حضرت خنساء رضی اللہ عنہا

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا

مولانا سعید انصاری

نام ونسب

تماضر نام ”خنساء“ لقب، قبیلہ قیس کے خاندان سلیم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے: خنساء بنت عمرو بن الشرید بن رباح بن یقظہ بن عصیہ بن خفاف بن امرا القیس بن بہثہ بن سلیم بن منصور بن عکرمہ بن حفصہ بن قیس عیلان بن مضر، نجد کی رہنے والی تھیں۔

نکاح

پہلا نکاح قبیلہ سلیم کے ایک شخص رواحہ بن عبد العزیز سے ہوا، اس کے انتقال کے بعد مرداس بن ابو عامر کے عقد نکاح میں آئیں۔ (طبقات الشعراء لابن قتیبہ ص197 (اسد الغابہ ج 5 ص441))

عام حالات

حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ (عراق) میں جنگ ہوئی تو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان میں آئیں اور ان کو مخاطب کر کے یہ نصیحت کی، پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے، ورنہ تم اپنے ملک کو بھاری نہ تھے اور نہ تمہارے یہاں قحط پڑا تھا، باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا، خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو، میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے، خداوندتعالی فرماتا ہے: ﴿یایھا الذین آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا﴾

اس بنا پر صبح اٹھ کر لڑنے کی تیاری کرو اور آخر وقت تک لڑو۔ (اسد الغابہ ج5 ص442) چناں چہ بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اٹھائیں اور نہایت جوش میں رجز پڑھتے ہوئے بڑھے اور شہید ہوئے، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی تو خدا کا شکر ادا کیا۔ حضرت عمر ؓ ان کے لڑکوں کو ۲۰۰ درہم سالانہ وظیفہ عطا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد یہ رقم حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کو ملتی رہی۔ (اسد الغابہ ج5 ص442)

وفات

اس واقعہ کے دس برس کے بعد حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے وفات پائی، سال وفات 24ھ ہے۔

اولاد

چار لڑکے تھے، جو قادسیہ میں شہید ہوئے، ان کے نام یہ ہیں: عبد اللہ، ابو شجرہ (پہلے شوہر سے تھے)۔ زید، معاویہ (دوسرے شوہر سے)۔

فضل وکمال

اقسام سخن میں سے مرثیہ میں حضرت خنساء رضی اللہ عنہا اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔ صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں:
اجمع اھل العلم بالشعر انہ لم تکن امرء ة قبلھا ولا بعدھا اشعرمنھا․ (اسد الغابہ ج5 ص 441)

”یعنی ناقدین سخن کا فیصلہ ہے کہ خنساء رضی اللہ عنہا کے برابر کوئی عورت شاعر پیدا نہیں ہوئی“۔

لیلائے اخیلیہ کو شعراء نے تمام شاعر عورتوں کا سر تاج تسلیم کیا ہے، تاہم اس میں بھی حضرت خنساء رضی اللہ عنہا مستثنیٰ رکھی گئی ہیں۔ (طبقات الشعراء ص ۲۷۱) بازار عکاظ میں جو شعرائے عرب کا سب سے بڑا مرکز تھا، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ ان کے خیمے کے دروازہ پر ایک علم نصب ہوتا تھا، جس پر یہ الفاظ لکھے تھے أرثی العرب یعنی عرب میں سب سے بڑی مرثیہ گو، نابغہ جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا شاعر تھا اس کو حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے اپنا کلام سنایا تو بولا کہ اگر میں ابوبصیر (اعشیٰ) کا کلام نہ سن لیتا تو تجھ کو تمام عالم میں سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا۔(طبقات الشعراء ص 198)

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا ابتداءً ایک دو شعر کہتی تھیں۔ لیکن صخر کے مرنے سے ان کو جو صدمہ پہنچا اس نے ان کی طبیعت میں ایک ہیجان پیدا کردیا تھا۔ چناں چہ کثرت سے مرثیے لکھے ہیں، یہ شعر خاص طور پر مشہور ہے:
وان صخراً لتأتم الھُداة بہ
کأنہ علَم فی رأسہ نار

صخر کے بڑے بڑے لوگ اقتدا کرتے ہیں، گویا وہ ایک پہاڑ ہے، جس کی چوٹی پر آگ روشن ہے۔

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا دیوان بہت ضخیم ہے، 1888ء میں بیروت میں مع شرح کے چھاپا گیا ہے، اس میں حضرت خنساءرضی اللہ عنہا کے ساتھ60 عورتوں کے اور بھی مرثیے شامل ہیں۔ 1889ءء میں اس کا فرنچ زبان میں ترجمہ ہوا اور دوبارہ طبع کیا گیا۔