حج دین اسلام کا عظیم الشان رکن اور ایک والہانہ وعاشقانہ عبادت ہے، ساری دنیا کے انسان خواہ امیر ہوں یا غریب، عرب ہوں یا عجم ،گورے ہوں یا کالے، کسی قوم، خاندان، وطن، قبیلے سے ہوں، ایک مجذوبانہ لباس زیب تن کیے لبیک اللہم لبیک کی صدائیں لبوں پر سجائے اعمالِ حج میں مشغول ہوتے ہیں، ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں، طواف وسعی کرتے ہیں، آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سفر اور غریب الوطنی کی مشقیں جھیلتے ہیں، اور ایک دوسرے کی ناگوار باتوں کا خندہ پیشانی سے تحمل کرتے ہیں، دراصل ان سب کے سامنے رضائے الہی کا وہ عظیم ترین مقصد ہوتا ہے جس کے سامنے تمام مشکلات نہ صرف یہ کہ آسان معلوم ہوتی ہیں بلکہ اخلاص ومحبت کی چاشنی ان کو لذیذ اور یادگارِ حیات بنا دیتی ہے۔ حج امت مسلمہ کی اجتماعیت کا سب سے بڑا مظہر ہے، اس میں اسلامی اخوت وبھائی چارہ، اتحاد واتفاق، باہمی مساوات ورواداری اور امت کی وحدت واجتماعیت کا وہ نمونہ دکھائی دیتا ہے جس کی مثال دنیا کی دوسری اقوام اور اوطان کے کسی اجتماع میں نہیں ملتی۔ اس فقید المثال اجتماع کی حکمتیں تو بہت سی ہوں گی لیکن ان میں ایک خاص اور اہم ترین حکمت امت کو اجتماعیت، باہمی اتحاد واتفاق، یکجہتی، تحمل وبردباری، مساوات ورواداری کی تعلیم دینا ہے، جس کی اہمیت اور دینی ودنیوی فوائد ہر لحاظ سے مسلّم اور بدیہی ہیں، آج اتحاد واتفاق امت کی بات بہت سے حلقوں کی طرف سے کی جاتی ہے اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کی کوششیں بھی سامنے آتی ہیں، چناں چہ اس مقصد کے لیے ہر سطح پر منصوبہ سازی ہوتی ہے، عالمی سطح پر تنظیمِ تعاون اسلامی (oic) مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد وتعاون باہمی کے عنوان سے موجود ہے، لیکن عملی طور پر مسلمانوں اور اسلام کے دفاع اور فلاح کے سلسلے میں یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں اور ان تنظیموں کے اجلاسوں میں پاس ہونے والی قرار داد یں طاغوتی طاقتوں کے سامنے کوئی خاص وقعت اور حیثیت نہیں رکھتیں۔
اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام مشاورتی کا وشیں اور ان کے تحت پاس ہونے والی اکثر قرار دادیں طاغوت کے متعین کردہ دائرہ کار کی پابند اور بعد کی عملی محنت اور قربانی سے سراسر خالی ہوتی ہیں اوران میں باہمی تعاون کا حقیقی جذبہ برائے نام ہوتا ہے۔ باہمی موافقت اور اتحاد کے لیے تحمل اور ایثار لازمی امر ہے، لیکن مسلمانوں میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک دوسرے کے لیے تحمل وبردباری کا مظاہرہ کم دیکھنے میں آتا ہے، عوام وخواص کی ایک بڑی تعداد اشداء علی الکفار رحماء بینہم کے بر عکس طرز عمل کی مرتکب نظر آتی ہے، یہ بے اتفاقی ہی وہ نامبارک چیز ہے جو بے شمار دینی اور دنیوی نقصانات کا بھی سبب ہے اور اسے حدیث میں ”حالقہ“ فرمایا گیا ہے، یعنی یہ جانبین کے دین کو مونڈ دینے والی ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ حقیقی اتحاد واتفاق کی حامل ہو، جس کی تصویر حدیث میں یوں پیش کی گئی ہے کہ مسلمان ایک عمارت کی مانند ہیں جس کا بعض حصہ بعض کو تقویت دیتا ہے۔
مسلمان ایک جسد کی مانند ہیں کہ اگر ایک جزو کوتکلیف پہنچے تو سارا بدن بخار اور بے آرامی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اس مقصد کے لیے حج کا اجتماع ایک سنگ مِیل اور مشعل راہ بن سکتا ہے جس کی برکت سے کچھ بعید نہیں کہ مسلمانانِ عالم آپس میں متحدو متفق ہو جائیں، اشداء علی الکفار رحماء بینہم کا مصداق بنیں ۔ ذاتی اور وطنی مفادات پر امت کے اجتماعی اور عظیم تر مفاد کو ترجیح دینے لگیں، عرب وعجم ، حکم ران ورعایا اپنی گم کردہ قابل رشک غیرت وحمیت اورمروت وشجاعت کو پھر سے اختیار کرنے والے بن جائیں۔ پھر یقینا مسلمانوں کی ”غثاء السیل“ جیسی بے وقعتی تبدیل ہو کر اقوامِ عالم کی سرداری اور تمکین ارض کے فخر کی حیثیت حاصل کرلے گی اوروہ اللہ کے حضور سرخ روئی کے مستحق قرار پائیں گے، اللہ تعالی امت مسلمہ کی دست گیری فرمائیں۔آمین!