حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَیٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ﴾․ (سورة الأعراف، آیت:96)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ نے اس پوری کائنات، پوری دنیا کو انسان کے مفادات او راس کے مصالح کے لیے پیدا کیا ہے۔ یہ انسان بنیادی طور پر اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ الله کی عبادت کرے۔ اس کی بندگی کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، اس کا کفر او رانکار نہ کرے، اس کے احکامات کی بجا آوری کرے، اس کے بھیجے ہوئے رسولوں اور پیغمبروں کی اطاعت کرے اور پھر یہ ساری کی ساری دنیا اس کے فائدے میں استعمال ہو۔
آسمان کی چھت ہے، زمین کا فرش ہے، سورج، چاند، تاروں کی روشنی ہے، زمین کی ہر چیز الله نے اس کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہے اور اسے جوڑا ہے اپنے ساتھ۔
چناں چہ الله تعالیٰ اس آیت میں بھی یہی ارشاد فرمارہے ہیں،﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَیٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ﴾،
اگر بستی والے، اس دنیا میں رہنے والے، اگر الله پر ایمان لائیں﴿ وَاتَّقَوْا ﴾
اور الله کا خوف اور خشیت اختیار کریں۔ الله سے ڈرنے لگیں، تو الله تعالیٰ فرمارہے ہیں:﴿لَفَتَحْنَا﴾
البتہ ہم کھول دیں گے اس بستی والوں پر برکات﴿ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ﴾
آسمانوں کی برکتیں بھی اور زمینوں کی برکتیں بھی۔
آپ جانتے ہیں کہ انسان کی جو جسمانی ضرورتیں ہیں، جن کو آپ مادی بھی کہہ سکتے ہیں، کھانا ، پینا، پہننا ، مکان ، غلہ ، اجناس ، پھل، پھول ، ان سب کا تعلق زمین سے ہے۔ غلہ بھی زمین سے اُگتا ہے۔ پھل اورپھول بھی زمین سے اُگتے ہیں، پانی بھی زمین سے نکلتا ہے، کپڑا جس چیز سے بنتا ہے کپاس۔ وہ بھی اسی زمین سے اُگتی ہے، یہ ساری چیزیں جو انسان کی ضرورت ہیں اور اس زمین سے اُگتی ہیں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی جسم بھی اسی مٹی سے بنا ہے، اس کی ضرورتیں بھی الله زمین او رمٹی سے پوری فرماتے ہیں او رجب یہ ماد ی جسم مر جائے گا، موت آجائے گی تو یہ اسی زمین میں دفن ہو جائے گا، اس کی ابتدا بھی اس زمین سے او رانتہا بھی اسی زمین میں، لیکن خوب یاد رکھیں کہ میں او رآپ جو یہاں بیٹھے ہیں یہ صرف جسم کا نام نہیں، ہمارے اندر روح ہے۔ اس روح ہی کی وجہ سے یہ جسم زندہ ہے، جس وقت روح اس جسم سے نکل جاتی ہے، یہ جسم مر جاتا ہے، چناں چہ جیسے جسمانی ضرورتیں ہیں اور وہ سب کی سب زمین سے وابستہ ہیں، ایسے ہی اس روح کی بھی تو ضرورتیں ہیں، اس روح کی بھی تو غذا ہے ۔ اس روح کو بھی قوی اور طاقت ور کرنے کی چیزیں ہیں، جیسے جسم کے لیے طاقت ور ترین غذا مثلاً گندم ہے۔
ایسے ہی اس روح کی بھی غذا ہے اور سب سے طاقت ور ترین غذا، وہ ایمان اور تقو یٰ ہے، الله کے سوا کوئی معبود نہیں، الله کے سوا کوئی الٰہ نہیں، الله ہی خالق ہیں، الله ہی مالک ہیں، الله ہی عزت دیتے ہیں، الله ہی ذلت دیتے ہیں، الله ہی بیمار کرتے ہیں ،الله ہی شفا دیتے ہیں، الله ہی نے زندہ کیا، الله ہی ماریں گے، کوئی الله کا شریک نہیں ہے، کوئی الله کا معاون نہیں، الله نے سار ی کائنات او رجو کچھ اس کائنات میں ہے ،بشمول ہمارے اور آپ کے، سب کو الله نے بنایا ہے اور تقوی ،الله کا خوف کہ الله مجھے دیکھ رہے ہیں، الله ہر وقت حاضر ناظر ہیں، کوئی دیکھے نہ دیکھے، الله دیکھ رہے ہیں، رات کو بھی دیکھ رہے ہیں، دن کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے کہ انسان الله کی نظروں سے دور ہو، آپ نے دیکھا ہو گا جگہ جگہ لکھا ہوا ہوتا ہے کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے، تو آدمی محتاط ہو جاتا ہے، صاحب دیکھ رہے ہیں، افسر دیکھ رہے ہیں تو آدمی پھر سیدھا ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک افسر اور صاحب کی کیا حیثیت ہے؟ وہ بھی ایک ناپاک قطرے سے پیدا ہوا ہے۔ الله دیکھ رہے ہیں، یہ کیفیت ہونی چاہیے، نماز میں بھی الله دیکھ رہے ہیں، دکان میں بھی الله دیکھ رہے ہیں، تلاوت کرتے ہوئے بھی مجھے الله دیکھ رہے ہیں، جب یہ استحضار ہو گا کہ مجھے الله دیکھ رہے ہیں تو جیسے ایک ملازم کیمرے کی آنکھ کی وجہ سے بالکل سیدھا ہے، ایسے ہی ہمیں الله کے سامنے سیدھا ہونا چاہیے یانہیں ہونا چاہیے؟!
کائنات کا مالک مجھے دیکھ رہا ہے، چناں چہ جب ایمان اور تقویٰ انسان میں آجاتا ہے تو پھر برکتیں ہی برکتیں، آسمانوں سے، زمینوں سے، ہر طرف سے برکات۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ جو برکت ہے، آپ تلاش کریں کسی ڈکشنری میں برکت کی تفصیل نہیں ملے گی، کیوں؟ اس لیے کہ برکت جڑی ہوئی ہے ایمان کے ساتھ، برکت جڑی ہوئی ہے تقویٰ کے ساتھ، وہ ڈکشنریاں ایمان اور تقویٰ سے چوں کہ خالی ہیں۔ وہاں آپ کو برکت کا ترجمہ نہیں ملے گا۔
مثال سے میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں، آپ نے دیکھا ہو گا، کتیا، کتے کی مؤنث، وہ عام طور پر پانچ، سات، آٹھ ، نو بچے دیتی ہے ،اس کے تھن بھی دو نہیں ہوتے، اس کے بچے چوں کہ زیادہ ہوتے ہیں اس لیے الله نے اس کے تھن بھی زیادہ بنائے ہیں، چھ ، چھ، سات، سات بچے ایک ساتھ دودھ پیتے ہیں، چناں چہ اب ہونا کیا چاہیے اب ہونا یہ چاہیے کہ دنیا میں آپ جہاں جاؤ آپ کو کتے او رکتیاں ہی نظر آئیں او رجلدی جلدی پیدا ہوتے ہیں۔ تو ہونا تو یہ چاہیے کہ کتوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہوں، لیکن ایسا نہیں، اس کے مقابلے میں بکری ہے۔ بکری کا عام طور پر ایک بچہ ہوتا ہے یازیادہ سے زیادہ دو بچے، بہت شاذ اور کم ہوتا ہے کہ بکری تین بچے دے،لیکن بہت کم، تھن بھی دو ہوتے ہیں، اب عقل کا تقاضا کیا ہے کہ کتے اورکتیاں زیادہ ہونی چاہییں، اس لیے کہ پیداوار زیادہ ہے اور عقل کہتی ہے کہ بکریاں کم ہونی چاہییں، اس لیے کہ بکر ی بہت کم بچے دیتی ہے، جب کہ استعمال بھی پوری دنیا کے اندر اہل ایمان، اہل اسلام اور دوسرے مذاہب والے بھی بکری کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں، ہزاروں ہزار بکریاں روزانہ ذبح ہوتی ہیں، جب کہ کتے اور کتیاں تو ذبح بھی نہیں ہوتے۔بقر عید کے موقع پر تو بکرے، بکریوں کے ذبح کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ بکریاں ساری دنیا سے ختم ہو جانی چاہییں، لیکن آپ کو کتوں کا ریوڑ تو کہیں نظر نہیں آئے گا، بکروں اور بکریوں کے ریوڑ نظر آئیں گے۔
دو، دوسو، پانچ پانچ سو، ریوڑ کے ریوڑ، چراگاہیں بھری ہوئی ہیں، او رکوئی قلت دنیا میں ان کی نہیں ہے، یہ برکت ہے۔ الله تعالیٰ نے بکری میں برکت دی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ نے بکری میں برکت دی ہے، اسے پالا کرو، الله کے رسول صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں او رپھر فرمایا کہ میں نے بھی بکریاں چرائی ہیں اور پھر فرمایا کہ الله نے بکری میں برکت دی ہے۔ بات چل رہی ہے برکت کی۔
تو باوجود اس کے کہ اس کی پیداوار کم ہے، باوجود اس کے کہ اس کے تھن بھی دو ہیں، لیکن بکریاں، بکرے بہت زیاد اور کتے آٹھ آٹھ، دس دس پیدا ہوتے ہیں، تھن بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن دنیا میں کہیں اتنے زیادہ کتے نظر نہیں آتے ،یہ کیا ہے ؟ برکت ہے، کم کو زیادہ کرنا یہ الله کے اختیار میں ہے، چناں چہ وہ لوگ جو ایمان والے ہیں، جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں، الله تعالیٰ ان کو ایسی برکات زمین وآسمان سے عطا فرماتے ہیں کہ دنیا سمجھ ہی نہیں پاتی۔
صحیح بخاری میں غزوہ خندق کا واقعہ موجود ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کی رائے پر خندق کھودی، مدینہ منورہ کا جوجغرافیہ ہے، آپ جانتے ہیں کہ جغرافیے میں حدود اربعہ ہوتا ہے، مشرق، مغرب، شمال جنوب، اس کو حدود اربعہ کہتے ہیں۔
مدینہ منورہ کا حدود اربعہ یہ ہے اس کے تین طرف مشرق میں بھی، مغرب میں بھی اور جنوب میں بھی مکانات او رباغات ہیں، صرف ایک جانب ہے شمال کی، وہ کھلی ہوئی ہے، وہاں مکانات بھی نہیں ہیں اور باغات بھی نہیں ہیں ،آپ جانتے ہیں کہ غزوہ خندق کو غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں، جیسے افغانستان میں پچاس ملک کفار ومشرکین کے اکھٹے ہو کرمسلمانوں پر حملہ آور ہوئے،اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ، احزاب، حزب کی جمع، حزب جماعت گروہ قبیلے کو کہتے ہیں تو اس وقت کا نیٹو وہ مدینہ منورہ پر ہر طرف سے حملہ آور ہوا۔ اب مسلمانوں کی اور مدینہ کی حفاظت کیسے کی جائے؟ تو ابھی میں نے آپ کو بتایا کہ مدینہ کا جو جغرافیہ ہے وہ یہ ہے کہ مشرق، مغرب، جنوب تینوں اطراف میں مکانات وباغات ہیں، تو وہ احزاب ان اطراف سے تو حملہ نہیں کرسکتے، اس لیے کہ سامنے مکانات ہیں، سامنے باغات آجائیں گے، رکاوٹ آجائے گی، نہ گھوڑے دوڑ سکیں گے، نہ اونٹ دوڑ سکیں گے اور نہ لوگوں کو حملہ کرنے میں سہولت ہوگی، صرف ایک جانب ہے شمال، وہاں سے حملہ کرسکتے ہیں۔
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے رائے دی کہ اے الله کے رسول! ہمار ے ہاں فارس، ایران میں جب اس طرح کی صورت حال ہوتی ہے تو ہم لوگ وہاں خندق بناتے ہیں۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کی اس رائے کو بہت پسند کیا اور آپ نے حکم دیا کہ شمال والی جو جانب ہے جہاں سے کفار حملہ کرسکتے ہیں یہاں خندق کھود و، چناں چہ بعض اقوال تین میل کے ہیں، بعض ساڑھے تین میل کے ہیں، خندق کھو دی گئی اور وہ خندق پانچ گز گہری تھی، دس دس گز خندق تقسیم کی گئی کھودنے کے لیے، خود آپ صلی الله علیہ و سلم نے اس خندق کے حدود کے نشان لگائے، چناں چہ چھ دن میں ساڑھے تین میل لمبی اور پانچ گز گہری خندق تیار ہو گئی، خود آپ صلی الله علیہ وسلم اس محنت میں اس کھودنے کے عمل میں شریک ہوئے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا جسم مبارک دنیا کا حسین ترین جسم ہے ،لیکن گرد وغبار اتنا زیادہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے جسم پر کہ جسم نظر نہیں آتا تھا، چناں چہ وہ صحابہ کرام جوخندق کھود رہے تھے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے او رآکر کہا کہ اے الله کے رسول! خندق کھودنے کے دوران چٹان آگئی ہے ،وہ ہم سے ٹوٹ نہیں رہی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: أنا نازل میں خود اترتا ہوں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اترکر کدال زور سے اس چٹان پر ماری اور ایک ضرب سے وہ چٹان ٹوٹ گئی اور ریت کی طرح ہوگئی اور اس میں آپ کو فارس کے محلات دکھائے گئے، شام کے محلات دکھائے گئے، وہ ایک الگ لمبا قصہ ہے۔
حضرت جابر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ وہ زمانہ جس میں یہ غزوہ خندق، غزوہ احزاب ہوا، شدید ترین سردیوں کا زمانہ تھا، مدینہ منورہ میں سردی بہت شدید ہوتی ہے، ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں، شدید سرد ہوائیں اور شدید ترین قحط کا زمانہ تھا، کھانے پینے کو کچھ نہیں۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم فرماتے ہیں کہ ہمیں مٹھی بھر جَود یے جاتے اور بد بو دار چربی میں وہ جو پکائے جاتے تو وہ ہمار ے حلق میں اٹک جاتے، اترتے نہیں تھے، بھوک کی و جہ سے صحابہ کرام رضی الله عنہم نے پتھر باندھے ہوئے تھے، کھانا پیٹ میں جاتا ہے تو وزن ہوتا ہے، آپ نے ایک پاؤ کھانا کھایا تو ایک پاؤ وزن چلا گیا، ڈیڑھ پاؤں کھایا تو ڈیڑھ پاؤ وزن چلا گیا، آدھا کلوکھایا تو آدھا کلو وزن چلا گیا، جب یہ وزن پیٹ میں جاتا ہے تو بھوک مٹ جاتی ہے، چناں چہ اس بھوک کو مٹانے کے لیے صحابہ کرام پتھر کا وزن پیٹ پر رکھتے تھے، تاکہ نفسیاتی طور پر محسوس ہو کہ پیٹ میں وزن ہے۔
حضرت جابر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم اتر رہے تھے اس چٹان کو توڑنے کے لیے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیٹ پر بھی پتھر بندھا ہوا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم بھی فاقے سے تھے، بھوک کا شکار تھے اور حضرت جابر رضی ا لله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی کیفیت ایسی تھی کہ مجھ سے دیکھی نہیں گئی، چناں چہ جیسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم خندق سے نکلے تو میں نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول ! اگر آپ کی اجازت ہو تو میں گھر ایک چکر لگا کے آجاؤں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر کو اجازت دے دی کہ جاؤ، وہ گھر گئے او رجا کر بیوی سے کہا کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حالت جو آج دیکھی ہے وہ مجھ سے دیکھی نہیں گئی، بیوی سے پوچھا کہ گھر میں کچھ ہے ؟بیوی نے کہا ہاں! ایک بکری کا بچہ ہے اور ایک صاع جَو ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں بکری کا بچہ دبح کرتا ہوں تم جَو پیسنا شروع کرو، میں نے بکری کا بچہ ذبح کہا، اس کا گوشت بنایا اور تین پتھر رکھ کر چولہا بنایا، ہانڈی چھولہے پر رکھی، لکڑیاں جلائیں، جتنے وقت میں میں نے یہ کام کیا اتنے وقت میں بیوی نے بھی اپنے آپ کو فارغ کر لیا، اس نے جَوپیس لیے، آٹا گوندھ لیا، اب میں نے بیوی سے کیا کہ میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے پاس جاتا ہوں، اتنی دیر میں یہ گوشت پک جائے گا اور جب آپ صلی الله علیہ و سلم تشریف لے آئیں گے تو روٹیاں بنانا شروع کریں گے۔
چناں چہ حضرت جابر رضی الله عنہ جب آپ صلی الله علیہ و سلم کو بلانے کے لیے جانے لگے تو بیوی نے کہا دیکھو! مجھے رسوامت کر دینا، ہمارے پاس تو تھوڑا سا کھانا ہے تم ذرا احتیاط سے کام لینا۔
چناں چہ حضرت جابر آئے اور آکر آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا اے الله کے رسول! میں نے گھر میں تھوڑا سا کھانا بنایا ہے، آپ اور آپ کے ساتھ اگر چند حضرات تشریف لے چلیں، کھانا تناول فرمالیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر سے پوچھا کہ کھانا کتنا ہے؟ حضرت جابر نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! ایک بکری کا بچہ تھا، اس کو ذبح کیا ہے اور ہانڈی میں بنایا ہے اور ایک صاع جَو کے تھے، انہیں پیسا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کثیر طیب، یہ تو بہت ہے ،بہترین ہے اور آپ نے اعلان فرمایا، اے انصار ومہاجرین! جابر کے گھر دعوت ہے، سب چلو ، اب حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے گھر کی طرف تیز تیز قدم بڑھائے، میرے پیچھے آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام ساتھ، آپ نے فرمایا: رش مت کرو ،آرام آرام سے داخل ہو او رحضرت جابر سے آپ نے چلتے وقت فرما دیا تھا کہ اے جابر! پتیلے اور ہانڈی سے میرے آنے تک ڈھکن مت ہٹانا اور روٹی بھی جب تک میں نہ پہنچ جاؤں مت پکانا۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ و سلم گھر میں تشریف لائے اور آکر آپ نے ہانڈی کو دیکھا او راس میں آپ نے تھوڑا لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی، ایسے ہی آٹے میں آپ نے لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی اور پھر آپ نے فرمایا کہ روٹی پکانا شروع کرو، اب روٹی پکنا شروع ہو گئی، آپ صلی الله علیہ وسلم روٹی کے ٹکڑے کرتے اس پر بوٹی رکھتے اور دیتے جاتے، روٹی آرہی ہے، بوٹی آرہی ہے، سارے لشکر نے کھایا حضرت جابر فرماتے ہیں کہ تعداد کھانے والوں کی ایک ہزار سے زیادہ تھی، نہ کھانے میں کوئی کمی آئی اور نہ آٹے میں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر سے فرمایا کہ یہ جو بچ گیا ہے اسے خود بھی کھاؤ اور اس وقت قحط سے لوگ پریشان ہیں، اپنے دائیں بائیں لوگوں میں، گھروں میں، بھی اسے تقسیم کرو یہ کیا ہے؟﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَیٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ﴾
آسمانوں وزمینوں سے برکتیں ہی برکتیں نازل ہوں گی، لیکن اس کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے، اس کا تعلق تقویٰ کے ساتھ ہے کہ جب آدمی کا ایمان کامل ہو، رزق الله کے ذمے ہے۔
﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُہَا﴾
․ زمین پر کوئی چوپایہ چل پھر نہیں رہا، مگراس کا رزق الله کے ہاتھ میں ہے، تمام ضرورتیں الله پوری کرتے ہیں۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
میں پڑھ رہا تھا حضرت جنید بغدادی رحمہ الله کے پاس ایک مرید آئے اور عرض کیا کہ میرا ارادہ حج پر جانے کا ہے، مگر زاد راہ نہیں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اچھا اور آپ نے اپنی جیب سے اس زمانے کے اعتبار سے ایک چونی نکالی اور اس کو دے کر فرمایا کہ جاؤ، چناں چہ وہ چونی لے کر نکلے، جیسے ہی بغداد سے نکلے تو دیکھا کہ ایک قافلہ ہے، ان سے ملاقات کی ،پوچھا کہاں جارہے ہیں؟ کہا حج پہ جارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ میرا بھی ارادہ حج پہ جانے کا ہے۔ قافلے والوں نے کہا بہت اچھا ہوا، آپ آگئے، ہمارے ساتھ ایک صاحب کو جانا تھا، مگر وہ اچانک بیمار ہو گئے، سواری کا ہم پہلے سے بندوبست کرچکے تھے، وہ سواری خالی ہے، آپ آجائیے، اب بغداد سے مکہ پہنچ گئے، کھا بھی رہے ہیں، پی بھی رہے ہیں، ساری ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں، حج ہو گیا، اب جب حج ہو گیا تو پہلے والا قافلہ تو اپنے نظام سے گیا تھا، وہ تو پتہ نہیں کہاں گیا، اب واپسی پر ان کو پھر پریشانی ہوئی، تو جہاں سے سواریاں چلتی تھیں، جیسے بس اڈے آج کل ہوتے ہیں، ایسے ہی اس زمانے میں جو مویشیوں کے اڈے ہوتے تھے، اونٹوں کے اڈے ہوتے تھے، جہاں سے لوگ سفر کیا کرتے تھے، یہ وہاں گئے اور پوچھا کہ کوئی بغداد جانے والا قافلہ ہے؟ بتایا گیا ہاں ہے ۔یہ اس قافلے کے امیر سے ملے کہ جی میں بغداد جانا چاہتا ہوں کہا بہت اچھا، ہمارے ساتھ قافلے میں ایک حاجی صاحب آئے تھے، ان کو الله نے قبول کر لیا، ان کا یہاں انتقال ہو گیا، سواری خالی ہے، آپ بیٹھ جائیں، چناں چہ یہ بغداد آگئے اورآکر حضرت جنید بغدادی رحمہ الله سے ملے اورکہا کہ حضرت! وہ چونی تو جیب ہی میں ہے ،نہ جاتے ہوئے خرچ ہوئی، نہ آتے ہوئے اور الله نے حج کروا دیا، حضرت نے فرمایا: ہماری چونی ہمیں واپس کر دیں۔ یہ کیا ہے؟ ﴿لَفَتَحْنَا عَلَیْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ﴾
چار آنے تھے اور چار آنے خرچ ہی نہیں ہوئے۔
تو بھائی! بات یہ ہے کہ اگر ایمان اندر ہو اور تقویٰ ہو، آج افسوس اس بات کا ہے کہ ہم زمانے ہوگئے نمازیں پڑھ رہے ہیں، تلاوت بھی کر رہے ہیں، ذکر بھی کر رہے ہیں، دعائیں بھی کر رہے ہیں، لیکن وہ نماز بھی بے روح ہے، اس میں روح نہیں ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں، میں کیا کر رہا ہوں۔
ہم مسجد میں آگئے، ہم پوچھیں اپنے آپ سے کہ کیا کوئی استحضار ہے؟ ہم کس کیفیت میں آئے ہیں؟ ہم کسی کیفیت میں یہاں بیٹھے ہیں؟ کیا ہمارا تار الله کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟
ہم آرہے ہیں، کسی کے بیس سال کے جمعے گزر گئے، کسی کے پچاس سال کے جمعے گزر گئے، کسی کے بیس سال کی نمازیں گزر گئیں، کسی کی پچاس سال کی نمازیں گزر گئیں، استحضار نہیں، نماز کا ڈھانچہ ہے، شکل ہے، لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ہاں! یہ آدمی قیام میں ہے، یہ آدمی رکوع میں ہے، یہ آدمی سجدے میں ہے، قعدے میں ہے ،نظرآرہا ہے۔
جیسے جسم کے اند راگر روح نہ ہو تو وہ جسم جسم ہے؟ شکل ہے۔ بیٹے سے کہیں آپ کے ابا جان کا انتقال ہوگیا اور بیٹا کہے کہ اباجان کا کہاں انتقال ہوا ہے؟ وہ تو بستر پر موجو دہیں، ان کا تو چہرہ بھی موجود ہے، دھڑ بھی موجود ہے، ان کے ہاتھ بھی موجود ہیں، ٹانگیں بھی موجود ہیں، انتقال کہاں ہوا ہے؟ وہ تو موجود ہیں، تو کوئی کان میں کہتا ہے کہ بیٹا آپ کے ابا جان کی روح پرواز کر گئی ہے۔ اب ان کو غسل دیا جائے گا، کفن پہنایا جائے گا،نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور قبر میں دفن کر دیا جائے گا توجیسے وہ ابا بستر پر تو لیٹے ہوئے ہیں، لیکن ان میں روح نہیں ہے، اب ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایسے ہی نماز کی شکل ہے ،لیکن روح نہیں ہے، تار الله کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے، تلاوت تو ہے ،لیکن تار الله کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔
دعا ہے، امام نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، ہم نے بھی ہاتھ اٹھا لیے انہوں نے کہا﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ﴾
چہرے پر ہاتھ پھیر لیے ،ہم نے بھی ہاتھ پیر لیے، کیا ہوا؟ جی دعا ہو گئی، دعا تو یہ ہے کہ آپ کو استحضار ہو کہ میں اپنے خالق، مالک سے مانگ رہا ہوں، تعلق ہو، قرآن پڑھتے ہوئے یہ استحضار ہو کہ یہ ا۱لله کا کلام ہے او رتمام کے تمام اذکار میں یہ استحضار ہو کہ میں الله کا نام لے رہا ہوں۔
میرے دوستو! یہ ساری چیزیں کوشش کرنے سے حاصل ہوں گی اورتاریخ ہمارے سامنے ہے کہ پھر الله کی طرف سے برکات آسمانوں سے بھی، زمینوں سے بھی حاصل ہوں گی، الله تعالیٰ کا وعدہ ختم نہیں ہوا ہے، الله تعالیٰ کا وعدہ ویسے ہی ہے ﴿إِنَّ اللَّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ﴾
الله تعالیٰ خلافِ وعدہ نہیں فرماتے۔
تو بھائی درخواست ہے کہ جیسے ہم دنیا کی چیزوں کو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،دنیا کی کوئی عمر نہیں ہے، ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے، دین کو بھی سیکھنے کی کوشش کریں، ایمان کو بھی سیکھنے کی کوشش کریں۔ ہم تقویٰ کو بھی سیکھنے کی کوشش کریں ہم نماز کو بھی سیکھنے کی کوشش کریں اور الله کا خوف ، ڈر، خشیت، ہر وقت ہمیں یہ استحضار ہو کہ الله ہمیں دیکھ رہے ہیں، ہماری بات سن رہے ہیں،ہر وقت حاضر ناظر ہیں، ہر وقت ہمیں نظروں میں رکھا ہوا ہے، جب یہ استحضار ہو تو الله تعالیٰ کی مدد ونصرت آئے گی۔ الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․