نام نسب
حاطب نام، ابو محمد یا ابو عبد اللہ کنیت اور والد کا نام ابو بلتعہ تھا، سلسلہ نسب میں اختلاف ہے، بعض قحطانی النسل قرار دیتے ہیں اور بعض بنولخم بن عدی کا ایک ممبر بتاتے ہیں، جو ایام جاہلیت میں قبیلہ بنو اسد کے حلیف تھے، تاہم اصحاب سیر کا عام رجحان یہ ہے کہ ان کا آبائی وطن ملک یمن تھا، مکہ میں غلامی یا حلیفانہ تعلق کے باعث سکونت پذیر تھے ۔(اسد الغابہ، تذکرہٴ حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ)
قبل از اسلام
ایام جاہلیت میں شاعری و شہواری کے لحاظ سے مخصوص شہرت کے مالک تھے۔(اصابہ، جلد:1/314)
قبل از ہجرت ایمان لائے اور جب مدینہ اسلام کا مرکز قرار پایا تو وہ بھی اپنے غلام حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ وارد یثرب ہوئے، یہاں حضرت منذر بن محمد انصاری رضی الله عنہنے ان کو اپنا مہمان بنا لیا اور حضرت خالد بن رحیلہ رضی اللہ عنہ سے مواخات ہوئی۔(طبقات ابن سعد،قسم 1،جزء:3/80)
غزوات
غزوہ بدر،احد خندق اور تمام مشہور معرکوں میں رسول اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے ۔ (طبقات ابن سعد، قسم 1،جزء:3/80)
دربارِ مصر میں تبلیغ اسلام
غزوہ ٴحدیبیہ سے واپس آ کر6ھ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو مقوقس والیٴ مصر کے پاس مبلغ اسلام بنا کر بھیجا۔ رقعہ دعوت کا مضمون یہ تھا:
اما بعد فانی ادعوک بدعایة الاسلام، اسلم تسلم و اسلم یؤتک اللہ اجرک مرتین، فان تولیت فان علیک اثم اہل القبط، یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا وبینکم ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا، ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ․(زاد المعاد:2/50)
”میں تم کو دعوت اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام قبول کرو گے تو تم محفوظ رہو گے اور خدا تم کو دونا اجر دے گا اور اگر روگردانی کرو گے تو تمام قبطیوں کا گناہ تم پر عائد ہوگا۔ اے اہل کتاب!تم ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں باہم مساوی ہے، یعنی ہم لوگ صرف ایک خدا کی پرستش کریں، کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے بعض اپنے بعض کو خدا کے آگے پروردگار نہ بنائے“۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مصر پہنچ کر مقوقس کے دربار میں نامہ مبارک پیش فرمایا اور حسب ذیل مکالمہ سے اس کو اسلام کی ترغیب دی۔
حضرت حاطب رضی الله عنہ: تم سے پہلے یہاں ایک ایسا فرماں روا گذرا ہے جو بزعم خود اپنے آپ کو خدائے برتر سمجھتا تھا، لیکن حق سبحانہ نے اس کو دنیا و آخرت کے عذاب میں گرفتار کر کے عبرت ناک انتقام لیا، تم کو غیروں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تم خود مرقع عبرت بن جاؤ۔
مقوقس:ہم ایک مذہب کے پابند ہیں، جس کو اس وقت تک تم نہیں چھوڑ سکتے جب تک کوئی دوسرا مذہب اس سے بہتر ثابت نہ ہو جائے ۔
حضرت حاطب رضی اللہ عنہ:ہم تم کو دین اسلام کی دعوت دیتے ہیں ،جو تمام مذاہب میں سب سے زیادہ مکمل ہے، اس نبی نے جب لوگوں کو اس کی دعوت دی تو قریش نے سخت مخالفت کی ،اس طرح یہودیوں نے سب سے زیادہ عداوت ظاہر کی، لیکن نصاری نسبتاً قریب تر تھے، قسم ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام نے محمدکی بشارت دی ہے اور جس طرح تم یہودیوں کو انجیل کی طرف بلاتے ہو اسی طرح ہم تم کو قرآن کی دعوت دیتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے زمانہ بعثت میں جو قوم موجود ہوتی ہے وہ ان کی اُمت ہوتی ہے اور اُس پر ان کی اطاعت فرض ہے، چوں کہ تم نے ایک نبی کا زمانہ پایا ہے، اس لیے اس پر ایمان لانا ضروری ہے، ہم تم کو دین مسیح سے پھیرتے نہیں، بلکہ اسی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں ۔ مقوقس:کیا در حقیقت محمد (صلی الله علیہ وسلم) نبی ہیں؟
حضرت حاطب: کیوں نہیں !
مقوقس :قریش نے جب ان کو اپنے شہر سے نکال دیا تو انہوں نے بددعا کیوں نہ کی؟
حضرت حاطب: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ عیسی بن مریم علیہ السلام رسول خدا ہیں؟ اگر ایساہے تو انہوں نے صلیب پر کیوں نہیں اپنی قوم کے لیے بد دعا فرمائی ؟ اس دل نشین جواب پر مقوقس نے بے اختیار صدائے تحسین و آفرین بلند کی اور بولا بے شک تم حکیم ہو اور ایک حکیم کی طرف سے آئے ہو۔(اسد الغابہ، تذکرہٴ حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ) میں نے جہاں تک غور کیا ہے یہ نبی کسی لغو کام کا حکم نہیں دیتا اور نہ پسندیدہ امور سے باز رکھتا ہے، میں نہ تو اس کو گم راہ جادوگر کہہ سکتا ہوں، اور نہجھوٹا کا ہن ،اس میں نبوت کی بہت سی نشانیاں ہیں، میں عنقریب اس پر غور کروں گا۔ اس کے بعد اس نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر ہاتھی کے دانت کے ایک ڈبہ میں بند کیا اور مہر لگا کر اپنی پیش خدمت کنیز کی حفاظت میں دیا۔
مقوقس نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو نہایت عزت و احترام سے رخصت کیا اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے لیے گراں قدر تحائف ساتھ کر دیے، جن میں ماریہ و سیرین دو لونڈیاں، دلدل نام کا ایک خچر اور بہت سے قیمتی کپڑے تھے ۔(زادالمعاد:2/57)
غزوہ فتح مکہ
8ھ میں فتح مکہ کی تیاریاں ہوئیں اور غنیم کو بے خبر رکھنے کے لیے تمام احتیاطی تدبیریں عمل میں لائی گئیں، حضرت حاطب رضی الله عنہ گو مکہ کے رہنے والے نہ تھے ،تاہم ایام جاہلیت میں قریش سے جو تعلقات پیدا ہو گئے تھے، اس نے ان کو احباب قدیم کی مواسات پر برانگیختہ کیا، انہوں نے ان تیاریوں کے متعلق خط لکھ کر ایک عورت کی معرفت مکہ کی طرف روانہ فرمایا، لیکن کشاف غیب نے قبل از وقت اس راز کو طشت از بام کر دیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد رضی الله عنہم کو حکم دیا کہ روضہ خاخ کے پاس جا کر اس عورت سے خط چھین لائیں ۔
غرض خط گرفتار ہو کر آیا اور پڑھا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا حاطب !یہ کیا ہے؟ عرض کی:
”یا رسول اللہ !میرے معاملہ میں عجلت نہ فرمائیے، میں قریشی نہیں ہوں، تاہم ایام جاہلیت میں ان سے تعلقات پیدا ہو گئے تھے ،چوں کہ تمام مہاجرین اپنے مکی اعزہ و اقارب کی حمایت و مساعدت کرتے رہتے ہیں، اس لیے میں نے بھی چاہا کہ اگر نسبی تعلق نہیں ہے تو کم سے کم اس احسان کا معاوضہ ادا کر دوں جو قریش میرے رشتہ داروں کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں، میں نے یہ کام مذہب سے مرتد ہو کر یا کفر کو اسلام پر ترجیح دے کر نہیں کیا ہے“۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہٴ فتح)
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو کچھ سچی بات تھی اس نے ظاہر کر دی، اس لیے اس کو کوئی برا نہ کہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ !
یہ خدا اور رسول اور مسلمانوں کی خیانت کا مرتکب ہوا ہے، اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔
ارشاد ہوا کیا معرکہ بدر میں شریک نہ تھا ؟ خدا نے تمام اہل بدر کو اجازت دے دی ہے کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ رحمت للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی اس شان در گذر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ (بخاری، باب فضل من شھد بدراً)
اس واقعہ کے بعد اعدائے اسلام سے الفت و مودت کی ممانعت کی گئی اور قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب تفسیر سورة الممتحنہ)
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء َ تُلْقُونَ إِلَیْہِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء َکُم مِّنَ الْحَقِّ﴾․ (ممتحنہ:1)
”اے وہ لوگوجو کہ ایمان لائے ہو! میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ ،تم ان کی طرف محبت سے پیش آتے ہو ،حالاں کہ تمہارے پاس جو ( مذہب ) حق آیا ہے اس کا انہوں نے انکار کیا ہے۔
مصر کی سفارت
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد خلیفہ اول نے ان کو دوبارہ مقوقس کے دربار میں بھیج کر ان کی وساطت سے ایک معاہدہ ترتیب دیا، جو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے حملہ مصر تک طرفین کا معمول بہ تھا۔(استیعاب:1/135)
وفات
65برس کی عمر پا کر30 ھ میں رہ گزین عالم جاوداں ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع نے سپر د خاک کیا ۔ (استیعاب:1/135)
اخلاق
وفا شعاری، احسان پذیری اور صاف گوئی ان کے مخصوص اوصاف ہیں، احباب اوررشتہ داروں کا بے حد خیال رکھتے تھے، فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے مشرکین کو جو خط لکھا وہ در حقیقت ان ہی جذبات پر مبنی تھا، چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے بھی اس نیت خیر و صاف گوئی کو ملحوظ رکھ کر ان سے در گزر فرمایا۔
ذریعہ معاش
تجارت اصلی ذریعہ معاش تھی، انہوں نے کھانے کی ایک دکان ( ریسٹورنٹ ) سے نہایت کثیر نفع حاصل کیا، چناں چہ وفات کے وقت چار ہزار دینار نقد اور بہت سے مکانات چھوڑے۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:80)
حلیہ
حلیہ یہ تھا موزوں اندام، چہرہ خوب صورت ،انگلیاں موٹی اور قد کسی قدر چھوٹا ۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزءِ ثالث،ص:80)