اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت اور اس کے امکانات

idara letterhead universal2c

اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت اور اس کے امکانات

مولانا طارق شفیق ندوی

اتحاد و اتفاق کی افادیت … ایک طے شدہ حقیقت

اتحاد واتفاق کی افادیت ان عالمی صداقتوں اور مسلمات میں سے ہے جن کے بارے میں دورا ئیں نہیں ہو سکتی ہیں، عرب ہوں یاعجم، اہل مشرق ہوں یا اہل مغرب، پیشوان دین و مذہب ہوں یا سر براہان ملک، اہل ثروت ہوں یا فقیر بے نوا، اہل دانش ہوں یا غیر تعلیم یافتہ ، غرض دنیا کے جس خطے میں چلے جائیے اور جس طبقہ سے دریافت کیجیے ، آپ کو کوئی ایسا فرد نہیں ملے گا جو اتحاد و اتفاق کی ضرورت کا قائل نہ ہو اور اس کی افادیت کے بارے رطب اللسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص آپ کو نہیں ملے گا جو انتشار و افتراق کی مضرتوں کا منکر ہو۔

صد ہا سال کے مشاہدات اور تجربات یہی بتاتے ہیں کہ جہاں اتحاد و یکجہتی ہے وہاں الفت ہے ، محبت ہے، یگانگت ہے، ترقی اور خوش حالی ہے، فارغ البالی و شادمانی ہے، چہروں پر رونق اور دل میں سرور ہے۔ اس کے برعکس جہاں انتشار وافتراق کی حکمرانی ہے وہاں بغض و کینہ ہے، عداوت ودشمنی ہے۔ پسماندگی ہے، خستہ حالیہے، چہرے بے رونق اور دل بے سرور ہیں۔

اس کلیہ کے خلاف اگر کہیں نظر آئے تو یقین کر لیجیے کہ وہ فطری نہیں، مصنوعی ہے، پائیدار نہیں، نا پائیدار ہے ،غازہ کے ذریعہ چہروں کے دھبوں اور بے رونقی کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصائب و مشکلات کی معمولی دھوپ بھی اس مصنوعی غازہ کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہوگی۔

ایک سبق آموز حکایت

آپ نے شاید ایک کہن سال بوڑھے اور اس کے چار بیٹوں کی حکایت سنی ہوگی ، جس نے عملی مشاہدہ کیذریعہ اتحادواتفاق کا درس دیا تھا۔ پہلے اس باپ نے ہر لڑکے کو ایک لکڑی دی اور اسے توڑنے کا حکم دیا۔ ہر ایک لڑکے نے بآسانی لکڑی توڑ دی، دوسری بار اس مرد ضعیف نے چار لکڑیوں کو اکھٹا کیا اور اس کے مجموعے کو توڑنے کا حکم دیا، اس مجموعے سے ہر ایک نے زور آزمائی کی، لیکن توڑنے میں کوئی کام یاب نہ ہو سکا۔ اجتماعی کوشش کی، لیکن اس میں بھی نا کامی ہوئی، اس عملی تجربے کے بعد وہ مرد دانا اپنے لڑکوں سے مخاطب ہوا اور کہا:

”اگر تم انتشار و افتراق کے شکار ہوئے تو تمہارے دشمن آسانی سے تمہیں زیر کر لیں گے، لیکن اگر تم باہم متفق و متحد ر ہے تو تمہارے مخالفین تمہیں گزند پہنچانے میں کبھی کام یاب نہ ہوں گے، تم نے خود تجربہ کر کے دیکھ لیا کہ علیحدہ لکڑی بآسانی ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ،لیکن چار لکڑیوں کا مجموعہ تم سے نہ ٹوٹ سکا“۔
اس مرد کہن سال نے اپنے فرزندوں کو جو درس دیا تھا وہ عملی تھا اور ایک عملی دلیل سینکڑوں نظری دلائل پر بھاری پڑتی ہے۔ یہ سبق جس طرح کل مفید تھا آج بھی ہے، جس طرح بوڑھے کے فرزندوں کے لیے کارآمد تھا ،ہمارے لیے بھی کارآمد ہے۔

اسلام میں اتحاد و اتفاق

جہاں تک دین اسلام کا تعلق ہے تو یہ ایک فطری دین ہے، یہ خود ساختہ نہیں خدا ساختہ ہے۔ اس میں نہ کسی مفید پہلو کو نظرانداز کیا گیا ہے اور نہ کسی مضرت کی پردہ پوشی کی گئی ہے۔ اس میں دنیاوی کامرانی کے سامان بھی ہیں اور اخروی نجات کی ضمانت بھی ، اس میں روحانیت بھی ہے اور عقل ودانش کی تسکین بھی، پھر کیسے ممکن تھا کہ وہ اتحاد کی خوبیوں کو نظر انداز کر دیتا افتراق کی مضرتوں سے صرف نظر کر لیتا۔

اسلام میں ہدایت و راہ نمائی کے دو اہم سر چشمے ہیں۔ ایک قرآن مجید ،دوسرا سنت نبوی ، دونوں سر چشموں نے ایک طرف اتحاد واتفاق کی اہمیت وافادیت پر زور دیا ہے تو دوسری طرف افتراق وانتشار کے نقصانات کو اجاگر کیا ہے۔ اس نے وحدت کی بنیاد پر بنی نوع انساں کے درمیان اجتماعیت اور ذہنی وفکری ہم آہنگی پیدا کرنے کی دعوت دی ہے۔

قرآن میں اتحاد کا حکم اور افتراق سے ممانعت

قرآن میں جہاں اتحاد کا حکم دیا گیا ہے وہیں پہلو بہ پہلوافتراق سے روکا گیا ہے۔ چناں چہ ارشادربانی ہے:﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾․(آل عمران :103)تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور افتراق سے بچو۔

ایک دوسرے موقع پر افتراق کے نقصانات کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْہَبَ رِیحُکُمْ﴾․ (انفال:46) ترجمہ:”اور آپس میں نہ جھگڑ و، ورنہ تم کم زور ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی“۔

عرب، بعثت نبوی سے قبل اور اس کے بعد

بعثت نبوی سے قبل عرب انتشار کا شکار اور باہم برسر پیکار تھے۔ ایک جنگ کی آگ سرد نہیں ہوتی تھی کہ دوسری کی آگ بھڑک اٹھتی تھی۔ یہ بات تقریباً طے شدہ حقیقت کی طرح تسلیم کی جا چکی تھی کہ جنگ عربوں کا مقدر بن چکی ہے۔ کوئی چیز ان کے دلوں کو جوڑ نہیں سکتی اور نہ عرب کبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں ۔ ایسے آشوب دور میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زبان حق نواز سے اتحاد و اتفاق کی صدائے دل نواز بلند ہوئی ۔ اس دل کش ودل پذیر آواز نے دلوں کو موہ اور ذہنوں کو جوڑ دیا۔ صدیوں سے بھڑکتی ہوئی قبائلی عصبیت کی آگ سرد پڑ گئی، کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے ، کل تک جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے آج ایک دوسرے کی جان ومال اور عزت و آبرو کے محافظ بن گئے، وحدت رب اور وحدت اب کے تصور نے مصنوعی گھروندوں کو توڑ کر وحدت انسانی اور وحدت ایمانی کی لافانی عمارت تعمیر کر دی۔ قرآن نے بڑے والہانہ انداز میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے:﴿وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء ً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا﴾( آل عمران:103) اور اپنے اوپر اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، چناں چہ تم اللہ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔

اتحاد پر احادیث نبوی

اتحاد کی اہمیت اور ضرورت اور انتشار وافتراق کی مضرت کے بارے میں بکثرت احادیث وارد ہیں، ان سب کو یکجا کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہو جائے ۔ بطور نمونہ چند حدیثوں کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے ایسے ہی ہے جیسے ایک عمارت میں استعمال ہونے والی مختلف اینٹیں ، جس طرح ایک اینٹ کو دوسری اینٹ سے قوت ملتی ہے، اسی طرح ایک مومن دوسرے مومن کے لیے تقویت کا باعث ہوتا ہے“۔

گویا اسلام ایک عمارت ہے اور اہل ایمان اس کے اعضاء وارکان ہیں، جب یہ ارکان ہم رشتہ و پیوستہ رہیں گے تو دین کی عمارت مضبوط رہے گی اور جب یہ باہم افتراق کا شکار ہوں گے تو عمارت کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی اور شجر امید خزاں رسیدہ ہو جائے گی۔
            پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا ہے کہ:
”اہل ایمان کی مثال ان کے آپس کی محبت ، رحم دلی اور مہربانی میں جسم کی طرح ہے، جب اس کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم جاگتا ہے اور اس کو بخار آ جاتا ہے“۔ ایک اور موقع پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ

”مسلمان بھائی بھائی ہیں ، نہ ان کی خیانت کرے، نہ ان سے جھوٹ بولے، نہ ان کو رسوا کرے، ہر مسلمان پر ہر مسلمان کا خون ، اس کا مال اور اس کی عزت حرام ہے“۔ قرآن وسنت کی تعلیمات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جھوٹ ، خیانت، بہتان و آبروریزی، ظلم و زیادتی ، حسد و کینہ، غیبت و تجسس، غرض ان تمام چور دروازوں پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے اور ان تمام سوتوں کو بند کر دیا گیا ہے جہاں سے افتراق کو غذا مل سکتی ہے اور اتحاد کے قلعہ میں شگاف پڑنے کا اندیشہ ہو سکتا ہو۔

خدا اور اس کے رسول کی تعلیمات کا کرشمہ

خدا اور رسول کی تعلیمات اور تربیت ہی کا کرشمہ تھا کہ مدینہ منورہ میں انتشار سے پاک اور اتحاد و یکجہتی سے بھر پور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اتحاد کے ہتھیار سے لیس ہو کر جب جزیرة العرب سے باہر قدم نکالا تو کامرانی نے ہر جگہ ان کا استقبال کیا ۔ اتحاد ہی کی بدولت وہ اس قابل ہوئے کہ مختصر مدت میں دنیا کے ایک بڑے حصہ پر، حق و صداقت کا پرچم لہرا دیا۔ وہ جہاں گئے کہیں اجنبیت محسوس نہیں کی۔ ان کے ذہن و دماغ میں ہمیشہ یہ احساس تا بندہ رہا کہ وہ ایک عظیم ملت کے ایک فرد ہیں #
            فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
            موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں

ملت سے وابستگی کا احساس ان کو توانائی عطا کرتا اور ان کے اندر جوش عمل اور ولولہ تازہ پیدا کرتا۔ اور ان کے زبان حال سے یہ صدا گونجتی #
            میں چمن میں چاہے جہاں رہوں
            میرا حق ہے فصل بہار پر

افتراق کے نتائج

پھر حالات بدلے، زمانے نے پلٹا کھایا، وحدت کے جسم کو انتشار کے گھن لگ گئے ، اتحاد کا رشتہ کم زور پڑ گیا۔ اور وہ باہم دست بہ گریباں ہونے لگے تو دوسروں کو حوصلہ ملا۔ ان کے دلوں میں اہل ایمان کے خلاف جرات پیدا ہوئی ۔ اور نبوی پیشین گوئی کے مطابق قو میں ان پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح فاقہ مست کھانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جو قوم وحدت رب اور وحدت اب کے نام پر دنیا کو متحد کرنے کی دعوت لے کر اٹھی تھی ۔ وہ آج سب سے زیادہ انتشار کا شکار ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ مسلم حکومتوں کی تعداد کئی دہائیوں تک پہنچ گئی ہے ،جن کے پاس افرادی قوت ہے اور ثروت کی فراوانی بھی، لیکن آج مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ بے قیمت ، سب سے زیادہ بے وقعت اور سب سے زیادہ بے وزن قوم ہے۔ یہ تصویر دنیائے اسلام کی ہے اور یہی تصویر ہندوستانی مسلمانوں کی بھی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود ملکی بساط پر ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ یہ بھی نہیں کہ وہ بالکل تہی دست اور قلاش ہوں ، ان کے پاس بقدر ضرورت دولت بھی ہے اور باصلاحیت وذہین افراد بھی ، شان دار ماضی ہے اور سب سے بڑھ کر قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات ہیں، اس کے باوجود ان کی جو قیمت ہے اور ان کا جو وزن ہے اس کا ذکر ان کے بہی خواہوں کے لیے حوصلہ افزا اور خوش کن نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ میں کوئی کرسی ، کوئی وزارت اور گورنری کا کوئی عہدہ ان کے راہ نماؤں کو قانع بنانے اور پوری ملت کے مفاد کا سودا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے کافی ہے۔

اب تو قوم مسلم کی ارزانی کا یہ عالم ہے کہ ایک دل فریب نعرہ ان کو خوش کرنے کے لیے کافی ہے،ہندی مسلمانوں کی بے وقعتی اور بے وزنی کا بنیادی سبب ان کا باہمی افتراق ہے۔ اتحاد واتفاق کے انجکشن کے ذریعہ ہی اس مرض کا اِزالہ ممکن ہے۔ یہ کوئی سر بستہ راز نہیں ہے جس پر سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہو۔ سب ہی اس سے واقف ہیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے اچھے کاموں کی توفیق سلب کر لی گئی ہے۔ صحیح سمت میں ان کا قدم ہی نہیں اٹھتا ہے۔

اتحاد کی کوشش اور اس میں ناکامی

مجھے انکار نہیں کہ وقتا فوقتا اتحاد واتفاق کے بارے میں مضامین چھپتے ہیں، تقریریں کی جاتی ہیں ،ریزولیشن پاس ہوتے ہیں، لیکن اس سلسلے کی ساری کوششیں ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جاتی ہیں، کوئی کوشش بار آور نہیں ہوتی ۔ اتحاد کا کوئی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا، بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جس شد و مد سے اتفاق کے لیے کاوش ہوئی اس پیمانہ پر انتشار میں اضافہ ہوا #
            مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

تو کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اتحاد و اتفاق کے امکانات بالکل معدوم ہیں؟ کیا اس سلسلہ کی کوئی کوشش بارآ ور نہیں ہو سکتی ہے؟

ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے امکانات معدوم اور تاریک ہیں، اسی سانس میں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد کے امکانات روشن اورتاب ناک ہیں۔

یقین کیجیے ہم اجتماع نقیضین کے قائل نہیں ہیں، ہمارا جواب دو الگ الگ حالتوں کا بیان ہے۔ اگر ہماری تگ و دو صحیح رخ پر ہوگی تو کام یابی کے امکانات روشن ہیں، لیکن اگر ہم نے غلط رخ پر قدم بڑھایا تو جوں جوں ہم آگے بڑھیں گے ہم سے منزل دور ہوتی چلی جائے گی۔

اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جو جماعت اور جو تنظیم بھی اتحاد کی دعوت لے کر اٹھتی ہے اس کی دل کش اور دل پذیر دعوت کے پس پردہ یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ سب اپنا انفرادی وجودختم کر کے ہمارے اندر ضم ہو جائیں۔

آپ نوٹ کر لیجیے کہ اتحاد کے اس نوع کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ ایسی کوششوں سے اتحاد کے امکانات تاریک سے تاریک تر ہوتے چلے جائیں گے۔

روئے زمین پر بضرورت یا بلا ضرورت جو درخت اُگ آتے ہیں ان میں نئی نئی شاخیں نکلیں گی اور نئی کونپلیں پھوٹیں گی۔ ان شاخوں اور کونپلوں کا وجود تسلیم کیے بغیر اور ان کو پھلنے پھولنے کا حق دیے بغیر اتحاد کے لیے جو بھی کوشش ہو گی نا کامی اس کا مقدر ہوگی ۔

اتحاد کے امکانات

اس کے برعکس اگر درج ذیل خطوط پر کام کیا جائے تو اتحاد کے امکانات روشن ہیں:

1.. سب سے پہلے اپنے ذہن ودماغ کو یہ تسلیم کرنے کے لیے مجبور کیا جائے کہ ہر تحریک اور ہر تنظیم کا مقصد ایک ہے، یعنی دین کی خدمت اور ملت کی فلاح و بہبود ، منزل سب کی ایک ہے ،راہیں جدا جدا ہیں ۔

2.. تمام مسلم تنظیمیں با ہم حلیف ہیں، حریف نہیں ۔

3.. ہر تحریک کا وجود قابل احترام ہے، لہٰذا کسی سے اپنا وجود ختم کرنے کا مطالبہ ناروا ہے۔

4.. حدیث نبوی :”لایؤمن احدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ“ کومشعل راہ بنایا جائے۔

5.. اپنے اپنے دائرہ میں ہر تنظیم کو کام کرنے اور اپنی سرگرمیوں کے مظاہرہ کا پورا حق دیا جائے، صرف محدود ملی مسائل پر اتحاد کی دعوت دی جائے، بالفاظ دیگر طریقہ کار وجدانی نہیں، وفاقی ہو۔

6.. سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور اتحاد کی دعوت دینے کے لیے چند مشتر کہ مسائل کا انتخاب کیا جائے ۔ مثال کے طور پر:

الف:نئی نسل کو مسلمان باقی رکھنے کا مسئلہ اور اس کے لیے طریقہ کار کا تعین۔

ب: ہندوستان میں اسلامی تشخص کا تحفظ ۔

ج :جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا مسئلہ۔

یہ وہ مسائل ہیں جو مشتر کہ دل چسپی کے ہیں، ان کی بنیاد پر مختلف جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتی ہیں۔ تقریباً ان ہی خطوط پر مسلم مشاورت کی بنیاد پڑی تھی اور جب تک مشاورت ان خطوط پر کار بند رہی ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ثابت ہوئی ، اس کے مفید اثرات برآمد ہوئے، لیکن سیاسی طالع آزمائی کے نتیجہ میں مشاورت جیسے ہی ان خطوط سے ہٹی ایک لاشئہ بے جان میں تبدیل ہو گئی۔ اتحاد و اتفاق کی کوشش شروع کرتے وقت ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ماضی کی لغزشوں سے بچتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جاسکتا ہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ اتحاد کی کوشش بار آور نہ ہو۔ پھر خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
            آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
            آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

مسلمانوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہونے کے امکانات ہیں، ان امکانات کو کام میں لا کر رشتہ وحدت استوار کیا جاسکتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ عہد رفتہ کو واپس لایا جاسکتا ہے، جب مسلمان دنیا کی ایک با عزت قوم تھے۔ ضرورت صرف جذ بہ عمل کی ہے اور اس جذبہٴ عمل کو صحیح طور سے استعمال کرنے کی ہے:
            خلوص فکر نہیں عزم استوار نہیں
            غلط گلہ ہے کہ ماحول ساز گار نہیں

عصر حاضر سے متعلق