اردو میں مثل مشہور ہے کہ ” جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے“، مگر اب اس کے پاؤں نہیں، پَر ایسے نکل آئے ہیں کہ اس نے پورے معاشرے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور زندگی کا کوئی گوشہ ہمارے ماحول میں اس سے خالی نہیں رہا، کھلا جھوٹ تو خیر ایسی چیز ہے جسے ہر شخص بُرا سمجھتا ہے، اس میں مسلمان او رکافر کی بھی قیدنہیں، بلکہ وہ دھریے بھی جو الله تعالیٰ کے وجود تک میں شک کرتے ہیں، وہ بھی نظریاتی طور پر جھوٹ کو برا ہی سمجھتے ہیں، جو لوگ عملاً دن رات جھوٹ بولتے رہتے ہیں، ان سے بھی اگر پوچھا جائے کہ جھوٹ بولنا کیسا ہے؟ تو یقینا ان کا جواب بھی یہی ہو گا کہ بہت بُرا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کو جب کبھی اپنے کردار کی درستی کا خیال آئے گا تو وہ جھوٹ سے بھی توبہ کرسکیں گے، لیکن ہمارے زمانے میں جھوٹ کی ایسی بہت سی شاخیں وجود میں آگئی ہیں، جنہیں بہت سے لوگ جھوٹ سمجھتے ہی نہیں، لہٰذا انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ان سے کوئی غلط کام سرزد ہو رہا ہے۔
میرے پاس ایک مرتبہ ایک اور شہر سے ایک صاحب ملنے کے لیے تشریف لائے، پڑھے لکھے او رنماز روزے کے پابند، ذہین او رتعلیم یافتہ، بڑے خوش مزاج اور ستھرے ادبی ذوق کے مالک، بڑے خوب صورت شعر کہنے والے ،چہرے مہرے سے لے کر انداز وادا تک ،ہر چیز میں شرافت جھلکتی ہوئی، کافی دیر تک انہوں نے اپنی دل نواز صحبت سے مجھے مستفید کیا، جب چلنے کا وقت آیا تو میں نے پوچھا”کب تک قیام رہے گا؟“ کہنے لگے کہ ” پہلے تو میرا ارادہ کل واپس جانے کا تھا، مگر بعض عزیزوں کے اصرار پر اپنا قیام میں نے چند روز کے لیے اور بڑھا لیا ہے اور آج ہی میں اپنے دفتر کو میڈیکل سر ٹیفکیٹ روانہ کر رہاہوں،“ میں نے چوں نک کر پوچھا” کیسا میڈیکل سر ٹیفکیٹ؟“ انہوں نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا” یہی دفتر سے چھٹی لینے کے لیے جو میڈیکل سر ٹیفکیٹ بھیجا جاتا ہے“ میں نے پوچھا” کیا خدانخواستہ آپ کی کچھ طبیعت ناساز ہے؟“ فرمایا ارے نہیں بھائی، الله کے فضل سے میں بالکل تن درست ہوں، لیکن دفتر سے چوں کہ مزید چھٹی ملنے کا کوئی اور راستہ نہیں، اس لیے میڈیکل سر ٹیفکیٹ ہی بھیجنا پڑے گا۔
ان جیسے شخص سے یہ بات سن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے دل پر بجلی گر گئی ہو، میں نے عرض کیا کہ آپ نے یہ بھی سوچا کہ یہ جعلی سر ٹیفکیٹ بنوانا آپ کے لیے کیسے جائز ہو گا؟ اور اس مصنوعی تصدیق نامے کی بنیاد پر جو چھٹی آپ کو حاصل ہوگی، اس سے استفادہ آپ کے لیے درست ہو گا یا نہیں؟ نیز اس چھٹی کے دنوں کی جو تنخواہ آپ کو ملے گی، وہ آپ کے لیے حلال ہوگی یا نہیں؟ آدمی واقعی شریف تھے، یہ سن کر وہ بھی سکتے میں آگئے، کہنے لگے واقعتا آج سے پہلے مجھے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی، چوں کہ دفتروں میں عام معمول یہی ہے کہ ضرورت کے وقت میڈیکل سر ٹیفکیٹ بنوا کر چھٹی حاصل کر لی جاتی ہے، اس لیے میں بھی بے سوچے سمجھے یہ کرتا رہا، پھر وہ پوچھنے لگے کہ کیا واقعی شدید ضرورت کے وقت بھی اس طرح چھٹی لینا جائز نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اول تو صرف عزیزوں کا اصرار کوئی ایسی شدید ضرورت نہیں ہے، دوسرے اگر واقعی کوئی سخت ضرورت ہو تو وہ ضرورت بتا کر چھٹی کی درخواست دینی چاہیے، اگر اس ضرورت کی بنیاد پر چھٹی قواعد کے لحاظ ے مل سکتی ہوگی تو مل جائے گی او راگر اس کی بنیاد پر چھٹی نہ مل سکتی ہو تو بغیر تنخواہ کے رخصت لی جائے، جھوٹا میڈیکل سر ٹیفکیٹ دے کر چھٹی لینے کا بہر حال کوئی جواز نہیں، انہوں نے یہ سن کر میرے سامنے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں واقعی یہ گناہ بے سوچے سمجھے کرتا رہا ہوں، آج چوں کہ مجھے صحیح بات کی طرف دھیان ہو گیا، اس لیے ان شاء الله آئندہ کبھی اس طرح چھٹی نہیں لوں گا۔
اس واقعے سے پہلے مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس قسم کے بہ ظاہر دیانت دار حضرات بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں گے کہ اس قسم کے جعلی سر ٹیفکیٹ بنوانا جائز ہے یا انہیں اس کی برائی کا احساس ہی نہیں ہوگا، اس کے بعد پتہ چلا کہ جھوٹ نے کیسے کیسے مقدس دلوں میں دھیرے دھیرے جگہ بنالی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہمارے ماحول میں کسی سر ٹیفکیٹ کی کوئی وقعت نہیں رہی اور حقیقت ِ حال معلوم کرنے کے لیے کوئی سر ٹیفکیٹ دیکھنا یا نہ دیکھنا سب برابر ہے۔
پھر جو حضرات اس قسم کے سر ٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں ان کا معاملہ او ربھی زیادہ سنگین اور افسوس ناک ہے، ظاہر ہے کہ یہ سر ٹیفکیٹ کوئی ان پڑھ یا جاہل شخص جار ی نہیں کرسکتا، تصدیق نامے وہی لوگ جاری کرسکتے ہیں جو نہ صرف تعلیم یافتہ ہوں، بلکہ کسی خاص شعبے میں انہیں کوئی مقام حاصل ہو، بالخصوص میڈیکل سر ٹیفکیٹ تو کوئی ڈاکٹر ہی جاری کر سکتا ہے اور ڈاکٹر کسی بھی معاشرے کا وہ باوقار اور ذمہ دار فرد ہوتا ہے جس کے اعتماد پر لوگ اپنی جانیں اس کے حوالے کرتے ہیں او رخاص طور پر کسی مریض کی جسمانی کیفیت کے بارے میں اس کی زبان یا قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے اور اس پر زندگی کے بہت سے معاملات کے فیصلے ہوتے ہیں، اگر ایسی ذمہ دار شخصیت بھی یہ خیال نہ کرے کہ جو سر ٹیفکیٹ اس کے قلم سے نکل رہا ہے، اس کی حیثیت ایک گواہی کی ہے او راس منصب کا حامل شخص بھی اپنی غیر دمہ دارانہ بلکہ خلافِ واقعہ گواہی سے معاشرے کو گم راہ کرنے لگے تو آخر اس معاشرے کا کیا بنے گا؟ اگر اس قسم کے سر ٹیفکیٹ مالی معاوضہ لے کر جاری کیے گئے ہوں، تب تو جھوٹ کے ساتھ رشوت کا دوہرا گناہ بھی اس کے ساتھ وابستہ ہے اور اگر محض ”ہم دردی“ کے خیال سے جاری کر دیے گئے ہوں تو یہ ایک ایسی ہم دردی ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے او راس سے جو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اس سب کا وبال ایسے جعلی سر ٹیفکیٹ جاری کرنے والوں کے نامہٴ اعمال کا لازمی حصہ ہے جس کا جواب ایک نہ ایک دن انہیں کہیں دیناپڑے گا۔
بعض مرتبہ یہ دلیل بھی سننے میں آتی ہے کہ اس قسم کے جعلی تصدیق نامے معاشرے میں اس درجہ رواج پا گئے ہیں کہ اب ان کا اجراء پیشہ ورانہ کاموں کا ایک حصہ بن چکاہے او راگر کوئی شخص ایسے سر ٹیفکیٹ جاری کرنے سے پرہیز کرے تو لوگ اس کی طرف رجوع کرنا بندکر دیتے ہیں او روہ اپنی جائز آمدنیسے بھی محروم رہ جاتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ دلیل ” عذرِ گناہ بدتراز گناہ“ کے مصداق ہے، الحمدلله اسی گئے گزرے دور میں آج بھی بے شمار افراد وہ ہیں جنہوں نے کبھی اس قسم کی کسی پیشہ ورانہ بددیانتی کا ارتکاب نہیں کیا، وہ لوگ اپنی اس دیانت داری کی وجہ سے مر نہیں گئے، وہ زندہ ہیں اور خدا کے فضل وکرم سے بہت اچھی طرح زندہ ہیں، خاص طور سے ڈاکٹر صاحبان کی بھاری تعداد ،بلکہ شاید اکثریت اب بھی ایسی ہی ہے کہ وہ اس قسم کے گھٹیا کاموں کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اس کے باوجود انہیں ناقدری کا کبھی شکوہ نہیں ہوا، وہ پوری عزت اور وقار کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں او رانہیں نہ صرف یہ کہ کوئی مالی نقصان نہیں ہوا، بلکہ مالی حیثیت اور سماجی رتبے دونوں کے اعتبار سے وہ معاشرے میں بلند مقام رکھتے ہیں، معاشرے میں کسی برائی کا عام رواج درحقیقت اسی طرح ہوتا ہے کہ لوگ اس برائی کے آگے ڈٹنے کے بجائے اس کے سامنے ہتھیار ڈالتے چلے جاتے ہیں اور ضمیر کی آواز کو دبا کر اس قسم کی بودی دلیلوں کے سائے میں پناہ لینے لگتے ہیں، اس کے برخلاف اگر کوئی شخص ہمت کرکے برائی کے آگے ڈٹ جائے اور اس کے سامنے شکست کھانے سے انکار کر دے تو انجام کار فتح اسی کی ہو کر رہتی ہے، قرآن کریم نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا ہے کہ:﴿والعاقبة للمتقین﴾․(سورة القصص:13) یعنی اچھا انجام انہی کا ہے جو برائی سے بچتے ہیں۔
آج کل بہت سے مقاصد کے حصول کے لیے ” کیرکٹر سر ٹیفکیٹ“ کی بھی ضرورت پڑتی رہتی ہے، اس سر ٹیفکیٹ میں کسی شخص کے بارے میں یہ تصدیق کی جاتی ہے کہ وہ اچھے اخلاق وکردار کاحامل ہے او رمیں اسے اتنی مدت سے جانتا ہوں، یہ سر ٹیفکیٹ بھی بکثرت سوچے سمجھے بغیر جاری کر دیے جاتے ہیں او را س بات کی پروا نہیں کی جاتی کہ جس شخص کے بارے میں یہ تصدیق کی جارہی ہے وہ اس کا اہل ہے یا نہیں اور یہ بات بھی جھوٹ موٹ ہی لکھ دی جاتی ہے کہ میں انہیں پانچ سال سے یا دس سال سے جانتا ہوں۔
ایک مرتبہ میں ایک فقہی کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم تھا، ایک صاحب مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے او رانہوں نے ایک بڑے ثقہ بزرگ کا ایک خط مجھے دیا، اس خط میں انہوں نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ ان صاحب کو پاکستانی سفارت خانے سے پاسپورٹ بنوانا ہے، اس میں ان کی مدد کر دیجیے، میں نے دریافت کیا کہ آپ کو یہاں سے پاسپورٹ بنانے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ اس پر انہوں نے وہ درخواست میرے ہاتھ میں تھما دی، جو انہوں نے پاکستان کونسلر کے نام لکھی تھی، اس درخواست میں لکھا تھا کہ میرا پاسپورٹ سعودی عرب میں گم ہو گیا ہے، اس لیے نیا پاسپورٹ بنوا دیا جائے اور شاید اس درخواست کے ساتھ کچھ تصدیقات بھی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے کب آئے تھے اور پاسپورٹ کہاں اور کیسے گم ہوا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے جو باتیں کی، ان پر مجھے اطمینان نہ ہوا او رمیں نے یہ کہہ کر ان سے معذرت کر لی کہ چوں کہ میں پاسپورٹ کی گم شدگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اس لیے اس بنیاد پر کوئی سفارش کرنا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ وہ صاحب خاصے ناراض ہو کر تشریف لے گئے اور یہ شکوہ کرتے رہے کہ میں نے ان کا یہ چھوٹا سا کام کرنے سے کیوں انکار کیا، بعد میں پتہ چلا کہ درحقیقت وہ ہندوستانی نیشنل تھے او رایک عرصہ تک سعودی عرب میں تلاش ِ روز گار سے مایوس ہوچکے تھے، اب کسی نے انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان جاکر روز گار تلاش کریں اور اس کے لیے انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا تھا کہ پاسپورٹ گم ہونے کی فرضی کہانی بنائی تھی، تاکہ اس طرح پاکستان کا ویزا نہیں، بلکہ اس کی قومیت ہی کا ثبوت پاسپورٹ کی شکل میں کیوں نہ حاصل کر لیا جائے۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ اس طرح لوگ کرتے ہی رہتے ہیں، لیکن مجھے حیرت ان بزرگ پر تھی جنہوں نے ان صاحب کو میرے پا س بھیجا اور مجھے سفارشی خط بھی لکھا کہ میں ان کی مدد کر دوں، وہ کوئی جھوٹے یا دھوکے باز نہیں تھے، بلکہ بڑے قاعدے کے آدمی تھے، لیکن ان کے ذہن میں بس یہی پہلو غالب رہا کہ ایک ضرورت مند شخص کی مدد کرنی چاہیے، یہ انہوں نے نہیں سوچا کہ جھوٹ بول کر یہ کام کرنا کتنا بڑا گناہ او راپنے ملک کے ساتھ کتنی بڑی بے وفائی ہے، کسی شخص کے چہرے پر اس کے اندرونی عزائم لکھے ہوئے نہیں ہوتے اور اس طرح کی ” ہم دردی“ کے نتیجے میں وہ کسی تخریب کار، کسی دہشت گرد یا کسی خطرناک جاسوس کو اپنے ملک میں بھیجنے کے بھی مجرم ہوسکتے ہیں او راگر اس کے نتیجہ میں اپنے ہم وطنوں کی جانیں گئیں یا کوئی اور تخریبی واقعہ پیش آیا تو اس جرم کی ذمہ داری سے وہ بھی بری نہیں ہوں گے۔
اس قسم کیمثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی شخص کے حق میں کوئی تصدیق نامہ جاری کر دینا ایک کھیل بن کر رہ گیا ہے او راچھے اچھے ثقہ قسم کے لوگ بھی اس میں جھوٹ سچ کا امتیاز نہیں کرتے، بلکہ اسے جھوٹ میں شامل ہی نہیں سمجھتے، اس صورت َ حال نے معاشرے میں جو تباہی مچا رکھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن مسئلہ اس صورت حال کی مذمت کرتے رہنے سے حل نہیں ہو سکتا، جب تک ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اسے تبدیل کرنے کا پختہ عزم نہ کرے، دوسروں پر نہ سہی، لیکن ہر شخص کو اپنے آپ پر مکمل اختیار حاصل ہے، جسے کام میں لائے بغیر یہ صورت ِ حال تبدیل نہیں ہوگی۔