ایمان کچھ حقیقتوں کو ماننے کا نام ہے، جن میں سب سے اہم الله پر، رسول پر، الله کی کتاب پر اور آخرت پر ایمان لانا ہے، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صرف ایمانیات ہی پر زور نہیں دیا، بلکہ عبادات، معاملات اور زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی ہدایات سے سرفراز فرمایا اور پوری قوت اورتاکید کے ساتھ امت ِ مسلمہ کو ان تعلیمات پر کار بند رہنے کی تلقین فرمائی، کیوں کہ کسی قوم کے لیے اپنے تشخص کو بر قرار رکھنا صرف عقیدہ کے ذریعہ ممکن نہیں، بلکہ تہذیب ومعاشرت کو بھی اس میں بڑا دخل ہے، ہندوستان میں کتنی ہی قومیں ہیں جو آج ہندوستان کا حصہ بن چکی ہیں، وہ اعتقادی اور نظریاتی اعتبار سے اپنا الگ وجود رکھتی ہیں، لیکن انہوں نے دوسری قوموں سے سماجی اور تہذیبی فاصلہ قائم نہیں رکھا، رہن سہن، لباس وپوشاک، خوردونوش، شادی بیاہ، خوشی اور غم کی تقریبات وغیرہ میں انہوں نے اپنا رنگ برقرار نہیں رکھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنا تشخص کھو دیا اور آج ہندوستان ان کو اپنا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص سے محروم کر دیا جائے، کیوں کہ جب کوئی قوم اپنی سماجی انفرادیت سے محروم ہو جاتی ہے، تو وہ آہستہ آہستہ دین ومذہب ہی سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے او راگر وہ کسی دوسرے مذہب کے دائرہ میں داخل نہ ہو، جب بھی الحاد وانکار کا راستہ اختیار کر لیتی ہے یا کم سے کم وہ مذہب کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر لیتی ہے، غیر سنجیدہ رویہ سے مراد یہ ہے کہ مذہب سے اس کی کوئی ذہنی اور فکری وابستگی نہیں ہوتی، البتہ وہ اسے ایک خاندانی روایت سمجھ کر ڈھوتی رہتی ہے، مذہبی اقدار پر اس کا کوئی یقین نہیں ہوتا، البتہ خاندانی روایت کے تحت خاص خاص مذہبی تقریبات اور تہواروں میں اس کی شرکت ہو جاتی ہے اور گاہے گاہے کچھ عبادت کی توفیق میسر آجاتی ہے، لیکن حلال وحرام، معاملات، کسب معاش او رسماجی زندگی میں مذہب کے لیے کوئی خانہ نہیں ہوتا، اسی کیفیت کو میں نے ” تہذیبی ارتداد“ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ ارتداد دبے پاؤں آتا ہے، غیرمحسوس طریقہ پر داخل ہوتا ہے اور ایسا میٹھا زہر بن کر حلق سے اترتا ہے کہ زہر کھا کر بھی انسان تحسین وآفرین کے کلمات کہہ اٹھتا ہے، یہ ارتداد نہ سوئے ہووں کو جگاتا ہے، نہ غافلوں کو متوجہ کرتا ہے، نہ فکر مند دِلوں میں تلاطم پیدا کرتا ہے، نہ قلب وذہن کو جھنجھوڑتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے سماج میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے، یہ اس بیماری کی طرح ہے جو بہ ظاہر ہلکی ہو، لیکن بہ تدریج انسان کو موت کی طرف لے جائے اور یہ ایسا نشہ ہے کہ مقتول خود قتل کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے، اس لیے اس ارتداد کو خوب سمجھنے، اس کے اسباب پر نظر رکھنے اور ا س کے نتائج واعواقب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت پوری دنیا جو بنیادی طور پر یہودی دماغ اور یہودی منصوبہ بندی کی آلہٴ کار بنی ہوئی ہے او راس کے اشارہ چشم وابرو پر رقصاں ہے، اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ اگر مسلمانوں کو کھلے عام مرتد نہیں کیا جاسکتا، تو ان پر ایسی زبردست تمدنی یلغار کر دی جائے کہ وہ خوشی خوشی تہذیب ارتداد کو قبول کر لیں اور اس مقصد کے لیے اتنے طاقت ور حربے استعمال کیے جارہے ہیں کہ بہ ظاہر اس سے زیادہ دوررس اور قوی ومؤثر کوئی اور ذریعہ نہیں، ٹی وی نے اس رفتار کو بہت تیز کر دیا ہے اور ڈش انٹینا کی وجہ سے مسلمان اور مشرقی ملکوں میں ایسے فحش پروگرام کا ایک طوفان سا آگیا ہے کہ جن کا اسلام اور مسلم سماج میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اب انٹرنیٹ نے اس تہذیبی یلغار کو مزید طاقت وربنا دیا ہے اورایک ایسی چیز جو بہترین تعمیری اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتی تھی، وہی چیزیں انتہائی تخریبی اور غیر اخلاقی مہم جوئی کا آلہٴ کار بنی ہوئی ہیں، اب جونئی معاشی اصلاحات کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے اور ”عالمیا نے“ کی نئی اصطلاح شروع ہوئی ہے، اس کے نتیجہ میں مغربی صحافت ، مغربی لٹریچر او رمغربی کمپنیوں کے وساطت سے مخرب اخلاق غذائی او رغیر غذائی اشیاء کی آمد کا ایک سیل بلا جاری وساری ہے۔
اس وقت اس منصوبہ کے نقوش مشرقی علاقوں میں او رمسلم ملکوں میں نہایت واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں، ادھر چند سالوں میں عرب اوراسلامی ممالک میں خواتین کے لباس اس قدر تبدیل ہو گئے ہیں کہ امریکی ویورپی ملبوسات اور عرب خواتین کے ملبوسات میں کوئی فرق باقی نہیں رہا، بہت سے عرب اور مسلم ممالک وہ ہیں جہاں عوام تو کجا؟ علماء بھی ڈاڑھی نہیں رکھتے، ڈاڑی جسے کسی زمانہ میں صلاح وتقویٰ اور شرافت واعتماد کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب دہشت گردی اور شدت پسندی کی پہچان سمجھی جاتی ہے، مجھے ایک بار حج کے موقع سے مکہمکرمہ میں ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا، جس کے استقبالیہ پر ایک دین دار، خوش شکل، مصری نوجوان لڑکا بیٹھا کرتا تھا اور اس کے چہرے پر ڈاڑھی بہت بھلی محسوس ہوتی تھی، میں اکثر عشاء کے بعد مسجد سے واپس ہوتے ہوئے دو چار منٹ اس کے پاس بیٹھ جاتا، کبھی مذہب پر، کبھی عربی زبان کے بارے میں او رکبھی مصر میں مسلمانوں کے حالات کے متعلق اس سے گفت گو ہوتی، وہ بہت برجستہ اوربہت ہی بلیغ اور سہل عربی زبان میں گفت گو کرتا اور بہت ہی اخلاق ومروت سے پیش آتا، اس لیے اس نوجوان سے گفت گو کرتے ہوئے لطف سا آتا تھا، میں نے ایک دن کہا کہ مصر کے لوگ اکثر ڈاڑھی نہیں رکھتے، لیکن تم نے جو یہ ڈاڑھی رکھی ہے ، یہ بہت اچھی باتہے، اس سے تمہارے چہرے پر ایک نورانیت او رمعصومیت معلوم ہوتی ہے، میری یہ بات سن کر وہ افسردہ سا ہو گیا اور اس نے سنجیدہ ہو کر کہا کہ شیخ! آپ سچ کہتے ہیں، میں ڈاڑھی رکھنا چاہتا ہوں، لیکن مصر میں ڈاڑھی رکھنے میں بڑی مشکلات ہیں، ہمارے یہاں ڈاڑھی رکھنے والوں کو باضابطہ اپنا رجسٹریشن کرانا پڑتا ہے، میں جب پہلی بار ڈاڑھی رکھ کر اپنے وطن گیا تو مجھے سات آٹھ گھنٹہ ائیر پورٹ پر تفتیش کے لیے روک لیا گیا اور میرے پورے اہل ِ خاندان کو طلب کیا گیا، جن میں میری ماں اور بہنیں بھی تھی اور ان سے بھی کافی دیر تک تفتیش کی گئی، اس کے بعد سے مجبوراً میں مصر جاتے ہوئے اپنی داڑھی صاف کرالیتاہوں او رواپسی کے بعد پھر ڈاڑھی رکھ لیتا ہوں غور کیجیے! کیسا غضب ہے کہ ایک مسلمان ملک میں مسلمانوں کو ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہ ہو، کاش یہ اسرائیل ہی سے سبق حاصل کرتے، جہاں یہودی مذہبی طبقے کے ڈاڑھی رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جب مسلمان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کا یہ حال ہے تو ان مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا جائے، جو مغربی ثقافت کی آغوش میں محو غفلت ہیں اور اسے دنیا ہی میں جنت تصور کرتے ہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی ممالک نے عرب اوراسلامی ممالک اور مختلف علاقوں میں بسنے والے تارکین وطن مسلمانوں کے لیے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنا دامن دل کھول رکھا ہے، انہیں شہریت دی جاتی ہے، انہیں ملازمت اور مزدوری کے مواقع ملتے ہیں اورانہیں اپنے ملکوں سے بڑھ کر شہری حقوق دے دیے جاتے ہیں، تارکین وطن خوش ہیں کہ انہیں پھلنے ، پھولنے اور آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع ہاتھ آرہے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ ان ممالک کے ہاتھوں اپنی اگلی نسلوں کا سودا کر رہے ہیں، چناں چہ لاکھوں عرب اور فلسطینی جو پچاس سال پہلے امریکا گئے، اب ان میں اپنے مسلمان ہونے کی پہچان بھی باقی نہیں رہی، مذہبی شعور رخصت ہوا، رہن سہن بدل گیا، زندگی کے طور طریق تبدیل ہو گئے، یہاں تک کہ ان کے نام میں بھی مسلمانیت کی کوئی بو باقینہیں رہ گئی ہے، حالاں کہ ان کے آباء واجداد راسخ العقیدہ مسلمان اور عرب تہذیب کے علم بردار بن کر یہاں آئے تھے، اگر آج ان گزری ہوئی روحوں کو دوسری زندگی دے دی جائے تو شاید ہی وہ خود اپنی نسل او راپنی اولا دکو پہچان سکیں، یہ ہے اس تہذہبی ارتداد کا اثر، جو بہ تدریج افراد واقوام کو فطری اور اعتقادی ارتداد کی طرف لے جاتا ہے!
اسی پس منظر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اور مماثلث اختیار کی، وہ ان ہی میں سے ہو گیا، اس روایت کو امام ابوداؤد نے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ او رامام طبرانی نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے اور علامہ سیوطی نے اس حدیث کو ”حسن“ یعنی مقبول قرار دیا ہے۔ ( الجامع الصغیر، حدیث نمبر:8593) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد میں عقیدہ وایمان میں غیر مسلموں سے مماثلث مراد نہیں ہے، کیوں کہ جو شخص عقیدہ کے اعتبار سے غیر اسلامی فکر اختیار کر لے، وہ تو پہلے ہی سے مسلمان نہیں ہے، اس کے غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنے کے کیا معنی؟ لہٰذا اس حدیث میں عملی اور سماجی زندگی میں غیر مسلموں کے تشبہ سے منع فرمایا گیا ہے اور مختلف مسائل میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی تشریح وتوضیح نے اس نکتہ کو مزید واضح کیا ہے، مثلاً آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورج نکلنے، سورج ڈوبنے اور سورج کے نصف آسمان پر ہونے کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ یہی اوقات عام طور پر مشرک او رآفتاب پرست قوموں کی عبادت کے رہے ہیں، جو قومیں سورج کی پرستار ہیں، وہ انہی اوقات میں سورج کی پوجا کرتی ہیں، اس لیے ان اوقات میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے منع فرمایا گیا۔
روزہ میں حکم دیا گیا کہ افطار جلدی کیا جائے، افطار میں تاخیر نہ کی جائے، کیوں کہ افطار میں تاخیراہلِ کتاب کا طریقہ ہے، یومِ عاشورا کے ساتھ مزید ایک روزہ رکھنے کا حکم ہوا ،کیوں کہ اس دن یہود بھی روزہ رکھا کرتے تھے، تاکہ مسلمان اپنی عبادت میں ان سے ممتاز رہیں، حج میں بہت سے ایسے افعال جن کو مشرکین بہت اہمیت دیتے تھے، اسلام نے ان کو ختم کیا یا ان میں تبدیلی پیدا کی، پھر یہی ہدایات آپ نے وضع قطع اور لباس وپوشاک کے بارے میں بھی دی، مجوسی ڈاڑھی منڈایا کرتے تھے، بعض قومیں ڈاڑھی بڑھایا کرتی تھیں، آپ نے ان دونوں باتوں سے منع فرمایا، اہل ِ ایران اظہار فخر کے لیے ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہنتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اہل مکہ سر میں مانگ بھی نکالا کرتے تھے، چناں چہ مکی زندگی میں آپ نے سیدھے بال رکھنے کو پسند فرمایا، تاکہ مسلمان ان سے ممتازرہیں، مدینہ میں یہود سیدھے بال رکھتے تھے، تو وہاں آپ نے مانگ نکالنے کو پسند فرمایا، پھر جب تمام عرب نے اسلام قبول کر لیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دونوں طرح بال رکھنے کی اجازت مرحمت فرما دی، اسی طرح عرب یا تو صرف ٹوپی پہنتے تھے یا صرف عمامہ باندھتے تھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کو ابتداءً ہدایت دی تھی کہ وہ ٹوپی اور عمامہ دونوں کا استعمال کریں، تاکہ ان کے او رمشرکین کے درمیان امتیاز باقی رہے، بعد کو جب اہل ِ عرب ایمان لے آئے ، تو آپ نے صرف ٹوپی یا صرف عمامہ کے استعمال کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔
دین کا یہ مزاج کہ مسلمانوں کو قومی اعتبار سے دوسری اقوام سے ممتاز او رمشخص رہنا چاہیے، فقہاء نے بھی اپنے اجتہاد واستنباط اور قانون شرع کی تشریح وتوضیح میں ہمیشہ اس کو ملحوظ رکھا ہے اور لباس وپوشاک، خوردونوش، عبادات، یہاں تک کہ عبادت گاہوں کے طرزِ تعمیر وغیرہ، ہر مرحلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے اس بات کو پیش نظرر کھا ہے کہ مسلمان ایک امتیازی شان کے حامل ہیں اور وہ اپنے دین ومذہب اورتہذیب وتمدن میں دوسری قوموں سے ممتاز اور مشخص ہیں، کیوں کہ جب کوئی قوم اپنی تہذیب سے محروم ہو جاتی ہے او رتمدن وثقافت کے میدان میں دریوزہ گری پر اتر آتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ اپنے فکر وعقیدہ سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
ہندوستان میں اس وقت سنگھ پر یوار کی جانب سے اس بات کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان نماز پڑھیں، مسجدوں کو جائیں، عید بقر عید وغیرہ کر لیا کریں، لیکن اسلامی تہذیب کو خیر باد کہہ دیں، اس کے لیے بہ ظاہر معمولی، لیکن نتائج کے اعتبار سے دور رس اقدامات کیے جارہے ہیں، نصاب تعلیم میں تبدیلی لائی جارہی ہے، ہندوازم کو ایک نظریہ و عقیدہ کے بجائے قومی ثقافت کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے، اسکولوں میں دیویوں، دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی جاتی ہیں، ہند ومذہبی تقریبات میں مسلمانوں کودعوت دی جاتی ہے او رانہیں شریک کیا جاتا ہے او رہمارے مسلمان نوجوان دیوالی اور ہولی میں ذوق وشوق کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں، مردوں اور عورتوں کے لیے دھوتی نما پائجامہ بنائے جارہے ہیں، بہت سے علاقوں میں مسلمان عورتیں ہندوانہ رسم ورواج کے مطابق سندورلگاتی یا کالی پوت کے ہار پہنتی ہیں، بین مذاہب شادی بیاہ کا رواج بھی بڑھ رہا ہے، بعض جگہ مسلمان بچوں کے ہندی نام بھی رکھے جارہے ہیں، ٹی وی پروگراموں کا ہندو کرن کیا جارہا ہے اور ہندودیوتاؤں اور فرماں رواؤں کو قومی ہیروں کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں، جو ہمارے سماج میں دبے پاؤں آگے بڑھ رہی ہیں، آج ہم ان کے قدموں کی آہٹ سننے سے قاصر ہیں، لیکن اگر ہم نے حالات کو محسوس نہیں کیا تو مستقبل میں اس سے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے، اس لیے اس وقت اس تہذیبی ارتداد کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کو، پوری قوت کے ساتھ روکنے کی ضرورت ہے کہ یہ محض سیاسی وثقافتی مسئلہ نہیں، بلکہ اپنے دور رس اثرات کے اعتبار سے ہماری ملی بقا اور دینی تحفظ کا مسئلہ ہے!