الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ․ اما بعد!
فاعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم
بسم الله الرحمن الرحیم
وقال تعالی:﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾․
آیت مبارکہ کا ترجمہ وتفسیر
الله سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک دعا سکھائی، جس کو آپ رات دن مانگتے ہیں، میں آج اسی دعا کی تفسیر پیش کرنا چاہ رہا ہوں، یہ دعا بہت ہی عام ہے، ہر مسلمان تقریباً اس دعا کو مانگتا ہے:﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
کیوں بھائی مانگتے ہیں یا نہیں؟ اور حج کے زمانے میں بھی رُکن یمانی سے حجراسود تک کے درمیان میں یہ دعا مانگی جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ کیا ہے؟ اے ہمارے رب! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی دیجیے اور آخرت میں بھی بھلائی دیجیے ، پھر او رکیا چاہیے بھائی! ؟جس کا پردیس بھی بن جائے اور وطن بھی بن جائے، اس کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں، دنیا کیا ہے؟ پردیس ہے، یہاں بھی بھلائی مل جائے اور آخرت میں بھی بھلائی مل جائے تو پھر او رکیا چاہیے؟ اور پھر جہنم سے بھی نجات﴿وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
یہ سب بڑی نعمت ہے۔ اب اس کی تفسیر تفسیر روح المعانی سے عرض کرتا ہوں، جو دنیا میں سب سے بڑی تفسیر مانی جاتی ہے اور علامہ انورشاہ کشمیری رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ عربی زبان میں اتنی عمدہ تفسیر دنیا میں نہیں ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله علیہ اس تفسیر کے عاشق تھے، آپ تفسیر بیان القرآن دیکھیے، اسی سے زیادہ تر علم لیا گیا ہے ،حالاں کہ صاحب روح المعانی بے حد غریب آدمی تھے، پہلے کے زمانے میں یہ مفتی بغداد بھی رہے، مگر پڑھنے کے زمانے میں اتنے غریب تھے، فرماتے ہیں میر ے پاس تیل کا پیسہ نہیں ہوتا تھا تو میں چاند کی روشنی میں پڑھا کرتا تھا، لیکن جس کو الله چاہے، پھر اتنا بڑا اونچا درجہ دیا اُن کو، بڑے بڑے مال دار اُن کی جوتیاں اٹھاتے تھے، جس کی غریبی مشہور تھی اسے کیا عزت ملی، ایک زبردست شعر بڑا پیارا یاد آگیا اس وقت آپ لوگوں کی برکت سے #
سخت حالات میں جو پل کے جواں ہوتا ہے
بعض بچے ابتدائی زمانے میں غریبی اوربڑی مشقت اور بڑی تکلیفوں سے وقت گزارتے ہیں، پھر الله اُن کو بہت سے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرماتے ہیں #
سخت حالات میں جو پل کے جواں ہوتا ہے
اُس کے سینے میں ارادوں کا جہاں ہوتا ہے
ارادوں سے کیا مراد ہے؟ جو چیر ٹھان لے اُس پر قائم رہتا ہے۔ تھالی کے بینگن کی طرح نہیں ہوتا۔ تھالی کا بینگن کہتے ہیں جدھر چاہو الٹ دیا، ایسا نہیں ہونا چاہیے، الله تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کے بندے اپنے نیک ارادے پر قائم رہیں۔
عزت واحترام متقی کے لیے
جس چیز سے توبہ کریں جان دے دیجیے، مگر مالک کو ناراض نہ کریں ،اگر آپ حیا دار بنتے ہیں جس شخص کو یہ احساس ہو کہ میں شریف زادہ ہوں اور حیا دار ہوں او رمیں ایک معزز انسان ہوں اپنے خاندانی لحاظ سے بھی ساری دنیا کے باحیا لوگوں پر لازم ہے کہ الله تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں ورنہ سمجھ لیجیے اُس سے بڑھ کر بے حیا کوئی نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے :”فان حقیقة الحیاءِ“
حقیقت حیاء کیا چیز ہے؟ محدثین نے لکھا ہے :” فان حقیقة الحیاءِ“
حیا کی حقیقت کیا ہے ” ان مولاک لا یراک حیث نھاک“
کہ تمہارا مولا تم کو اپنی نافرمانی میں نہ دیکھے، تمہارا مولا آسمان والا۔ اے زمین والو! غور سے سن لو کہ الله تعالیٰ ہم کو اپنی نافرمانی میں نہ دیکھے، اس کو کہتے ہیں شرم وحیا۔ اپنے سر پر جوتے لگا۔ جورات دن نالائقی اور نافرمانی میں مبتلا ہیں او راگر اُنہیں کوئی ذرا ساکہہ دو آہ ہماری توہین کر دی آپ نے۔ ارے تم تو خود اپنے کو ذلیل کر رہے ہو اس لیے الله تعالیٰ عزت اُسی کو دیتا ہے جو تقویٰ سے ہوتا ہے، کوئی خاندان کام نہیں آتا ، بڑے بڑے مال دار اوربڑے بڑے خاندانی لوگوں کو جوتے پڑے ہیں الله کی نافرمانی کی وجہ سے ، تقویٰ والا وہی ہے چاہے غریب ہو، مسکین ہو، دبلا پتلا کم زور ہو، لیکن تقویٰ سے رہتا ہے الله اُس کو عزت دیتا ہے۔ جو بھینسے کی طرح موٹا ہو، بہت قیمتی لباس پہنتا ہو، شان دار موٹر پر چلتا ہے، مگر خدائے تعالیٰ کو ناراض رکھتا ہے، اس کو لات ملے گی اور گھونسے ملیں گے، عزت کبھی نہیں مل سکتی گناہ گار کو، یادرکھو! عزت لازم ہے تقوی والوں کے لیے اور ذلت لازم ہے گناہ گاروں کے لیے، ہر نافرمان کو ذلت کا عذاب لازم ہے:”الا ان یتوبوا“
مگر توبہ کر لے او رپکا ارادہ کر لے کہ اے خدا! ہم آپ کو ناراض نہیں کریں گے تو تلافی ہو گی۔
حسنة کا کیا مطلب ہے؟
جب آپ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
․ مانگیں تو میری گزارش آپ کو یاد آجائے کہ میں خدائے تعالیٰ سے کیا مانگ رہا ہوں اب سنیے: حسنة کیا چیز ہے او رکتنی نعمتیں اس حسنة میں داخل ہیں؟ اے خدا! ٰ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، لیکن دنیا کی بھلائی میں سے کیا کیا چیزیں ہیں اور یہ جو تفسیرعرض کر رہاہوں یہ صحابہ کی بتائی ہوئی ہے۔ نمبر ایک کہ الله تعالیٰ ہم سب کو عافیت سے رکھیں۔ دنیا میں حسنہ کیا ہے کہ ہم کو عافیت سے رکھیں اور عافیت کے کیا معنی ہیں کہ دنیاوی جسمانی مصیبت بھی نہ ہو او رکسی معصیت میں ابتلا بھی نہ ہو ،پھر وہ عافیت میں ہے۔ کھا کھا کے موٹا مسٹنڈا ہو اور شان دار ایئر کنڈیشنڈ میں رہتا ہے، لیکن خدا کی نافرمانی میں مبتلا ہے، یہ عافیت میں نہیں ہے ،جو مصیبت میں بھی مبتلا نہ رہے او رمعصیت میں بھی مبتلا نہ رہے او راگر مصیبت میں مبتلا ہے، لیکن معصیت میں مبتلا نہیں ہے ،یہ بھی عافیت میں ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو بھی بخار آیا ہے، بڑے بڑے اولیاء الله کو بھی نزلہ، زکام بخار ہو جاتا ہے۔ سعدی شیرازی رحمة الله علیہ نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ تھے، دریا کے کنارے، اُن کو بخار چڑھ گیا تو ایک شاگرد نے کہا: حضرت ! آپ کے تعویذ سے سب کا بخار اترتا ہے، آپ کا کیوں نہیں اترا؟ فرمایا: شکر ہے کہ میں بخار میں مبتلا ہوں، لیکن کسی نافرمانی میں مبتلا نہیں ہوں، کیوں کہ بخار، نزلہ، زکام کوئی بھی تکلیف ہو اس سے تو گناہ معاف ہو جاتے ہیں، درجہ بلند ہو جاتا ہے اورنافرمانی سے گناہ معاف ہوتے ہیں، درجہ بلند ہوتا ہے یا جوتے پڑتے ہیں؟ سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ الله تعالیٰ اُس سے ناراض ہو جاتے ہیں، اُس ظالم سے بڑھ کر کون نالائق اور محروم ہے جس سے اُس کا مالک اتنا بڑا قدرت والا محسن رب العالمین نظر پھیر لے؟! کیا زندگی ہے اس ظالم کی؟! والله! کہتا ہوں مجھے اتنا غم ہوتا ہے خدائے تعالیٰ مجھ کو میری اولاد کو اورآپ سب کو، آپ کی اولاد کو ایک سانس بھی اپنی ناراضگی میں نہ جینے دے۔ الله تعالیٰ ایسا ایمان اور یقین عطا فرما دے۔ ایک شعر اپنا پرانا یاد آگیا اس وقت الله جو اپنے فرماں بردار کو پیار کی نظر سے دیکھتا ہے اُس وقت اُس کے دل کا کیا عالم ہو گا او رجس کو غضب کی نظر سے دیکھتا ہے اس کے دل پر خدا کی لعنت اور غضب برستا ہے اُس کے دل کا کیا عالم ہوگا دونوں عالم کو میں نے بیان کیا ہے، ایک وہ شخص جو الله کی فرماں برادری میں الله الله کر رہا ہے، خدا کو خوش کر رہا ہے، الله تعالیٰ اُس کے قلب کی خوشی کی ضمانت اورکفالت کو قبول فرماتے ہیں او رجس کوالله خوش کرتا ہے اُس کی خوشی کا کیا عالم ہوتا ہے، ساری دنیا کے سلاطین اُس کی حالت کو نہیں پہچان سکتے، سارا عالم اُس کے دل کی خوشی کے عالم کو نہیں سمجھ سکتا، مگر وہ جس کا دل الله خوش کرتے ہیں اُس کا دل ہی جانتا ہے کہ ہم کو کیا ملا ہے لہٰذا اب میرا شعر سنیے پہلا مصرعہ کیا ہے جس نے خدائے تعالیٰ کو خوش رکھا ہے، گناہ سے اپنے کو بچائے رکھا او رگناہ چھوڑنے کے غم میں بھی مبتلا ہو، بھلا سے پھر کوئی فکر کی بات نہیں ہے، وہ غم مبارک ہے جو الله کے راستے کا ہوتا ہے #
جس طرف کو رخ کیا تونے گلستاں ہو گیا
پیار سے آپ نے جس کو دیکھا اپنی رحمت سے جس دل کو دیکھا وہ تو باغِ بہار ہے #
جس طرف کو رخ کیا تونے گلستاں ہو گیا
تونے رخ پھیرا جدھر سے وہ بیاباں ہو گیا
اسی لیے گناہ گاروں کے دل سے پوچھو کہ اُن کے دل پر کتنی بے کیفی او رمردنی چھائی رہتی ہے۔ میر صاحب کا ایک شعر ہے، جو ساؤتھ افریقہ کے جنگل میں کہا تھا #
یاں صدورِ گناہ سے دل کی
تنگ ہونے لگے فضائے بسیط
یعنی دل کی فضا وسیع ہونے کے باوجود گناہ کے بعد تنگ ہو جاتی ہے، دنیا اُسے اندھیری معلوم ہوتی ہے، انسان اپنی زندگی سے بھی بے زار ہو جاتا ہے، کتنے لوگوں نے آخر میں پریشان ہو کر حرام موت کو گلے لگا لیا او رمر گئے ،مگر شاعر نے کہا ہے کہ #
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
اور مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
جب قبر میں بھی ڈنڈے پڑنے لگیں گے تو کہاں جاؤ گے۔
اب آپ تفسیر سنیے:
دنیا میں حسنة کی تفسیر
تاکہ جب دعا کریں﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾
اے خدا! ہمیں دنیا میں حسنہ عطا فرما تو آپ بارہ نعمتوں کا تصور کرتے ہوئے الله سے مانگیں، اس حسنہ کی تفسیر میں بارہ نعمتیں شامل ہیں، اب گن لیجیے! آج روح المعانی میرے ہاتھ میں ہے ،مگر عربی زبان میں ہے دیکھ لو اس کو ،مگر اس کا ترجمہ اختر پیش کرے گا نمبر ایک : عافیت۔ جس کو آپ نے ابھی سمجھ لیا، نمبر دو: بقدر ضرورت رزق وروزی۔ کسی کا محتاج نہ ہو”بقدر کفاف“ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی اولاد کے لیے مانگا ہے ” اللّٰھم اجعل رزق اٰل محمد قوتا وفی روایة: کفافا“
یعنی میری اولاد کو اتنا رزق دے دے جوان کے لیے کافی ہو جائے، کسی کے محتاج نہ رہیں ،بس زیادہ مال داری نہیں مانگی۔ اب تیسری کیا نعمت ہے؟”المرأة الصالحة“
نیک بیوی۔ دیکھا آپ نے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ ارے بیوی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں میاں جی، اگر نیک بیوی ہے تو حسنہ کی تفسیر ہے، تمہارے گھرمیں قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر موجو دہے اگر نیک بیوی ہے، سمجھ گئے آپ لوگ؟ ہاں نیک بیویاں کیا ہیں اس آیت کی تفسیر ہیں “ المرة الصالحة“
نیک بیوی نعمت ہے۔ نمبر چار: علم دین۔ جاہل نہ رہیں، علم دین سیکھیں، چاہے مدرسے میں عالم بنیں، چاہے علماء کی صحبت میں یا دینی کتابیں پڑھ کر، بہشتی زیور ہی پڑھ لے، اگر بہشتی زیور پڑھ لے اردو میں اُسے یاد کر لے تو آدھا مفتی ہوجاتا ہے۔ چار ہو گئی اور نمبر پانچ: توفیق عبادت۔ دین ہے، مگر عبادت نہیں کرتا، اپنے علم پر عمل نہیں کرتا، سمجھ لو عبادت کی توفیق بھی حسنہ ہے، جو خدائے تعالیٰ کی بندگی میں لگا ہوا ہے کیا وہ حسنہ نہیں ہے؟ اتنا بڑا خوش نصیب ہے کہ اپنے معبود کی عبادت میں اپنے مالک کی عبادت میں لگا ہوا ہے۔ پانچ ہو گئی نا۔ نمبر چھ:” المال الصالح“
رزق حلال۔ اور ایسا مال جو حلال ہو جس کو کہتے ہیں پاکیزہ مال یہ نہیں کہ وہ گڑ بڑ والا مال، کالا دھن نہیں، چھ ہو گئیں۔ نمبر سات: ”الاولاد الابرار“
نیک اولاد ۔دیکھو !الف لام داخل ہے اس میں ، یہ ویسی عربی نہیں ہے جیسے ڈرگ روڈ میں ایک ہوٹل ہے اُس کا نام ہوٹل المشایخ رکھا ہوا ہے۔ واہ بھئی واہ! کہیں عربی میں ٹ بھی ہوتا ہے!! ایک آدمی نے پوچھا کہ کیا یہاں مشایخ لوگ کھاتے ہیں؟ کیا ہوٹل المشایخ بھی کوئی عربی میں ہے؟ مضاف میں توٹ آگیا اور مضاف الیہ میں عربی ہے جہاں ٹ ہوتا ہے وہاں عربی نہیں آسکتی تو اب ”الاولاد الابرار“
کیا مطلب؟بچے اگر نیک ہو جائیں اولاد لائق ہو جائے سبحان الله! یہ بھی حسنہ ہے، الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے، سب لوگ شکر ادا کرو، جس کو لائق اولاد مل جائے اور لائق اولاد کب بنتی ہے؟ جب لائقوں کی صحبت میں اُن کو لے جاؤ گے خود تو بابا پہنچتے ہیں ہر دینی مجلس میں، اولاد اپنی ٹیڑھی بنی ہوئے اور ادھر سے اُدھر پھرتی ہے کبھی اُن کے کان میں نہیں کہتے کہ بیٹا! کچھ دیر کے لیے صالحین کی مجلس میں چلو ،یہ بابا کی داڑھی صالحین کے صدقے میں ہے ،تم بھی آنا جانا رکھو، ان شاء الله تعالیٰ صالحین کی برکت سے لائقوں کی برکتوں سے نالائق لائق بن جاتے ہیں۔ لہٰذا تفسیر روح المعانی میں فرمایا کہ جس کا قلب سلیم ہوتا ہے وہ اپنی اولادکو نیک بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک تفسیر اُس کی یہ بھی ہے :” الذی یرشد بنیہ الی الحق“ جو اپنی اولا دکو نیک بنائے دوزخ سے بچائے تب سمجھ لو اس کا ایمان دوزخ پر ہے او راگر خود تو ہر وقت کانپ رہا ہے، لیکن اولادجو چاہے وی سی آر دیکھے، سینما دیکھے، پکچر دیکھے، نماز پڑھے نہ پڑھے، کبھی کچھ نہیں کہا کہ بچے ناراض ہو جائیں گے اورمیری روٹی بوٹی بند کر دیں گے ، ادب اکرام محبت سے کہو لاٹھی نہ مارو۔ بھائی! کہنے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے، بس پیار ومحبت سے کہو کہ بھئی! چلو، آج دینی مجلس میں کچھ دین کی بات سن لیں گے۔ جمعہ کے دن عموماًچھٹی بھی ہوتی ہے تو ” الاولاد الابرار“
اس پر الف لام داخل ہے”الاولاد الابرار“
یہ کیا ہے؟ یہ حسنہ کی تفسیر ہے! اسے الله تعالیٰ نے دنیا میں بھلائی عطا فرمائی ہے ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾
یہ دنیا میں حسنہ کی تفسیر ہے، پھر سے سن لیجیے، دنیا میں حسنہ کیا کیا چیزیں ہیں؟ اُس کی آج تفسیر پیش کر رہاہوں نمبر ایک: عافیت۔ نمبر دو: بقدر ضرورت روزی۔ نمبر تین: نیک بیوی۔ نمبر چار: علم دین۔ نمبر پانچ: عبادت کی توفیق۔ نمبر چھ: رزق حلال۔ نمبر سات: نیک لڑکے” الاولاد الابرار“
اور اُس کے بعد کیا ہے نمبر آٹھ: ”ثناء الخلق“
اور مخلوق میں رسوانہ رہے۔ ارے صاحب !صورت ہی صورت ہے، بس گول ٹوپی دیکھ لو، لمبا کرتہ ،یہ بڑی داڑھی، مگر آپ اُن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں، اس سے پناہ مانگو، خلق میں رسوائی سے پناہ مانگو” اللھم انی اعوذبک من خزی الدنیا ومن خزی الآخرة“
اے خدا! ہم پناہ چاہتے ہیں دنیا کی رسوائی سے بھی قیامت کی رسوائی سے بھی۔ اس لیے تفسیر حسنہ میں ” ثناء الخلق“
ہے کہ مخلو ق کہے ماشاء الله کیا کہنا ہے بڑے نیک بندے ہیں اور ایک صاحب نے کہا بڑے ڈاکو ہیں خطرناک بہت ہی ”مغلوب الغضب“
شخص ہے ،ہر آدمی اُس سے خائف رہتا ہے ،یہ حالت خطرناک ہے، لوگ برائیاں کرتے رہیں تو مخلوق میں ذلیل ہونا کوئی نعمت ہے یہ ؟ لہٰذا علامہ آلوسی رحمة الله علیہ نے ایک تفسیر یہ بھی لکھی ” ثناء الخلق“
خلق میں اُس کی تعریف ہو اور نمبر نو: صحت وتن درستی بھی حسنہ میں داخل ہے اورنمبر دس:” النصرة علی الاعدآء“
اور دشمن پر الله تعالیٰ اُس کی مدد کرکے دشمن پر غالب کر دے یہ بھی حسنہ میں ہے ”النصرة علی الاعدآءِ“
اور اعداء میں شیطان اور نفس بھی ہے، جو شخص شیطان او رنفس سے مغلوب رہتا ہے یہ حسنہ سے محروم ہے او راگر دشمن اس سے مغلوب ہے دشمن شیطان اور نفس پر غلبہ ہو جائے لاکھ یہ الیکشن میں ہم سے ووٹ مانگیں ،نفس وشیطان سے کہہ دو کہ ہم تو ووٹ الله اور رسول کو دیں گے ،اب الله جو چاہتا ہے وہ کام میں کروں گا اوررسول الله صلی الله علیہ سلم جو چاہتے ہیں وہ کروں گا، نفس وشیطان دشمن ہیں، دشمن کو کہیں ووٹ دیا جاتا ہے؟ اُس کو یکھ کر تو اوٹ میں ہو جانا چاہیے، اس دشمن کو دیکھ کر اوٹ میں چھپ جاؤ۔ دس نعمتیں ہو گئیں ”والفھم فی کتاب الله“
اور قرآن پاک کو سمجھنے کی اُس کو فہم عطا ہو جائے۔
فہم کیسے ہوتی ہے
حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے یا بیٹھ کرکے؟ آپ نے فرمایا: تم تلاوت نہیں کرتے ” وترکوک قائما“
اور لوگوں نے آپ کو کھڑے چھوڑ دیا اور چلے گئے، منڈی میں غلہ آگیا ،اُس کے پیچھے لگ گئے میرے نبی کو کھڑا چھوڑ دیا تو معلوم ہوا آپ کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے۔ ذرا دیکھو قرآن پاک کے سمجھنے کی فہم ہونی چاہیے” والفھم فی کتاب الله“
ایسے ہی ایک شخص نے ایک بزرگ سے کہا میرے اولاد نہیں ہوتی آپ نے فرمایا تم استغفار کرو﴿استغفرواربکم انہ کان غفاراً﴾
ایک نے کہا بارش نہیں ہوتی آپ نے فرمایا استغفار کرو الله تعالیٰ فرمارہے ہیں جو استغفار کرے گا او رمجھے راضی کرے گا اپنے گناہوں سے معافی مانگ لے گا ہم اُس کو بارش عطا کر دیں گے ﴿یرسل السماءَ علیکم مداراً﴾
دوسرے نے کہا کہ ہمارے اولا دنہیں ہوتی فرمایا تم بھی استغفار کرو۔ آگے الله تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿ ویمدد کم باأموال وبینن﴾
او رہم تمہارا مال بھی بڑھا دیں گے اولاد بھی بڑھادیں گے تو مال والا تنگ وست جو آیا اُس کو بھی یہی بتایا،جس کے اولا دنہیں ہوتی تھی اُس کو بھی یہی بتایا کہ قرآن میں الله تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اگر تم استغفار کر وگے اپنے رب کو خوش کر لو گے، گناہوں سے معافی مانگ لو گے تو ہم تمہیں کیا کریں گے ؟ بارش بھی دیں گے، اولا دبھی دیں گے، مال میں برکت بھی دیں گے﴿ ویمدد کم بأموال﴾
اموال کو پہلے الله نے نازل فرمایا:﴿ویمددکم بأموال وبنین﴾
گر اولاد کو پہلے مقدم فرماتے تو بندے گھبرا جاتے کہ اولاد زیادہ ہو جائے گی تو کھلائیں گے کہاں سے؟ مال کو پہلے نازل کر دیا” ویمددکم بأموال“
ہم تمہیں مال بھی زیادہ دیں گے ” وبنین“
اور اولاد زیادہ دیں گے۔ سبحان الله !کیا اسلوب او رکیا ترتیب ہے۔ دوستو! الله تعالیٰ کے کلام کی بلاغت کو او رکہو کہ واہ رے میرے الله! کیا شان ہے آپ کے کلام میں ”ویمددکم“
اور اسی قرآن کے اسلوب کے تحت سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے دعادی حضرت انس رضی الله تعالیٰ عنہ کو جب ان کی اماں نے کہا یہ آپ کا چھوٹا سا خادم دس سال کا آپ اُس کے لیے دعا فرمائیں تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی کہ :”اللھم بارک فی مالہ“
اے الله اس کے مال میں برکت دے۔ اور اس کی اولاد میں برکت دے۔ محدثین لکھتے ہیں پہلے مال فرمایا بعد میں اولاد فرمایا۔ اسی قرآن شریف کی آیت کے تحت۔ نبی جو کچھ بولتا ہے بالکل قرآن پاک کی تفسیر ہوتا ہے :” اللھم بارک فی مالہ“
انس کے مال میں برکت دے ”وولدہ“
اُس کی اولاد میں۔ کتنی اولاد ہوئی اٹھانوے اولاد او رمال میں اتنی برکت اتنی برکت کہ ہر شخص کے کھجور کے باغ میں ایک فصل او ران کے کھجوروں کے باغ میں دو دو فصل آتی تھیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعا لگی ” واطل عمرہ“
اور آپ نے فرمایا کہ اے الله! انس کی عمر طویل کر دے۔ فرمایا کہ میں اتنا زندہ رہا ” بقیت حتی سئمت الحیاة“
اتنا زندہ رہا کہ جیتے جیتے دل بھر گیا، بصرہ کے آخری صحابی ہیں یہ، یعنی ان کے انتقال کے بعد پورا بصرہ صحابہ سے خالی ہو گیا اور اُس کے بعد ”واغفر ذنبہ“
اے الله! انس کے گناہوں کو معاف کر دے۔ یہ تینوں دعائیں قبول ہو گئیں تو انس رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ :” ارجو الرابعة“
قیامت کے دن ان شاء الله مجھے امید ہے کہ میرے نبی کی کوئی دعا میرے لیے رد نہیں ہو گی، تین اگرقبول ہوئیں تو چوتھی دعا کی بھی امید رکھتا ہوں۔ تو اس کا نام فہم القرآن ہے کہ جو بارش کے بغیر پریشان ہے ان کو استغفار کا حکم فرمایا۔ مال کے لیے جو پریشان ہے اُن کو بھی استغفار فرمایا۔ کیا مطلب؟ استغفار زبانی نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کو خوش کرو اپنے گناہوں سے توبہ کرکے۔ استغفار کی روح یہ نہیں ہے کہ توبہ کو حالت موت تک ٹالتے رہو، بلکہ جلدی سے توبہ کرکے اپنے مالک کو خوش کر لو اورجن کے اولاد نہیں تھی اُن کو بھی استغفار کا فرمایا اور اُس کے بعد کیا ہے :﴿ویجعل لکم جنت ویجعل لکم﴾
باغات بھی ہم دیں گے اور دریا او رپھر نہریں بھی دیں گے۔ ایک شخص نے کہا حضرت میری شادی نہیں ہوتی۔ فرمایا: جاؤ تم بھی استغفارکرو تمہاری شادی ہو جائے گی۔ اس نے کہا: اس آیت میں تو شادی کا تذکرہ نہیں، کیا الله میاں نے فرمایا ہے؟ فرمایا: بے وقوف ”ویمددکم بأموال وبنین“
میں فرمایا ہے کہ مال بڑھائے گا، اولاد دے گا تو اولاد کیا تیرے پیٹ سے نکالے گا؟ ارے بیوی دے گا تب اولاد ہو گی تو اس کا نام فہم القرآن ہے، یہ گیارہواں نمبر ہے او رجو عالم دین نہ ہو اور ایسے ہی فہم القرآن کا دعویٰ کرتا ہے، نہ کسی عالم سے پڑھا ہے، یہ خودر وجوپودے ہیں ان کا کوئی استاد اور شیخ نہ ہو بس سمجھ لو یہ گم راہ ہے او رگم راہ کرے گا جس کا کوئی بابا نہ ہو اُس کو بابا بنانے والا انٹرنیشنل گدھا ہے ۔”لاتاخذوہ بابا من لا بابا لہ“
اُس کو باباب مت بناؤ جس کا اپنا کوئی بابا نہ ہو۔ سمجھ لو کہ یہ معدوم النسل ہے۔ اس لیے جس شخص سے دین سیکھو پہلے پوچھو کہ آپ نے دین کہاں سے سیکھا ہے؟ آپ نے کس سے تربیت پائی؟ آپ کس کے مربہ ہیں؟ پہلے مربہ ہونا ثابت کرو ،پھر اُسے اپنا مربی بناؤ، آج کل یہ بھی ہے تربیت خود نہیں لے رہے ہیں کسی سے، بس مربی بننا چاہتے ہیں۔ تو میں نے عرض کیا تھا کہ حسنہ کی بارہ تفاسیر ہیں۔ بارہواں نمبر کیا ہے؟ صحبت صالحین۔ جس ظالم کو صالحین کی صحبت سے نفرت ہو یا پرہیز کرتا ہو یا صلحاء کی جماعت کو حقیر سمجھتا ہو، سمجھ لو کہ ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾
سے محروم ہے، صحبت صالحین سب سے بڑی حسنہ ہے، یہ تو اتنی بڑی حسنہ ہے کہ کتنے فاسقین صحبت صالحین سے صالحین ہو گئے، نالائق لوگ لائقوں کی صحبت سے لائق ہو گئے۔
آخرت میں حسنة کی تفسیر
اب آگے﴿وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَة﴾
اور آخرت میں بھیحسنہ عطا فرما۔ اب اس کی بھی تفسیر سن لیجیے۔ آخرت میں حسنہ کیا ہے؟ آخرت کی حسنہ کیا کیا چیزیں ہیں؟ آخرت کی حسنہ نمبر ایک: کیا مل جائے؟ جنت۔ نمبر دو: ہول ناکیوں سے سلامتی کے ساتھ۔ قیامت کے دن جو ہول ناکیاں ہیں خطرناک حالات اُن سے الله سلامت رکھیں، یعنی یوم محشر کے ہول ناک حالات سے وہ محفوظ رہے۔ پہلا” الجنة“
دوسرا کیا” سلامة من حول الموقف“
سلامت رہے” موقف“
کیا چیز ہے؟ قیامت کے دن کھڑے ہونے کی جگہ کی ہول ناکیوں سے الله بچائے” وسوءِ الحساب“
او راُس سے حساب اور مؤاخذہ نہ ہو، کیوں کہ اگر الله تعالیٰ حساب لے گا تو کوئی بچ نہیں سکتا ،اس لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے دعا سکھائی، کیا؟ اے الله! ہمارا حساب آسان لینا:” اللھم حاسبنی حسابا یسیرا“
الله میاں !ہمارا حساب آسان لینا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) آسان حساب کیا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! آسان حساب یہ ہے کہ قیامت کے دن الله اپنے بندے کے نامہٴ اعمال پر ایک نظر ڈالے او رکچھ نہ پوچھے، فرمائے جاؤ جنت میں، یہ ہے آسان حساب۔ الله تعالیٰ ہم سب کو مقدر فرمائے او رچوتھی حسنہ کیا ہے ؟ بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں وہ بھی گوری۔ ترجمہ اس کا صحیح یہ ہے کہ گوری گوری بڑی آنکھ والی اور پُتلی سخت کالی اور سفیدی سخت سفیدی، پُتلی نہایت کالی۔ کتنے حسنہ ہوئے چار او رپانچویں حسنہ ہے الله تعالیٰ کا دیدار، جو جنت میں ہو گا اورتمام نعمتوں سے اعلیٰ ہو گا جب انسان اپنے الله کو یکھے گا تو جنت بھی یاد نہ رہے گی۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله علیہ فرماتے تھے جب جنتی جنت میں الله تعالیٰ کا دیدار کریں گے تو نہ حور یاد آئے گی، نہ شراب کی نہریں یاد آئیں گی، نہ کوئی نعمت یاد آئے گی، کیوں کہ مُنعم نعمت دینے والا جب سامنے آگیا تو کہاں نعمت یاد رہی #
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
دیکھیے: وقت پر شعر کا یاد آنا کیا یہ الله تعالیٰ کا احسان نہیں ہے اختر پر؟ بتائیے اس شعر کا استعمال کس وقت یہاں ہوا ہے ؟ بتاؤ! دیدار الہٰی کے وقت میں ۔ تمام حدیثوں میں موجود ہے کہ کسی اہل جنت کو حوریں اور جنت کی کوئی نعمت یاد نہیں رہے گی جب الله سامنے ہو گا، اُن کا جلوہ جب سامنے ہوگا اُس وقت کچھ یاد نہیں رہے گا۔ اب میرا یہ شعر سوچئے کہ شعر کا استعمال الله تعالیٰ کا احسان ہے، میرا کوئی کمال نہیں ہے #
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
جنت کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
جمال اُس کا چھپائے گی کیا بہار چمن
گلوں سے چھپ نہ سکی جس کی بوئے پیراہن
کہاں نعمت دینے والا او رکہاں نعمتیں ؟!بہت عمدہ اس وقت اس شعر کا استعمال جو ہے مجھے مزہ خود آگیا #
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا
وہ آگئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے
اسی لیے کہتا ہوں کہ خدا کی عاشقی سیکھ لو، ہر جگہ غالب رہو گے، ان شاء الله ! جگر مراد آبادی الله والا شاعر ہے بعد میں جب توبہ کر لی شراب سے ، داڑھی رکھ لی اور داڑھی رکھ کر یہ شعر کہا تھا #
چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلمان ہوا ہے
لیکن جگر صاحب کہتے ہیں کہ #
میرا کمال عشق بس اتنا ہے اے جگر
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
کیا پیارا شعر ہے #
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
الله تعالیٰ میری آہ ودرد کو میرے لیے بھی مفید بنا دے، آپ کے لیے بھی مفید بنا دے۔
زندگی کا مقصد
دوستو! بس یہی مقصد ہے، کھانے پینے کے لیے ہمیں نہیں پیدا کیا گیا، یہ کھانا پینا تو ہماری زندگی کے لیے دیا ہے، مگر زندگی اپنی بندگی کے لیے دی، بعض لوگ اپنے جسم کو امپورٹ ایکسپورٹ کا آفس سمجھتے ہیں، یعنی ادھر سے روٹی ڈالی اور نیچے سے صبح لیٹرین میں ایکسپورٹ کر دیا تو گویا آپ لوگ دفتر ہیں، نعوذ بالله ! امپورٹ ایکسپورٹ آفس بنے ہوئے ہیں، ارے بھائی! یہ جو کھا رہے ہو اس رزق روٹی سے جو خون بنے او رخون سے جو طاقت بنے اُس طاقت کو الله پر فدا کر دو، آنکھوں میں جو روشنی آئی خدا پر فدا کر دو، اُس سے نامحرموں اور امردوں کو مت دیکھو، کان میں جو سننے کی طاقت آئی قرآن شریف سنو ،الله والوں کی باتیں سنو، زبان میں جو طاقت آئی سبحان الله پڑ ھو، الله کے گیت گاؤ، ٹانگوں میں جو طاقت آئی اس سے مسجد جاؤ، عمرہ کرو، روضہٴ مبارک کی زیارت کرو، ہاتھوں میں جو طاقت آئی علماء سے مصافحہ کرو، الله والوں اور حجر اسود کا بوسہ دو، یعنی ہر چیزکا حق ادا کرو، سر میں جو طاقت آئی سر کو الله کے قدموں میں رکھ دو #
پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں اُن کی ادھر نظر بھی ہے
بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ہے سنگ در بھی ہے
سر کا شکریہ خالی ٹوپی نہیں ہے، مولانا رومی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں اے دنیا والو! جب کوئی حاجی ٹوپی لا کر دیتا ہے تو تین دفعہ شکرہی ادا کرتے ہو، لیکن جس نے تمہیں سر عطا کیا ہے اس کا تو شکر اگر سرنا دیتا خدا تو ٹوپی کہاں رکھتے، تواے دنیا والو! قیامت کے دن جب کھڑے ہوں تو سورج کی گرمی سے سر نہ پکے، وہاں بھی کسی قسم کی تکلیف نہ ہو، بس الله اُسے سلامت رکھے، نار جہنم سے حفاظت دے او رنمبر تین نعمت کیا ہے کہ حساب نہ ہو بے حساب الله بخشش کر دے۔ نمبر چار کیا ہے گوری گوری بڑی آنکھ والی حوریں بھی مل جائیں ۔کیا ہے بھائی الله کی نعمت ہے جو ا لله عطا کرے گا، سر آنکھوں پر رکھیں گے، کیوں کہ الله کی عطا ہے او رنمبر پانچ کیا ہے؟ الله تعالیٰ کے دیدار کی لذت او رنمبر چھ: الله تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا اور نمبر سات کیا ہے؟ الله تعالیٰ ہمیں اپنے احسان سے بخش دے ۔اگر عمل قابل نہیں ہے ،ہمارے اعمال صحیح نہیں ہیں، اپنے احسان سے ہمارا فیصلہ کر دے کہ جاؤ ظالموں نالائقو! مگر میں احسان کرتا ہوں تم پر، جیسے ڈائریکٹر تعلیمات کہتا ہے کہ پاس ہونے کے قابل تمہارے نمبر نہیں ہیں ،لیکن جاؤ ہم نے بطور احسان کے تم کو پاس کر دیا۔ تو الله تعالیٰ بطور احسان ہم کو نکال دیں۔ آج یہ تفسیر آپ لوگوں نے سن لی۔ ﴿ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
اور جہنم کی آگ سے ہم کو بچائیے﴿ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
معنی کیا ہے دوزخ کی آگ سے بچائیے کیا مطلب؟، اس کی تفسیر سنیے” ای احفظنا منہ بالعفو والمغفرة“
یعنی جہنم کی آگ سے ہمیں اپنی معافی اورمغفرت کے ذریعے سے نجات دیجیے، حفاظت فرمائیے، دوزخ میں نا ڈالیے، اے الله ! ہم کو آگ میں نہ ڈالیے، یہ سکھایا الله میاں نے یہ کہو اپنی معافی سے ” بالعفو والمغفرة“
معافی اورمغفرت سے ہم کو دوزخ کے آگ میں نہ ڈالیے او رہمیں اُن لوگوں میں داخل کر لیجیے”ممن یدخل الجنة من غیر عذاب“
جو عذاب کے بغیر جنت میں چلے جائیں گے ﴿وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
او رحضرت نے اس کی تفسیر فرمائی ” ای احفظنا من الشھوات والذنوب“
ہمیں ایسی ایسی بری خواہشوں سے پاک کرد یجیے حفاظت دے دیجیے او رایسے گناہوں سے بچا دیجیے جو جہنم تک لے جانے والے ہیں ” المودیة‘
معنی پہنچانے والے یعنی” احفظنا من الشھوات والذنوب المودیة الی عذاب النار“
یعنی جو عذاب نار تک لے جانے والے ہیں اُن گناہوں سے بھی ہمیں بچائیے ” اعاذنا الله تعالی من النار“
الله تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ دعا بھی مانگی جائے، ایک شخص نے دعا کی تھی حضور صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں کہ اے الله! جو عذاب آخرت میں دینا ہے وہ ہم کو دنیا ہی میں دے دیجیے، مگر وہاں عذاب نا دیجیے تو کیا ہو گیا ؟بیمار پڑ گیا، شدید بیمار، ایسا بیمار تھا جیسے کبوتر کے بچے کا پر نوچ لو تو کیسی خارش زدہ کھال ہو جاتی ہے، اُس کی کھال بیماری سے خراب ہوچکی تھی۔ سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے شخص! تو کوئی دعا مانگتا ہے؟ اُس نے کہا: جی ہاں! میں ایک دعا مانگتا ہوں۔ اے الله! جو وہاں دینا ہے وہ عذاب دنیا میں دے دیجیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہایت ہی نامناسب ہے تمہارا یہ دعا کرنا۔ اس طرح دعا کرنا صحیح نہیں ہے۔ سبحان الله! آپ صلی الله علیہ وسلم نے تعجب کا اظہار فرمایا کہ تم الله کے عذاب کو برداشت کرسکتے ہو جو تم دنیا میں مانگ رہے ہو؟ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ اے الله! دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پڑھو۔ اور یہ دعا سکھلائی۔ پڑھو﴿رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾
ایسے دعا مت کرو کہ یا الله! جو عذاب وہاں دینا ہے یہیں دے دو۔ خبر دار! اس دعا کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے منع فرما دیا۔ آج بھی بعض لوگ ایسی دعا مانگتے ہیں کہ الله! جو وہاں دینا ہے ہمیں یہیں دے دو، توبہ توبہ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: سبحان الله! تعجب ہے تمہاری اس نادانی پر! تم الله کے عذاب کو برداشت کرسکتے ہو ؟لہٰذا آپ نے یہی دعا سکھائی۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث پیش کی،تاکہ صحیح طریقے سے یہ آیت سمجھ میں آجائے او رپھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُس کے لیے دعا فرمائی، بس الله تعالیٰ نے اُس کو شفا دے دی۔ اس حدیث سے تین مسئلے ثابت ہوئے۔ نمبر ایک: مریض کی عیادت کے لیے جانا چاہیے، جیسے حضور صلی الله علیہ وسلم تشریف لے گئے۔ نمبر دو: اُس کی شفا کے لیے دعا مانگنا چاہیے ،او رنمبر تین اگر وہ کوئی نامناسب حرکت کرے تو ”سبحان الله“ بھی کہیں۔ تعجب کے موقع پر ”سبحان الله“
کہنا اس حدیث سے سنت ہونا ثابت ہو ا،ہم لوگ اکثر بولتے ہیں سبحان الله! آگئے آپ۔ ایسی باتیں کر رہے ہیں یعنی تعجب ہے آپ کو تعجب کے وقت میں ” سبحان الله“
کہنا اس حدیث سے سنت ہونا ثابت ہوا۔
اہل خانہ کی فکر کیجیے
حضرت مولانا شاہ برار الحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ حکیم الامت مجدد الملت نے ہرگھرکی اصلاح کے لیے ایک طریقہ ارشاد فرمایا، اُس کا نام دعوت الداعی ہے ،تعلیم المسلمین وتبلیغ المسملین، وہ کیا ہے کہ روزانہ آپ اپنے گھر میں دس منٹ کے لیے بچوں کو جمع کر لیجیے۔ بیوی کو بھی بٹھا لیجیے او روہاں ایک تسبیح ” لا الہ“ کا ذکر کر لو، ایک تسبیح درود شریف پڑھ لو، ایک تسبیح ” استغفر الله ربی من کل ذنب اذنبتہ وأتوب الیہ“
پڑھ لو، اس سے کیا ہو گا؟ الله کی رحمت نازل ہوگی، آپ کے گھر میں اور بیوی بچے الله کے ذکرکی برکت سے نیک بن جائیں گے اور قیامت کے دن الله تعالیٰ آپ کو انعام سے نوازیں گے کہ ہمارا یہ شخص تنہا ذاکر نہیں تھا، سب گھر والوں کو بھی ذکر میں لگاتا تھا۔ نمبر دو: ایک حدیث کوئی سنا دو یا حکایت صحابہ سے کسی صحابی کا واقعہ سنا دو، مطلب تھوڑی دیر دین کی تعلیم گھروں میں ہونی چاہیے، اب آپ لوگ بتائیے اپنے اپنے گھروں میں آپ لوگ شروع کریں گے دس منٹ ؟صرف مانگتے ہیں دس منٹ، کیوں بھائی چودہ سو چالیس منٹ ہم گھر میں رہیں اور دس منٹ کے لیے اپنے بیوی بچوں کو کچھ ناسنائیں ،ان شا ء الله اس کی برکت سے وہ آہستہ آہستہ دین سے مانوس ہو جائیں گے، ورنہ ہماری خیر نہیں ہے، اگر بچے نالائق ہو گئے، بیوی بچے سب گھر برباد، گناہ گار ہوگیا تو ہمار ی بھی نہیں چلے گی، ہم کچھ کہیں گے بیوی بچے کچھ کہیں گے، اس لیے ہمارے ذمہ ”قواانفسکم“
ہمیں بھی دوزخ سے بچنا فرض ہے ” واھلیکم“
اپنے گھر والوں کو بھی دورخ سے بچانا فرض ہے، جس کا طریقہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ نے اس میں لکھا اور میرے شیخ نے بیان فرمایا کہ کم از کم دس منٹ ہر آدمی، اپنے گھر میں آج سے ارادہ کر لیجیے کہ اپنے اپنے گھر میں دس منٹ دین کی کوئی کتاب سے ”حیات المسلمین“، ” حکایت صحابہ“،” حیات المسلمین“
حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کی تصنیف ہے کہ ایک حدیث اُس سے سنا دی دو منٹ میں او رایک دو منٹ کسی صحابی کا واقعہ سنا دیا تبلیغی نصاب سے او رپانچ منٹ الله کا ذکر کر لو، ایک ہی تسبیح ” لا الہ الا الله“
کی پڑھ لو ،اس کا فائدہ بھی بیان کر دو کہ جو ایک تسبیح” لا الہ الا الله“
پڑھے گا قیامت کے دن اُس کا چہرہ چودہویں چاند کی طرح چمکے گا او رکم از کم ایک تسبیح تو گھر والے پڑھ سکتے ہیں، دو تین منٹ لگتے ہیں ” لا الہ الا الله“
او رجب ” لا الہ الا الله“
پڑھے سب کو سمجھا دو کہ ساتوں آسمان پار کرکے یہ ”لا الہ الا الله“
الله تعالیٰ سے ملاقات کرتی ہے ،یہ تصوف مستقل بہ حدیث ہے، حدیث سے ثابت ہے تو کیا آپ اپنے بال بچوں کو الله میاں سے دور کھنا چاہتے ہو ؟ تو” لا الہ الا الله“
کے ذریعے سے اپنے بال بچوں کی بھی الله میاں سے ملاقات کرا دو، جب حضور صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ ” لا إلہ الا الله“
ساتوں آسمان پار کرکے الله تعالیٰ سے ملاقات کرتی ہے تو آپ بھی ملاقات کیجیے الله میاں سے ،بال بچوں کی بھی ملاقات کرائیے، ایک دعا بھی کر لو الله ” لا الہ الا الله“
برکت سے لا الہ سے، غیر الله سے قلب کو پاک فرما دے ” لا الله“
سے ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے روشن کر دے۔
بھائی! دس منٹ کے لیے آپ لوگ دیں گے ابھی ایک رجسٹرپر اس وعدے پر دستخط کرنا ہے اوراُس کی رپورٹ حضرت شاہ ابرار الحق صاحب نے مانگی ہے حضرت نے فرمایا جتنے لوگ تم سے یہ وعدہ کر لیں دین پھیلانے کا کم از کم اپنے گھروالوں کو اس کے بعد ایک کتاب ہے ” اشرف الخطاب“ اس میں دین کے لیے کہنے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ نمازی بے نمازی سے کیسے بات کریں، روزہ جو نہیں رکھتا اس سے کیسے بات کریں، اس میں سب طریقے لکھے ہوئے ہیں کہ مثلاً بھائی صاحب آپ ماشاء الله نماز تو پڑھتے ہی ہوں گے، لیکن مہربانی کرکے مسجد میں آجائیے تاکہ ستائیس گناہ ثواب مل جائے اوراپنے ساتھ اور لوگوں کو بھی لانے کی کوشش کیجیے۔ اپنے بچوں سے بھی کیسے بات کرنی ہے، یہ سب طریقہ لکھا ہوا ہے اس میں دیکھو: خطاب برائے تارک نماز۔ اب حضرت نے اتنی محنت کی ہے کہ اُس میں طریقہ بھی لکھ دیا: خطاب برائے تارک نماز۔
تارک نماز سے کیسے بات کریں؟
ایک بات کہنی ہے کہ آخرت کی تباہی کے علاوہ آج کل کی مصیبت او رپریشانی کا اصلی سبب ہم سب کے اعمال ہیں اور الله نے فرمایا کہ مصیبتیں دور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سب لوگ دعائیں کریں اوراپنے اعمال درست کریں، اس لیے اس کا اہتمام کیجیے کہ نماز کے وقت میں مسجد پہنچا کیجیے، یہ نہ کہو کہ آپ بے نمازی ہیں، ورنہ کہے گا آپ کو کیا معلوم ہم گھرمیں پڑھتے ہیں۔ دیکھیے حکم الامت کے آداب دیکھو کہ آپ نماز کے وقت مسجد پہنچاجییتاکہ جماعت کے ساتھ دعا کرنے میں آپ بھی شریک ہوں آپ دعا کے وقت میں آمین کہتے رہیے اس طرح سے سب دعائیں آپ کی طرف سے بھی ہو جائیں گی، کلمہ طیبہ کیکثرت ضرور رکھیے یہ بہت سوچئے کہ آخرت کی کیا تیاری کی ہے ۔ آج سے اپنے بے نمازی بھائیوں کو، بے نمازی بیوی کو، ہر ایک کو نمازی بنانے کی کوشش کیجیے ،جو زکوٰة نہیں دیتا اسے اس کی ترغیب دیجیے، اُس کا طریقہ سیکھیے۔ روزہ جو نہیں رکھتا اُس کو ترغیب کا طریقہ سیکھیے۔ دیکھیں بھائی صاحب ! رمضان شریف آرہا ہے یا شروع ہوچکا ہے، اس کے متعلق ایک خاص گزارش آپ سے کرنے حاضر ہواہوں کہ آپ اپنے بیو ی بچوں کو خاص تاکید روزہ کے لیے کریں اور اس کا بڑا لحاظ رکھیں کہ بلا کسی مسلمان حکیم یا ڈاکٹر کے مشورے کے روزہ ہر گز ناچھوڑیں او راگر کسی عذر کی وجہ سے آپ یا آپ کے گھر والے روزہ نہ رکھ سکیں تو کسی اور کے سامنے ہر گز نہ کھائیں پئیں، بالخصوص سڑک پر بیڑی، سگریٹ ، پان کھانا اس سے بہت سختی کے ساتھ بچیں، کیوں کہ اس مبارک مہینے کی بے حرمتی ہے، جو کسی طرح درست نہیں ہے او ران چیزوں سے ضرور بچیں جو روزہ خراب کرنے والی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزے رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو سوائے بھوکے رہنے کے او رکچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کیا مطلب کہ یہ ظالم گناہ نہیں چھوڑتا۔ جو حج نہیں کرتا اُس کے لیے الگ ہدایات ہیں اس کو آپ لے لیجیے اور دس منٹ گھرمیں اپنے اپنے بیوی بچوں کے لیے نکالیں گے۔ سب لوگ بھائی ہاتھ اٹھاؤ کون کون نکالے گا دس منٹ؟ ماشا ء الله۔
ایک عبرت کا واقعہ سن لو، ایک شخص کو فالج گرا ہوا ہے، اُس کا بیٹا آیا تھا ،اُس نے کہا کہ میرے باپ کے تمام جسم پر پھوڑے ہو گئے ہیں اورمواد نکل رہا ہے لیٹے لیٹے، کیوں کہ فالج میں ایک طرف لیٹا رہتا ہے سب کھال زخمی ہو گئی اور ان کے اتنے بڑے پھوڑے نکلے ہوئے ہیں او رمیں اکیلے اُن کی خدمت کہاں تک کروں، دفتر بھی جانا ہوتا ہے، الله تعالیٰ سے دعا کرو،اگر آپ کے علم میں اس کی زندگی بہتر ہو تو اچھا کر دیجیے او رموت بہتر ہے تو اس کو جلدی سے اٹھا لیجیے۔ ہم سب کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ بتاؤ! اگر کسی کو فالج گر جائے او رجسم میں اتنے اتنے پھوڑے نکل آئیں تو کیا کوئی عورت کو دیکھے گا؟ نہیں! لڑکوں کے چکر میں رہے گا؟ خدا کے لیے اپنی جانوں پر ہم لوگ رحم کریں۔ آہ! کہہ کر کہتا ہوں کہ ایسے دن کا انتظا رمت کیجیے کہ خدائے تعالیٰ کا انتقام نازل ہو جائے ،ابھی سے سب گناہ چھوڑ دو، نہایت سعید او رنیک بخت ہے وہ شخص، خوش قسمت ہے وہ جو الله کی نافرمانی چھوڑ دے۔ نہایت درد سے کہتا ہوں کہ اپنے حالوں پر رحم کر لو، خاص کر جو دینی ماحول میں رہتے ہیں، بہت زبردست ذمہ داریاں ہیں اُن دوستوں کی جو رات دن خانقاہ میں رہتے ہیں کہ اپنے اعمال سے، اپنے اخلاق سے دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنو او رجلد اپنی حالت کو درست کر لے، ہر شخص جس کو دیکھو حسنہ مل گیا، نیک صحبتیں جن کو نصیب ہیں، جن کو الله نے نیک بندوں کی صحبت عطا فرمائی وہ بھی اگر گناہ نہ چھوڑے کیاحال ہو گا اُس کا؟ اس لیے دو ستو! بزرگان دین اور ایسی محافل میں جو آنے جانے والے ہیں اُن کوچاہیے کہ ہمت سے کام لواو رجب کوئی خاص درد کی بات کہی جائے اُس وقت حرام ہے اُس شخص کے لیے کہ وہ اس بات کی ناقدری کرے اور اِدھر اُدھر توجہ کرے۔ بس اب دعا کرلیں۔واٰخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین، وصلی الله تعالیٰ علیہ خیر خلقہ محمدوّ علی اٰلہ وصحبہ اجمعین․
برحمتک یا ارحم الراحمین․