امام غزالی نے لکھا ہے ”خلق“ دل کی ایک کیفیت خاص سے عبارت ہے، جو قلب میں راسخ ہو اور جس کی وجہ سے اعمال سہولت اور آسانی کے ساتھ اور بغیر غور و خوض کیے ظاہر ہوتے ہیں۔ کوئی تکلف نہیں کرنا پڑتا ہے اور نہ کسی بناوٹ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ جو ظاہر ہوتا ہے وہ فطرت کا تقاضا ہوتا ہے، اخلاق حسنہ کے نتائج جن افعال سے ظاہر ہوتے ہیں انہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ”احسن الناس خلقا وخلقا“ تھے، یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کا ظاہری چہرہ مہرہ بھی دل آویز اور دل کش تھا اور دوسروں سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا برتاؤ ، شفقت، کرم، لطف ، دلدہی ، محبت، اپنائیت، چھوٹے بڑے کی فکر، یہ سب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی، جو ہمارے لیے اسوہ اور کردار کا معیاری نمونہ ہیں، نہ صرف مسلمانوں کے لیے، بلکہ تمام عالم بشریت کے لیے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم کی یہ آیتیں عنوان کا کام دیتی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ن وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ، مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُونٍ، وَإِنَّ لَکَ لَأَجْرًا غَیْرَ مَمْنُونٍ، وَإِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍٍ﴾․ (القلم :4-1)
”ن“ قسم ہے قلم کی اور (قسم ہے) ان (فرشتوں) کے لکھنے کی (جو کہ کا تب الاعمال ہیں )کہ آپ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں (جیسا کہ منکرین نبوت کہتے ہیں ) اور بے شک آپ کے لیے (اس تبلیغ احکام پر )ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں اور بے شک آپ اخلاق (حسنہ ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں ۔
وہ آیات، جن میں حسن اخلاق کے اجزا بیان کیے گئے ہیں، متفرق مقامات پر وارد ہوئی ہیں اور معنوی اعتبار سے ان کا تعلق حسن اخلاق سے ہے:﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَیٰ وَالْیَتَامَیٰ وَالْمَسَاکِینِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا مِّنکُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ﴾․ (البقرہ:83)
اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب لیا ہم نے (توریت میں) قول و قرار بنی اسرائیل سے کہ عبادت مت کرنا (کسی کی ) بجز اللہ تعالیٰ کے اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت گزاری کرنا اور اہل قرابت کی بھی اور بے باپ کے بچوں کی بھی اور غریب محتاجوں کی بھی اور عام لوگوں سے بات اچھی طرح (خوش خلقی سے )کہنا، اور پابندی رکھنا نماز کی اور ادا کرتے رہنا ز کوة، پھر تم اس (قول وقرار)سے پھر گئے، بجز معدودے چند کے اور تمہاری تو معمولی عادت ہے اقرار کر کے ہٹ جانا ۔
﴿وَقُل لِّعِبَادِی یَقُولُوا الَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنزَغُ بَیْنَہُمْ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِینًا﴾․ (الإسراء :53)
اور آپ میرے (مسلمان) بندوں سے کہہ دیجیے کہ ایسی بات کہا کریں جو بہتر ہو، شیطان (سخت کلامی کراکے ) لوگوں میں فساد ڈلواتا ہے، واقعی شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔
﴿ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ السَّیِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُونَ﴾․ (المومنون :96)
آپ ان کی بدی کا دفعیہ ایسے برتاؤ سے کر دیا کیجیے جو بہت ہی اچھا (اور نرم ) ہو ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ (آپ کی نسبت )کہا کرتے ہیں۔
﴿وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلَٰہُنَا وَإِلَٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ﴾․ (العنکبوت :46)
اور تم اہل کتاب کے ساتھ بجز مہذب طریقہ کے مباحثہ مت کرو، ہاں جوان میں زیادتی کریں اور یوں کہو کہ ہم اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم پر نازل ہوئیں اور یہ تم بھی تسلیم کرتے ہو)کہ ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور ہم تو اسی کی اطاعت کرتے ہیں ۔
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ، وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ﴾․
(حم السجدة:35-33)
اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو (لوگوں کو ) خدا کی طرف بلائے اور (خود بھی )نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں سے ہوں؟ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی (بلکہ ہر ایک کا اثر جدا ہے تو اب ) آپ (مع اتباع) نیک برتاؤ سے (بدی کو) ٹال دیاکیجیے ، پھر یکا یک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جائے جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات انہیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے مستقل مزاج ہیں اور یہ بات اس کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے۔
﴿وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ أَرَادَ أَن یَذَّکَّرَ أَوْ أَرَادَ شُکُورًا، وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی الْأَرْضِ ہَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُونَ قَالُوا سَلَامًا، وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا، وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا، إِنَّہَا سَاء َتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا، وَالَّذِینَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَٰلِکَ قَوَامًا،وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذَٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا، یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا، إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا، وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّہُ یَتُوبُ إِلَی اللَّہِ مَتَابًا، وَالَّذِینَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا﴾․(الفرقان:72-62)
اور وہ ایسا ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والے بنائے (اور یہ دلائل) اس شخص کے لیے ہیں جو سمجھنا یا شکر کرنا چاہے اور (حضرت ) رحمن کے (خاص)بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جہلاء ان سے (جہالت کی بات کرتے ہیں ) تو وہ رفع شر کی بات کہتے ہیں، اور جو راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدہ اور قیام (یعنی نماز)میں لگے رہتے ہیں، اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھیے ، کیوں کہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے، بے شک وہ جہنم برا ٹھکانہ ہے اور برا مقام ہے (یہ تو ان کی حالت طاعات بدنیہ میں ہے ) اور طاعات مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے کہ ) وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ وہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا اس (افراط و تفریط )کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کرنے )کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہاں! مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص ایسا کام کرے گا، تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا ، کہ قیامت کے روز اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا اور وہ اس (عذاب ) میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل (دخوار ) ہو کر رہے گا، مگر جو شرک و معاصی سے ) توبہ کرلے اور ایمان (بھی ) لے آئے اور نیک کام کرتا رہے، تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کے (گذشتہ )گناہوں کی جگہ نیکیاں عنایت فرمائے گا اور اللہ تعالی غفور رحیم ہے اور جو شخص (معصیت سے)تو بہ کرتا ہے اور نیک کام کرتا ہے تو وہ (بھی عذاب سے بچارہے گا کیوں کہ وہ) اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور پر رجوع کر رہا ہے اور وہ بے ہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور اگر (اتفاقا)بے ہودہ مشغلوں کے پاس ہو کر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں ۔
یعنی کسی سے جھگڑتے نہیں ، بحث و مباحثہ نہیں کرتے ، کیوں کہ ایسے اوقات میں اگر کلمہ حق ان سے کہا گیا تو وہ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے اپنے اعمال پر اور بضد ہو جا ئیں گے لہٰذا دعوت و اصلاح کا نفسیاتی علاج یہی ہے کہ اس وقت ہاں ہاں ٹھیک ٹھیک کہہ کر گزر جائیں، پھر جب مناسب وقت آئے تو مناسب پیرا یہ بیان میں ان کی اصلاح کی فکر کریں۔
﴿یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَیٰ مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُور، وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ، وَاقْصِدْ فِی مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیرِ﴾․( سورہ لقمان:19-17)
بیٹا! نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کر۔ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اترا کرمت چل، بے شک اللہ تعالی کسی تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے اور اپنی رفتار میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر، بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدہوں کی ہے۔
احادیث نبویہ میں حسن خلق کا ذکر
عن ابی ذر رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”اتق اللہ حیثما کنت، واتبع السیئة الحسنة تمحہا، وخالق الناس بخلق حسن“․ (ترمذی:1987)
∗…حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو اور کوئی برائی سرزد ہو جائے تو اس کے بعد ایسے نیکی کے کام کرو جو برائیوں کو دھو دے اور لوگوں سے معاملہ حسن اخلاق کا کیا کرو۔
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”اکمل المؤمنین ایمانا احسنہم خلقا، وخیارکم خیارکم لنسائہم خلقا“․ (ترمذی:1162)
∗…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کے اعتبار سے سب سے مکمل ایمان رکھنے والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق سب سے بہتر ہیں اور تم میں بہتر اور اچھے وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل و عیال سے حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
عن ابی امامة الباہلی رضي اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم :انا زعیم بیت في ربض الجنة لمن ترک المراء وان کان محقا، وببیت في وسط الجنة لمن ترک الکذب وان کان مازحا وببیت فی اعلی الجنة لمن حسن خلقہ․ (ابوداؤد :4800)
∗…حضرت ابوامامہ الباہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ضمانت دیتا ہوں ایسے گھر کی جو جنت کے زیر سایہ ہو گا، ان لوگوں کو دیا جائے گا جو باہمی تکرار سے محفوظ رہیں گے ،خواہ وہ حق بجانب ہوں، جنت کے وسط میں اس شخص کا گھر ہے جو جھوٹ کو چھوڑ دے اور ہنسی مزاق میں بھی غلط بیانی نہ کرتا ہو اورجنت کے اعلی ترین مقام پر اس کا گھر ہوگا جس کے اخلاق بہتر ہوں گے۔
( اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ جنت کے مختلف مدارج اور منزلیں ہوں گی جو جنت کے زیر سایہ ہیں ،اس کے لیے ربض کا استعمال کیا گیا اور دوسرا درجہ وسط جنت اور تیسر ا جنت کا اعلی ترین حصہ ہے۔ )
عن عائشة ام المؤمنین رضی اللہ عنہا أن سعد بن ہشام سألہا فقال: یا ام المؤمنین، انبئینی عن خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت:الیس تقرأ القرآن؟ قال: بلی، قالت:”فان خلق نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان القرآن “․
∗…حضرت عائشہ ام المومنین فرماتی ہیں کہ سعد بن ہشام نے ان سے پوچھا اور کہا یا ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کا حال بتائیے تو جواب میں کہا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ کہا بے شک پڑھتے ہیں۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وہی ہیں جو قرآن ہے۔
عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”ان اللہ تعالی قسم بینکم اخلاقکم کما قسم بینکم ارزاقکم وان اللہ عزوجل یعطی الدنیا من یحب ومن لا یحب، ولا یعطی الدین الا لمن احب، فمن اعطاہ اللہ الدین فقد احبہ، والذي نفسی بیدہ، لا یسلم عبد حتی یسلم قلبہ ولسانہ، ولا یؤمن حتی یأمن جارہ بوائقہ قالوا: وما بوائقہ یا نبی اللہ؟ قال: غشمہ وظلمہ، ولا یکسب عبد مالا من حرام فینفق منہ فیبارک لہ فیہ، ولا یتصدق بہ فیقبل منہ، ولا یترک خلف ظہرہ الا کان زادہ إلی النار، إن اللہ عز وجل لا یمحو السیء بالسیء، ولکن یمحو السیء بالحسن، إن الخبیث لا یمحو الخبیث“․ (احمد1/387، والحاکم :1/34,33،4/165)
∗…حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سے نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہارے درمیان رزق تقسیم کیا ہے (یعنی کسی کا زیادہ ہے، کسی کا کم ہے، کسی کے یہاں تنگی ہے، کسی کے یہاں فراخی ہے ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق کو تقسیم کیا ہے۔ اللہ دنیا دیتا ہے جو دنیا کا خواہاں ہو یا خواہاں نہ ہو اور آخرت کی نعمتیں صرف اسی کو دیتا ہے جو اس کا خواہاں ہو ، اللہ نے جس کو دین کی دولت دی وہ اس کی محبت کی علامت ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ نجات نہیں پاسکتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان پاک نہ ہو اور وہ مؤمن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی ایذارسانی سے محفوظ نہ ہو۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ نے ابھی بوائق کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ فرمایا پڑوسی کو نظر انداز کرنا اور نقصان پہنچانا اور کوئی بندہ حرام مال کماتا ہے اور اس کو خیر کے کام میں صرف کرتا ہے تو اللہ اس میں برکت نہیں دے گا اور اگر وہ اس کو اپنی اولاد کے لیے چھوڑ جاتا ہے تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہے، اللہ گناہ کو گناہ سے نہیں دھوئے گا، لیکن گناہ کو اچھے کاموں سے دھو دے گا، کیوں کہ بدی بدی کو نہیں مٹاتی ، ہاں! اچھے کام بدی کو مٹا دیتے ہیں اور برے کام کے آثار کو ختم کر دیتے ہیں ۔
عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت:سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:”إن المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجة الصائم القائم “․(ابوداود :4898)
∗…حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤمن اپنے حسن اخلاق سے ایک روزہ دار کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو نماز پڑھتا اور عبادت کرتا ہے۔
عن ابی ہریرة رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”إنما بعثت لأتمم صالح الاخلاق“․ (احمد:2/381، والحاکم 2/613)
∗…حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:میری بعثت اس غرض سے ہوئی ہے کہ اخلاق صالح کی تکمیل کروں ۔
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:”ان من أحبکم الی واقربکم منی مجلسا یوم القیامة: أحاسنکم أخلاقاً وان ابغضکم إلی وابعد کم منی مجلسا یوم القیامة: الثرثارون والمتشدقون والمتفیہقون“․ قالوایارسول اللہ قد علمنا الثرثارون والمتشدقون، فما المتفیہقون؟ قال:”المتکبرون“․ (الترندی:2018 )
∗…حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے روز سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور سب سے زیادہ قابل نفرت اور قیامت کے روز مجھ سے دور وہ لوگ ہیں جو بیکار بکواس کرنے والے، لوگوں کے متعلق غلط باتیں اڑانے والے اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے والے اور تکبر کرنے والے۔( متشدقون کے معنی چلا چلا کر اور مزے لے لے کر لوگوں کی غیبت کرنا ، اس کو میں نے پگڑی اچھالنے سے تعبیر کیا ہے )۔
عن النواس بن سمعان رضی اللہ عنہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:”البراحسن الخلق، والإثم ماحاک فی صدرک وکرہت ان یطلع علیہ الناس “․(مسلم :2553)
∗…حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:ثواب کا کام حسن اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جس کی برائی تمہارے سینے میں خود کھٹکتی ہو اور تم پسند نہیں کرتے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں ۔
عن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما:﴿خذ العفو وأمر بالعرف ﴾ قال:ما أنزل ہذہ الآیة إلا فی اخلاق الناس“․
∗…حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ ﴿خذ العفووامر بالعرف﴾کا نزول لوگوں کے اخلاق کے بارے میں ہوا ہے ( یعنی در گذر کرو اور حق بجانب باتوں کی نصیحت کرو)۔
وعنہ ایضا قال أمر اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم:ان یاخذ العفو من أخلاق الناس أو کما قال․
∗…ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ہدایت فرمائی کہ در گذر کرنا انسانی اخلاق ہے۔
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: سئل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عن أکثر ما یدخل الناس الجنة؟ فقال:”تقوی اللہ وحسن الخلق“، وسئل عن أکثر ما یدخل النار؟ فقال:”الفم والفرج“․(۲)
∗…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی بات لوگوں کو جنت میں زیادہ داخل کرے گی؟ فرمایا اللہ کا ڈر اور حسن اخلاق۔ پھر پوچھا گیا کہ کون سی بات جہنم میں کثرت سے لوگوں کو ڈالے گی؟ فرمایا منھ اور شرم گاہ ۔