جدت پسندی اور اس کی تباہ کاریاں

idara letterhead universal2c

جدت پسندی اور اس کی تباہ کاریاں

مولانامفتی ابو صفوان

جدت پسند طبقہ کا علماء پر ایک اعتراض

جدت پسند لوگ قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر اور اس سے احکام مستنبط کرنے کے لیے نہ” عالم“ اور” فقیہ“یا” اہل فتویٰ“ ہونے کو ضروری سمجھتے ہیں اور نہ ”عابد“یا”اہل تقویٰ “ہونے کو، ان کی طرف سے عرصہ دراز سے شور مچا ہوا ہے کہ :

”قرآن و سنت کی تشریح پر علماء کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے، اسلام میں پاپائیت نہیں ہے، اس لیے کسی خاص گروہ کو قانون سازی کا حق نہیں دیا جا سکتا، قرآن وسنت کی تشریح کا حق تمام مسلمانوں کو ہے ، صرف علماء کونہیں“۔” علماء کو اسلام کے معاملے میں ویٹو کا حق نہیں دیا جا سکتا “وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ نعرے ہیں جن سے تجدد پسند طبقے کی کوئی تحریر بمشکل خالی ہوتی ہے۔

اسی پاپائیت والی بات کو اہل تجدد کی طرف سے ایک دوسرے پیرایہ میں یوں بھی تعبیر کیا جاتا ہے کہ ”کتاب وسنت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ، اس لیے اس کی تعبیر و تشریح کا حق علماء کے لیے محفوظ نہیں کیا جاسکتا“۔

پراپیگنڈہ کے مشاق ہیں کہ اس نعرے کو بے تکان دہراتے چلے جارہے ہیں، مگر کوئی اللہ کا بندہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اس اعتراض کی مثال بالکل ایسی ہے ، جیسے ایک شخص جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کی شکل تک نہ دیکھی ہو ۔ یہ اعتراض کرنے لگے کہ ملک میں علاج ومعالجہ پر سند یافتہ ڈاکٹروں کی اجارہ داری کیوں قائم کر دی گئی ہے؟ مجھے بھی بحیثیت ایک انسان کے یہ حق ملنا چاہیے۔ یا کوئی عقل سے کورا انسان یہ کہنے لگے کہ ملک میں نہریں، پل اور بند تعمیر کرنے کا ٹھیکہ صرف ماہر انجینئروں ہی کو کیوں دیا جاتا ہے؟ میں بھی بحیثیت ایک شہری کے یہ خدمت انجام دینے کا حق دار ہوں ۔ یا کوئی عقل سے معذور آدمی یہ اعتراض اٹھانے لگے کہ قانون ملک کی تشریح وتعبیر پہ صرف ماہرین قانون ، وکلاء اور ججوں ہی کی اجارہ داری کیوں قائم کر دی گئی ہے؟ میں بھی عاقل و بالغ ہونے کی حیثیت سے یہ کام کر سکتا ہوں۔

ہمیں توقع نہیں کہ کوئی صحیح العقل انسان اس قسم کی باتیں کہہ سکتا ہے اور اگر واقعتا کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ اپنے دل میں یہ کھٹک رکھتا ہو تو کیا اس سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ بلا شبہ بحیثیت ایک شہری کے تمہیں ان تمام کاموں کا حق حاصل ہے، لیکن ان کاموں کی اہلیت پیدا کرنے کے لیے سالہا سال دیدہ ریزی کرنی پڑتی ہیں، پہلے یہ زحمت تو اٹھاؤ، پھر بلا شبہ تم بھی یہ خدمتیں انجام دے سکتے ہو۔

سوال یہ ہے کہ یہی بات اگر قرآن وسنت کی تشریح کے دقیق اور نازک کام کے لیے کہی جائے تو وہ ”اجارہ داری“ کیسے بن جاتی ہے؟ کیا قرآن وسنت کی تشریح و تعبیر کے لیے کوئی اہلیت اور کوئی قابلیت در کار نہیں ؟ کیا اس کے لیے کسی درس گاہ میں پڑھنے اور کسی استاد سے علم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا پوری دنیا میں ایک قرآن وسنت ہی کا علم ایسا لاوارث رہ گیا ہے کہ اس کے معاملے میں ہر شخص کو اپنی” تشریح وتعبیر“ کرنے کا حق حاصل ہے، خواہ اس نے قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کے لیے چند مہینے بھی خرچ نہ کیے ہوں ۔

کتاب و سنت کی تشریح کے لیے جس دیدہ ریزی کی ضرورت ہے پہلے کچھ اس کا ذائقہ تو چکھیے ، زندگی کا کچھ حصہ علوم کتاب وسنت کے کوچے میں گزاریئے۔ اس کوچے کے آداب سیکھیے ، اس کے بعد اگر کوئی شخص آپ کے لیے کتب و سنت کی تشریح کے حق کا قائل نہ ہو تو بلا شبہ آپ کا گلہ جائز اور برحق ہوگا ۔(اسلام اور جدت پسندی ،ص:43 تا44 )

جدت پسند طبقوں کی طرف سے علماء اور ان کی تحقیق پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ ورسول کے احکام کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟ تو ان کی طرف سے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ہم علماء کے مخالف ہیں، اسلام کے نہیں ،حالاں کہ یہ صرف فریب کاری ہے ، علمائے حق کی مخالفت دراصل اسلام اور اللہ ورسول ہی کی مخالفت ہے ۔ اس کو آپ ایک مثال سے اس طرح سمجھیے کہ قانون وہ ہے جو کہ پارلیمنٹ نے منتخب اور تجویز کیا ہے او راس کی وہ تشریح معتبر ہے جو کہ جج اور وکیل صاحبان سمجھتے ہیں ۔ نہ کہ عوام اور جاہلوں کی تشریح، کیوں کہ اوپر والوں کی عوام سے براہ راست تو خط و کتابت اور رابطہ ہے نہیں، جو وہ خود عوام سے اس کے معنی اور تشریح اور قانونی باریکیاں بیان کرتے ۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ جن لوگوں کو انہوں نے قانون اس کا اہل سمجھ کر عہدہ دیا ہے ۔ وہ جو معنی اور تشریح قانون کے بیان کریں اس کا اعتبار ہوگا ، قانون کے در حقیقت یہی معنی ہیں۔ دیکھیے جب کوئی کورٹ کا جج ایک فیصلہ دیتا ہے تو کیا اس وقت عوام اور جہلا کا یہ کہنا معتبر ہوگا کہ قانون کے یہ معنی اور تشریح نہیں جو جج نے سمجھے؟ اگر کوئی ایسا کرے اورجج صاحب کا حکم نہ مانے تو اس کو قانون کی مخالفت اور قانون و عدالت کی تو ہین قرار دیا جاوے گا اور اس کے لیے سزا تجویزکی جائے گی۔

دیکھیے! کورٹ کے جج قانون کے سمجھنے والے تسلیم کیے گئے ہیں۔ اور جو وہ قانون کے معنی بیان کر یں اس کی مخالفت قانون ہی کی مخالفت قرار دی گئی ہے۔ کیوں کہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھنے والے حکام ہر مقدمہ کا فیصلہ خود تو کرتے نہیں ۔ بلکہ وہ اصول اور قاعدہ وضابطہ بنا دیتے ہیں۔ اس لیے قانون کے سمجھنے والے کورٹ کے جج قرار دیے گئے ہیں۔ تو جس طرح کورٹ کی مخالفت کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ میں پارلیمنٹ کا مخالف نہیں ہوں۔ بلکہ قانون کے معنی بیان کرنے والے حج صاحبان کے خلاف ہوں تو اس کو پارلیمنٹ ہی کا مخالف سمجھا جائے گا۔ اس طرح ائمہ مجتہدین اور علماء کا بھی حال ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے سمجھنے والے ہیں اس لیے ان کی مخالفت اللہ اور رسول کی مخالفت شمار ہوگی ائمہ مجتہدین اور علمائے حق کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص شان عطا فرمائی ہے ۔ اب کوئی اللہ تعالیٰ سے اختلاف کرے کہ ان کے اندر یہ قابلیت کیوں رکھی اور ہمارے اندر کیوں نہیں رکھی۔ تو یہ بات علماء سے پوچھنے کی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے پوچھیے۔ لیکن پھر یہ بھی پوچھ لینا کہ” انبیاء کو نبوت کیوں دی؟ مجھے کیوں نہیں دی؟“ (نعوذ باللہ) عوام کی تو ایسی مثال ہے ، جیسے عام رعیت ۔ اور علمائے حق کی ایسی مثال ہے جیسے وکلاء اور ائمہ مجتہدین (کی ) جیسے کورٹ کے جج ۔ پس جب ایک رعیت کو کورٹ کے جج بلکہ ایک معمولی جج کی مخالفت جائز نہیں تو عوام کو علماء کی مخالفت کب جائز ہوگی ؟ تو اب اس کے کہنے کی کہاں گنجائش رہی کہ ہم تو علماء کے مخالف ہیں، اللہ ورسول کے مخالف نہیں؟!

معلوم ہوا کہ علمائے حق کی مخالفت عوام کے لیے کسی طرح جائز نہیں ۔ حتی کہ اگر آپ کے سامنے قرآن وحدیث کا ترجمہ بھی موجود ہو جب بھی آپ کو علماء کی مخالفت جائز نہیں ۔ کیوں کہ ترجمہ سمجھنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ قانون کا ترجمہ ہو گیا ہے، مگر پھر بھی کوئی شخص جج کی مخالفت میں اپنی رائے نہیں پیش کر سکتا۔ اور اگر کرے تو اب بھی اس کا وہی حال ہوگا جو قانون کا ترجمہ نہ ہونے کی حالت میں ہوتا ۔ یعنی قانون کا مخالف قرار دیا جاوے گا تو اسی طرح اگر چہ قرآن وحدیث کا ترجمہ ہو گیا ہے۔ مگر پھر بھی عوام کو اجتہاد کرنا اور علمائے حق سے مقابلہ کرنا جائز نہیں اور جس طرح حکام کی مخالفت کرنے والا واقع میں گورنمنٹ کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اسی طرح علماء کی مخالفت کرنا حضور صلی الله علیہ وسلم سے مخالفت کرنا ہے۔ اور علماء کی مخالفت کر کے یہ عذر کرنا کہ ہم اللہ اور رسول کے خلاف نہیں کرتے ۔نہایت نازیبا اور لچر عذر ہے۔ (اشرف الجواب، ص408 تا410 بتغیر واضافہ)

جدت پسندوں کی ریسرچ اور قرآن وحدیث کے نام کا فریب

جدت پسندوں نے تحقیق و استدلال کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ پہلے از خود کچھ نظریات (خواہ خود من پسند کے مواقع یا اہل مغرب کی خوش نودی و تقلید کی خاطر ) متعین کر کے انہیں وقت کے تقاضے قرار دے دیااور پھر اپنی ”نئی تعبیر“ کے ذریعہ قرآن وسنت کو ان پر چسپاں کر کے دکھا دیا ، یہی وہ پہلی بنیاد ہے جس کی کجی نے ان کی فکرونظر کی پوری عمارت ٹیڑھی کر دی ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ان کے افکار اور نظریات تحقیق اورنظر کے تمام اصولوں ، تمام ضابطوں اور تمام قاعدوں کو روندتے ہوئے تحریف کی سرحدوں میں داخل ہو گئے ہیں۔

دنیا کے ہر علم وفن میں تحقیق و نظر کے کچھ اصول اور ضابطے مقرر ہوتے ہیں، جس کی پابندی کیے بغیر اس فن کی تحقیق میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچا جا سکتا، موجودہ اصول قانون Jyrisprudence) ) میں بھی تعبیر قانون موضوعہ (Interpretation of Statutes ) ایک مستقل علم ہے ، اس کے باقاعدہ اصول وضوابط ہیں اور جب تک ان اصولوں کی پورے طور سے رعایت نہ کی گئی ہو، کسی شارح قانون کی کوئی تشریح قابل قبول نہیں ہو سکتی ہے۔

اسی طرح ، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ معقول اور منظم طور پر فقہ اور” تعبیر قرآن وسنت “کے مفصل اور واضح اصول وضوابط موجود ہیں ، جو ”علم فقہ“ میں انتہائی تحقیق و تدقیق ، نکتہ رسی اور دیدہ ریزی کے ساتھ مدون کیے گئے ہیں۔ اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں اور ان میں ایک ایک قاعدہ کو خوب اچھی طرح نکھار دیا گیا ہے ، جب تک قرآن و سنت کی تعبیر ان اصولوں اور ضابطوں کے مطابق نہیں ہوگی اسے کوئی معقولیت پسند انسان قبول نہیں کر سکتا ۔ ٹھیک اسی طرح کسی موجودہ شارح قانون کی وہ تشریح قبول نہیں کی جاسکتی جو” تعبیر قانون موضوعہ“ کے اصولوں کے مطابق نہ ہو۔

مگر ہمارے جدت پسند یا اہل تجد د اپنے اس الٹے طرز فکر کی بنا پر اپنی تعبیرات اور تشریحات میں ان میں سے کسی اصول کے پابند نہیں ہوتے اور جا بجا تعبیر قرآن و سنت کے ان مستحکم قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔

پھر تھوڑی دیر کے لیے اصول فقہ کے ان مستحکم اور معقول قواعد سے بھی قطع نظر کر لیجیے جو فقہاء نے مدون فرمائے ہیں ،لیکن جدت پسندوں نے تعبیر قرآن وسنت کے دوران کوئی اصول تو مد نظر رکھا ہوتا ، اگر” اصول فقہ“ کے قواعد وضوابط ان کو پسند نہ تھے تو دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہوتا کہ تعبیر قرآن وسنت کے یہ قواعد فلاں فلاں وجوہات کی بنا پر غلط ہیں، پھر دلائل ہی کے ساتھ ان کے متبادل دوسرے صحیح قواعد مقرر کیے ہوتے ، اس کے بعد اپنی تحقیقات میں ان ہی قواعد کا لحاظ رکھ لیتے، مگر ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی تعبیرات کے پیچھے کوئی اصول، کوئی ضابطہ اور کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے ۔ ایک مقام پر ایک قاعدے کو توڑتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں، مگر جب کسی دوسرے مقام پر وہی قاعدہ ان کو اپنا مؤید اور موافق معلوم ہوتا ہے تو اسے بے چون و چر اتسلیم فرما لیتے ہیں۔ جب کسی حدیث پر اپنے متعین کردہ نظریے کے خلاف نظر پڑتی ہے تو اسے رد فر ما دیتے ہیں، خواہ وہ اسناد کے لحاظ سے کتنی ہی قوی اور صحیح کیوں نہ ہو، لیکن جہاں کسی حدیث سے اپنے نظریے کی تائید ہوتی ہو، وہاں اس کی وجہ سے قرآن کریم کی واضح آیات کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، خواہ وہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف اور غیر معتمد، بلکہ من گھڑت ہی کیوں نہ ہو۔ اگر علمائے متقدمین کے اقوال ان کے خلاف ہوتے ہیں تو پوری امت کے اجماع کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں اور جس جگہ کسی عالم یا فقیہ کا کوئی قول مفید اور مطلب و مزاج کے موافق اور اپنے پہلے گھڑے ہوئے نظر یے، بلکہ مغرب کے مطابق نظر آ جاتا ہے ، بے چوں و چرا تسلیم فرمالیتے ہیں ، خواہ وہ کتنا ہی کم زور کیوں نہ ہو؟!

آپ کو شاید معلوم ہو کہ عیسائی مبلغین ،جو عالم اسلام میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں، سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے ہمیشہ قرآن وحدیث ہی سے اپنے عقائد ثابت کیا کرتے ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ دیکھو قرآن میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام کو ”کلمة اللہ“کہا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی صفت کلام تھے اور انجیل یوحنا بھی یہی کہتی ہے۔ قرآن ہی میں انہیں ”روح اللہ“ کہا گیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خدا کی روح ہیں اور خدا سے ان کا تعلق ایسا ہے جیسے جسم اور روح کا ہوتا ہے اور پولاس بھی یہی کہتا تھا۔ قرآن ہی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے روح القدس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید کی تھی اور اس سے مراد وہ واقعہ ہے جو انجیل متی میں بھی لکھا ہے کہ روح القدس حضرت عیسی علیہ السلام پر کبوتر کی شکل میں نازل ہوئی تھی۔

لیجیے خدا، کلمہ اور روح القدس تینوں اقنوم قرآن سے ثابت ہو گئے اور قرآن جو تثلیث کے عقیدے کا کھلم کھلا مخالف ہے، اس” نئی تعبیر“ کی بدولت خود اسی سے اس بے سر و پا عقیدے کا ثبوت مل گیا،رہ گئیں قرآن کریم کی وہآیات جن میں صراحةًتثلیت کے عقیدہ کی نفی کی گئی ہے تو جب تثلیث کی نفی کی گئی ہے اور یہ بات عیسائی بھی مانتے ہیں کہ خدا تین نہیں، بلکہ یہ تین اقنوم در حقیقت ایک ہی ہیں اور یہ جو قرآن مجید نے کہا ہے ”جو لوگ مسیح ابن مریم کو اللہ کہتے ہیں وہ کافر ہیں“ تو درحقیقت اس میں مونوفیسی فرقے کی تردید کی گئی ہے، اور جہاں جہاں قرآن نے نصرانیوں کو عذاب جہنم سے ڈرایا ہے اس سے مراد بھی کیتھولک فرقے نہیں، بلکہ مونوفیسی فرقے اس کے مخاطب ہیں۔ رہا قرآن مجید کا یہ فرمانا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی تو ٹھیک ہے!عام عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ مسیح کے اقنوم کو سولی نہیں ہوئی ۔ صرف پیٹری پیشین فرقہ ”اقنوم مسیح“ کے سولی پر چڑھنے کا قائل تھا، اس کی تردید قرآن نے کر دی، جہاں تک مسیح علیہ السلام کے جسد کا تعلق ہے تو قرآن نے اس کے پھانسی پر چڑھنے کی تردید نہیں کی ۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا”نئی تعبیر“ کا یہ کرشمہ کہ اس نے کس طرح تمام نصرانی عقائد قرآن سے ثابت کر دیے؟ سوال یہ ہے کہ جدت پسند طبقہ کی نئی تعبیر میں اور عیسائیوں کی اس” نئی تعبیر“ میں کیا فرق ہے؟ اگر جدت پسند طبقہ کو قرآن و سنت کی ”نئی تعبیر“ کر کے اسلام کے اجماعی احکام میں ترمیم کرنے کا حق حاصل ہے تو عیسائیوں کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟ یہ تو ایک مثال آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اس” نئی تعبیر“ کے ”ناوک“ نے زمانے میں کوئی صید نہیں چھوڑا۔

اہل تجدد کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیے ، اس میں آپ کو” نئی تعبیر“ کے کیسے کیسے ”شاہکار“ نظر آئیں گے، ”وحی“ ان حضرات کے نزدیک خود ”رسول“ کا کلام ہوتا ہے اور فرشتوں سے مراد پانی بجلی ، وغیرہ، ابلیس سے مراد قوت واہمہ ، جن سے مراد وحشی قبائل ، انس سے مراد متمدن لوگ ، موت سے مراد نشی ، ذلت یا کفر، زندہ ہونے سے مراد عزت پانا، ہوش میں آنا یا اسلام لانا اور پتھر پر لاٹھی مارنے سے مراد لاٹھی کے سہارے پہاڑ پر چڑھنا ہے!!

بہر حال اگر دلائل کو نظریات کے تابع بنانے کا طرز فکر اپنا لیا جائے تو قرآن ہی سے عیسائیت بھی ثابت ہو سکتی ہے، یہودیت بھی، اشتراکیت بھی اور سرمایہ داری بھی ، آخر اسی طرز استدلال کو اپنا کر پرویز صاحب نے اپنی کتاب” ابلیس و آدم“ میں ڈارون کے نظریہ ارتقا کو قرآن سے ثابت کر دکھایا ہے اور قرآنی جملہ:﴿ اقیموا الصلوة﴾․ ( نماز قائم کرو)سے ان کے ”ذہن رسا“ نے اشتراکی انداز کا ایک معاشی نظام مستنبط کر لیا ہے، یہی انداز فکر اختیار کر کے مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی نے دمشق سے قادیان مراد لے لیا اور یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ”باب لد“ کے مقام پر دجال کو قتل فرمائیں گے تو اس سے مرزا جی نے اپنے مسیح موعود ہونے پر استدلال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ” لد“سے مراد لدھیانہ ہے اور اس کا دروازہ قادیان ہے،جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ (ماخوذ از اسلام اور جدت پسندی ،ص:451 تا56 بتغیر واضافہ )

جدت پسند مجتہدین کی دین سے جہالت کی حالت

جدت پسند طبقہ دراصل اسلام اور سیکولراِزم کے واضح فرق کو ہی شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور وحی والے علم کی جگہ اس طبقہ نے عقل کو دے دی ہے۔ دین کا صحیح ، مضبوط اور مکمل علم حاصل کیے بغیردین میں عقل کو استعمال کرنا شروع کر دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا حل صرف عقل سے لیتے ہیں، حالاں کہ اسلام اور سیکولر ازم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام یہ کہتا ہے کہ عقل کو استعمال کرو۔ لیکن صرف اس حد تک جہاں تک وہ کام دیتی ہے۔ ایک سر حد ایسی آتی ہے جہاں عقل کام دینا چھوڑ دیتی ہے، بلکہ غلط جواب دینا شروع کر دیتی ہے، جیسے کمپیوٹر ہے۔ اگر اس کو اس کام میں استعمال کریں جس کے لیے وہ بنایا گیا ہے تو وہ فورا جواب دے دے گا ۔ لیکن جو چیز اس کمپیوٹر میں فیڈ( feed) نہیں کی گئی ۔ وہ اگر اس سے معلوم کرنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ وہ کمپیوٹر کام نہیں کرے گا بلکہ غلط جواب دینا شروع کر دے گا ۔ اسی طرح جو چیز اس عقل کے اندر فیڈ نہیں کی گئی ۔ جس چیز کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک تیسرا ذریعہ علم عطا فرمایا ہے ،جو وحی الہٰی ہے ۔ جب وہاں عقل کو استعمال کرو گے تو یہ عقل غلط جواب دینا شروع کر دے گی ۔ یہی وجہ ہے جس کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے ،جس کے لیے قرآن کریم اتارا گیا۔ (اصلاحی خطبات :1/23 بتغیر واضافہ)

جدت پسند طبقہ کا ایک طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ ان کی طرف سے بہت سی چیزوں کے بارے میں یہکہہ دیا جاتا ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل اس طرح ہوتا تھا۔ اس لیے آپ نے اس کو حرام قراردیا، آج چوں کہ یہ عمل اس طرح نہیں ہو رہا ہے لہٰذا وہ حرام نہیں ہے، اس لیے یہاں تک بھی کہہ دیا گیا کہ خنزیروں کو اس لیے حرام قرار دیا گیا تھا کہ وہ گندے ماحول میں پڑے رہتے تھے، غلاظت کھاتے تھے، گندے ماحول میں ان کی پرورش ہوتی تھی ،اب تو بہت صاف ستھرے ماحول میں ان کی پرورش ہوتی ہے اور ان کے لیے اعلیٰ درجے کے فارم قائم کر دیے گئے ہیں۔ لہٰذا اب ان کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ۔

یا درکھیے ، قرآن کریم جب کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کی ایک حقیقت ہوتی ہے، اس کی صورتیں چاہے کتنی بدل جائیں اور اس کو بنانے اور تیار کرنے کے طریقے چاہے کتنے بدلتے رہیں ،لیکن اس کی حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ اور وہ حقیقت حرام ہوتی ہے۔ یہ شریعت کا اصول ہے (اصلاحی خطبات :7/153بتغیر واضافہ )

اجتہاد کا دائرہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں قرآن وحدیث کا واضح حکم موجود نہ ہو۔ جہاں شریعت کا واضح حکم موجود ہو وہاں عقل کو استعمال کر کے قرآن وحدیث کے خلاف کوئی بات کہنا درحقیقت اپنے دائرہ کار (Jurisdictinn)سے باہر جانے والی بات ہے اور اس کے نتیجے میں دین کی تحریف کا راستہ کھلتاہے۔

قرآن کریم میں خنزیر کو حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ حرمت کا حکم وحی کا حکم ہے۔ اس جگہ پر عقل کو استعمال کرنا کہ صاحب قرآن نے خنزیر اس لیے حرام کیا تھا کہ اس زمانے میں خنزیر بڑے گندے تھے اور غیر پسندیدہ ماحول میں پرورش پاتے تھے اور غلاظتیں کھاتے تھے ۔ اب تو خنزیر کے لیے بڑے ہائی جینک فارم(Hygenic Farm) تیار کیے گئے ہیں اور بڑے صحت مندانہ طریقے سے پرورش ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ حکم اب ختم ہونا چاہیے، یہ اس جگہ پر عقل کو استعمال کرنا ہے جہاں وہ کام دینے سے انکار کر رہی ہے ۔(اصلاحی خطبات:1/40 تا41 بتغیر)

لہٰذا کسی چیز کے حرام ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اس کی حقیقت حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں کسی صورت میں موجود ہو، چاہے اس کی کوئی خاص صورت حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہو یا نہ ہو، اس کی مثال یوں سمجھیے کہ قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا ہے اور شراب کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا مشروب جس میں نشہ ہو ، اب آج اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ صاحب!آج کل کی یہ وہسکی ((Whisky) بیئر(Beer)اور برانڈی( Brandy) حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں تو پائی نہی جاتی تھی۔ لہٰذا یہ حرام نہیں ہے تو یہ بات صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں اگر چہ اس خاص شکل میں موجود نہیں تھی، لیکن اس کی حقیقت ”مشروب جو نشہ آور ہو“ موجود تھی اور آں حضرت ا نے اس کو حرام قرار دے دیا تھا۔ لہذا اب وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ، اب چاہے شراب کی نئی شکل آ جائے ۔ اور اس کا نام چاہے وہسکی (whisky) رکھ دیا جائے یا برانڈی رکھ لو یابیئر رکھ لو یا کوک Coke رکھ لو، نشہ آور مشروب ہر شکل اور ہر نام کے ساتھ حرام ہے۔

اور جدت پسندوں کا یہ کہنا کہ ”کمرشل لون، چوں کہ اس زمانے میں نہیں تھے بلکہ آج پیدا ہوئے ہیں، اس لیے حرام نہیں ہیں ، یہ خیال درست نہیں“۔ (اصلامی خطبات:7/152 بتغیر) ایک واقعہ مشہور ہے کہ ہمارا ایک ہندوستانی گویہ ایک مرتبہ حج کرنے چلا گیا ۔ حج کے بعد وہ جب مدینہ شریف جارہا تھا۔ راستے میں منزلیں ہوتی تھیں ۔ ان پر رات گزارتی پڑتی تھی، ایک منزل پر جب رات گزارنے کے لیے ٹھہرا تو وہاں ایک عرب عرب گو یہ تھا اس نے بہت بھدے انداز سے سا رنگی بجا کر گانا شروع کیا، آواز بڑی بھدی تھی اور اس کو سارنگی اور طبلہ بھی صحیح بجانا نہیں آتا تھا، جب ہندوستانی گوئیے نے اس کی آواز سنی تو اس نے کہا کہ آج یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے گانے بجانے کو کیوں حرام قرار دیا ہے، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو ان بدووں کا گانا سنا تھا۔ اگر آپ میرا گانا سن لیتے تو حرام قرار دنہ دیتے ۔ تو اس قسم کی فکر اور تھنکنگ( Thinking) ڈیوولپ (Develop) ہو رہی ہے، جس کو اجتہاد کا نام دیا جارہا ہے ۔ یہ نصوص قطعیہ کے اندر اپنی خواہشات نفس کو استعمال کرنا ہے، ہمارے ملک میں ایک صاحب اپنی فیلڈ Field میں ”مفکر “Thinker سمجھے جاتے ہیں، ان کی فکری صلاحیتوں کی حالت یہ ہے کہ قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے:﴿السارق والسارقة فاقطعوا ایدہما﴾ کہ چور مرد اور چور عورت کا ہاتھ کاٹ دو۔

ان مفکر صاحب نے اس آیت کی یہ تفسیر کی کہ چور سے مراد سرمایہ دار ہیں، جنہوں نے بڑی بڑی صنعتیں قائم کر رکھی ہیں اور ہاتھ سے مراد ان کی انڈسٹریاں Industries اور” کاٹنے“ سے مراد ان کا نیشنلائیزیشن Nationalization ہے، لہٰذا اس آیت کے معنی ہیں کہ سرمایہ داروں کی ساری انڈسٹریوں کو نیشنلائیز کر لیا جائے، اس طریقے سے چوری کا دروازہ بند ہو جائے گا، اس قسم کے اجتہادات کے بارے میں اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ #
           زاجتہادے عالمانے کم نظر
           اقتدا با رفتگاں محفوظ تر

کہ ایسے کم نظر لوگوں کے اجتہاد سے، پرانے لوگوں کی باتوں کی اقتدا کر نا ،وہ زیادہ محفوظ ہے۔
           لیکن یہ ڈر ہے کہ یہ آواز تجدید
           مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

عصر حاضر سے متعلق