حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام ونسب

خالد نام، ابو سلیمان کنیت ،سیف اللہ لقب ،سلسلہ نسب یہ ہے، خالد بن ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر و بن مخزوم مخزومی، ماں کا نام لبا نہ تھا، یہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی الله عنہاکی قریبی عزیز تھیں ۔

خاندانی حالات

خالد رضی اللہ عنہ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے معزز چلا آتا تھا، قبہ اور اعنہ یعنی فوج کی سپہ سالاری اور فوجی کیمپ کے انتظام کا عہدہ ان ہی کے خاندان میں تھا۔(عقد الفرید ،ج:2) اور ظہور اسلام کے وقت حضرت خالد رضی اللہ عنہ اس عہدہ پر ممتاز تھے۔ (استیعاب:1/157) چناں چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کا جو دستہ مسلمانوں کی نقل و حرکت کا پتہ لگانے آیا تھا اس کے سردار حضرت خالد رضی اللہ عنہ ہی تھے۔(بخاری ،کتاب المغازی، باب الشروط فی الجہاد والمصالحة مع اہل الحرب) غزوہ احد میں مسلمانوں کے خلاف بڑی شجاعت سے لڑے اور مشرکین مکہ کے اکھڑے ہوئے پاؤں ان ہی کی ہمت افزائی سے دوبارہ جمے۔

اسلام

ان کے اسلام کے بارہ میں مختلف روایتیں ہیں، سب میں مستند روایت مسند احمد ابن حنبل کی ہے، اس کی رو سے ان کے اسلام کا زمانہ سن6ھ اورسن8ھ کے درمیان ہے، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لانے کے قصد سے حبشہ سے چل کر عرب آئے اور اس کے لیے مدینہ کا رخ کیا تو راستہ میں قریش کا ایک اور خوش قسمت ہیرہ اسی غرض سے مدینہ کا رہ رو نظر آیا، یہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، وہ بھی اسلام ہی لانے کی نیت سے مدینہ جا رہے تھے، عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے ان کو راستہ میں دیکھ کر پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ بولے خدا کی قسم! خوب پانسہ پڑا یہ شخص (آں حضرت صلی الله علیہ وسلم)یقینا نبی ہے۔ چلو اسلام کا شرف حاصل کریں، آخر کب تک؟ چناں چہ یہ دونوں ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور پہلے حضرت خالد رضی الله عنہ، پھر حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ، مشرف باسلام ہوئے ۔(تفصیل کے لیے دیکھو مسند احمد بن حنبل:4/198)

ہجرت

قبول اسلام کے بعد عمرو بن العاص رضی الله عنہ مکہ لوٹ آئے، مگر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مدینہ ہی میں مستقل قیام اختیار کر لیا۔

غزوات

جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ ظہور اسلام کے وقت خالد رضی اللہ عنہ اپنے خاندانی عہدہ پر ممتاز تھے، اسلام کے بعد بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کا یہ اعزاز قائم رکھا، اس سے فتوحات اسلامی میں بڑی مدد ملی۔

خالدرضی الله عنہ جس طرح قبول اسلام سے پہلے مسلمانوں کے سخت دشمن تھے اسی طرح اسلام کے بعد مشرکوں کے لیے سخت ترین خطرہ بن گئے، چناں چہ اکثر غزوات میں ان کی تلوار مشرکین کا شیرازہ بکھیرتی رہی۔

غزوہٴ موتہ

اسلام لانے کے بعد سب سے پہلے غزوہٴ موتہ میں شریک ہوئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دعوت اسلام کے سلسلہ میں حارث بن عمیر از دی کے ہاتھ ایک خط شاہ بصری کے پاس بھیجا تھا ،یہ بزرگ خط لے کر مقام مو تہ تک پہنچے تھے کہ شرحبیل بن عمرو غسانی نے شہید کر دیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اور عام مسلمانوں پر اس کا سخت اثر ہوا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے انتظام کے لیے 2ہزار کی جمعیت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روانہ کی۔(ابن سعد، حصہ مغازی،ص:92) اور ہدایت فرمائی کہ اگر زید شہید ہوں تو جعفران کی جگہ لیں، اگر یہ بھی شہید ہوں تو عبد اللہ بن رواحہ قائم مقامی کریں، چناں چہ اسی ترتیب سے تینوں بزرگوں نے میدان جنگ میں جام شہادت پیا، آخر میں حضرت خالد رضی الله عنہ نے علم سنبھالا ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، غزوہٴ موتہ) مگر مسلسل تین افسروں کی شہادت سے مسلمانوں کے دل ٹوٹ چکے تھے،اس لیے وہ دوبارہ شکست تو نہ دے سکے، مگر خالدرضی الله عنہ اپنی جنگی قابلیت سے باقی ماندہ فوج کو بچا لائے، اس جنگ میں خالد رضی الله عنہ کے ہاتھ سے 9 تلواریں ٹوٹی تھیں ،جس کے صلہ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کو” سیف اللہ“ کا معزز لقب عطا فرمایا تھا ۔(ایضاً)

فتح مکہ

فتح مکہ میں میمنہ کے افسر تھے ۔(مسلم:2/186،طبع مصر) لیکن جنگ کی نوبت نہیں آئی، روسائے قریش نے بلا مزاحمت ہتھیار ڈال دیے، صرف چند مشرک حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنا دستہ مکہ کے بالائی حصہ کدا کی جانب سے لے کر آئیں، چناں چہ یہ آ رہے تھے کہ راستہ میں مشرکین کا ایک جتھا مزاحم ہوا اور پیہم تیر باری شروع کر دی، حضرت خالد رضی الله عنہنے بھی جوابی حملہ کیا، اس میں چند مشرک مارے گئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکوخبر ہوئی تو آپ نے باز پرس کی ،انہوں نے کہا کہ ابتدا ان ہی کی جانب سے ہوئی تھی، آپ نے فرمایا خیر، مرضی الہٰی، بہتر ہے۔ (ابن سعد حصہ مغازی، ص:98 وبخار ی باب فتح مکہ)

غزوہٴ حنین

فتح مکہ کے بعد بنو ثقیف و ہوازن اوطاس کے میدان میں جمع ہوئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ بارہ ہزار فوج کے ساتھ مقابلہ کو نکلے، قبیلوں کے لحاظ سے فوج کے مختلف حصے تھے بنو سلیم کا قبیلہ مقدمة الجیش تھا، اس کی کمان حضرت خالد رضی الله عنہ کے ہاتھ تھی ۔(ابن سعد، حصہ مغازی،ص:108)چناں چہ اس جنگ میں وہ نہایت شجاعت و شہامت سے لڑے اور بہت سے وار جسم پر کھائے،آں حضرت صلی الله علیہ وسلم عیادت کے لیے تشریف لائے، زخموں کو دم کیا اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ جلد شفا یاب ہو گئے ۔(اسد الغابہ:2/103)

طائف

حنین کے مشرکوں کی شکست خوردہ فوج بڑھ کر طائف کے قلعہ میں قلعہ بند ہو گئی اور جیسے ہی مسلمان ادھر سے گزرے اس نے قلعہ کے اندر سے تیر برسانا شروع کر دیے، بہت سے مسلمان شہید ہو گئے، مسلمانوں نے بھی مدافعانہ حملہ کیا، اس فوج کا مقدمہ الجیش بھی حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں تھا۔ (ابن سعد، حصہ مغازی،ص:114)

تبوک

9ھ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو خبر ملی کہ رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف شام میں فوج جمع کی ہے اور اس کا مقدمہ الجیش بلقاء تک پہنچ چکا ہے۔ چناں چہ آپ30 ہزار فوج لے کر مقابلہ کو نکلے، لیکن خبر غلط نکلی اور جنگ کی نوبت نہیں آئی، تاہم احتیاطاً 20 دن مقام تبوک میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے قیام فرمایا ہے۔(ابن سعد، حصہ مغازی،ص:114) اس نواح کے عربی النسل عیسائی روسا قیصر روم کے ماتحت تھے، ان ہی کے ذریعہ سے رومی ریشہ دوانیاں کیا کرتے تھے، اس لیے ان کا مطیع کرنا ضروری تھا، چناں چہ ایلہ اور اذرح کے رئیسوں نے اطاعت قبول کر لی ۔(زرقانی:3/86) صرف دومة الجندل کا رئیس اکیدر بن عبد الملک باقی رہ گیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی الله عنہ کو چار سو آدمیوں کے ساتھ اس کو مطیع بنانے پر مامور فرمایا، اس کے بھائی حسان نے مقابلہ کیا ،مگر مارا گیا اور اس کے بقیہ ساتھی بھاگ کر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے، حضرت خالد رضی الله عنہ نے اکیدر کو گرفتار کر کے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، یہاں آ کر اس نے بھی جزیہ دے کر اطاعت قبول کر لی اور آپ نے اس کو جان و مال کا امان نامہ عطا فرمایا۔

سریہ بنو جذیمہ

اسی سن میں دعوت اسلام کے سلسلہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی الله عنہ کو تین سو مہاجرین و انصار کے ساتھ بنو جذیمہ کی طرف بھیجا، انہوں نے آپ کی ہدایت کے مطابق ان کو اسلام کی دعوت دی، انہوں نے قبول کر لی ،مگر نا واقفیت کی وجہ سے صحیح الفاظ میں اسلام کا اظہار نہ کر سکے اور بجائے ”اسلمنا“ کے ،یعنی ہم اسلام لائے ”صبانا“ کہا ،یعنی ہم بے دین ہو گئے، مشرکین سے وہ مسلمانوں کو صابی بے دین کہتے ہوئے سنتے تھے ،اس لیے انہوں نے بھی ان ہی الفاظ میں اسلام کا اظہار کیا، حضرت خالد رضی الله عنہ اس کو نہ سمجھ سکے اور سب کی گردنیں اڑانے کا حکم دے دیا، بہت سے مہاجرین وانصار نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا، پھر بھی لوگ مارے گئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے یہ واقعہ سنا تو بہت متاسف ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر اس سے برأت ظاہر کر دی کہ خدایا!میں خالد کے اس فعل سے بری ہوں۔(بخاری، کتاب المغازی، باب سریہ بنو جذیمہ) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سب کی دیت دے کر بھیجا، انہوں نے سب کو جان و مال کا پورا معاوضہ دیا۔(ابن سعد ،حصہ مغازی،ص:107) اور کتوں تک کا خون بہا ادا کیا اور اس کے بعد جتنا مال بچا ،سب ان ہی لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ (اسد الغابہ:2/102)

سریہ نجران

اس سلسلہ کا ایک اور سریہ 10ھ میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی سرگرمی میں بنو عبد المدان نجرانی کی طرف بھیجا گیا، چوں کہ ایک مرتبہ خالد رضی الله عنہ کی جلد بازی کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا ،اس لیے اس مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے خاص طور سے ہدایت فرما دی کہ محض اسلام کی دعوت دینا، تلوار نہ اٹھانا۔ حضرت خالد رضی الله عنہ نے اس کی پوری پابندی کی اور میدان جنگ کے سپاہی دفعتًا مبلغ اسلام کے قالب میں آگئے اور ان کی کوشش سے بنو عبد المدان نے اسلام قبول کر لیا اور سیف اللہ نے ان کی مذہبی تعلیم وتربیت کے بعد جب یہ لوگ اسلامی مسائل سے واقف ہو گئے تو آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کو اطلاع دی، آپ نے سب کو طلب فرمایا، چناں چہ یہ لوگ حاضر ہوئے اور دیدار جمال نبوی سے فیض یاب ہو کر واپس گئے۔(زر قانی:3/116)

سریہٴ یمن

اسی سن میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک سریہ یمن روانہ کیا، اسی سریہ میں دوسری جانب سے حضرت خالد رضی الله عنہ کو روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ جب دونوں ملیں تو امارت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق رہے گی ۔(ابن سعد، حصہ مغازی،ص:122) اور چلتے چلتے یہ ہدایت فرمادی کہ جنگ کا آغاز تمہاری جانب سے نہ ہو، البتہ اگر یمن والے پیش قدمی کریں تو تم مدافعت کر سکتے ہو۔ چناں چہ ان لوگوں نے یمن پہنچ کر اسلام پیش کیا، لیکن اس کا جواب تیر اور پتھر سے ملا ،اس وقت مسلمانوں نے جوابی حملہ کیا اور یمنی پسپا ہوئے، مگر ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی گئی، بلکہ دوبارہ پھر اسلام پیش کیا گیا اور انہوں نے بلا جبر واکراہ اس کو قبول کر لیا۔

سریہ عزیٰ

عزی قریش و کنانہ کا صنم کدہ تھا، جس کی یہ لوگ بڑی عظمت کرتے تھے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خالد رضی الله عنہ کو اس کے گرانے پر مامورفرمایا ،انہوں نے اس کی تعمیل کی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تم نے وہاں کچھ دیکھا بھی تھا؟ عرض کی نہیں، فرمایا پھر جاؤ ،اس گرانے کا اعتبار نہیں، چناں چہ وہ دوبارہ واپس گئے، اس مرتبہ یہاں ایک بھیانک شکل کی عورت نکلی ، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اس کا کام تمام کر کے آں حضرت کو اطلاع دی، فرمایا ہاں! جاؤ۔ اب تم نے کام پورا کیا۔ (ابن سعد، حصہ مغازی،ص:105)

مدعیان نبوت کا استیصال

عہد صدیقی میں جب مدعیان نبوت کا فتنہ اٹھا اور اس کے استیصال کے لیے فوجیں روانہ کی گئیں تو خالد رضی الله عنہ طلیحہ کی سرکوبی پر مامور ہوئے، انہوں نے اس کا بہت کام یاب مقابلہ کیا اور اس کے اعوان و انصار کو قتل اور اس کے قوت و باز و عیینہ بن حصن کو 30 آدمیوں کے ساتھ گرفتار کر کے پابجولان در بار خلافت میں حاضر کیا۔(یعقوبی:2/145)

یمامہ میں شرحبیل بن حسنہ مشہور کذاب مسیلمہ سے برسر پیکار تھے، خالد رضی الله عنہ طلیحہ سے فارغ ہو کر ان کی مدد کو بڑھے، راستہ میں مجاعہ ملا اس کے ساتھیوں سے مقابلہ ہوا، ان کو شکست دے کر مجاعہ کو گرفتار کر کے یمامہ پہنچے اور مسیلمہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مشہور قاتل وحشی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا ۔(ایضاً،ص:146)

مرتدین کی سرکوبی

مدعیان نبوت کی مہم سے فارغ ہو کر منکرین زکوة اور مرتدین کی طرف بڑھے اور سب سے پہلے اسد وغطفان سے نبرد آزما ہوئے، ان میں کچھ جان سے مارے گئے اور کچھ گرفتار ہوئے، جو باقی بچے وہ تائب ہو گئے۔ ان معرکوں کے علاوہ ارتداد کے سلسلہ میں جس قدر لڑائیاں ہوئیں، ان سب میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے۔ طبری کے یہ الفاظ ہیں:

”ان الفتوح فی اہل الرادة کلہا کانت لخالد بن ولید وغیرہ“․(طبری واقعات11ھ)

” یعنی ارتداد میں جتنی فتوحات ہوئیں وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وغیرہ کا کارنامہ ہے“۔

عراق پر فوج کشی اور اس کے اسباب

جزیرة العرب اس عہد کی دو عظیم الشان سلطنتوں کے درمیان گھرا ہوا تھا، ایک طرف شام میں رومی چھائے ہوئے تھے دوسری طرف عراق پر کیسانی خاندان قابض تھا، یہ دو سلطنتیں ہمیشہ عربوں کی آزادی سلب کرنے کی فکر میں رہتی تھیں، گو پورے طور پر عربوں پر ان کا قابو نہ چلا، تاہم جب بھی ان کو موقع ملا انہوں نے عرب پر تسلط جمانے کی کوشش کی، یمن کے حمیری خاندان کا خاتمہ ایرانیوں کے ہاتھوں ہوا۔ گوحمیری برائے نام حکم ران رہے، مگر اس کا سیاہ سپید تمام تر ایرانیوں کے ہاتھ میں تھا، بحرین اور عمان بھی ان کے زیر اثر تھے، ان کے علاوہ مختلف اوقات میں عرب کے سولہ مقامات ایرانیوں مرزبانوں کے قبضہ میں رہ چکے تھے۔(تاریخ الملوک حمزہ اصفہانی،ص:90، مطبوعہ برلن) عراقی لخمی خاندان کو بھی ایرانیوں ہی نے مٹایا، ایرانیوں کا یہ اقتدار ظہور اسلام کے وقت تک باقی تھا، چناں چہ جنگ ذی قار میں جب ایرانیوں نے عربوں سے شکست کھائی تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا آج عرب نے عجم سے اپنا منصفانہ بدلہ لیا۔(اسد الغابہ:5/104) یہی حال قیصر حکومت کا تھا ،جب جب اس کو موقع ملتا تھا، شام کی جانب سرزمین عرب میں قدم بڑھاتی رہی ،شام میں جو عرب خاندان آباد تھے، ان پر آل جفنہ قیصر کی جانب سے حکومت کرتے تھے ،گو آل جفنہ عربی النسل تھے ،لیکن ان کا تقرر قیصری حکومت کرتی تھی۔(تاریخ الملوک من:76) حبشہ کے عیسائیوں نے رومیوں کے اشارے سے عرب کی مرکزیت توڑ نے کے لیے یمن کو فتح کر کے صنعاء میں ایک کعبہ بنایا کہ خانہ کعبہ کے پجاری تقسیم ہو جائیں ۔(سیرة ابن ہشام:1/69)

ظہور اسلام کے بعد جب عرب متحد ہو کر ایک مرکز پر جمع ہو گئے تو ان دونوں سلطنتوں کے لیے عرب کا سوال اور زیادہ اہم ہو گیا، اگر پہلے ملک گیری کی ہوس تھی تو اب عربوں سے سیاسی خطرہ نظر آ رہا تھا، چناں چہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے خسرو پرویز کو دعوت اسلام کا خط لکھا تو اس نے چاک کر ڈالا اور بولا میرا غلام مجھ کو یوں لکھتا ہے اور فورا آپ کی گرفتاری کا فرمان جاری کیا۔(طبری،ص:1872) اسی طرح شرحبیل بن عمرو نے جو قیصر کی جانب سے بصری کا حاکم تھا، آں حضرتصلی الله علیہ وسلم کے قاصد کو قتل کرا دیا، غرض ان حالات میں عرب کی خود مختاری کو باقی رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ان دونوں پر یہ حقیقت ظاہر ہو جائے کہ اب عربوں سے کھیلنا آسان کام نہیں ہے، تاہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک کوئی پیش قدمی نہیں کی ۔

لیکن وہ قبائل جو ہمیشہ سے ایرانی حکومت کا تختہ مشق بنتے چلے آرہے تھے، انتقام کے جذبات سے لبریز تھے، چناں چہ عہد صدیقی میں جب ایران میں بد نظمی پیدا ہوئی اور ایرانیوں نے کسری بن ہرمز کی لڑکی کو ایران کے تخت پر بٹھایا تو ان قبائل کے جذبات انتقام دفعتًابھڑک گئے اور مثنی بن حارث شیبانی رضی اللہ عنہ نے اپنا جتھا لے کر عراق عجم کی سرحد پر تاخت و تاراج شروع کر دی، لیکن بغیر خلیفہ وقت کی سر پرستی کے کام یابی مشکل تھی، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے باضابطہ اجازت حاصل کی، آپ نے خالد بن ولید رضی الله عنہ کو ان کی امداد پر مامور کیا اور شرف امارت بھی عطا کیا۔ (فتوح البلدان،فتوح عراق)

عراق کی فوج کشی

چناں چہ حضرت خالد رضی الله عنہ فتنہ ارتداد کی مہموں سے فارغ ہو کر عراق کی طرف بڑھے اور مقام نباج میں مثنیٰ رضی الله عنہ سے مل گئے اور بانقیا اور با رسوما کے حاکموں کو مطیع کرتے ہوئے ایلہ کی طرف بڑھے، یہ مقام جنگی نقطہ نظر سے بہت اہم تھا، یہاں عرب و ہندوستان کے بری و بحری خطوط آ کر ملتے تھے ،چناں چہ یہاں کا حاکم ہرمزان ہی راستوں سے دونوں مقام پر حملے کیا کرتا تھا۔(ابن خلدون:2/79) ہرمز کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبر ہوئی تو فوراً اردشیر کو دربار ایران اطلاع بھیجی اور خود مقابلہ کے لیے بڑھا ،کا ظمہ میں دونوں کا مقابلہ ہوا ،ایرانیوں نے اپنے کو زنجیروں میں جکڑ لیا تھا کہ پاؤں نہ اکھڑ نے پائیں، لیکن قعقاع بن عمرو کی شجاعت نے زنجیر آہن کے ٹکڑے کر ڈالے اور ایرانیوں نے بری طرح شکست کھائی۔

جنگ مذار

ابھی یہ معرکہ ختم ہوا تھا کہ ایرانیوں کی امدادی فوج کو جو قارن بن قریانس کی ماتحتی میں ہرمز کی مدد کو آ رہی تھی ، مذار میں ہرمز کے قتل اور ایرانیوں کی شکست کی خبر ملی، اس لیے قارن نے اس جگہ اپنی فوج کی تنظیم کی اور شکست خوردہ فوج کے سردار قباز اور انوشجان کو امیر العسکر بنا کر نہر کے قریب پڑاؤ ڈالا، خالد رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہوئی، تو وہ فوج لے کرمذار کی طرف بڑھے، لب دریا دونوں کا مقابلہ ہوا، معقل نے قارن کو اور عاصم نے انوشجان کو اور عدی نے قباذ کو ختم کیا اور اس شدت کی جنگ ہوئی کہ تیس ہزار ایرانی کام آئے، یہ تعداد اس کے علاوہ ہے جو نہر میں ڈوب کر مرے۔ (طبری،ص:2028-2027)

جنگ کسکر

جنگ مذار کے انجام کی خبر ایرا ن پہنچی تو اردشیر نے اندر زغر اور بہمن کو یکے با دیگرے مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا، اندرز غر مدائن اور کسکر ہوتا ہوا ولجہ پہنچا، حیرہ اور کسکر کے تمام دہقانی اور آس پاس کے عرب بھی ایرانیوں کی حمایت میں اپنی فوجیں لے کر اندر زغر کے قریب آ کر خیمہ زن ہوئے ،اس درمیان میں بہمن بھی پہنچ گیا، خالد رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو سوید بن مقرن رضی الله عنہ کو ایک دستہ پر مامور کر کے ضروری ہدایات دے کر پیچھے چھوڑا اور خود بڑھ کر مورچہ بندی میں مصروف ہو گئے اور ساحل کی قربت سے فائدہ اٹھا کر نشیبی زمین میں تھوڑی فوج چھپادی کہ جنگ چھڑنے کے بعد وہ نکل کر حملہ آور ہو جائے، اس انتظام سے فراغت کے بعد جنگ چھڑ گئی، دیر تک گھمسان کا رن پڑتا رہا، جب فریقین تھکنے لگے تو مسلمان کمین گاہوں سے نکل کر ٹوٹ پڑے ،اس اچانک حملے نے ایرانیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے، مگر وہ جدھر بھاگتے تھے مسلمان سامنے تھے، اس لیے جو سپاہی جہاں تھا وہیں ختم ہو گیا، اندر زغر نکل بھاگا، لیکن پیاس کی شدت سے وہ مر گیا، جنگ کے بعد مسلمانوں نے عام آبادی سے کوئی تعرض نہیں کیا اور ان کو پوری آزادی دے دی ۔(طبری:4/2031)

جنگ الیس

گزشتہ جنگ میں عربی النسل عیسائی قبائل بھی ایرانیوں کی حمایت میں مارے گئے تھے، اس لیے جنگ کسکر کے بعد یہ لوگ پورے طور سے ایرانیوں کے ساتھ ہو گئے، ارد شیر نے بہمن کو عربی قبائل سے مل جانے کا حکم دیا، چناں چہ بہمن الیس کی طرف بڑھا اور یہاں کے حاکم کو یہ ہدایت دے کر کہ میری واپس تک جنگ شروع نہ کرنا الیس روانہ کر دیا اور خود اردشیر کے پاس مشورے کے لیے چلا گیا، وہاں سے لوٹا تو باقی عربی قبائل اور عربی چھاؤنی کی ایرانی سپاہ اکٹھا ہو چکی تھی، اس درمیان میں خالدرضی الله عنہ بھی پہنچ گئے، ان کے پہنچتے ہی جنگ شروع ہوگئی، دیر تک کشت و خون کا سلسلہ جاری رہا، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے منادی کرا دی کہ لڑائی روک کر لوگوں کو صرف گرفتار کرو، چناں چہ مسلمان دار و گیر میں مصروف ہو گئے اور لڑنے والوں کو زندہ گرفتار کر کے نہر کے کنارے قتل کرنا شروع کر دیا اور ایرانی بری طرح مفتوح ہوئے ۔(ابن خلدون جلد:2/80 وطبری:4/2031 تا2037)

الیس سے فراغت کے بعدحضرت خالد رضی اللہ عنہ امغیشیا کی طرف بڑھے، یہاں کے باشندے مسلمانوں کا رخ دیکھ کر پہلے ہی شہر خالی کر چکے تھے، اس لیے جنگ کی نوبت نہیں آئی ۔

امغیشیا

امغیشیا کے قریب ہی حیرہ تھا، یہاں کے حاکم آزاد بہ کو خطرہ پیدا ہوا کہ مسلمان امغیشیا کی طرف بڑھیں گے، اس لیے اس نے حفظِ ما تقدم کے طور پر اپنے لڑکے کو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو روکنے کے لیے آگے بھیج دیا اور پیچھے سے خود مدد کے لیے پہنچا، امغیشیا اور حیرہ کے درمیان نہر فرات تھی، آزاد بہ کے لڑکے نے اس کا بند باندھ دیا، اس سے مسلمانوں کی کشتیاں رک گئیں اور ملاحوں نے جواب دیا کہ ایرانیوں نے نہر کا رخ پھیر دیا ہے ،اس لیے کشتیاں نہیں چل سکتیں، مسلمان کشتیوں سے اتر پڑے اور گھوڑے پر ابن آزاد بہ کی طرف بڑھے، فرات کے دہانہ پر دونوں کا مقابلہ ہوا، ابن آزاد بہ مارا گیا اور فوج بھی تباہ ہوئی ۔(ابن اثیر:2/298)

حیرہ کی صلح

اس کے بعد دریا کا بند کھول کر مسلمان حیرہ کی طرف بڑھے، لیکن ان کے پہنچنے کے قبل آزاد بہ حیرہ چھوڑ چکا تھا، مسلمان مقام غریبین میں ٹھہر گئے، حیرہ میں جو لوگ باقی رہ گئے تھے، وہ اس عرصہ میں قلعہ بند ہو گئے، خالد رضی الله عنہ نے ان کا محاصرہ کرلیا، پہلے صلح کی گفت و شنید ہوتی رہی، لیکن بے نتیجہ رہی، ایرانیوں نے قلعہ کے اوپر سے سنگ باری شروع کر دی، مسلمانوں نے پیچھے ہٹ کر تیروں سے جواب دیا اور قلعہ اور محلات کی دیواریں چھلنی کر دیں، جب شہری آبادی محاصرہ سے گھبرا گئی تو قسیسوں اور راہبوں نے قلعہ والوں سے فریاد کی کہ اس خونریزی کی ساری ذمہ داری تم پر ہے، اس کو بند کرو ،آخر میں قلعہ والوں نے بھی عاجز ہو کر خالد رضی اللہ عنہ سے صلح کی گفت گو کر کے ایک لاکھ نوے ہزار سالانہ خراج پر صلح کر لی اور خالد رضی اللہ عنہ نے ایک مفصل صلح نامہ لکھ کر حوالہ کیا۔(طبری:5/2037)

ملحقات حیرہ

حیرہ کی صلح کے بعد اطراف کے کاشت کاروں اور دیہی آبادیوں نے بھی جو حیرہ کی شرائط کی منتظر تھیں، 10لاکھ سالانہ پر صلح کر لی ۔ حیرہ اور ملحقات حیرہ کی کامل تسخیر کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نے محافظین سرحد میں سے ضرار بن ازور، ضرار بن خطاب ،قعقاع ابن عمرو، مثنیٰ بن حارثہ اور عقبہ بن شماس رضی الله عنہم افسران سرحد کو دجلہ کی ترائی میں بڑھنے کا حکم دیا، یہ لوگ ساحل تک بڑھتے ہوئے چلے گئے۔

انبار کی تسخیر

اس وقت گوارد شیر مر چکا تھا اور ایرانیوں میں اندرونی اختلافات کا طوفان برپا تھا، لیکن مسلمانوں کے مقابلہ میں سب متحد تھے، طبری کے یہ الفاظ ہیں، و کان اہل فارس بموت اردشیر مختلفین فی الملک مجتمعین علی قتال خالد متساندین یعنی اردشیر کی موت کی وجہ سے بادشاہت کے بارے میں ایرانیوں میں اختلاف تھا، لیکن خالد رضی الله عنہ سے جنگ کے بارے میں سب متحد اور ایک دوسرے کے معاون تھے۔ چناں چہ انہوں نے اپنی مرکزیت قائم کرنے کے لیے فرخ زاد کو عنان حکومت سپرد کر دی تھی اور ان کی فوجیں عین التمر ، انبار اور فراض تک پھیلی ہوئی تھیں، اس لیے حضرت خالد رضی اللہ عنہ حیرہ کے بعد انبار کی طرف بڑھے، لیکن ان کے پہنچتے پہنچتے یہاں کے باشندے قلعہ بند ہو چکے تھے، چناں چہ ان کے پہنچتے ہی جنگ شروع ہو گئی ،ایرانی قلعہ کے اندر سے تیر بازی کر رہے تھے، اس لیے مسلمانوں کا جوابی حملہ کام یاب نہ ہوتا تھا،حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے قلعہ کے چاروں طرف چکر لگا کر، اس کے استحکامات کا اندازہ لگا کر حکم دیا کہ آنکھوں پر تاک تاک کر تیر مارو، اس تدبیر سے دن بھر میں ایک ہزار آنکھیں بیکار کر دیں، اس مصیبت نے انبار کے باشندوں کو گھبرا دیا اور فوج بدحواس ہو گئی، شیرزاد ایرانی سپہ سالار نے یہ صورت دیکھ کر صلح کا پیام دیا ،لیکن شرائط ایسے پیش کیے کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ان کو منظور نہ کر سکے اور خندق کا جو حصہ زیادہ تنگ تھا اسے بیکار اونٹوں کو ذبح کر کے پاٹ دیا اور مسلمان اس پر سے اتر کے قلعہ تک پہنچ گئے اور ایرانی سمٹ کر قلعہ کے اندر ہو گئے، مگر وہ آنکھوں کی نشانہ بازی سے پہلے ہی گھبرا گئے تھے، مسلمانوں کی اس غیر متوقع آمدسے اور ہمت چھوٹ گئی اور شیر زاد نے بہن کو فوج کی حالت جتا کر صلح پر آمادہ کر لیا، اس نے مجبور ہو کر صلح کر لی، اس کے بعد انبار کے باشندوں نے صلح کی خواہش کی، چناں چہ پہلے بواذیج والوں پھر اہل کلوازی نے صلح کر لی۔(طبری،ص:2059 تا2061 وفتوح البلدان بلاذری،ص:255)

عین التمر

خالد رضی الله عنہ انبار کی مہم میں مصروف تھے کہ بہرام چوبین کا لڑکا مہران مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے عین التمر پہنچ گیا، عربی قبال میں نمر، تغلب اور ایاد عقہ بن عقہ کے ساتھ علیحدہ مقابلہ پر آمادہ تھے ۔(ابن اثیر:2/29) اس لیے حضرت خالد رضی اللہ عنہ انبار کے بعد عین التمر کی طرف بڑھے، ایرانیوں نے ایرانی سپاہ قلعوں میں محفوظ کر دی اور عربی قبائل کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بڑھا کر ان پر جاسوس متعین کر دیے کہ اگر ان میں قومی عصبیت نظر آئے تو فوراً تدارک ہو سکے، بعض انصاف پسند ایرانی اس پر معترض ہوئے، ان کو جواب دیا کہ ان ہی کی قوم نے ہمارا ملک تباہ کیا ہے، اس لیے انہیں آپس میں کٹانا چاہیے، عقہ مقام کرخ میں اپنی فوج مرتب کر رہا تھا کہ حضرت خالدرضی الله عنہ پہنچ گئے اوراس کو گرفتار کر لیا، اس کی فوج نے سردار کی گرفتاری سے گھبرا کر میدان جنگ چھوڑ دیا، جو بچ گئے وہ گرفتار ہوئے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ ان کی قوم فروشی پر بہت مشتعل تھے، اس لیے پہلے عقہ کا کام تمام کر دیا، پھر سب کی گردنیں اڑا دیں، مہران کو عربوں کی حالت کی خبر ملی تو وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا، لیکن جب شکست خوردہ عرب پہنچے تو پھر اس کی ہمت بندھی اور ایرانی قلعہ بند ہو گئے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ سیدھے قلعہ تک بڑھتے چلے گئے ۔(طبری:4/2063) ایرانیوں نے نکل کر مقابلہ کیا اور تھوڑے مقابلہ کے بعد قلعہ میں داخل ہو گئے، مسلمانوں نے محاصرہ کر لیا، بالآخر ایرانیوں نے صلح کی درخواست کی،لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور بزور شمشیر قلعہ فتح کیا۔(فتوح البلدان بلاذری،ص:255) لیکن فتح کے بعد پھر کوئی سختی نہیں کی اور معمولی خراج کے سواز مین پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔(ایضا،ص:257)

دومة الجندل میں ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوا کرتی تھیں، چناں چہ عہد رسالت میں بھی اسی قسم کی ایک سازش ہوئی تھی، اس لیے غزوہ دومة الجندل ہوا تھا۔ عہد صدیقی میں پھر اس کا ظہور ہوا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے تدارک کے لیے عیاض بن غنم کو روانہ کیا، لیکن کلب غسان اور تنوخ کے قبائل متحد تھے ،اس لیے عیاض کے لیے تنہا ان سب کا مقابلہ کرنا دشوار تھا، انہوں نے حضرت خالد رضی الله عنہ کو مدد کے لیے بلا بھیجا، وہ عراق کی مہم چھوڑ کر عیاض کی مدد کو چلے آئے، اس وقت یہاں دو حکمران تھے اکیدر اور جودی، اکیدر کوحضرت خالد رضی اللہ عنہ عہد رسالت میں مطیع کر چکے تھے، اس لیے حضرت خالد رضی الله عنہ کی آمد کی خبر سن کر وہ خوف سے جودی کی حمایت سے کنارہ کش ہو گیا اور جب جودی جنگ کے لیے بالکل آمادہ ہو گیا تو اکیدر دومة الجندل چھوڑ کر ہٹ گیا، مگر چوں کہ پہلے اس کا شریک رہ چکا تھا، اس لیے گرفتار کرا کے قتل کر دیا گیا، خالد رضی اللہ عنہ اور عیاض نے دو سمتوں سے دومة الجندل کا محاصرہ کر لیا، جودی کی فوج میں متعدد افسر تھے، خود جودی، ودیعہ کلبی، ابن رومانس ،ابن ایہم اور ابن حدرد جان ان سب نے متحدہ حملہ کیا، جودی اور ودیعہ گرفتار ہوئے، باقی فوج قلعہ میں گھس گئی، مگر قلعہ میں زیادہ گنجائش نہیں تھی، اس لیے فوج کا ایک حصہ باہر رہ گیا ،اگر مسلمان چاہتے تو ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکتا، لیکن حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے بنو کلب کو امان دے دی ۔(طبری:4/2066، ابن اثیر:6/303) اورحضرت خالد رضی الله عنہنے جو دی کو قتل کرا دیا اور قلعہ کا پھاٹک اکھاڑ کر اندر گھس گئے اور قلعہ پر قبضہ ہو گیا۔

جنگ حصید و خنافس

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے عراق چھوڑ کر، شام چلے آنے کے بعد، جزیرہ کے عربوں نے ایرانیوں کو عراق کی واپسی پر توجہ دلائی، وہ ان کا اشارہ پاتے ہی آمادہ ہو گئے اور زرمہر اور روز بہ نے خنافس اور حصید کی طرف فوجیں بڑھا دیں، زبرقان بن بدر حاکم انبار نے قعقاع حاکم حیرہ کو اطلاع دی ،انہوں نے ایرانیوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے اس وقت الگ الگ فوجیں اعبد بن قد اور عروہ بن جعد کی قیادت میں دونوں مقاموں پر روانہ کر دیں، ان دونوں نے بڑھ کر ریف میں ان کو روک دیا اور روز بہ اور زر مہر یہاں عربوں کا انتظار کر رہے تھے کہ حضرت خالد رضی الله عنہ دومة الجندل سے حیرہ واپس آ گئے اور امرؤ القیس بن کلبی نے اطلاع بھیجی کہ ہذیل بن عمران مصیخ میں اور ربیعہ بن بجیرثنی اور بشر میں، روز بہ اور زرمہر کی امداد کے لیے فوجیں لیے پڑے ہیں ،یہ خبر سن کر خالدرضی الله عنہ نے عیاض کو حیرہ میں چھوڑا اور خود قعقاع رضی الله عنہ اور ابولیلیٰ کی مدد کو خنافس روزانہ ہو گئے، دونوں عین التمر میں تھے، یہاں آکر ان سے ملے اور قعقاع رضی الله عنہ خود بڑھے روز بہ نے زر مہر سے مدد طلب کی ،وہ مدد لے کر پہنچا ،صید میں دونوں کا مقابلہ ہوا، زر مہر اور روز بہ دونوں مارے گئے اور ان کی فوج ہٹ کر خنافس میں جمع ہو گئی، ابولیلی تعاقب کرتے ہوئے خنافس پہنچے تو ایرانی خنافس چھوڑ کر مصیخ چلے گئے، حضرت خالد رضی الله عنہ کو اس کی اطلاع دی گئی، انہوں نے قعقاع، ابولیلیٰ اور عروہ کو ایک خاص مقام پر شب میں جمع ہونے کا حکم دیا اور خود بھی معینہ شب میں وہاں پہنچ گئے اور سب نے مل کر متحدہ شب خون مارا، ایرانی بالکل بے خبر تھے ،اس لیے مدافعت بھی نہ کر سکے اور سب کے سب مارے گئے ۔(طبری:4/2067 تا2070)

جنگ ثنی و بشر

ربیعہ بن بجیر شنی اور بشر میں بدستور فو جیں لیے پڑا تھا، مصیخ کے بعدحضرت خالد رضی اللہ عنہ نے قعقاع رضی الله عنہ اور ابولیلیٰ کوثنی پر شب خون مارنے کا حکم دیا، چناں چہ ایک مقرر شب کو تینوں نے مل کر تین سمتوں سے حملہ کیا صرف ہذیل امیر العسکر باقی بچا اور کل فوج کھیت رہی، ہذیل ثنی سے بھاگ کر بشر پہنچا، یہاں بھی عربوں کا ایک جتھا موجود تھا،حضرت خالد رضی اللہ عنہ اس کو صاف کرتے ہوئے رضاب پہنچے، یہاں عقہ کا لڑکا بلال مسلمانوں کا منتظر تھا، مگر حضرت خالد رضی الله عنہ کے آتے آتے یہ بھاگ نکلا۔

جنگ فرائض

اورحضرت خالد رضی الله عنہ رضاب ہوتے ہوئے فرائض کی طرف بڑھے یہ مقام جنگی نقطہ نظر سے بہت اہم تھا، یہاں شام ، عراق اور جزیرہ کی سرحدیں ملتی تھیں، شام کی سرحد کی وجہ سے رومی بھی ایک فریق بن گئے اور انہوں نے ایرانیوں کی چھاونی اور تغلب و ایاد (عرب)سے مدد مانگ بھیجی، ان کو اس میں کیا عذر ہو سکتا تھا، فوراً آمادہ ہو گئے اور اب مسلمانوں کا مقابلہ ایرانیوں اور رومیوں دونوں سے ہو گیا، اس لیے خالد رضی اللہ عنہ نے بھی نہایت اہتمام سے اسلامی فوج کو از سر نومنظم کیا، فرات کے ایک جانب مسلمان تھے اور دوسری جانب اتحادی۔ اتحادیوں نے پیام دیا کہ یا تم دریا عبور کر کے بڑھو یا ہمیں بڑھنے دو، خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو بڑھنے کا موقع دیا اور فرات کے اس پار لب دریا دونوں کا مقابل ہوا، مسلمان نہایت پامردی سے لڑے اور اتحادیوں کی فوجیں پسپا ہونے لگیں، خالد رضی اللہ عنہ کی للکار پر مسلمان شہ سواروں نے گھیر گھیر کر مارنا شروع کیا، اتحادی دو طرف سے گھرے ہوئے تھے ،پیچھے ہٹتے تو فرات کا لقمہ بنتے تھے اور آگے بڑھتے تھے تو تلوار سامنے تھی، اس کشمکش میں سب کے سب کام آ گئے، فتح کے دس دن بعد تک مسلمان یہاں مقیم رہے، اس کے بعد حیرہ لوٹ گئے، اس معرکہ کے بعد عراق کی پیش قدمی رک گئی ۔ (طبری:2/2074,2073) اور خالد رضی الله عنہ خفیہ حج کو چلے گئے ۔

فتوحات شام

او پر ان حالات کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے، جن کی بنا پر مسلمانوں کا ایرانیوں اور رومیوں سے نبرد آزما ہونا ناگزیر امر تھا، اس لیے عراق کے ساتھ ساتھ شام پر بھی فوج کشی ہوئی تھی اور ہر ہر صوبہ پر علیحدہ علیحدہ فوجیں بھیجی گئی تھیں، خالد رضی اللہ عنہ عراق کی مہم سر کر چکے تھے کہ دربار خلافت سے حکم پہنچا کہ عراق چھوڑ کر شام میں اسلامی فوجوں سے مل جائیں، اس حکم کے مطابق حج سے واپس ہونے کے بعد عراق کا انتظام مثنی کے سپرد کر کے شام روانہ ہو گئے اور راستہ میں حدر دار ،ارک ،سوی، حوارین، قصم، مرج راہط وغیرہ سے نپٹتے ہوئے شامپہنچے اور پہلے بصری کی طرف بڑھے۔ (ابن اثیر:2/314)

بصری

یہاں اسلامی فوجیں پہلے سے ان کی منتظر تھیں، اس لیے حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے آتے ہی بصری کے بطریق پر حملہ کر کے پسپا کر دیا اور اس شرط پر صلح ہوگئی کہ مسلمان رومیوں کی جان و مال کی حفاظت کریں گے اور وہ اس کے عوض میں جزیہ دیں گے۔ (ابن اثیر:2/314)

اجنادین

اس وقت مسلمان شام کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے تھے اور ہر قل نے ان کے مقابلہ کے لیے الگ الگ دستے بھیجے تھے، تا کہ ایک مرکز پر جمع نہ ہوں، لیکن فلسطین کی مہم عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے متعلق تھی، بصریٰ کے بعد تذارق اور قبقلار نے اجنادین (فلسطین) میں اپنی فوجیں ٹھہرائیں، خالد رضی الله عنہ اور ابو عبیدہ رضی الله عنہ بصری ٰسے فارغ ہو کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی مدد کو پہنچے ،13 ھ میں مقام اجنادین میں دونوں کا مقابلہ ہوا ،تذارق اور قبقلا ردونوں مارے گئے ۔

دمشق

اجنادین کے بعد دمشق کی طرف بڑھے ،امیر فوج ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے تین سمتوں سے اس کا محاصرہ کیا، ایک سمت پر خالد رضی الله عنہ مامور ہوئے، تین مہینے تک کامل محاصرہ قائم رہا، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا، اس درمیان میں ایک دن دمشق کے پادری کے گھر لڑکا پیدا ہوا، اس کے جشن میں دمشق کے بے فکرے شرابیں پی کر ایسے بدمست ہو کر سوئے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی، خالد رضی اللہ عنہ دوران جنگ میں اکثر راتوں کو سوتے نہ تھے بلکہ فوجی انتظامات اور دشمنوں کی سراغ رسانی میں لگے رہتے تھے، (طبری:4/2152) ان کو اس واقعہ کی اطلاع ہو گئی ،چناں چہ فوج کو یہ ہدایت دے کر کہ تکبیر کی آواز سنتے ہی شہر پناہ کے پھاٹک پر حملہ کر دینا، چند آدمیوں کے ساتھ کمند ڈال کر شہر پناہ کی دیوار کے اس پار اتر گئے اور پھاٹک کے چوکیدار کو قتل اور اس کا قفل توڑ کر تکبیر کا نعرہ لگایا ،تکبیر کی آواز سنتے ہی فوج ریلا کر کے اندر داخل ہو گئی، دمشق والے ابھی تک غافل سو ر ہے تھے ،اس ناگہانی حملہ سے گھبرا گئے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی درخواست کر کے شہر پناہ کے تمام دروازے خود کھول دیے ایک طرف سے خالد رضی الله عنہ فاتحانہ داخل ہوئے اور دوسری طرف سے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ مصالحانہ ۔ وسط شہر میں دونوں سے ملاقات ہوئی ۔(ابن اثیر:6/329) گو نصف حصہ بزور شمشیر فتح ہوا، لیکن شرائط سب مصالحانہ رکھے گئے۔(فتوح البلدان بلا ذری،ص:130)

فحل

دمشق کی فتح نے رومیوں کو بہت برہم کر دیا اور وہ بڑے جوش وخروش کے ساتھ مقابلہ کے لیے آمادہ ہو گئے، سقلار رومی محل میں فوجیں لے کر خیمہ زن ہوا، اس لیے مسلمان دمشق کے بعد ادھر بڑھے، مقدمہ الجیش خالد رضی اللہ عنہ کی کمان میں تھا، اس معرکہ میں بھی رومیوں نے بری طرح شکست کھائی۔

دمشق کا دوسرا معرکہ

فحل کے بعد ابو عبیدہ اور خالد رضی الله عنہماحمص کی طرف بڑھے یوحنا کے کنیساکی وجہ سے یہ مقام بھی رومیوں کا ایک اہم مرکز تھا، ہر قل کو خبر ہوئی تو اس نے تو ذر بطریق کو فوج دے کر مقابلہ کے لیے بھیجا، اس نے دمشق کے مغربی سمت مرج روم میں پڑاؤ ڈال دیا، مسلمان بھی آگے بڑھ کر مرج روم کی دوسری سمت ٹھہرے، اس درمیان میں رومیوں کی ایک اور فوج شنس کی سرکردگی میں پہنچ گئی اس لیے خالد رضی اللہ عنہ تو زر کے مقابلہ کو بڑھے اور ابو عبیدہ شنس کے، تو ذر نے مقابلہ نہیں کیا، بلکہ دمشق واپس لینے کے ارادہ سے آگے بڑھا، خالد رضی الله عنہ بھی عقب سے اس کے ساتھ ہو گئے، دمشق میں یزید بن ابی سفیان موجود تھے، وہ شنس کی آمد کی خبر سن کر اس کے روکنے کو نکلے، دمشق کے باہر دونوں میں سخت معرکہ ہوا، ابھی جنگ کا سلسلہ جاری تھا کہ پیچھے سے خالد رضی اللہ عنہ پہنچ گئے اور ایک طرف سے انہوں نے اور دوسری طرف سے یزید رضی الله عنہ نے مل کر رومیوں کو پامال کر دیا اور معدودے چند کے علاوہ کوئی رومی باقی نہ بچا ۔(ابن اثیر:2/330)

حمص

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے شیرز ،معرہ حمص اور لاذقیہ وغیرہ کو لے کر بعلبک اور حمص فتح کیا۔

یر موک

ان پیہم شکستوں نے رومیوں میں آگ لگادی اور دو لاکھ کا ٹڈی دل مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے امنڈ آیا(فتوح البلدان،ص:141)۔ رومی سپہ سالار ماہان اس کو لے کر یرموک کے میدان میں اترا، اس وقت مسلمان شام کے مختلف حصوں میں منتشر تھے، یہ سب ایک مرکز پر جمع ہو گئے اور طرفین میں جنگ کی تیا ریاں ہونے لگیں، رومیوں کے جوش وخروش کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ گوشہ نشیں راہب و قسیسین اپنی اپنی خانقاہوں سے نکل کر مذہب کا واسطہ دلا کر رومیوں میں جوش پیدا کر رہے تھے، خالد رضی الله عنہ نے اس جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دیے، فوج کو جدید طرز سے36 حصوں میں تقسیم کر کے سب پر الگ الگ افسر مقرر کیے اور جہاد پر نہایت ولولہ انگیز تقریر کی، اتفاق سے ایک مسلمان کے منھ سے نکل گیا کہ رومیوں کے مقابلے میں ہماری تعداد بہت کم ہے۔ خالد رضی الله عنہ غضب ناک ہو کر بولے فتح و شکست تعداد کی قلت و کثرت پر نہیں، بلکہ تائید ایزدی پر ہے، اگر میرے گھوڑے کے سم درست ہوتے تو میں اس سے دونی تعداد کی پروا نہ کرتا ۔(طبری:5/2094)

ضروری انتظامات کے بعد عکرمہ بن ابی جہل اور قعقاع بن عمر و رضی الله عنہما کو حملہ کا حکم دے دیا اور یرموک کے میدان میں ہنگامہ کا رزار گرم ہو گیا، عین اس حالت میں ایک عیسائی رومی فوج سے نکل کر اسلامی لشکر میں آگیا اور خالد رضی الله عنہ سے مذہب اسلام پرگفت گوشروع کر دی کہ اگر میں تمہارے مذہب میں داخل ہو جاؤں تو کیا میرے لیے آخرت کا دروازہ کھل جائے گا، خالد رضی اللہ عنہ نے کہا یقینا۔چناں چہ وہ میدان جنگ میں مشرف با اسلام ہو گیا (طبری،ص:2098)۔ اس جنگ کا سلسلہ مدتوں جاری رہا، مسلمان افسروں نے غیر معمولی شجاعت و بہادری کا ثبوت دیا، آخر رومیوں نے ایسی شکست کھائی کہ پھر ان کی اتنی بڑی تعداد نہ فراہم ہو سکی۔

حاضر

یرموک کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو قنسرین کی طرف بھیجا اور خود حمص واپس ہوئے، مقام حاضر میں خالد رضی الله عنہ کو میناس رومی ایک بڑی جماعت کے ساتھ ملا ،خالد رضی اللہ عنہ نے اس کو شکست دی، اہل حاضر نے امان کی درخواست کی اور کہا ہم کو اس جنگ سے کوئی تعلق نہ تھا، ہماری رائے بھی اس میں شریک نہ تھی، اس لیے ہم کو امان دی جائے، خالد رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی درخواست قبول کر لی۔(ایضاً،ص:2393)

قنسرین

حاضر سے قنسرین پہنچے ،اہل قنسرین پہلے جنگ کے ارادہ سے قلعہ بند ہو گئے، لیکن پھر اہل حمص کے انجام پر غور کر کے صلح کی درخواست کی، خالد رضی اللہ عنہ نے اس شرط پر منظور کر لی کہ شہر کے استحکامات توڑ دیے جائیں،قنسرین کے بعد ہر قل بالکل مایوس ہو گیااور شام میں آخری نگاہ ڈال کر قسطنطنیہ چلا گیا، چلتے وقت یہ حسرت انگیز الفاظ اس کی زبان پر تھے اے شام !تجھ کو آخری سلام ہے، اب میں تجھ سے جدا ہوتا ہوں، افسوس اس سرزمین میں جس میں میں نے حکم رانی کی ہے اطمینان خاطر کے ساتھ نہ آسکوں گا۔(ابن اثیر:2/384)

بیت المقدس

قنسرین کے بعد بیت المقدس کا محاصرہ ہوا ،عیسائی اس شرط سے بلا جنگ حوالہ کرنے کو آمادہ ہو گئے کہ خود امیر المومنین اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں، چناں چہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے صلح نامہ لکھنے کے لیے شام کا سفر کیا اور تمام افسراج فوج کو جابیہ میں طلب کیا ،خالد رضی الله عنہ بھی آئے، ان کا دستہ دیبا وحریر میں ملبوس تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر پڑی تو گھوڑے سے اتر کر کنکریاں مار کر فرمایا تم لوگوں نے اتنی جلدی اپنی عادتیں بدل دیں ان لوگوں نے اسلحہ دکھا کر کہا کہ لیکن سپہ گری کا جو ہر نہیں گیا ہے۔فرمایا تب کوئی مضائقہ نہیں ۔(طبری ،فتح بیت المقدس)

حمص کی بغاوت

17ھ میں حمص کے باشندے باغی ہو گئے ،لیکن ابو عبیدہ اور خالد رضی الله عنہماکی بروقت توجہ سے بہت جلد بغاوت فرو ہوگئی اور شام کے پورے علاقہ پر مسلمانوں کا کامل تسلط ہو گیا۔

معزولی

اسی سن17ھ میں حضرت عمر رضی اللہ نے خالد رضی الله عنہ کو معزول کر دیا، معزولی کے سن میں مورخین کا بیان مختلف ہے ،عام شہرت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی معزول کیا تھا، لیکن یہ بیان صحیح نہیں ہے، صحیح روایت یہ ہے کہ 17ھ میں، یعنی خلافت فاروقی کے 5سال بعد معزول ہوئے۔ ابن اثیرکی بھی یہی تحقیق ہے، وہ لکھتے ہیں فی ہذہ السنة و ہی سنة سبعة عشر عزل خالد بن ولید یعنی سن17ھ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ معزول کیے گئے۔ ان کی معزولی کا سبب یہ ہے کہ خالد رضی الله عنہ فوجی آدمی تھے ،ان کا مزاج تند تھا ،اس لیے ہر معاملہ میں خودرائی سے کام لیتے تھے اور بارگاہ خلافت سے استصواب ضروری نہیں سمجھتے تھے، فوجی اخراجات کا حساب و کتاب بھی نہیں بھیجتے تھے ،عراق کی پیش قدمی روکنے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ناگوار ہوا۔(طبری:4/2075) اور آپ نے تنبیہ کی، انہوں نے بار ہا لکھا کہ بغیر میرے حکم کے کوئی کام نہ کیا کرو اور نہ کسی کو کچھ دیا لیا کرو، انہوں نے جواب دیا کہ آپ مجھ کو میری موجودہ حالت پر چھوڑ دیجیے تو کام کر سکتا ہوں، ورنہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوتا ہوں ۔ اسی زمانہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے برہم رہتے تھے اور بار بار حضرت ابوبکر رضی الله عنہکو ان کے معزول کرنے کا مشورہ دیتے تھے ،لیکن وہ ہمیشہ جواب دیتے کہ میں اس تلوار کو نیام میں نہیں کر سکتا، جس کو خدا نے بے نیام کیا ہے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں بھی خالد رضی الله عنہ نے یہ روش نہ چھوڑی، لیکن انہوں نے بھی فوراً معزول نہیں کیا، بلکہ عرصہ تک سمجھاتے رہے ،چناں چہ پھر ایک مرتبہ لکھا کہ بغیر میری اجازت کے کسی کو ایک بکری بھی نہ دیا کرو، مگر خالد رضی اللہ عنہ نے کوئی اثر نہیں لیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ کو بھی وہی جواب دیا، جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دے چکے تھے۔ (اصابہ:2/100)

دوسری وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اسلامی فتوحات کا دار و مدار خالد رضی اللہ عنہ کے قوت بازو پر ہے۔ جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پسند نہیں کرتے تھے۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اخراجات اسراف کی حد تک پہنچ جاتے تھے، جو دوسرے افسروں کے لیے نمونہ بن سکتے تھے، چناں چہ شعراء کو بڑی بڑی رقمیں دے ڈالتے تھے، اشعث بن قیس کو دس ہزار انعام یک مشت دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہوئی تو ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس حکم بھیجا کہ خالد (رضی الله عنہ) سے دریافت کریں کہ انہوں نے یہ روپیہ کس مد سے دیا ہے؟ اگر مسلمانوں کے مال سے دیا ہے تو خیانت کی اور اگر اپنی جیب سے دیا ہے تو اسراف کیا ہے، اس لیے دونوں حالت میں وہ معزولی کے قابل ہیں، یہ فرمان عین میدان جنگ میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ملا، انہوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم نے یہ روپیہ کہاں سے دیا ؟کہا اپنے مال سے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان سنا کر معزولی کی علامت کے طور پر ان کے سر سے ٹوپی اتار لی اور عمامہ گردن میں ڈال دیا، خالد رضی اللہ عنہ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں نے فرمان سنا اور مانا اور اب بھی میں اپنے افسروں کے احکام ماننے اور خدمات بجالانے کو تیار ہوں۔(ابن اثیر:2/418)
اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دبدبہ اور خالد رضی اللہ عنہ کی حق پرستی، دونوں کا اندازہ ہوتا ہے، معزولی کے بعد دربار خلافت سے طلبی ہوئی، چناں چہ خالد حمص سے ہوتے ہوئے حضرت عمر رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے شکایت کی کہ آپ نے میرے معاملہ میں زیادتی سے کام لیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی؟ جواب دیا مال غنیمت کے حصوں سے ،اگر میرے پاس ساٹھ ہزار سے زیادہ نکلے تو آپ لے لیجیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً حساب کرایا، کل 20 ہزار زیادہ نکلے، وہ بیت المال میں جمع کرا دیے اور فرمایا کہ خالد اب بھی میرے دل میں تمہاری وہی عزت و محبت ہے اور تمام ممالک محروسہ میں فرمان جاری کرا دیا کہ میں نے خالدکو خیانت کے جرم یا غصہ وغیرہ کی وجہ سے معزول نہیں کیا، بلکہ محض اس لیے معزول کیا کہ مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسلامی فتوحات کا دارو مدار خالد کے قوت بازو پر نہیں ہے۔

مذکورہ بالا فتوحات کے علاوہ خالد رضی اللہ عنہ دوسری مہموں میں بھی شریک ہو کر داد شجاعت دیتے رہے ،لیکن ان میں آپ کی حیثیت معمولی مجاہد کی تھی، اس لیے ان کی تفصیل قلم انداز کی جاتی ہے۔

گورنری

حضرت عمر رضی الله عنہ نے بمصالح خالد رضی الله عنہ کو معزول کر دیا تھا، لیکن معزول کرنے کے بعد ان سے ان کے رتبہ کے مطابق کام لیے اور ان کے جوہر اور ان کی فطری صلاحیتوں سے سپہ سالاری کے بجائے دوسرے شعبوں میں فائدہ اٹھایا، چناں چہ معزولی کے بعد رہا، حران، آمد وغیرہ کا گورنر مقرر کر دیا، لیکن ایک سال کے بعد وہ خود مستعفی ہو گئے۔ (مستدرک حاکم:3/297)

وفات

گورنری سے استعفا دینے کے بعد مدینہ میں مقیم ہو گئے اور کچھ دن بیمار رہ کر22 ھ میں وفات پائی، بعض لوگ آپ کی وفات حمص میں بتاتے ہیں، مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے جنازہ میں شریک تھے ۔(اصابہ:2/100 اور مستدرک حاکم:3/297) اور سن22ھ میں انہوں نے شام کا کوئی سفر نہیں کیا، آپ کی وفات سے مدینہ کی عورتوں، خصوصاً بنی عذرہ میں کہرام برپاتھا۔

اولاد

اولاد کی تعداد کی تفصیل نہیں ملتی، صرف دو لڑکوں، مہاجر اور عبد الرحمن کا نام ملتا ہے، ان دونوں میں باپ کی شجاعت کا اثر تھا، چناں چہ مہاجر بن خالد رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لیا۔(استیعاب:1/272) اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں قسطنطنیہ کے مشہور معرکہ میں فوج کے ایک کماندار عبد الرحمن بن خالد بن ولید رضی الله عنہما تھے ۔(ابوداؤد، ج:1، کتاب الجہاد، باب قولہ تعالیٰ:﴿ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکة﴾ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو سلیمان تھی، اس لیے قیاس ہوتا ہے کہ اس نام کا بھی کوئی لڑکا رہا ہوگا، مگر تصریح نہیں ملتی ۔

فضل و کمال

چوں کہ ابتدا سے لے کر آخر تک خالدرضی الله عنہ کی پوری زندگی میدان جنگ میں گذری ،اس لیے ذات نبوی صلی الله علیہ وسلم سے خوشہ چینی کا موقع کم ملا ،وہ خود کہتے تھے کہ جہاد کی مشغولیت نے مجھ کو تعلیم قرآن کے بڑے حصہ سے محروم رکھا ۔(اصابہ:2/99) تا ہم وہ صحبت نبوی کے فیض سے دولت علم سے بالکل بے بہرہ نہ تھے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکے بعد مدینہ میں جو جماعت صاحب علم و افتا تھی، ان میں ایک ان کا نام بھی تھا، لیکن فطرةً سپاہی تھے ،اس لیے مسند افتا پر نہ بیٹھے اور ان کے فتاوی کی تعداد دو چار سے زیادہ نہیں ہے ۔(اعلام الموقعین جلد1 ،فصل اصحاب الفتویٰ من اصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم) ابن عباس، جابر بن عبد اللہ، مقدام بن معدی کرب، قیس بن ابی حازم، اشتر نخعی، علقمہ بن قیس، جبیر بن نفیر وغیرہ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں ۔(تہذیب التہذیب:2/124) ان کی مرویات کی تعداد کل اٹھارہ ہے، جن میں سے دو متفق علیہ ہیں اور ایک میں بخاری منفرد ہیں۔

(فضائل اخلاق )رضائے نبوی

صحابہ کرام رضی الله عنہم کے لیے سب سے بڑی دولت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی رضا جوئی اور خوش نودی تھی، اس لیے وہ اپنے جذبات کو بھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے تابع فرمان کر دیتے تھے، خالد رضی اللہ عنہ گوتند مزاج تھے، لیکن فرمان نبی صلی الله علیہ وسلمکے مقابلہ میں ان کی تند مزاجی حلم و عفو سے بدل جاتی تھی، ایک مرتبہ ان میں اور عمار بن یاسررضی الله عنہما میں کسی معاملہ میں بحث ہو گئی اور سخت کلامی تک نوبت پہنچ گئی، عمار رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے شکایت کی، اتفاق سے اس وقت حضرت خالد رضی الله عنہ بھی آگئے اور شکایت سن کر بہت برہم ہوئے اور عمار رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلمخاموش تھے، عمار رضی اللہ عنہ نے آبدیدہ ہو کر عرض کی حضور! ان کی زیادتیوں کو ملاحظہ فرما رہے ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے سر اٹھا کر فرمایا کہ ”جو شخص عمارسے بغض و عداوت رکھتا ہے وہ خدا سے بغض و عناد رکھتا ہے“ خالدرضی الله عنہ پر اس ارشاد کا اتنا اثر ہوا کہ ان کا بیان ہے کہ جب میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکے پاس سے اٹھا تو عمار (رضی الله عنہ)کی رضا جوئی سے زیادہ کوئی چیز میرے لیے محبوب نہ تھی اور ان سے مل کر ان کو منایا ۔ (مسند احمد بن حنبل:4/89)

احترام نبوی

خالد رضی اللہ عنہ کے دل میں آں حضرتصلی الله علیہ وسلم کا اتنا احترام تھا کہ وہ کسی کی زبان سے آپ کی شان میں کوئی ناروا کلمہ برداشت نہیں کر سکتے تھے، ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا آیا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اہل نجد میں تقسیم کر دیا، قریش و انصار کو شکایت ہوئی، انہوں نے شکایت کی کہ آپ نے سب سونا نجدی سرداروں کو دے دیا اور ہم لوگوں کو بالکل نظر انداز فرما دیا ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ان کو تالیف قلب کے خیال سے دیتا ہوں، یہ سن کر نجدیوں کے گروہ سے ایک شخص نے کہا کہ محمدصلی الله علیہ وسلم خدا سے ڈر!آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں خدا کی نافرمانی کرتا ہوں تو پھر خدا کی اطاعت کون کرتا ہے؟ خالد رضی الله عنہ کو اس گستاخی پر غصہ آگیا اور اس کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے روک دیا۔( بخاری:2/105)

آثار نبوی عالم سے تبریک

وہ ہر اس چیز کے ساتھ جس کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ شرف انتساب حاصل ہوتا والہانہ عقیدت رکھتے تھے، چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے موئے مبارک ایک ٹوپی میں سلوا لیے تھے، جس کو پہن کر میدانِ جنگ میں جاتے تھے، یرموک کے معرکہ میں ٹوپی گر گئی تھی، خالد رضی اللہ عنہ بہت پریشان ہوئے اور آخر بڑی تلاش و جستجو کے بعد ملی ۔(اصابہ:2/99)

جہاد فی سبیل اللہ

حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی کتاب زندگی کا سب سے جلی عنوان اور سب سے روشن باب جہاد فی سبیل اللہ ہے، ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی میں گزرا ،غزوات نبوی اور عراق و شام کی فتوحات کے حالات میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے، ان کے اسی ذوق جہاد اور شجاعانہ کارناموں کے صلہ میں ان کو دربار نبوی سے سیف اللہ کا لقب ملا۔ تقریباً سوا سو لڑائیوں میں اپنی تلوار کے جوہر دکھائے، جسم میں ایک بالشت حصہ بھی ایسا نہ تھا جو تیروں اور تلواروں کے زخم سے زخمی نہ ہوا ہو۔(اسد الغابہ:2/102) ذوق جہاد میں کہا کرتے تھے کہ مجھے میدان جنگ کی وہ سخت رات جس میں اپنے دشمنوں سے لڑوں اس شب عروسی سے زیادہ مرغوب ہے جس میں میری محبوبہ مجھ سے ہم کنار ہو۔(اصابہ:2/99) آخری وقت جب اپنی زندگی سے مایوس ہو گئے تو بڑی حسرت اور افسوس کے ساتھ کہتے تھے کہ افسوس! میری ساری زندگی میدان جنگ میں گذری اور آج میں بستر مرگ پر جانور کی طرح ایڑیاں رگڑ کے جان دے رہا ہوں۔ (استیعاب:1/158) خدا نے آپ کے قدموں میں یہ برکت دی تھی کہ جدھر رخ کیا کبھی ناکام واپس نہ لوٹے، خود کہتے تھے کہ میں نے جس طرف کا رخ کیا فتح یاب ہوا۔(استیعاب:2/99) اس قول کی صداقت پر ان کے کارنامے شاہد ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو ان کی شجاعت پر اس قدر اعتماد تھا کہ جب ان کے ہاتھ میں عَلم آ جاتا تو آپ مطمئن ہو جاتے، چناں چہ غزوہ موتہ میں جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالا تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے غائبانہ فرمایا کہ اب لڑائی کا تنور گر مایا۔(ابن سعد ق:2،جلد:4 تذکرہٴ خالد رضی الله عنہ)چوں کہ سپہ گری ان کا آبائی پیشہ تھا، اس لیے ان کے پاس سامان حرب کافی تھا، جس کو انہوں نے اسلام لانے کے بعد راہ خدا میں وقف کر دیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب الزکوٰة ،اسد الغابہ:2/104)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا مدح کرنا

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم حضرت خالد رضی الله عنہ کی ان جان فروشیوں اور قربانیوں کی بہت قدر فرماتے تھے اور متعدد موقعوں پر مدحیہ لہجہ میں ان کا اعتراف فرمایا کرتے، فتح مکہ کے موقع پر جب کہ مسلمان مختلف سمتوں سے مکہ میں داخل ہو رہے تھے، ایک گھاٹی کی طرف خالدرضی الله عنہ بھی نمودار ہوئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا دیکھو! کون ہے؟ انہوں نے عرض کی خالد بن ولید ،فرمایا کہ یہ خدا کا بندہ بھی کیا خوب ہے ۔(مسند احمد بن حنبل:2/360) خود بھی قدردانی فرماتے تھے اور لوگوں کو بھی ان کا لحاظ رکھنے کی ہدایت فرماتے تھے، ایک موقع پر لوگوں سے فرمایا کہ خالد ( رضی الله عنہ)کو تم لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دو، کیوں کہ وہ خدا کی تلوار ہے، جس کو اس نے کفار پر کھینچا ہے۔(اصابہ:2/99)

ایک مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زکوٰة وصول کرنے کے لیے بھیجا تو ابن جمیل، خالد اور عباس رضی الله عنہم نے دینے سے انکار کیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ ”ابن جمیل فقیر تھا، خدا نے ان کو دولت مند کیا، یہ اس کا بدلہ ہے لیکن خالد ابن ولیدپر تم لوگ زیادتی کرتے ہو، انہوں نے اپنا تمام سامان حرب خدا کی راہ میں وقف کر دیا ہے، پھر ان پر زکوة کیسی؟ رہا عباس کا معاملہ تو ان کا میں ذمہ دار ہوں، کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ چچا باپ کی جگہ ہے۔ (ابوداؤد:1/163 و مسلم :1/362 مصر)

مزاج

ان کی پوری زندگی سپا ہیا نہ تھی، اس لیے مزاج میں حرارت اور تیزی تھی، ذراسی خلاف مزاج بات پر بگڑ جاتے تھے، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سخت کلامی کا واقعہ او پر گزر چکا ہے، اسی طرح بنو جذیمہ کے معاملہ میں ( جن پر آپ نے مشرک سمجھ کر حملہ کر دیا تھا ) جب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا تو بہت برہم ہوئے ۔(اسد الغابہ:2/103)

حق پرستی

لیکن اس تند مزاجی کے باوجود ہٹ دھرمی نہ تھی اور حق بات کو قبول کرنے اور دوسروں کے فضائل کے اعتراف میں عار نہ کرتے تھے، معزولی کا واقعہ اوپرگزر چکا ہے کہ مجمع عام میں اس طرح معزول کیا جاتا ہے کہ سر سے ٹوپی اتار لی جاتی ہے، عمامہ گردن میں باندھ دیا جاتا ہے اور آپ دم نہیں مارتے اور جب ان کی جگہ پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سپہ سالار مقرر ہوتے ہیں تو یہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اب اس امت کا امین تم پر امیر مقرر کیا گیا ہے۔ (اصابہ:2/99)

اشاعت اسلام

اشاعت اسلام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے، خالد رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے بعد برابر اس فریضہ کو ادا کرتے رہے ،فتح مکہ کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے اشاعت اسلام کی غرض سے جو سرایا بھیجے ان میں سے متعدد سریے ان کی سرکردگی میں روانہ کیے گئے اور بنو جذیمہ، بنو عبد المدان، نجرانی ان ہی کوششوں سے مشرف باسلام ہوئے اور اہل یمن کے اسلام میں حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ ان کی کوششیں بھی شامل تھیں، فتنہ ردہ میں طلیحہ کی جماعت ،بنو ہوازن، بنو سلیم اور بنو عامر وغیرہ دوبارہ ان ہی کوششوں سے اسلام لائے ۔(ابن خلدون جلد2بعوث مرتدین) ان جماعتوں کے علاوہ منفر د طور پر بھی بعض مشہور لوگ آپ کے ہاتھ مشرف بہ اسلام ہوئے، جنگ یرموک میں قیصر روم کے سفیر جارج کے قبول اسلام کا واقعہ او پر گزر چکا ہے۔(ابن اثیر:2/316)

بہشت کے باسی سے متعلق