تو کّل

idara letterhead universal2c

تو کل

مولانا عبد اللہ عباس ندوی 

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عازب رضی الله عنہ سے تیرہ درہم میں اونٹ کا کجاوہ خریدا اور کہا کہ اپنے لڑکے براء کے ذریعہ یہ کجاوہ میرے یہاں بھیج دو ، حضرت عازب رضی الله عنہ نے کہا میں ایک شرط پر یہ خدمت انجام دے سکتا ہوں کہ آپ بتائیں کہ جب آپ مکہ مکرمہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت پر نکلے تھے اور دشمن آپ کے پیچھے لگے تھے تو آپ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس طرح دیکھ بھال کی اور کیا خدمت انجام دی ۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ہم مکہ سے نکلے تو رات بھر چلتے رہے اور دن کو بھی دو پہر تک سفر جاری رہا، جب دھوپ بہت تیز ہوگئی ،گرمی کی تپش بڑھ گئی تو میں نے نگاہ دوڑانی شروع کی کہ کہیں کوئی سایہ مل جائے تو وہاں ہم لوگ پناہ لیں ، ایک بہت بڑی چٹان کچھ دور پر نظر آئی، اس کے نیچے کچھ سا یہ دیکھا، وہاں پہنچے، زمین برابر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چادر بچھا دی اور عرض کیا یا نبی اللہ !آپ اس پر آرام فرمائیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم لیٹ گئے اور میں نکلا اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگا کہ ہمارا پیچھا کرنے والوں میں سے کوئی آتو نہیں رہا ہے ، دور ایک بکری کے چرواہے پر نظر پڑی، جو اپنے ریوڑ کو چٹان کی طرف لے جارہا تھا اور وہ بھی کسی سایہ کی تلاش میں تھا۔ میں نے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے قبیلہ قریش کے کسی شخص کا نام بتایا، جس کو میں پہچان گیا ، میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری بکریوں میں کوئی ایسی بکری بھی ہے جس کے تھن میں دودھ ہو؟ اس نے کہا ہاں ، میں نے پوچھاکیا تم دودھ دوہ کر دے سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں ، میں نے کہا کہ اچھا تھوڑا دودھ دوہ کر ہمیں دو تو اس نے اپنے ریوڑ کی ایک بکری کو باندھ دیا، میں نے اس سے کہا کہ پہلے اس کے تھن سے غبار کو جھاڑ کر دور کر دو، پھر میں کہا اپنے دونوں ہاتھوں کو صاف کرو، اس نے ہاتھ جھاڑ کر کہا اس طرح؟

اس نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر صاف کیا اور چلو بھر دودھ نکالا ، میں نے اس کو ایک چھوٹے چمڑے کے تھیلے میں رکھ کر اس کا منھ ایک کپڑے سے باندھ دیا اور اس میں دودھ جمع کرتا رہا اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی تھی ، میرے آنے پر آپ صلی الله علیہ وسلم جاگ گئے تو عرض کیا اس کو نوش فرما ئیے یا رسول اللہ! آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نوش فرمایا ،اس سے میرا دل خوش ہو گیا، پھر عرض کیا کہ کوچ کرنے کا وقت آگیا ہے ، پھر ہم لوگوں نے کوچ کیا اور ہمارا پیچھاکر نے والے دشمن اپنی راہ سے پچھڑا گئے تھے، کسی نے ہم کو نہیں پکڑا، سوائے سراقہ بن مالک بن جعشم کے، جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ، میں نے کہا یارسول اللہ ہمارا پیچھا کرنے والے پہنچ گئے۔ حضور صلی اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ڈرو نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

امام بخاری نے یہ حدیث تو کل کے ضمن میں بیان فرمائی ہے اور صاحب ”نضرة النعیم“ نے توکل کی عملی شکل جس پر حضور صلی الله علیہ وسلم کار فرما تھے سمجھانے کے لیے یہ حدیث نقل کی ہے کہ اپنے سے پوری کوشش کرنے کے بعد اور جو ممکن جد و جہد ہو سکتی ہے اس کو انجام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور یہ سمجھنا کہ وہ ہمارے ساتھ ہے یہی تو کل ہے۔

ایک ماثورہ دعا ہے، بلکہ چند ماثورہ دعا ئیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تو کل کا کیا مفہوم ہے ،دعا یہ ہے:

1.. حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ پرجاتے تو یہ دعا کیا کرتے تھے:

اللَّہُمَّ أَنتَ عَضُدِی وَنَصِیرِی، بِکَ أَحُولُ ، وَبِکَ أَجُولُ، وَبِکَ أصُولُ ، وَبِکَ أقَاتِلُ․

”اے اللہ!تو ہی میرے بازو کی قوت ہے اور تو ہی میرا مددگار ہے، ہم تیرے ہی حکم سے دفاع کرتے ہیں اور تیرے ہی حکم سے آگے بڑھتے ہیں اور تیرے ہی حکم سے حملہ کرتے ہیں اور تیرے ہی بھروسے پر جنگ کرتے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ جنگ میں دفاع کرنا یا کہیں پر اقدام کرنا ، نکلنا اور مقابلہ کرنا اپنی جگہ پر جاری ہے، لیکن ہر کام میں اور ہر قدم پر سہارا اللہ ہی کا ہے، یہ معنی ہوئے تو کل کے۔

2.. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ یہ دعا کیا کرتے تھے :

”اللَّہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ ، وَبِکَ آمَنْتُ ، وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ ، وَإِلَیْکَ أَنَبُتُ ، وَبِکَ خَاصَمْتُ ، اَللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِعِزَّتِکَ، لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ أَن تُضِلَّنِی أَنْتَ الْحَیُّ الَّذِی لَا یَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالْإِنسُ یَمُوتُونَ“․

”اے اللہ!ہم نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کیا ،تجھ پر ایمان لائے اور صرف تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور صرف تیری ہی ذات سے لو لگایا ہوں اور صرف تیرے ہی نام پر کسی سے مقابلہ کرتا ہوں۔ اے میرے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیرے عز وجلال کی یہ جانتے ہوئے کہ تیرے سوا کوئی نہیں ہے کہ مجھ کو گم راہ ہونے سے بچائے تو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، جس کو بھی موت نہیں ہے اور جب کہ جن وانس سب مرنے والے ہیں“ ۔

3.. حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی نہیں لیا کرتے تھے (یعنی کسی چیز کو منحوس نہیں کہتے تھے ) اور جب خوش ہوتے تو چہرے پر مسرت کے آثار ظاہر ہوتے اور اگر کسی بری چیز کا نام آتا تو اس کی ناپسندیدگی چہرہ مبارک سے جھلک اٹھتی۔ جب کسی گاؤں میں جاتے تو گاؤں کا نام پوچھتے، اگر نام اچھا ہوتا تو خوش ہوتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر آثار مسرت نظر آتے اور اگر کوئی برا نام ہوتا تو اس کی برائی چہرہٴ مبارک سے ظاہر ہو جاتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو کل کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں ہر جگہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں پر پورا بھروسہ رکھتے ،حلال طریقوں پر جو جد و جہد ہوتی وہ کر گزرتے اور جو کاوش انسانی اختیار میں ہے ان سے گریز نہیں فرماتے، اس کے بعد اللہ پر توکل رکھتے ، گویا کسی شے میں طاقت اللہ کے حکم سے آتی ہے اور اس پر بھروسہ کرنا توکل ہے ، توکل، کے مقابلہ میں ایک لفظ ، اتکال آتا ہے ،جس کے معنی ہیں تمام جد و جہد سے منھ پھیر کر اور بغیر کسی ذریعہ کے کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش ۔

امام ابن تیمیہ نے اس کو یوں بیان کیا ہے کہ اسباب پر عمل کرتے ہوئے کام یابی کا معاملہ اللہ کے سپر دکر دینا اور اس پر بھروسہ کرنا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کا اجر ضائع نہیں کرتا جس نے بہتر طریقہ پر کام کیا: ﴿انا لا نُضِیعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا﴾․( ہم ایسوں کا اجر ضائع نہ کریں گے جو اچھی طرح کام کو کریں ) اور اسباب کو چھوڑ کر بیٹھ رہنا، کوشش سے اعراض کرنا ، تو کل نہیں ہے، بلکہ اتکال ہے یا تو اکل ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ ، علیہ وسلم نے ممانعت کی ہے۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے ؟ حضرت معاذ نے فرمایا حقیقی علم تو اللہ اور اللہ کے رسول ہی کو ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ بندے اللہ کی عبادت کریں ،شرک نہ کریں اور بندوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ شرک نہیں کر رہے ہیں تو اللہ ان کو عذاب نہ دے ۔ حضرت معاذ  نے کہا یا رسول اللہ!کیا میں اس کی خبر لوگوں کو کردوں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، کیوں کہ یہ سن کر لوگ غلط مطلب لیں گے اور اس کا بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے، جس کو ”نضرة النعیم “ میں نقل کیا گیا ہے۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری جملہ ہے:”لا تبشرہم؛ فیتکلوا“گویا وہ تو کل کے بجائے اتکلال پر عمل کرنے لگیں گے۔

تو کل کے ساتھ” تفویض“ کا لفظ بھی آتا ہے ،جس کا مفہوم توکل سے زیادہ وسیع ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد اور اپنی ساری کوشش کر لینے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا ۔﴿وَأُفَوِّضُ أَمْرِی إِلَی اللَّہِ﴾ یہ بہت بڑی عبادت بھی ہے اور عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر پورا اور مکمل بھروسہ کرنے کی بہترین مثال ہے۔ ایک لفظ اور آتا ہے جو تو کل ہی کے معنی میں ہے ،ذرا مزید وسعت کے ساتھ وہ لفظ ہے” ثقہ“ ۔

ابن قیم سے منقول ہے کہ ثقہ تو کل کی آنکھ کا دیدہ ہے (سواد العین جس سے کہ آنکھ کی روشنی قائم ہوتی ہے) اور اس کو”نقطة دائرة التفویض“کہا ہے ،یعنی اللہ تعالی کے حکم کی پابندی اور اس کے پیدا کردہ اسباب پر یقین رکھنا، ثقہ اور توکل ہم معنی ہیں اور قرآن کریم میں اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنے بیٹے کو دریائے نیل میں ڈال دو، ارشاد ہوا :﴿فَإِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَالْقَیْہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَحَا فِی وَلَا تَحْزَنِی ﴾ (القصص:7)

”پھر جب تم کو اس کی نسبت (جاسوسوں کے مطلع ہونے کا) اندیشہ ہو تو (بے خوف و خطر ) ان کودریائے (نیل ) میں ڈال دینا اور نہ تو (غرق سے ) اندیشہ کرنا اور نہ( مفارقت ) پر غم کرنا ۔“

ابن قیم کہتے ہیں کہ تو کل کا خلاصہ ثقہ ہے اور اس کی روح ہے، جیسے کہ سواد العین آنکھ کا سب سے عزیز ترین نقطہ ۔ثقہ ، تفویض اور تو کل کی تعریف یوں ہو سکتی ہے کہ ثقہ وہ ہے جس پر تفویض کی عمارت قائم ہو اور جو توکل کی روح ہے۔

تو کل کا لفظ مصدر ہے، مادہ وکل اور باب تفعل ، جس کے لفظی معنی ہیں کسی معاملہ میں دوسرے پر بھروسہ کرنا اور تو کل میں ہر معاملہ میں اپنے عجز کا اظہار ہوتا ہے۔

امام راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ تو کل یہ ہے کہ اپنے علاوہ کسی پر بھروسہ کرنا اوراس کواپنا نائب بنانا،جیسے کوئی سفر پر جارہا ہواور اپنے باپ یا بھائی سے کہے کہ میرے گھر کا خیال رکھیے گا، گویا اس نے اپنے باپ اور بھائی کا تو کل کیا، اللہ پر یہ بھروسہ کرے کہ وہ رازق ہے، تمام امور میں تنہا سہارا ہے، شفاء اور بخشش دینے والا ہے، یہ تو کل ہے۔

”مقاییس اللغة“ میں ابن سیدہ نے لکھا ہے:” وَکَّل باللہِ وَتَوَکَّل عَلَیْہِ وَاتْکَل“ سب کے معنی ہیں کسی کے سپرد کر دینا۔

قرآن کریم میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں چند یہاں نقل کرتا ہوں:﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ﴾․ (آل عمران:159)

”بعد اس کے خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ تند خوسخت طبیعت ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہو جاتے ،سو آپ ان کو معاف کر دیجیے اور ان کے لیے استغفار کر دیجیے اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے ، پھر جب آپ رائے پختہ کر لیں تو خدا تعالیٰ پر اعتماد کیجیے، اب اللہ تعالیٰ ایسے اعتماد کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں“۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ ہَمَّ قَوْمٌ أَن یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ أَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ وَعَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾․(المائدة:11)

”اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ کے انعام کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے، جب کہ ایک قوم فکر میں تھی کہ تم پر دست کاری کریں، سو اللہ تعالیٰ نے ان کا قابو تم پر نہ چلنے دیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اہل ایمان کو حق تعالیٰ ہی پر اعتمادرکھنا چاہیے“۔

﴿وإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ﴾․(الأنفال:61)

”اور اگر وہ (کفار )صلح کی طرف جھکیں تو آپ بھی اس طرح جھک جائیے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے بلا شبہ الله سننے والا ، جاننے والا ہے“۔

﴿قُل لَّن یُصِیبَنَا إِلَّا مَا کَتَبَ اللَّہُ لَنَا ہُوَ مَوْلَانَا وَعَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾․(التوبة :51)

”آپ فرمادیجیے کہ ہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑ سکتا، مگر وہی جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے، وہ ہمارا مالک ہے اور اللہ کے تو سب مسلمانوں کو اپنے سب کام سپر درکھنے چاہییں “۔

﴿وَلِلَّہِ غَیْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَیْہِ یُرْجَعُ الْأَمْرُ کُلُّہُ فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾․(ہود:123)

”اور آسمان اور زمین میں جتنی غیب کی باتیں ہیں ان کا علم خدا ہی کو ہے اور سب امور اسی کی طرف رجوع ہوں گے تو آپ اسی کی عبادت کیجیے اور اس پر بھروسہ کیجیے اور آپ کا رب ان باتوں سے بے خبر نہیں ،جوکچھ تم (لوگ)کر رہے ہو“۔

﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا، قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاء َ أَن یَتَّخِذَ إِلَیٰ رَبِّہِ سَبِیلًا، وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِی لَا یَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہِ وَکَفَیٰ بِہِ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیرًا، الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِہِ خَبِیرًا﴾․ (الفرقان:59-56)

”اور ہم نے آپ کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ (مؤمن جو جنت کی )خوش خبری سنائیں اور کافروں کو (دوزخ سے) ڈرائیں، آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ ہاں! جو شخص یوں چاہے کہ اپنے رب تک (پہنچنے کا راستہ اختیار کر لے اور اس حی لا یموت پر توکل رکھے (اور اطمینان کے ساتھ ) اس کی تسبیح وتحمید میں لگارہے اور وہ (خدا) اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی (طور پر) خبر دار ہے ،وہ ایسا ہے جس نے آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب چھ روز (کی مقدار میں ) پیدا کیا، پھر تخت (شاہی ) پر قائم ہوا، وہ مہربان ہے، سو اس کی شان کسی جاننے والے سے پوچھنا چاہیے (کافر کیا جانیں )“۔

﴿یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللَّہَ وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِینَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا ، وَاتَّبِعْ مَا یُوحَیٰ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا، وَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ وَکَفَیٰ بِاللَّہِ وَکِیلًا﴾ (الاحزاب:3-1)

”اے نبی ! اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں کا اور منافقوں کا کہنا نہ مانیے ، بے شک اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑی حکمت والا ہے اور آپ کے پروردگار کی طرف سے جو حکم آپ کو وحی کیا جاتا ہے اس پر چلیے، بے شک تم لوگوں کے سب اعمال کی اللہ تعالیٰ پوری خبر رکھتا ہے اور آپ اللہ پر بھروسہ رکھیے اور اللہ کافی کارساز ہے“۔

﴿وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّیْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَیٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ، اللَّہُ لَا إِلَٰہَ إِلَّا ہُوَ وَعَلَی اللَّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾․(التغابن:13-12)

”اور اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور اگر تم (اطاعت سے ) اعراض کرو گے تو (یا د رکھو کہ ) رسول کے ذمہ تو صاف صاف پہنچا دینا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود (بننے کے قابل) نہیں اور مسلمانوں کو اللہ پر (مصائب وغیرہ میں ) تو کل رکھنا چاہیے“۔ 

اسلامی زندگی سے متعلق