حج بین الاقوامی عبادت

idara letterhead universal2c

حج بین الاقوامی عبادت

حکیم الاسلام قاری محمد طیب

”حج ایک بین الاقوامی عبادت، بین الاقوامی مساوات، بین الاقوامی اخوت، اور بین الاقوامی تعاون کا ایک بے مثال اور عظیم المرتبت نمونہ ہے، جس میں مرکز بھی ایک، محبت بھی ایک، اور سب کی انسانیت بھی ایک ہو کر سامنے آتی ہے اور اونچ نیچ، چھوت چھات، نفرت وحقارت باہمی کا بیج تک مارا جاتا ہے۔ پس جو قومیں آج مساوات اور بھائی چارگی کی لفظی رٹ لگا رہی ہیں۔ وہ قرآن حکیم کے دیے ہوئے اس نمونہٴ مساوات کو سامنے رکھ کر عبرت پکڑیں، ورنہ وہ بھائی چارہ کے نمائشی دعوے زبان پر نہ لائیں“۔

”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِیْنُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنُؤْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُضْلِلْہُ فَلَاہَادِیَ لَہُ․ وَنَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، وَنَشْہَدُ أَنَّ سَیِّدَ نَا وَسَنَدَ نَا وَمَوْلَا نَا مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، أَرْسَلَہُ اللّٰہُ إِلَی کَافَّةٍ لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَّنَذِیرًا، وَدَاعِیًا إلی اللّٰہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجًا مُّنِیرًا، أَمَّا بَعْدُ!

فَاعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَنِ الرَّحِیمِ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ․ ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبَرٰکًا وَہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ صَدَقَ اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ

اسوہ مساوات

بزرگان محترم! مساوات اور ایک رُخی کو برنگِ عبادت عملی صورت دینے کے لیے حق تعالیٰ نے حج کی عبادت مقرر فرمائی کہ اس قبلہ پر مشرق ومغرب کی قومیں یکساں انداز سے جمع ہوں، تا کہ ان میں سے اونچ نیچ کے جراثیم ختم ہوں، بلکہ اس مساویانہ اجتماع سے پیدا شدہ عملی مساوات کے نمونہ کو سامنے رکھ کر اپنی پوری زندگی اسی مساوات اور باہمی برابری کے ساتھ گزار دیں۔

اسی بنا پر شریعت اسلام نے اس قبلہ کو اول تو سارے انسانوں کا قبلہ قرار دیا، چناں چہ آثار و روایاتِ حدیث سے ثابت ہے کہ کوئی نبی دنیا میں ایسے نہیں گزرے کہ انہوں نے اس قبلہ کا طواف نہ کیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ جب سارے حضرات انبیاء علیہم السلام اس بیتِ خداوندی کی عظمت اور اس سے عشق ومحبت کرتے آئے ہیں اور اسے اپنا قبلہ تسلیم کر چکے ہیں تو قدرتی طور پر ان کے ماننے والی قوموں کا قبلہ بھی یہی بیت اللہ ثابت ہوتا ہے۔

عالمی ہدایت کا قبلہ

پھر قرآن نے بھی یہی بتلایا کہ قبلہ کی وضع دنیا کے سارے انسانوں کے لیے ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے کہ ﴿اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبٰرَکًا وَہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ سب سے پہلا خدا کا گھر (کعبہ معظمہ) جو لوگوں کے لیے وضع کیا گیا وہ مکہ میں ہے۔

آیت کریمہ میں اوّل تو ﴿وُّضِعَ لِلنَّاسِ﴾ کا لفظ لایا گیا، یعنی سارے انسانوں کے لیے، وُضِعَ لِلعَرَبِ یا لِلْعَجَمِ نہیں فرمایا گیا، جس سے عرب اور بقیہ ساری اقوام کا قبلہ یہی بیت کریم ثابت ہوا۔ پھر اسے ہدایت اور راہ نما بتلانے کے لیے ”عَالَمِیْنَ“ کا لفظ استعمال فرمایا کہ وہ جہانوں اور عالموں کے لیے ہدایت ہے، جس سے اس قبلہ کا تمام جہانوں کے لیے عالم ہدایت کا قبلہ ہونا ثابت ہوا، جس کے معنی اس کے سوا دوسرے نہیں کہ اطراف واکناف عالم سے تمام اصناف بشر اور تمام قومیں اس عالمی راہ نمائی کے تحت حج کرنے کے لیے اس کی طرف بڑھیں اور اپنی اجتماعیت کبریٰ یا عالمی اجتماعیت کا ثبوت دیں۔

امام ناس (علیہ السلام) اور مرکزِ ناس

اس لیے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو، جنہیں قرآن نے امام الناس فرمایا ہے کہ ﴿اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا﴾(البقرة: 124) اور فرمایا ﴿وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ﴾(الحج: 27) لوگوں کے لییحج بیت اللہ کا اعلان عام کر دیں۔

تو یہاں بھی دونوں جگہ بلا تخصیص عرب و عجم ﴿الناس﴾ کا لفظ لایا گیا۔ یعنی موذن تو امام الناس بنائے گئے، جنہیں بلاتخصیص تقریباً دنیا کی تمام بڑی قومیں امام تسلیم کرتی ہیں اور اس اعلان کا مخاطب بھی ”الناس“ ہی کو بنایا گیا، جس میں کسی قوم یا ملک کی تخصیص نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سارے انسانو! حج کے لیے چلو، اس لیے امام العرب یا امام الشام یا امام العراق نہیں، بلکہ امام الناس کہا گیا، جنہیں یہود و نصاریٰ بھی امام مانتے ہیں اور مسلمان بھی انہیں اپنا امام تسلیم کرتے ہیں۔ مجوس اور فارس قومیں بھی زرتشت کے نام سے انہیں امام تسلیم کرتی ہیں اور براہمہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں۔ غالبا اس لیے انہوں نے اپنا لقب براہمہ رکھا ہے۔

نیز بقیہ اقوام بھی تبعاً اسی ذیل میں آجاتی ہیں، جوممکن ہے کہ ناموں کے تفاوت سے بھی وہ ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہوں، غرض اعلان حج کے لیے امام الناس کو منتخب فرمایا جانا اس کی کھلی علامت ہے کہ حج کا یہ اذنِ عام دنیا جہاں کے سارے انسانوں کے لیے تھا اور حج کے اس اعلانِ عام کا خطاب ”الناس“ کو بنایا جانا بھی، جس میں کسی ملک یا قوم کی تخصیص نہیں، اس کی کھلی دلیل ہے کہ حج کا خطاب دنیا کے سارے انسانوں کے لیے ہے، جس سے صاف واضح ہے کہ حق تعالی نے اس قبلہ مقدسہ کو مرکزِ ناس اور مرکز عالم بنا کر حج کے لیے اس کے اردگرد سارے ہی انسانوں کو جمع کرنے کا اذن عام دیا ہے، جس سے حج ایک بین الاقوامی عبادت ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اور قو میں اس سے منحرف بھی ہو جائیں اور صرف مسلمان ہی اس کی طرف رجوع کریں تب بھی وہ بین الاقوامی ہی قبلہ ثابت ہوگا، کیوں کہ مسلمان دنیا کے ہر خطہ میں موجود ہیں اور وہ یورپ، ایشیا، افریقہ اور امریکہ سے چل کر نوبت بہ نوبت حج کے لیے آئیں گے تو بین الاقوامیت پھر بھی نمایاں رہے گی اور اس میں پہنچ کر حج بین الا قوامی ہی عبادت ثابت ہوگا۔

عالمی مساوات

خلاصہ یہ کہ حج بروئے قرآن اس دنیا میں ایک عالمی اجتماع ہے، جس میں ساری قومیں یکسانی کے ساتھ حصہ لیتی ہیں۔ اس لیے ان میں قدرتی طور پر اخوتِ اسلامی، عالمی مساوات اور عالمی بھائی چارہ اور عالمی خدمت کا جذبہ ابھرنا چاہیے، پھر ساتھ ہی حج میں صورتوں میں بھی مساوات رکھی گئی ہے۔ پھر اسی پر قناعت نہیں کی گئی کہ اقوام ہی یکساں رہیں، بلکہ آنے والے افراد میں بھی باہم یکسانی رونما ہو، لباس بھی سب کا ایک ہو، وضع بھی ایک اور افعال بھی سب کے ایک اور یکساں ہوں، امیر و غریب، بادشاہ و گدا، خواص و عوام، عالم و جاہل، نیک وبد، صالح و طالح، متقی اور فاسق، ایک ہی لباس میں، ایک ہی کفن میں، ننگے سر ننگے پاؤں، یکساں فقیرانہ انداز سے اس بیت کریم کے ارد گرد جمع ہوں، احرام بندھا ہوا ہو۔ اور ایک وضع اور ایک رخ ہو کر اس بیت کریم کے ارد گرد پروانوں کی طرح چکر کھائیں، طواف کریں، اور اس پر جان نثاری کا ثبوت دیں۔

بندگی میں یکسانی

عرفات کے میدان میں بھی اسی ایک وضع میں خاک بہ سر ہو کر اپنے رب کے سامنے گڑگڑائیں، فریاد کریں، مزدلفہ اور منٰی میں بھی ایک ہی انداز سے گریہ وزاری میں محو اور مست ہوں، صفا و مروہ کے پہاڑوں کے درمیان بھی اسی ایک انداز گرویدگی اور محویت سے عاشقانہ اور والہانہ دوڑ لگائیں، ایک قافلہ، دوسرے قافلہ کو دیکھے تو بجائے کسی دنیوی یا معاشرتی نعرہ کے لبیک لبیک کا نعرہ بلند کرے، تاکہ باہمی یکسانی کے ساتھ ان کی بندگی میں بھی یکسانی رہے اور ایک ہی متواضعانہ اور سرفروشانہ انداز سے ایک دوسرے کے سامنے آئیں، خواہ وہ حکمران ملک اور سر براہان ریاست ہوں یا عوام الناس اور پبلک میں ہوں، ظاہر ہے کہ جب اسی طرح لاکھوں لاکھ انسانوں کی ایک ہی فقیرانہ وردی، ایک ہی سب کی نقل و حرکت، ایک ہی عمل، ایک ہی مرکز اور ایک ہی رخ ہوگا کیسے ممکن ہے کہ اس مساویانہ انداز میں ہو کر ان میں اونچ نیچ کا کوئی تصور بھی باقی رہے، دنیا کی کوئی قوم اس عملی مساوات کا نمونہ دکھلائے تو سہی کہ ایسی بین الاقوامی مساوات کس میں ہے؟ اور ظاہر و باطن کی برابری اورہمواری کا ایسا سچا مظاہرہ کس نے کر کے دکھلایا ہے یا دکھلا سکتی ہے؟

قلوب وقوالب کی یکسانی

پھر اسی کے ساتھ سب کی پارسائی اور زہد وقناعت کا یہ عالم کہ گھروبار چھوڑے، زرو مال بقدر ضرورت ہی لیے ہوئے، نہ رسمی عزت و جاہ کا تصور، نہ کسی پر کسی کو بڑائی کا زعم، نہ کسی میں اونچ نیچ کا وہم، نہ کسی کی زبان پر کوئی فحش و بے حیائی کا کلمہ، نہ آپس میں جھگڑا اور نزاع، نہ جدال و قتال،بلکہ قلبی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ گرویدگی، خدمت باہمی کا جذبہ، ایثار و قربانی کا ہمہ وقت تصور اور ہر ایک میں بجائے نیچ ہونے کے غنا و توکل کا جذبہ، رسمی کروفر اور ٹھاٹھ باٹھ سے کوسوں دور، سادگی اور بے تکلفی سے مخمور، اسی ایک کی محبت میں چور چور، اسی ایک کو پکارنا، اسی ایک سے مانگنا اور اسی ایک کے آگے جھکنا، جو سب کا ایک ہی مرکز حقیقی، اصل وجود اور خالق ومالک ہے اور اسی کے اس بین الاقوامی گھر کے ارد گرد گھومنا جو سب کا مرکزِ ظہور، سب کی مادی اصل اور سب کے لیے مرکزِ کشش ہے۔

دنیا کی کوئی قوم قلوب کی یہ یکسانی، قوالب کی یہ مساوات، افراد انسان کی یہ عالمی موانست اور اولادِ آدم کی یہ عالمی اخوت دکھلائے تو سہی کہ کہاں ہے جو اسلام اور مسلم نے اپنے رب سے جڑ کر دکھلائی اور نہ خود ہی دکھلائی بلکہ اس نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ اونچ نیچ کا مٹانا نعروں سے نہیں، بلکہ عملاً یوں ہوتا ہے اور کبروغر ور کا سر اس طرح توڑ دیا جاتا ہے۔

مساوات و عبادت کی یکسانی

اسی توجہ الی اللہ اور ایک رُخی کا قدرتی اثر ہے کہ لاکھوں لاکھ کے مجمعے میں، جس میں مرد عورت مساوات کے ساتھ ایک جگہ، ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں۔ نہ کہیں فحش کا نشان ہوتا ہے۔ نہ بے حیائی کا وہم و گمان، نہ معصیت کاری کا کوئی داعیہ، نہ کسی کی حق تلفی کا کوئی جذبہ، دلوں میں بھی امن وسکون اور باہر بھی امن وسکون، نہ مار دھاڑ ہے، نہ طبقہ وارانہ فسادات، نہ نزاع و جدال ہے، نہ قتل وقتال، نگاہوں میں پاکی اور دلوں میں حق شناسی اور ساتھ ہی ساتھ عبادت اور اللہ سے وابستگی:
یوں باہم کس نے کیے ساغر وسنداں دونوں؟

عملاً دکھایا جاتا ہے کہ معاصی اور گناہوں سے کیوں کر بچا جاسکتا ہے اور انسانی ہم دردی اور مساوات کو عبادت کے ساتھ کس طرح بروئے کار لایا جاتا ہے۔

عالمی اخوت

پھر حج میں عالمی اخوت و مساوات محض لفظی یا اخلاقی حد تک محدود نہیں رکھی گئی، بلکہ اس کے ساتھ تعاون باہمی، ضرورت مندوں کے لیے مالی اعانت و ہم دردی کا سلسلہ بھی قائم فرمایا گیا ہے، تا کہ یہ اخوت ومساوات ہر نہج سے مستحکم ہوتی رہے اور اس حسن سلوک اور احسان عام سے دنیا کے ہر خطہ کے مسلمان دوسرے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ منت پذیری اور احسان شناسی کے ساتھ مربوط ہوں، کیوں کہ خصوصیت سے اس طویل وعریض سفر میں صرف امراء ہی نہیں آتے، بلکہ غرباء بھی شامل ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثریت غرباء ہی کی ہوتی ہے، جو اپنے ذوق وشوق سے کسی نہ کسی ضروری حد تک ہی سامان سفر مہیا کر کے پہنچ پاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس رقم کی قلت ہو جائے اور وہ اپنی بعض واجبی ضروریات بھی پوری نہ کرسکیں اور تکلیف میں مبتلا ہو جائیں یا ضرورت کی حد تک رقم ہو، مگر اچانک کوئی غیر معمولی ضرورت پیش آ جائے، جو ان کی برداشت سے باہر ہو، جیسے بیماری اور دوا دارو و غیرہ کی پریشانی، یا یہ بھی نہ ہو، مال چوری ہو جائے اور وہ غنی ہوتے ہوئے بھی اس سفر غربت میں فقیر بن جائیں اور مستحق امداد بن جائیں، یا ان میں کوئی بھی صورت پیش نہ آئے، وقتی حالات کے لیے تالیف قلوب ہی ضروری ہو جائے، ان تمام احوال کے پیش نظر حدیث نبوی (صلی اللہ علی صاحبہ وسلم) نے یہ کہہ کر ان کی مالی اعانتوں کی ترغیب دی کہ حرم محترم میں جو بھی غریبوں پر خرچ کیا جائے گا، اس کا اجر ایک لاکھ گنا ہو گا۔ یعنی ایک روپیہ کا صدقہ ایک لاکھ روپے کے صدقے کے مساوی ہوگا۔

حج میں روحانی ترقی کے درجات

جس کا حاصل یہ ہے کہ غیر حرم میں تزکیہ نفس یارذیلہٴ بخل سے پاکی اور غنائے نفس کا ملکہ ایک لاکھ روپیہ صدقہ دے کر پیدا ہوتا ہے وہ حرم محترم میں ایک روپیہ دے کر ہو جائے گا اور روحانی ترقی کے درجات ایک سے ایک لاکھ تک پہنچ جائیں گے، سوکون ہوگا کہ اس ترغیب کے بعد اس بہتی ہوئی سبیل میں ہاتھ تر نہ کرے؟!

عالمی حسن سلوک

پھر قرآن کریم نے حج کی قربانیوں تک میں جو مناسک حج میں سے ہیں، غرباء اور ضرورت مندوں کی رعایت فرمائی اور اس حسن سلوک کا سلسلہ بھی عالمی بنا دیا، ارشاد حق ہے: ﴿فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیرَ﴾ سو، ان قربانیوں کے جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاؤ۔ غرض حج میں جیسے عالمی اخوت و مساوات رکھی گئی ہے ویسے ہی مالی تعاون کو بھی بین الاقوامی بنا دیا ہے، کیوں کہ مصیبت زدہ فقیر میں کسی ملک یا وطن کی تخصیص نہیں فرمائی گئی کہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے، بلکہ دنیا کے کسی خطہ کے ہوں، سب اسی میں داخل ہیں۔

حج میں عالمی تجارت

سوال یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص صدقہ و خیرات کا جذبہ بھی رکھتا ہے اور غریبوں کی امداد بھی کرنا چاہتا ہے، لیکن نقد رقم اس کے پاس اتنی نہ ہو کہ وہ یہ جذبہ پورا کر سکے تو قرآن حکیم نے اس صورت حال کو سامنے رکھ کر اس کی بھی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مال تجارت ساتھ لے جا کر فروخت کر سکے جس سے اپنی اور اپنے دوسرے بھائیوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہوں، تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ اس عبادت میں اس سے کوئی فرق پڑے گا۔

ارشاد فرمایا گیا: ﴿لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾(سورة البقرة، الآیة:198) اگر حج میں کچھ اسباب تجارت ہم راہ لے جانا مصلحت سمجھو تو تم کو اس میں ذرا بھی گناہ نہیں کہ (حج میں) معاش کی تلاش کرو جو (تمہاری قسمت میں) تمہارے پروردگار کی طرف سے (لکھا) ہے۔

دوسری جگہ ایک دوسرے عنوان سے اس اجازت کو اس طرح دہرایا گیا ہے کہ اس میں ترغیب دینے کی شان بھی پیدا ہوگئی۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کا اعلان کر دینے کا امر فر مایا گیا وہیں یہ بھی ارشاد حق ہے فرمایا: ﴿لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ﴾(سورة الحج، الآیة: 28) (اس اعلان سے لوگ پیدل اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی، چلے آئیں گے) تا کہ وہ اپنے فوائد کے لیے آموجود ہوں۔

یہاں منافع کا لفظ عام ہے، جس میں اولیت کے ساتھ حج کے اخرومی منافع جیسے رضائے خداوندی، اجر وثواب اور آخرت کی ترقی و درجات بھی داخل ہیں اور ثانویت کے ساتھ دنیوی منافع جیسے قربانی کا گوشت کھانا اور کھلانا اور تجارت یا صنعت و حرفت یا علاج معالجہ وغیرہ سے مال کمانا بھی شامل ہیں۔

عالم گیر امدادِ باہمی

پس قرآن حکیم نے جیسے مناسک حج کے سلسلہ میں عالمی اخوت ومساوات کے رشتے قائم فرمائے، ویسے ہی عالمی تجارت اور بین الاقوامی انداز سے صنعت وحرفت کے منافع کا راستہ بھی ہم وار فرما دیا۔ تا کہ اخوت ومساوات حسن سلوک کی مضبوط بنیادوں پر قائم رہے اور عالم گیر طریق پر امداد باہمی، بقائے باہمی کے سلسلہ جاری رہیں، تا کہ مسلمانوں کے روابط صرف اپنے ہی ملک کے مسلمانوں تک محدود نہ ہو جائیں، بلکہ دنیا کے آخری کناروں تک پہنچیں اور بین الاقوامی بنیں۔

بہر حال حج ایک بین الاقوامی عبادت، بین الاقوامی مساوات، بین الاقوامی اخوت اور بین الاقوامی تعاون کا ایک بے مثال اور عظیم المرتبت نمونہ ہے، جس میں مرکز بھی ایک، محبت بھی ایک اور سب کی انسانیت بھی ایک ہو کر سامنے آتی ہے اور اونچ نیچ، چھوت چھات، نفرت و حقارت با ہمی کا بیج تک مارا جاتا ہے۔ پس جو قومیں آج مساوات اور بھائی چارگی کی لفظی رٹ لگا رہی ہیں۔ وہ قرآن حکیم کے دیے ہوئے اس نمونہٴ مساوات کو سامنے رکھ کر عبرت پکڑیں، ورنہ وہ بھائی چارہ کے نمائشی دعوے زبان پر نہ لائیں۔ وہ صرف مساوات، اخوت اور بھائی چارہ کے الفاظ رٹے ہوئے ہیں۔

جو ہر تخلیق میں مساوات کا تقاضا

اور شاید وہ بھی اسلام ہی کی اس عام پکار اور دعوت کی بدولت کہ ”کلکم بنو آدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ“(السنن لأبي داود، کتاب الأدب، باب في التفاخر بالأحساب) تم سب اولاد آدم ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے۔ تم میں نہ کوئی سورج کی اولاد ہے، نہ چاند کی، نہ کوئی سونے سے بنا ہوا ہے، نہ چاندی سے، نہ کوئی خدا کے منھ سے نکلا ہوا ہے، نہ اس کے پیروں سے، بلکہ سب اس کی مشیت و تخلیق ایک ہی جوہر سے اور ایک ہی باپ کی اولاد سے پیدا شدہ ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اخوت ومحبت کے لیے بنائے گئے ہیں، وہ لوگ چاند اور سورج کی اولاد بن کر انسانوں کو اخوت و مساوات کا درس نہیں دے سکتے، بلکہ آدم خاکی کی اولاد ہو کر اور آدمیوں میں مل کر ہی یہ سبق پڑھا سکتے ہیں۔ وہ بہت سے خداؤں کے بندے بن کر دنیا کو ایک مرکز پر جمع نہیں کر سکتے، بلکہ ایک اور صرف ایک واحد قہار اور بے مثل ویکتا خدا کے بندے بن کر ہی وحدت اور مرکزیت کے نقطہ پر لا سکتے ہیں۔

عالمی اخوت کے مرکزی نقاط

کیوں کہ اسی خدائے واحد وبے مثال نے عالمی اخوت اور محبت کے لیے دنیا میں تین مرکز 1-کلام اللہ، 2-بیت اللہ اور 3- رسول اللہ بھیجے ہیں، جنہیں عالمی مرکزیت دی ہے۔

قرآن کو ﴿ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ﴾(الأنعام: 90) بتلایا۔ بیت اللہ کو ﴿وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِینَ﴾(آل عمران: 96) فرمایا اور حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ﴿رَحْمَةً لِلْعٰلَمِینَ﴾(الأنبیاء:107) کہا۔ قرآن سے عالم گیر ہدایت بصورت قانون پھیلی، بیت اللہ سے عالم گیر اخوت و مساوات بصورت حج ابھری اور نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم سے عالم گیر رحمت ومحبت اور انسانیت بصورت عمل سامنے آئی۔

طلب صادق

اس لیے جو قومیں صحیح ہدایت، صحیح اخوت و مساوات اور صحیح انسانیت انسانوں میں دیکھنا چاہتی ہیں انہیں ان تین مرکزوں سے چارہٴ کار نہیں ہے اور یہ پاک پونجی انہیں ان ہی تین دروازوں سے مل سکتی ہے، اگر تعصبات کو چھوڑ کر طلب صادق کے ساتھ ان کے سامنے آئیں گی بلاشبہ کام یاب واپس ہوں گی، حاصل یہ کہ حج جیسے بین الاقوامی اور اجتماعی رنگ کی عبادت ہے، ویسے ہی عالمی اخوت و مساوات اور عالمی امداد باہمی کا سر چشمہ بھی ہے۔ قرآن حکیم نے اخوت و مساوات کا ایک مستقل قانون دیا ہے، جس کا ایک اہم پہلو حج کی عبادت میں بھی مضمرتھا۔اس لیے موضوع کی رعایت سے اسی پہلو کو مختصر خطاب اور اس قلیل وقت میں ظاہر کرنا مقصود تھا، ورنہ حج کے سلسلے میں دینی اور دنیوی فوائد اور منافع کی فہرست اس سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ اتنی نہیں کہ ان چند سطروں میں سما سکے، اس کے لیے دفتر درکار ہیں۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ

مجالس خیر سے متعلق