
واوصی یزیداً ثم من بعدہم جبل
”میں قیس اور عمرو دونوں کو اس کے جستجو کی وصیت کرتا ہوں اور یزید کو پھر ان کے بعد جبل کو وصیت کرتا ہوں“۔
جبل سے مراد جبلہ بن حارثہ ہیں، جو حضرت زید رضی الله عنہ کے بڑے بھائی تھے اور یزید ان کے اخیافی بھائی تھے۔
ایک سال بنی کلب کے چند آدمی حج کے خیال سے مکہ آئے تو انہوں نے اپنے یوسف گم گشتہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور یعقوب صفت باپ کا ماجرائے غم کہہ سنایا، بولے یقینا انہوں نے میری فرقت میں نوحہ خوانی کی ہوگی ،تم میری طرف سے میرے خاندان والوں کو یہ اشعار سنا دینا ۔ احن الی قومی وان کنت نائیا
بانی قطین البیت عند المشاعر
”میں اپنی قوم کا مشتاق ہوں ،گو ان سے دور ہوں، میں خانہ کعبہ میں مشعر حرام کے قریب رہتا ہوں“۔
فکفوا من الوجد الذی قد شماکم
ولا تعملوا فی الأرض نص الاباعر
” اس لیے اس غم سے باز آ جاؤ جس نے تم کوپُر الم بنا رکھا ہے اور اونٹوں کی طرح چل کر دنیا کی خاک نہ چھانو“۔
فانی بحمد اللہ فی خیر اسرة
کدام معدٍّ کابرا بعد کابر
” الحمد للہ کہ میں بنی معد کے ایک معزز اور اچھے خاندان میں ہوں،جو پشتہا پشت سے معزز ہے“۔
بنی کلب کے زائروں نے واپس جا کر ان کے والد کو اطلاع دی تو تعجب سے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وفوریاس نے یک بیک یقین نہ ہونے دیا۔ بولے:”رب کعبہکی قسم! کیا میرا ہی نور نظر تھا ؟ “ان لوگوں نے جب تفصیل کے ساتھ حلیہ، جائے قیام اورمربی کے حالات بیان کیے تو اس وقت اپنے بھائی کعب بن شرحبیل کو ہمراہ لے کر مکہ کی طرف چل کھڑے ہوئے اور حضرت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بصد منت ولجاجت عرض کی:”اے ابن عبد اللہ!اے ابن عبد المطلب !اے اپنی قوم کے رئیس زادے ا تم اہل حرم اور اس کے مجاور ہو، مصیبت زدوں کی دست گیری کرتے ہو، قیدیوں کو کھانا دیتے ہو، ہم تمہارے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ ہمارے لڑکے کو آزاد کر کے ہم کو رہین منت بنا دو، زر فدیہ جس قدر چاہو لو، ہم بیش قرار معاوضہ دینے کو تیار ہیں“ ۔ ارشاد ہوا:” وہ کون ہے؟“ بولے: ”زید بن حارثہ “ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زید کا نام سنا تو ایک لمحہ تفکر کے بعد فرمایا: کیا اس کے سوا کوئی اور حاجت نہیں؟ عرض کی:”نہیں !“فرمایا:”بہتر۔ زید رضی الله عنہکو بلا کر اختیار دو اگر وہ تمہیں پسند کرے تو تمہارا ہے اور اگر مجھے ترجیح دے تو خدا کی قسم !میں ایسا نہیں ہوں جو اپنے ترجیح دینے والے پر کسی کو ترجیح دوں“ ۔ حارثہ اور کعب نے اس شرط پر شکریہ کے ساتھ رضا مندی ظاہر کی ۔ حضرت زید رضی اللہ بلائے گئے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا :” تم ان دونوں کو پہچانتے ہو؟ “عرض کی:” ہاں!یہ میرے ماں باپ اور چچا ہیں“۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ میں قرعہ انتخاب دے کر فرمایا:” میں کون ہوں؟ اس سے تم واقف ہو، میری ہم نشینی کا حال بھی تم کو معلوم ہے ،اب تمہیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو“ ۔ حضرت زید رضی الله عنہ کو شہنشاہ کونین کی غلامی میں جو لطف ملا تھا اس پر صدہا آزادیاں نثار تھیں ۔ بولے:”میں ایسا نہیں ہوں جو حضور صلی الله علیہ وسلم پر کسی کو ترجیح دوں، آپ صلی الله علیہ وسلم ہی میرے ماں باپ ہیں “۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی اس مخلصانہ وفا شعاری نے ان کے باپ اور چچا کومحو حیرت کر دیا، تعجب سے بولے:زید !افسوس تم آزادی، باپ چچا اور خاندان پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو“۔ فرمایا: ”ہاں!مجھے اس ذات پاک میں ایسے ہی محاسن نظر آئے ہیں کہ میں اس پر کسی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتا“۔
حضرت زید رضی الله عنہنے اپنی غیر متزلزل وفا شعاری سے آقائے شفیق کے دل میں محبت کی دبی ہوئی چنگاری کو مشتعل کر دیا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں مقام حجر کے پاس ان کو لے جا کر اعلان فرمایا کہ زید آج سے میرا فرزند ہے میں اس کا وارث ہوں گا، وہ میرا وارث ہو گا۔ اس اعلان سے ان کے باپ اور چچا کے افسردہ دل گل شگفتہ کی طرح کھل گئے، گو والد کو مفارقت گوارا نہ تھی، تاہم اپنے لخت جگر کو ایک شفیق و معز ز باپ کی آغوش عاطفت میں دیکھ کر اطمینان ہو گیا اور امتنان ومسرت کے ساتھ واپس گئے ۔
اس اعلان کے بعد حضرت زید رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے انتساب کے ساتھ زید بن محمد صلی الله علیہ وسلمکے نام سے زبان زد عام و خاص ہوئے، یہاں تک کہ جب اسلام کا زمانہ آیا اور قرآن پاک کی الہامی زبان نے صرف اپنے نسبی آباء کے ساتھ انتساب کی ہدایت فرمائی تو وہ پھر حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ مشہور ہوئے ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جز ثالث،ص:27 تا29)
اسلام
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو خلعت نبوت عطا ہوا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے ابتدا ہی میں شرف بیعت حاصل کیا، محققین کا فیصلہ ہے کہ وہ غلاموں میں سب سے پہلے مومن تھے، حضرت حمزہ رضی الله عنہ ایمان لائے تو ان سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرا دیا، ان دونوں میں اس قدر محبت ہوگئی تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جب غزوات میں تشریف لے جاتے تھے تو ان ہی کو اپنا وصی بنا کر جاتے تھے۔(طبقات ابن سعد ،قسم اول، جز ثالث، تذکرہٴ حمزہ رضی الله عنہ)
شادی
حضرت ام ایمن رضی الله عنہا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی آیا اور کنیز تھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے اور اماں کہہ کر مخاطب فرماتے تھے، ایک روز آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کو ام ایمن رضی الله عنہا سے نکاح کرنا چاہیے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خوش نودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ان سے نکاح کر لیا، چناں چہ حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کیا، جو اپنے والد کے بعد حب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے لقب سے مشہور ہوئے ،ان ہی کے بطن سے مکہ میں پیدا ہوئے ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اول، جزثالث، تذکرہٴ حمزہ رضی الله عنہ،ص:30)
ہجرت
مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی طرح یہ بھی حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ کے مہمان ہوئے، حضرت اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ، جو قبیلہ عبد الاشہل کے معزز رئیس تھے، ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے، وہ اب تک خاندانِ نبوت کے ایک ممبر کی طرح آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، لیکن یہاں پہنچ کر آپ نے ان کے لیے ایک علیحدہ مکان مخصوص فرما دیا اور اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کر دیا، اس طرح در حقیقت یہ دوسرا طرہٴ افتخار تھا جو حضرت زید رضی اللہ عنہ کے دستار فضل پر نصب ہوا، لیکن یہ پیوند زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا ،نسبی و خاندانی عدم توازن نے دونوں کے سطح مزاج میں نشیب و فراز پیدا کر دیا، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے دربار نبوت میں بار بار نا موافقت کی شکایت کی اور بالآخر طلاق دینے پر مجبور ہو گئے، انقضائے عدت کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی معرفت پیام نکاح بھیجا تو انہوں نے کہا: ”جب تک خدا کی طرف سے کچھ حکم نہ آئے ،میں کچھ نہیں کر سکتی“ ۔ چناں چہ اس کے بعد ہی اس آیت نے ان کو امہات المومنین میں داخل کر دیا ہے۔(طبقات ابن سعد قسم اوّل جزوثالث،ص:30)
﴿فَلَمَّا قَضَیٰ زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا﴾․(الاحزاب،آیت:37)
”جب زیدنے حاجت پوری کی تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا“۔
حضرت زید رضی اللہ عنہچوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے متبنی اور زید بن محمدصلی الله علیہ و سلم کے نام سے مشہور تھے، اس لیے منافقین نے اس واقعہ کو نہایت ناگوار پیرا یہ میں شہرت دی اور کہنے لگے : ”محمد(صلی الله علیہ وسلم )ایک طرف تو بہو سے نکاح کرنا حرام قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے لڑکے زیدرضی الله عنہ کی بیوی سے نکاح کرتے ہیں! لیکن قرآن پاک نے اس مفسدہ پردازی کا اس طرح پردہ فاش کر دیا:
﴿مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَٰکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ﴾․
”محمد( صلی الله علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ،بلکہ وہ خدا کے رسول اور انبیاء کی مہر ہیں“۔
اور مسلمانوں کو حکم ہوا:﴿ادْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ﴾
”لوگوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو، یہ خدا کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے“۔
چناں چہ اس کے بعد ہی وہ اپنے والد حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مشہور ہوئے ۔(بخاری، کتاب التفسیر)
غزوات
حضرت زید رضی اللہ عنہ تیر اندازی میں مخصوص کمال رکھتے تھے ان کا شمار ان مشاہیر صحابہ رضی الله عنہم میں تھا جو اس فن میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے، معرکہ بدر سے غزوہ ٴموتہ تک ،جس قد را ہم و خون ریز معر کے پیش آئے سب میں پامردی و شجاعت کے ساتھ شریک کارزار ہوئے، غزوہ مریسیع میں چوں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو مدینہ میں اپنی جانشینی کا فخر بخشا، اس لیے اس مہم میں حصہ نہ لے سکے۔ (طبقات ابن سعد، حصہ مغازی)
متفرق کارنامے
مشہور معرکوں کے علاوہ اکثر چھوٹی چھوٹی مہمات خاص ان کی سپہ سالاری میں سر ہوئیں، حضرت عائشہ رضی الله عنہافرماتی ہیں کہ جس فوج کشی میں حضرت زید رضی اللہ عنہ شریک ہوتے تھے اس میں امارت کا عہدہ ان ہی کو عطا ہوتا تھا ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اول جزثالث،ص:31) اس طرح نو دفعہ سپہ سالار بنا کر بھیجے گئے ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جز ثالث،ص:31) ان مہمات میں سے پہلی مہم سر یہ قردہ تھی، جس میں انہوں نے غنیم کو نہایت کام یابی کے ساتھ شکست دی اور بہت سے اونٹ، مال و اسباب اور دشمن کے ایک سردار فرات بن دیان عجلی کو گرفتار کر کے لائے ۔(طبقات، حصہ مغازی، باب سریہ قردہ،ص:26)
ربیع الثانی 6ھ میں بنی سلیم کی سرکوبی پر مامور ہوئے، جو مقام جموم میں مسکن گزین تھے، اس مہم میں بھی حضرت زید رضی الله عنہ کو غیر معمولی کام یابی حاصل ہوئی، بہت سے اونٹ ،بکریاں اور قیدی پکڑ کر لائے۔ (ایضاً سریہ جموم،ص:62)
اسی سال قریش کے ایک قافلہ کو، جو شام سے واپس آ رہا تھا، روکنے کا حکم ہوا، حضرت زید رضی اللہ عنہ ایک سو ستر سواروں کے ساتھ یکا یک مقام عیص میں اس قافلہ پر جا پڑے اور تمام اہل قافلہ کو مع سامان گرفتار کر لائے، مال غنیمت میں چاندی کا ایک بڑا ذخیرہ ہاتھ آیا، جو صفوان بن امیہ کے لیے شام سے آ رہا تھا، قیدیوں میں ابو العاص بن الربیع رضی الله عنہ، آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکے داماد ،بھی تھے، جنہوں نے اپنی اہلیہ، سرور کائنات صلی الله علیہ وسلمکی دختر نیک اختر، حضرت زینب رضی الله عنہا کی پناہ حاصل کر کے مخلصی پائی ۔(طبقات ،حصہ مغازی، باب سریہ عیص،ص:63)
اسی سال ماہ جمادی الثانیہ میں مقام طرف پر حملہ آور ہوئے، لیکن کوئی جنگ نہ ہوئی، کیوں کہغنیم پہلے ہی خائف ہو کر بھاگ گیا تھا۔(طبقات حصہ مغازی باب سریہ طرف ،ص:463) اس کے بعد مقام حسمٰیپر فوج کشی ہوئی، پانچ سو جانباز مجاہدان کے زیر کمان تھے، حضرت زید رضی الله عنہ احتیاط کے خیال سے دن کو پہاڑوں میں چھپ جاتے تھے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے قطع منازل کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک روز یکا یک غنیمپر جا پڑے، ہنید اور اس کے خاندان کو جس نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قسطنطنیہ کی سفارت سے واپس آتے وقت لوٹ لیا تھا، تہ تیغ کیا اور ایک ہزار اونٹ ،پانچ ہزار بھیڑ بکریاں اور بہت سے قیدی گرفتار کر کے زید بن رفاعہ کے ساتھ دربار نبوت میں ارسال کیے، چوں کہ اس قوم کے ایک ممبر ابویزید بن عمرو نے دور اندیشی سے پہلے ہی پہنچ کر اسلام قبول کر لیا تھا ،اس لیے ان کی سفارش پر تمام قیدی رہا کر دیے گئے اور مال غنیمت واپس کر دیا گیا۔ پھر اسی سال ماہ رجب میں وادی قری کی مہم پر بھیجے گئے اور کام یابی کے ساتھ واپس آئے۔
ماہ رمضان المبارک6 ھ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ اسلامی کاروانِ تجارت کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، صحابہ کرام رضو ان الله علہیم اجمعین کا بہت سا سامان تجارت ان کے ساتھ تھا ،مدینہ سے سات منزل دور وادی قری کے نواح میں پہنچے تو بنی بدر کی ایک رہزن و غارت پیشہ جماعت نے تمام قافلہ کولوٹ لیا اور کلمہ گویان توحید کو سخت اذیتیں پہنچائیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ بمشکل جان بچا کر مدینہ واپس آئے اور دربار نبوت میں اس واقعہ کی اطلاع دی، چوں کہ اس قسم کے متعدد واقعات پیش آچکے تھے اس لیے حضرت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم نے ان کو ایک جمعیت کے ساتھ اس قبیلہ کی سرکوبی پر مامور فرمایا، حضرت زیدرضی الله عنہ کمال احتیاط کے ساتھ دن کو چھپتے ہوئے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے یکا یک ان ڈاکوؤں پر جاپڑے اور قرار واقعی سزادے کر مدینہ واپس آئے، انہوں نے آستانہ نبوت پر پہنچ کر دستک دی تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم جس حالت میں تھے اُسی حالت میں باہر تشریف لے آئے اور جوش مسرت سے گلے لگا کر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور دیر تک مفصل کیفیت دریافت فرماتے رہے۔(طبقات ابن سعد، حصہ مغازی، سریہ زیدالی ام القریٰ،ص:65)
مہم موتہ اور شہادت
موتہ دمشق کے قریب ایک مقام کا نام تھا، حضرت حارث بن عمیر از دی رضی اللہ عنہ، جو شاہ بصری کے دربار میں سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آ رہے تھے، اسی مقام پر شرحبیل بن عمرو غسانی کے ہاتھ سے شہید ہوئے، یہ پہلا موقعہ تھا کہ دربار رسالت کے ایک قاصد کے ساتھ اس قسم کی جسارت کی گئی ۔( ایضاً ،باب غزوہٴ موتہ) آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے انتقام کے لیے تین ہزار مجاہدین کی جمعیت فراہم کر کے، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو لوائے قیادت عطا کیا اور فرمایا اگر زید شہید ہوں تو جعفراور ان کے بعد عبد اللہ بن رواحہ اس جماعت کے امیر ہوں گے ۔(بخاری باب غزوہٴ موتہ) حضرت جعفر رضی اللہ عنہ چوں کہ اپنے مخصوص تعلقات کی بنا پر متوقع تھے کہ امارت کے طغرائے امتیاز ان کے سینہ پر آویزاں ہو گا، اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم)!میرا کبھی یہ خیال نہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم زید کو مجھ پر امیر بنائیں گئے۔ارشاد ہوا:” اس کو جانے دو، تم نہیں جان سکتے کہ بہتر کیا ہے؟“(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جز ثالث،ص:32)
جمادی الاولیٰ8ھ میں یہ مہم روانہ ہوئی، چوں کہغنیم کو اس فوج کشی کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی، اس لیے ایک لاکھ کا ٹڈی دل لشکر امنڈ آیا تھا، لیکن حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کثرت کی پروانہ کی اور علم سنبھال کر پیادہ پا دشمن کی صف میں گھس گئے، ان کے اتباع میں دوسرے سردارانِ فوج نے بھی ہلہ کر دیا، دیر تک گھمسان کی جنگ رہی ،اسی حالت میں نیزہ کے ایک وار نے اسلامی سالار فوج، یعنی حضرت خیر الا نام صلی الله علیہ وسلمکے محبوب غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، ان کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا اور شدید کشت و خون کے بعد واصل بحق ہوئے ،ان کے بعد حضرت خالد سیف اللہرضی الله عنہ نے علم ہاتھ میں لیا اور غازیان دین کو مجتمع کر کے ایک ایسا حملہ کیا کہ غنیم کے پاؤں اکھڑ گئے ۔(بخاری، باب غزوہٴ موتہ)
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے میدانِ جنگ سے اطلاع آنے کے قبل ہی لوگوں کو امرائے فوج کی خبر شہادت سنا دی اور وفورغم سے آبدیدہ ہو گئے۔(ایضاً) حضرت زید رضی اللہ عنہ کی ایک صاحب زادی شفیق باپ کا سایہ اُٹھ جانے سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ضبط نہ فرما سکے۔ اور اس قدر روئے کہ گلو گرفتہ ہو گئے ،حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:”یا رسول اللہ!یہ کیا ہے ؟“ فرمایا: ”یہ جذبہ محبت ہے“ ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل ،جز ثالث،ص:32)
انتقام
حضرت سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کو اپنے محبوب و وفا شعار غلام کی مفارقت کا شدیدغم تھا، حجة الوداع سے واپس آنے کے بعد ان کے صاحب زادہ حضرت اسامہ بن زیدرضی الله عنہما کو ایک جمعیت کے ساتھ انتقام پر مامور فرمایا، چوں کہ وہ نہایت کمسن تھے، اس لیے بعض نے ان کی سیادت پر ناپسندیدگی ظاہر کی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ پہلے جس طرح اس باپ کی سرداری پر طعن و طنز کرتے تھے اسی طرح اب اس کی امارت کو نا پسند کرتے ہو، خدا کی قسم! زید سزاوار امارت و محبوب ترین شخص تھا اور اس کے بعد اسامہ (رضی الله عنہ)مجھ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ۔(بخاری، ذکر اسامہ بن زید رضی الله عنہما)
یہ مہم ابھی روانہ ہی نہیں ہوئی تھی کہ آفتاب رسالت غروب ہو گیا، لیکن خلیفہ اول نے ہجوم مصائب و صعوبات گوناگوں کے باوجود کوچ کا حکم دے دیا اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اپنے پدر شفیق کے قاتلوں سے انتقام لے کر، غیر معمولی کام یابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔
اخلاق
حضرت زید رضی اللہ عنہ کے صحیفہ اخلاق میں وفا شعاری کا باب سب سے نمایاں ہے، گذشتہ واقعات سے اس کا اندازہ ہوا ہوگا، آقائے نام دار کی رضا مندی ان کا پر لطف مقصد حیات تھا، حضرت ام ایمن رضی الله عنہاگو ایک معمر عورت تھیں تاہم انہوں نے محض اس لیے ان سے نکاح کر لیا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ان کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہٴ ام ایمن رضی الله عنہا)
حضرت رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم اور ان کے متعلقین کا بے حد ادب و احترام ملحوظ رکھتے تھے، حضرت زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے پاس (جن کو انہوں نے نا موافقت کے باعث طلاق دے دی تھی) آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے پیام لے کر گئے تو محض اس خیال سے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائی ہے، تعظیماً دیکھ نہ سکے اورجو کچھ کہنا تھا منھ پھیر کر کہا۔ (مسلم ،باب زواج زینب بنت حجش رضی الله عنہا)
حضرت زید رضی اللہ عنہ کے اخلاقی کارناموں کی تفصیل نہیں ملتی، تا ہم در حقیقت ان کے وہ اوصاف حسنہ و محاسن جمیلہ ہی تھے جس نے ان کو اور ان کی اولاد کو حضرت رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب بنا دیا تھا، حضرت عائشہ رضی الله عنہافرماتی ہیں کہ اگر وہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد زندہ رہتے تو آپ ان ہی کو اپنا جانشین بناتے ۔(طبقات ابن سعد، قسم اول، جز ثالث، ص:31)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے ایک دفعہ ان کے پوتے محمد بن اسامہ کو مدینہ کی مسجد میں دیکھا تو تعظیم سے گردن جھکالی اور بولے اگر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دیکھتے تو اس کو بھی محبوب رکھتے ۔(بخاری، ذکر اسامہ بن زید رضی الله عنہ)
حلیہ اور عمر
حضرت زید رضی اللہ عنہ کا حلیہ یہ تھا، قد کوتاہ، ناک پست اور رنگ گہرا گندمی – 54 تا55 برس کی عمر میں شہادت پائی۔(اصابہ، تذکرہ زید بن حارثہ رضی الله عنہ)
ازواج
مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، بیویوں کے نام یہ ہیں۔
ام ایمن ،ام کلثوم بنت عقبہ، درہ بنت ابولہب، ہند بنت العوام، زینب بنت جحش، ناموافقت کے باعث ان کو طلاق دے دی اور اس کے بعد وہ امہات المومنین میں شامل کی گئیں۔(اسد الغابہ ،تذکرہ زید بن حارثہ رضی الله عنہ)
اولاد
دولڑ کے اسامہ بن زید، زید بن زید اور ایک لڑکی رقیہ پیدا ہوئی، لیکن حضرت اسامہ رضی الله عنہ کے سوا مؤخر الذکر دونوں بچوں نے بچپن ہی میں داغ مفارقت دیا۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل ،جز ثالث،ص:30)