جلسہ دستار بندی کے موقع پر فضلا کو قیمتی نصائح

idara letterhead universal2c

جلسہ دستار بندی کے موقع پر فضلا کو قیمتی نصائح

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی کا دستار بندی کے موقع پر فضلا جامعہ سے بیان و قیمتی نصائح ،جو افادہ عام کے لیے ماہنامہ الفاروق میں شائع کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین”الفاروق“ بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیٰات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․(سورہ الحجر،آیت:9)

وقال الله سبحانہ وتعالی:﴿وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ﴾․(سورہ آل عمران، آیت:139)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم

میں سب سے پہلے تو الله تعالیٰ کا شکر گزار ہوں:”اللھم لک الحمد کلہ، ولک الشکر کلہ، وإلیک یرجع الأمر کلہ“․

الله تعالیٰ نے ہم سب پر یہ فضل فرمایا، کرم فرمایا، احسان فرمایا کہ اس سال کی یہ جدوجہد اور مساعی اپنے اختتام کو بخیروعافیت پہنچی۔

میں جامعہ فاروقیہ کے تمام اساتذہ کا ممنون ومشکور ہوں کہ انہوں نے دل وجان سے پورے سال بھرپور محنت فرمائی اور آج کا یہ مبارک دن ان کی ان کوششوں کے نتیجے میں دیکھنے کا موقع ملا، میں دورہ حدیث کے ایک ایک طالب علم کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور اپنی طرف سے، جامعہ کے تمام اساتذہ کی طرف سے، جامعہ کے تمام عملے کی طرف سے، ان کی خدمت میں مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں، ان کے والدین، ان کے اعزہ واقارب ،ان کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس فتنے وفساد کے زمانے میں اپنی اولاد کے لیے یہ بہترین انتخاب فرمایا۔ اور الحمد لله ثم الحمدلله ان کے وہ بچے آج اپنے سروں پر دستار فضیلت پہنے ہوئے بیٹھے ہیں، میں اپنے علاقے کے تمام رہنے والوں کا بھی ممنون ومشکور ہوں کہ انہوں نے بھی دامے، درمےِ، قدمے، سخنے ہر طرح سے تعاون فرمایا، الله تعالیٰ انہیں بھی اس کی بہترین جزائے خیرعطا فرمائے۔

دینی مدارس اس خطے کا امتیاز

طلبہ عزیز او ربالخصوص دورہ حدیث کے فضلائے کرام! وہ بات جو میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں، آپ کے اساتذہ ایک طویل عرصے سے آپ سے کہتے چلے آرہے ہیں، مقصود صرف مذاکرہ ہے، یہ جو محنت برصغیر کے ان مدارس میں ہو رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ آج کے اس دور میں پورے اس کرہٴ ارضی پر اور پوری دنیا میں صرف اسی خطے کا امتیاز اور اسی خطے کی خصوصیت ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ باتیں بہت ہیں ان مدار س کی اور بالخصوص دارالعلوم دیوبند کی بنیاد او راس کی ابتداء کے حوالے سے، اس لیے کہ پورے خطے کا معاملہ تھا اور آپ جانتے ہیں کہ اس خطے میں سینکڑوں سال مسلمانوں نے حکم رانی کی ،بالآخر اپنی کوتاہیوں، اپنی غلطیوں او راپنے نامناسب رویوں کی وجہ سے ان حکومتوں کا جو تسلسل تھا وہ ختم ہو گیا اور اس خطے کی ،ہم سب کی بد قسمتی کہ یہاں انگریز قابض ہو گیا۔

لیکن یہ یاد رکھیے اور دورہ حدیث کے طلباء خاص طو رپر کہ انگریز کے خلاف سب سے پہلی آواز اٹھانے والے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله علیہ تھے، جنہوں نے1803 ء میں انگریز کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا ،اس کے نتیجے میں ان کے مدرسے کو دفن کر دیا گیا ،ان پرتعذیب کے انبار توڑے گئے ،ان کو زہر دیا گیا، ان کے کتب خانے کو آگ لگائی گئی اور طرح طرحکی تکلیفیں انہیں پہنچائی گئیں، لیکن یہ سلسلہ جاری رہا،1857ء وہ ایک عجیب وغریب دور ہے کہ جب انگریز بتدریج پورے ہندوستان پر غالب آیا اور ہمارے اکابر نے میدان جہاد میں دوبدو جہاد اورقتال کرتے ہوئے 1857ء میں آخری جنگ لڑی او راس جنگ میں حاجی امدادلله صاحب مہاجر مکی رحمة الله علیہ بطور امیر المجاہدین ،حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة الله علیہ، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة الله علیہ، حضرت مولانا رحمت الله کیرانوی صاحب رحمة الله علیہ، حضرت حافظ ضامن شہید رحمة الله علیہ، یہ حضرات صرف جہاد کا بیان نہیں فرمارہے تھے، بلکہ میدان جہاد میں دو بدوجہاد اور قتال فرمارہے تھے، چناں چہ وہ جنگ بھی ختم ہوگئی اور اس کا انجام بہت افسوس ناک ہوا ،اس حوالے سے کہ انگریز کے پاس نئی کمک پہنچی او رانگریز نے سازشوں کے ذریعے بہت سے نوابوں کو اور وڈیروں کو اور خوانین کو اپنے ساتھ ملا لیا اورپھر اس نے ایک بھرپور قسم کا قتال او ربھرپور قسم کی جنگ، بالخصوص اہل دین او رعلمائے دین کے حوالے سے کی اور اس میں ہزاروں علماء کو پھانسیوں پہ اورسولیوں پر لٹکایا گیا، ہزاروں کو قتل کیا گیا، ہزاروں کوجیلوں میں ڈالا گیا، ہزاروں کو کالا پانی ،مالٹا کی جیل میں بھیج دیا گیا ،ان کی زمینوں پہ قبضے کر لیے، ان کے مدرسے دفن کر دیے، ان کی ہر چیز کوختم کر دیا۔

انگریز کی گھناؤنی سازش

چناں چہ یہ وہ دور تھا جس میں ہندوستان کی سرزمین پر جو ظلم ہوا وہ بہت خوف ناک تھا او راس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء کی اولادیں یتیم ہو گئیں ان کی عورتیں بیوہ ہو گئیں ،ان کے گھروں میں کھانے پینے کا نظم ختم ہو گیا، فقر اور فاقے نے ڈیرے ڈال لیے او راب انگریز نے دوسری ایک بڑی خوف ناک سازش کی اور وہ سازش یہ تھی کہ اس نے عام معافی کا اعلان کر دیا اور عام معافی کے اعلان کے ساتھ اس نے پورے ہندوستان اور بالخصوص اس خطے میں جہاں علماء اور صلحاء کی بہت بڑی بڑی آبادیاں تھیں او رجہاں انگریز نے علماء اور صلحاء کو قتل کیا تھا، وہاں اس نے ا پنے قاصد گلی گلی اور بازار بازار پہنچائے اور یہ اعلان کیا کہ عام معافی ہوچکی ہے، لہٰذا اب یہ جو علماء اورمجاہدین ختم ہو گئے ہیں ان کی اولادیں آپ ہمارے حوالے کریں، ہم انہیں کھلائیں گے، پلائیں گے، ہم انہیں پڑھائیں گے اور جب وہ پڑھ لکھ کر کسی قابل ہو جائیں گے تو ہم انہیں روز گار دیں گے او رجب انہیں ہماری طرف سے روز گار مل جائے گا تو وہ اپنا پیٹبھی پالیں گے او رپنے گھر والوں کا پیٹ بھی پالیں گے، یہ خوف ناک موڑ تھا۔

آپ جانتے ہیں ”کادالفقر ان یکون کفرا“ جب فقر ہوتا ہے تو بہت خوف ناک صورت حال پیدا ہو جاتی ہے، یہ ایک موڑ تھا، ہندوستان کے رہنے والے مسلمان ایک بڑی آزمائش میں تھے، اس وقت علماء نے یہ فیصلہ کیا، یہ اعلان کیا اور وہ اعلان یہ تھا کہ مجاہدین کے گھر والے وہ بچے ہمارے حوالے کریں، ہم انہیں کھلائیں گے، ہم انہیں پلائیں گے، ہم انہیں پہنائیں گے، ہم انہیں قرآن وسنت کے علوم پڑھائیں گے اور ہم ان مجاہدین کی اولادوں کو اسی طرح سے مجاہدین بنائیں گے۔

دارالعلوم دیوبند کا قیام اور دینی مدارس کی خدمات

یہ ایک بہت اہم موڑ تھا، چناں چہ اس فیصلے کے بعد 1866ء میں دارالعلوم دیوبند اس اعلان کے ساتھ قائم ہوا اور ساتھ میں علماء نے قوم کو آواز دی اور مسلم قوم سے کہا کہ ہم ان بچوں کو کھلائیں گے، پلائیں گے، ہم انہیں قرآن وحدیث کے علوم پڑھائیں گے او رہم ان کو ان کے آباء واجداد کی طرح دین اسلام کا مجاہد بنائیں گے، قوم کو چاہیے کہ وہ ہماری مدد کرے۔

چناں چہ آپ سب ماشاء الله باشعور ہیں، اور آج آپ پورے اس خطے میں علماء اور قوم کے اس معاہدے کی جو وفاداری ہے ،اس کود یکھ رہے ہیں کہ پورا خطہ پورا ہندوستان، پورا پاکستان، پورا بنگلہ دیش ایک ٹکا اورایک پیسہ سرکار، دربار اور حکومت سے نہیں لیتا، قوم پیچھے کھڑی ہے الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے او رعلماء ان مدارس کے اندر خدمت انجام دے رہے ہیں۔

آج بہت سے دھوکے دیے جاتے ہیں، کوئی کہتا ہے سیلانی والا اتنے لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے، کوئی کہتا ہے JDC والا اتنے لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے ان احمقوں سے کہو کہ جاؤ، جاکے ان مدارس کو دیکھو ،جو پورے اس خطے کے اندر ہیں، اور ڈیڑھ سو سال سے کھانا بھی کھلارہے ہیں، پانی بھی پلارہے ہیں، کپڑے بھی پہنا رہے ہیں، بجلی بھی فراہم کر رہے ہیں، گیس بھی فراہم کررہے ہیں، قرآن وحدیث کے علوم، شریعت کے علوم بھی پڑھا رہے ہیں اور الحمدلله ثم الحمدلله محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وارث پیدا کر رہے ہیں۔

یہ جو بعض اداروں کے میں نے نام لیے، ان کی ان مدارس کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں، آپ خود سوچیں دارالعلوم کراچی میں کتنے طلباء پڑھتے ہیں؟ جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں کتنے طلباء پڑھتے ہیں؟ جامعہ فاروقیہ میں کتنے طلباء پڑھتے ہیں! کراچی کے تمام مدارس میں کتنے طلباء پڑھتے ہیں؟ سندھ ہے، پنجاب ہے، خیبر پختونخواہ ہے، بلوچستان ہے، فاٹا کے علاقے ہیں، کشمیر ہے، گلگت بلتستان ہے، یہ توپاکستان ہے، ہندوستان میں آپ جائیے، بنگلہ دیش میں آپ جائیے، ہم نے بنگلہ دیش میں ایسے ایسے مدرسے دیکھے کہ آپ نے تصور نہیں کیا ہو گا۔

صرف دورہ حدیث، ایک درجے میں اس مدرسے کے اندر آٹھ ہزار طلباء ہیں، تو الحمدلله وہ معاہدہ جو ہمارے اکابر نے قوم سے کیا تھا اور وفاداری کا وعدہ جو قوم نے علماء سے کیا تھا، علماء نے بھی اس کو نبھایا اور قوم نے بھی اس کو نبھایا، الله تعالیٰ تا قیامت اس کو جاری وساری رکھے!

کسی الله والے سے تعلق قائم کریں

اب پھر آپ کے سامنے دھوکہ آرہا ہے، وہ دربار اور سرکار پھر آپ کے سامنے آرہی ہے او رپھر آپ کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ،چناں چہ آنکھیں کھلی رکھنی ہیں، بہت باشعور رہنا ہے، اپنے اکابر سے ،اپنے اساتذہ سے، اپنی مادر علمی سے جڑے رہنا ہے اور میں آپ سے درخواست کروں گا کہ بیمہارنہ رہیں، بے لگام نہ رہیں، کسی الله والے اور کسی متبع سنت کے ہاتھ میں ہاتھ ضرور دیں۔ بے مہار نہ رہیں آپ جانتے ہیں کہ اگر آدمی بے مہار ہو تو پھر وہ کبھی اِدھر چلا جاتا ہے ،کبھی اُدھر چلا جاتا ہے، متبع سنت اور کسی الله والے سے اپنا تعلق ضرور جوڑیں۔

تبلیغ میں سال لگائیں

اسی طرح سے میں آپ حضرات سے درخواست کروں گا کہ آپ دعوت وتبلیغ میں سال ضرور لگائیں، ہو سکتا ہے آپ کی سمجھ میں نہ آئے، لیکنتجربہ ہے، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں، مولانا محمدیوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم آپ کے سامنے بیٹھے ہیں او رہمارے ملک کے علماء جنہوں نے الله کی راہ میں سال لگایا او راس کے نتیجے میں کیا کچھ حاصل ہوا ہے۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے، آپ کے آٹھ سال، دس سال، بارہ سال بھی تو گز رہی گئے، آپ یوں مڑ کر پیچھے دیکھیں تو ایسا لگے گا کہ کل درجہ اولیٰ میں داخل ہوئے تھے، یوں گزر گئے اور یہ سال بھی گز رجائے گا ،لیکن اگر آپ نے بہت اہتمام کے ساتھ دعوت وتبلیغ میں سال لگایا تو آپ قیمتی بن جائیں گے، آپ اپنی ذات کے لیے بھی قیمتی بن جائیں گے اور آپ پوری امت کے لیے قیمتی بن جائیں گے۔

تدریس اختیار کریں اور اپنا مدرسہ قائم کریں

اور تیسری درخواست آپ سے یہ ہے کہ آپ تدریس ضرور اختیارکریں، بغیر تدریس کے زندگی نہ گزاریں ،کوشش کریں چاہے آپ کو نورانی قاعدہ پڑھانا پڑے،چاہے آپ کو علم الصرف اور علم النحو پڑھانی پڑے، چاہے آپ کو کریمہ اور پندنامہ پڑھانا پڑے، لیکن آپ ضرور پڑھائیں، تدریس سے ہر حال میں وابستہ رہیں، تدریس ضرور اختیار کریں، لیکن میں تو اس سے بڑھ کر آپ حضرات سے درخواست کروں گا کہ آپ میں سے ہر ساتھی یہ طے کرے کہ ہم یہاں سے جانے کے بعد، چاہے ہم گاؤں کے رہنے والے ہیں، چاہے ہم جنگل، پہاڑ کے رہنے والے ہیں، چاہے ہم صحرا کے رہنے والے ہیں، ہم کہیں کے بھی رہنے والے ہیں، ہم جاکر مدرسہ قائم کریں گے۔

آپ کو یاد ہو گا لال مسجد جامعہ حفصہ کا واقعہ پیش آیا تھا اور جو ظلم وستم وہاں ہوا تھا ،وہ سب آپ کو یاد ہو گا، اس کے بعد والا جو جلسہ دستار بندی تھا، اس میں میں نے طلبہ سے ہاتھ اٹھوائے تھے کہ یہ ایک مدرسہ ختم کر رہے ہیں، تم سب یہ طے کرو کہ ہم مدرسہ قائم کریں گے، تو الحمدلله اس طویل عرصے میں جو جامعہ حفصہ کے واقعے کے بعد کا زمانہ ہے، پورے ملک میں مجھے جامعہ کے فضلا ء ملتے ہیں کہ ہم نے آپ سے اس موقع پر وعدہ کیا تھا، ہم نے مدرسہ قائم کیا ہے، چناں چہ آپ بھی قائم کریں، مدرسے زیادہ نہیں ہیں، مدرسے پاکستان کی مسلم آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بالکل کافینہیں ہیں۔

آپ مجھے بتائیے کہ 24 کروڑآبادی کا ملک ہے 24 کروڑ میں جو مدارس کی تعداد ہے تقریبا21 ہزار پانچ سو کے قریب ہے۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت جو مدارس اس ملک میں خدمت انجام دے رہے ہیں ،ان کی تعداد 21 ہزار پانچ سو کے لگ بھگ ہے،24 کروڑ مسلمانوں کی آباد ی میں ان مدارس میں پڑھنے والے طلباء، طالبات کی تعداد تقریباً ساڑھے اٹھائیس لاکھ ہے، ساڑھے اٹھائیس لاکھ چوبیس کروڑ میں کیا نسبت رکھتے ہیں؟! کچھ بھی نہیں، اکیس ہزار پانچ سو مدرسے چوبیس کروڑآبادی کے ملک میں کیاحیثیت رکھتے ہیں؟ کچھ بھینہیں آپ مدرسے میں رہتے ہیں آپ نے مدرسے میں زندگی گزاری، آپ نے ہر طرف مدرسے کا ماحول دیکھا تو آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ مدرسے ہی مدرسے ہیں، ایسا نہیں ہے، مدرسے آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں، آپ مدرسے قائم کریں اور بھرپور انداز میں قائم کریں۔

اور اپنے اکابر کے ساتھ جڑے رہیں، اپنے بڑوں کے ساتھ جڑے رہیں، بہت طوفان آئیں گے او ربہت ہوائیں چلیں گی، بہت چمک دمک آپ کو دکھائی جائے گی، لیکن میرے دوستو! یہ جو اساتذہ بیٹھے ہوئے ہیں، یہ آپ کو جو دیکھ رہے ہیں ان کی آنکھوں میں آپ کے حوالے سے کچھ امیدیں ہیں کہ ہمارے یہ نوجوان فضلاء جائیں گے اور جاکر اپنی جان جوکھوں میں ڈالیں گے، یہ جاکر خدمت سرانجام دیں گے، یہ نہ دائیں دیکھیں گے، نہ بائیں دیکھیں گے، یہ صرف الله تعالیٰ کی رضا اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اتباع میں اس دین کی خدمت کو اختیار کریں گے ۔

احساس کم تری کا شکار نہ ہوں

ہمارے بہت سے فضلا ء چوں کہ نوجوان ہیں، شیطان بھی ساتھ ہے ،نفس بھی ساتھ ہے، بہت دفعہ یہ خیال آتاہے کہ میں تو ملا بن گیا، مولوی بن گیا، اب میں زندگی کیسے گزاروں گا؟ میری شادی کیسے ہو گی؟ میرا گھر کیسے چلے گا؟ یہ سارے کے سارے وسوسے اپنے دماغ سے بالکل نکال دیں، آپ نے اگر طے کر لیا کہ میں الله کے لیے خدمت انجام دوں گا تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں اور مسجد میں کہتا ہوں کہ آپ کی شادی دنیا داروں سے زیادہ بہترین ہو گی، آپ کا گھر دنیاداروں سے زیادہ بہتر انداز میں چلے گا، آپ کو جو عزت واحترام ملے گا وہ دنیا والے سوچ بھی نہیں سکتے،لیکن آپ کا مخلص ہونا ضرور ی ہے۔

منکان لله کان الله لہ جو الله کا ہو جاتا ہے الله اس کے ہوجاتے ہیں۔ آپ تصور کریں ،آپ سوچیے ایک لمحے کے لیے کہ ان مدارس میں ہزاروں ، لاکھوں طلباء وطالبات پڑھ رہے ہیں او رکوئی مقررہ، باقاعدہ ایک روپے کی بھی آمدن نہیں ہے کہ اس مہینے فلاں صاحب سے ایک روپیہ یا ایک ہزار روپیہ آئے گا یا ایک لاکھ روپیہ آئے گا۔

لیکن سارا نظام چل رہا ہے یانہیں چل رہا ؟ بجلی کے بل بھی ادا ہو رہے ہیں، گیس کے بل بھی ادا ہو رہے ہیں، اساتذہ کرام کی تنخواہیں بھی ادا ہو رہی ہیں، طلباء کو وظائف بھی دیے جارہے ہیں، کھانا بھی کھایا جارہا ہے تعلیم بھی ہو رہی ہے سارے کے سارے سلسلے الله تعالیٰ کرارہے ہیں، یہ الله تعالی کرارہے ہیں ،یہ میں نہیں کر رہا، یہ میرے ساتھ جو ساتھی ہیں وہ نہیں کر رہے، الله کر رہے ہیں اور الله کرائیں گے، بشرطیکہ ہم مخلص ہوں، اس لیے درخواست ہے، گزارش ہے کہ یہ جو طوفان آپ کے ارد گرد چل پڑے ہیں، یہ ہوائیں جو چلنا شروع ہو گئی ہیں، اس سے اگر آپ بچ سکتے ہیں تو صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں کہ آپ ٹھیٹھ ملابنیں۔

یہ جو دما غ کے اندر ہوتاہے کہ میں یوں ہو جاؤ ں گا، میں یوں ہو جاؤں گا کوئی ضرورت نہیں آپ قرآن کی خدمت کریں، آپ حدیث کی خدمت کریں، آپ طلبائے کرام کی خدمت کریں اور اس کے اندر تن من دھن کے ساتھ لگ جائیں اوراپنے آپ کو بھرپور انداز میں استعمال کریں، آپ دیکھیں گے کہ ان شاء الله ،الله تعالیٰ آپ کو جو ترقیات عطا فرمائیں گے ،اس دنیا کے حوالے سے بھی عطا فرمائیں گے، آخرت کے حوالے سے بھی عطا فرمائیں گے، جو قبولیت عامہ اور تامہ آپ کو عطا فرمائیں گے اس کا کوئی اور تصور نہیں کرسکتا۔

لہٰذا میں اپنے طلباء عزیز سے درخواست کروں گا کہ اپنی نسبت کو مضبوط رکھیں۔ ہمارے حضرت نوّرالله مرقدہ جو آپ کے دادا استاد ہیں، حضرت مولانا محمدانور صاحب دامت برکاتہم کے بھی استاد ہیں، حضرت مولانا محمدیوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم کے بھی استاد ہیں، حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب دامت برکاتہم ،حضرت مولانا محمد عظیم صاحب کے بھی استاد ،سب کے استاد ہیں۔

وہ یہ فرماتے تھے او رہم نے یہ ان سے ایک دفعہ نہیں سنا، دو دفعہ نہیں سنا، تین دفعہ نہیں سنا ، بار بار سنا کہ میں مولانانہیں ہوں، میں مولوی نہیں ہوں، میں ملاہوں اور میں نے یہ ملائیت کسی مجبوری میں اختیارنہیں کی ہے کہ میرے گھر میں کھانے کو نہیں تھا تومیں ملا بن گیا یا میرے پاس رہنے کا انتظام نہیں تھا تو میں ملا بن گیا یا میں دنیا میں زندگی نہیں گزار سکتا تھا تو میں ملا بن گیا نہیں، میرے پاس بہت کچھ تھا، میں نے بہت سوچ سمجھ کر اسے اختیارکیا ،چنا ں چہ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اس دور میں جو فتنے ہیں اور جو فتنے تیزی سے ہماری طرف آرہے ہیں اس میں یہ فارمی مولوی مقابلہ نہیں کرسکتے، ٹھیٹھ ملا چاہیے ،جو ان دیواروں کے سامنے کھڑا ہو جائے ،جو ان طوفانوں کے سامنے کھڑا ہو جائے، جو پوری جرات کے ساتھ حق کو بیان کرنے والا ہو، جو پوری جرات کے ساتھ الله تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والا اور اس کو بیان کرنے والا ہو، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے والا اور سنتوں کا پرچار کرنے والا اور دعوت دینے والا ہو اس میں ملا چاہیے، ٹھیٹھ ملا چاہیے۔

تو آپ سے درخواست ہے کہ کسی احساس کم تری میں مبتلانہ ہوں، کسی محرومی کا شکار نہ ہوں، آپ کا جو مرتبہ ومقام الله کے ہاں ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ہاں ہے، وہ مرتبہ اور مقام ایسا ہے جو اور کسی کا نہیں، آپ وارث ہیں، نہ صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے وارث ہیں، بلکہ تمام انبیاء کے وارث ہیں۔

اس لیے میری گزار ش ہے، درخواست ہے کہ آپ کسی احساس کم تری میں مبتلا نہ ہوں، کبھی یہ خیال نہ آئے کہ میں تو ڈاکٹر نہیں بن سکا، میں تو انجینئر نہیں بن سکا، میں توتاجر نہیں بن سکا، میرے پاس تو دنیا نہیں ہے، میں تو خالی مولوی، ملا ہوں، یہ خیال دل میں بالکل نہ لائیں، اپنی حقیقت کو سمجھیں، جیسے آپ کے اساتذہ نے باربار آپ کو سمجھایا ہے۔

اپنی مادر علمی سے جڑے رہیں

اور یہ یاد رکھیں کہ اپنی مادر علمی سے جڑے رہیں۔
           پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

آپ درخت سے جڑے رہیں گے تو آپ پُر بہار رہیں گے، آپ جانتے ہیں کہ ڈالی اور ٹہنی اگر تنے کے ساتھ جڑی رہتی ہے تو سر سبز رہتی ہے، اس میں سبز پتے آتے ہیں ،اس میں کلیاں کھلتی ہیں، اس میں پھول آتے ہیں، اس میں پھل آتے ہیں او راگر شاخ اور ٹہنی تنے سے ٹوٹ جائے تو وہ پیروں میں روندی جاتی ہے، وہ خشک ہوجاتی ہے اور پھر وہ بعض دفعہ کچرے میں پھینک دی جاتی ہے او ربعض دفعہ ایندھن بنائی جاتی ہے، وہ تندوروں اور چولہوں میں جلائی جاتی ہے۔

آپ تنے سے جڑے رہیں، کہیں پر بھی ہوں تو آپ کی کوشش ہو کہ آپ اپنے اساتذہ کو یاد رکھیں، اپنی مادر علمی کو یاد رکھیں، اس کی درودیوار سے محبت کریں، اس کی نسبت کے ساتھ جڑے رہیں ، آپ تروتازہ رہیں گے، آپ سرسبزوشاداب رہیں گے ، آپ کھیلتے رہیں گے، لیکن اگر آپ ٹوٹ گئے تو پھر معاملہ بڑا خراب ہے۔

فضلاء جامعہ فاروقیہ کی خدمات

میں نے پوری دنیا میں، صرف پاکستان میں نہیں،جامعہ فاروقیہ کے ان فضلاء کو دیکھا ہے او ر مسلسل دیکھتا ہوں اور برسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جو جامعہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جب ہم ان کیخدمت میں جاتے ہیں، کہاں کہاں؟ دور دور، فیجی ایک جزیرہ ہے، جو کرہ ٴارض پر وہاں واقع ہے جہاں سے دنیا شروع ہوتی ہے، جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، جہاں اس کرہٴ ارض پر سب سے پہلی اذان ہوتی ہے، وہاں جامعہ کے فضلاء ہیں اور ایسے فضلاء ہیں کہ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ان کے جسموں میں خون نہیں، کرنٹ ہے، پورے ملک پر حاوی ہیں اور الحمدلله ایسی خدمات انجام دے رہے ہیں کہ آدمی سوچ نہیں سکتا، یہاں سے وہاں تک ہوائی جہاز میں 27 گھنٹے کا سفر ہے اور جب آدمی وہاں جاکے اترتا ہے تو دو تین دن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا، پیر زمین پر صحیح طرح سے پڑ نہیں رہے ہوتے ،کئی براعظموں کو گزار کر، خط استوا کو گزار کر، آدمی وہاں پہنچتا ہے، لیکن وہ حضرات جس طرح اپنے اساتذہ کا استقبال کرتے ہیں… الله اکبر۔

اور وہ مسلمان ملک نہیں ہے، مسلمان بہت تھوڑے سے ہیں، غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے، ہندو وہاں ہیں، سکھ وہاں ہیں اور تھوڑے سے مسلمان بھی ہیں، لیکن انہوں نے جس طرح سے وہاں خدمت انجام دی ہے او رانجام دے رہے ہیں، جب ہم وہاں جاتے ہیں ہفتہ، دس دنوں کے لیے، ظاہر ہے اس سے زیادہ کے لیے جا نہیں سکتے، تو وہ ہمیں اس طرح استعمال کرتے ہیں، جیسے آپ نے بازار میں دیکھا ہو گا گنے کے رس والی جو مشین ہے ، دوکان والا اس کے اندر ایک دفعہ گنے کو ڈالتا ہے، پھر دوسری دفعہ ڈالتا ہے، پھر تیسری دفعہ ڈالتاہے، جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اب اس میں قطرہ بھی رس کا نہیں رہا تب وہ اس کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے، تو اسی طرح ہم لوگوں کوبھی وہ استعمال کرتے ہیں ،صبح، دوپہر، شام، رات، ادھر بیان، ادھر مجلس اور ہماری حالت بھی یہ ہوتی ہے کہ ہمارا جوڑ جوڑ ہل جاتا ہے، لیکن وہ روحانی خوشی ہوتی ہے ان کے چہروں کو دیکھ کر، ان کی کارکردگی کو دیکھ کر، ان کی خدمت کو دیکھ کر وہ ساری تکلیفیں ختم ہو جاتی ہیں۔وہ سارے درد ختم ہوجاتے ہیں۔

تو بھائی آپ سے بھی گزار ش ہے کہ چاہے آپ خیبر پختونخواہ کے ہوں چاہے آپ بلوچستان کے ہوں، چاہے آپ پنجاب کے ہوں، چاہے آپ سندھ کے ہوں، چاہے آپ کشمیر کے ہوں، چاہے آپ گلگت بلتستان کے ہوں، جہاں کہیں کے بھی ہوں، آپ کو یہ جھنڈا بلند رکھنا ہے، یہ جھنڈا جس کو ہمارے اکابر نے 1866ء کے اندردارالعلوم دیوبند کی شکل میں اٹھایا تھا، اس کو نیچے نہیں ہونے دینا، اس کو گرنے نہیں دینا اس کے لیے جان جائے تو چلی جائے، اس کے لیے مال جائے تو چلا جائے، لیکن ہمیں اپنے ان اکابر کی نسبت کی حفاظت کرنی ہے ۔
میں نے عرض کیا کہ سازشیں خوف ناک ہیں اور مشکلات بہت ہیں، لیکن الله تعالیٰ آپ کے ساتھ ہیں، جب الله آپ کے ساتھ ہوں گے تو کوئی بھی پھر آپ کو گزند نہیں پہنچا سکتا، کوئی آپ کا نقصان نہیں کرسکتا، کوئی آپ کو پیچھے نہیں کرسکتا، آپ کو پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

اور پھر میری یہ بات یاد رکھیں کہ اکابر کا، اپنے اساتذہ کا، اپنی مادر علمی کا اعتماد آپ کو حاصل ہے، آپ اپنے علاقے میں جائیں ،علماء سے آپ کے روابط ہوں، اہل دین سے آپ کے روابط ہوں ان کا اعتماد آپ کو حاصل ہو ان کی خدمتوں میں بار بار جائیں، علاقے کی ضروریات کا اندازہ لگائیں کہ یہاں کس انداز میں خدمت کی ضرورت ہے اس خدمت کو وہاں پہ انجام دیں او راتباع سنت کااہتمام کریں، میں نے بالکل ابتدا میں یہ بات عرض کی ہے کہ بے مہار نہ رہیں، بے لگام نہ رہیں، اپنے آپ کو کسی الله والے اورکسی متبع سنت شیخ اور استاذ سے جوڑ کر رکھیں، ان سے مسلسل رابطے اورمشورے میں رہیں، آپ محفوظ ہوجائیں گے، آپ تباہ اور برباد ہونے سے بچ جائیں گے۔

اور دوسری گزارش آپ سے یہ کی کہ آپ الله کی راہ میں ضرور نکلیں سال الله کی راہ میں لگائیں بہت سے ساتھیوں کی سمجھ میں ابھی بالکل نہیں آئے گا ،لیکن میرے دوستو! میں آپ کو اپنی زندگی کاتجربہ بتارہا ہوں، حضرت مولانا محمدیوسف افشانی صاحب دامت برکاتہم کا وہ زمانہ میرے سامنے ہے کہ حضرت نے سال بھی لگایا اورپھر پیدل حجاز مقدس کی پیدل جماعت میں بھی پورا سال پیدل چل کر حج پہ تشریف لے گئے، تو میرے دوستو! آپ مجھے بتائیں ،آپ حضرت سے کسی وقت پوچھیے گا کہ یہ جو مدرسہ ہے ،اس نے اور یہ دعوت وتبلیغ ہے، اس نے اور یہ جو درس تدریس ہے، اس نے اور یہ جو اکابر سے تعلق ہے، اس نے فائدہ پہنچایا ہے یا نقصان پہنچا یا ہے؟! فائدہ ہی فائدہ۔

یہ ایک سال آپ کو محسوس نہیں ہو گا، ابھی میں ترسوں رائے ونڈ گیا تھا، اپنے جامعہ کے فضلا سے ملاقاتیں ہوئیں سب خوش ماشا ء الله!

تو میرے دوستو! اس کا ضرو راہتمام کریں اور اسی طریقے سے تدریس ہر گز ترک نہ کریں، بہرحال تدریس اختیار کریں، چاہے نورانی قاعدے کی تدریس ہو چاہے علم الصرف اور علم النحو کی تدریس ہو، کوئی بھی کتاب آپ کو پڑھانے کا موقع ملے، ادارے کے ذمہ دار کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر دیں کہ حضرت! میں حاضر ہوں، جو چاہیں کتاب دے دیں۔

وہ اگر کہیں کہ آپ کو بچوں کو نورانی قاعدہ پڑھانا ہے تو آپ شرح صدر کے ساتھ ،طیب خاطر کے ساتھ، اس کے لیے تیار ہوں اور آپ یاد رکھیں کہ آپ اپنے آپ کو اپنے اساتذہ اور بڑوں کے حوالے کریں گے تو آپ آگے جائیں گے او راگر آپ اپنے آپ کو اپنے نفس کے حوالے کریں گے تو آپ پیچھے جائیں گے۔آپ آگے نہیں بڑھ سکتے ، اس لیے اپنے آپ کو اساتذہ کے حوالے کریں، تدریس ضرور اختیار کریں، جس ساتھی کو الله توفیق دے وہ مدرسہ قائم کرے،جہاں اس کو موقع ملے مدرسہ قائم کرے اور اخلاص کے ساتھ، الله کو راضی کرنے کے جذبے سے ،دن رات اس کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ مسجد کے ساتھ وابستگی آپ کو ہر حال میں اختیار کرنی ہے، آپ مسجد کے اندر حاضر باش ہوں، آپ فجر سے پہلے مسجد میں موجود ہوں فجر کے بعد بھی کچھ دیر تک مسجد میں موجو دہوں، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اوراگر الله تعالیٰ امامت کی توفیق عطا فرما دے تو ضرور اختیار کریں، آپ مجھے بتائیے کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ و سلم اپنی مسجد کے امام تھے کہ نہیں تھے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کس وقت تک امامت کی ہے؟ آپ نے پڑھا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم چلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کے پیروں میں چلنے کی سکت ختم ہو گئی اور آپ دو صحابہ کے سہارے سے پیر گھسیٹ رہے ہیں، زمین پر پیرا ٹھا کر رکھے نہیں جارہے۔ لیکن آپ امامت کے لیے مسجد تشریف لارہے ہیں، یا نہیں لارہے؟حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نماز پڑھا رہے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ امامت جو بقیہ نماز کی تھی وہ بیٹھ کے کرائی کہ نہیں کرائی؟

آپ مجھے بتائیں کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ امامت ہلکی چیز ہے تو امامت تو رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے کی ہے، حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے کی ہے، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کب شہید ہوئے ہیں؟ کس حالت میں شہید ہوئے ہیں؟ کہاں شہید ہوئے ہیں؟ تو امامت سے پیچھے ہٹنا، امامت کو ناگوار سمجھنا، امامت کے حوالے سے تحفظات کا ہونا یہ سب شیطان کا اور طاغوت کا طریقہ ہے، یہ اسلام اور دین ہمیں نہیں سکھاتا، دین تو یہ سکھاتا ہے کہ اگرآپ کو الله کے گھر کی خدمت کا موقع ملے تو آپ دل وجان سے وہ خدمت انجام دیں، تو آپ امامت اختیار کریں، خطابت اختیار کریں، دعوت وتبلیغ میں اپنے آپ کو لگائیں، تدریس اختیار کریں، اپنا مشغلہ دینی بنائیں ،دنیا سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے، دنیا کا کام کرنے والے بہت ہیں ،میں نے ابھی آپ سے عرض کی کہ ہمارے مدارس ملک کی آبادی کی تعداد کے مناسب نہیں ہیں، بہت کم ہیں، اس لیے ہمیں بہت محنت کرنی ہے اوراپنے اکابر کے طرز پر محنت کرنی ہے، اپنے اکابر کی اتباع کرتے ہوئے محنت کرنی ہے، اپنے اکابر سے اپنے آپ کو جوڑ کر رکھنا ہے تو بھائی! سب اہتمام کریں گے؟ الله تعالیٰ اپنے فضل سے، اپنے کرم سے، آپ سب کو کام یاب فرمائے۔آمین یا رب العالمین!

مجالس خیر سے متعلق