تعلیم ِ نسواں

تعلیم ِ نسواں

 (ازحضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی )

”دین مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہاں! بعض چیزیں ایسی ہیں جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے رسالت اور قاضی القضاة کا عہدہ کہ عورت رسول اور قاضی القضاة نہیں بن سکتی، کیوں کہ اس کی قابلیت عورت میں نہیں، مگر سب سے بڑا کمال جو نبوت کا ہے، ایک بڑی جماعت اس پر ہے کہ عورت کو نبوت مل سکتی ہے۔“ (ازحضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی )

الْحَمْدُلِلہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِینُہ ونستغفرُہ ونُؤْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُورِ أنفسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُضْلِلہُ فَلا ہَادِیَ لَہُ․ وَنَشْہَدُ أن لا إلہ إلا اللہُ وَحْدَہُ لا شریک لہ وَنَشْہَدُ أَنَّ سَیِّدَنَا وَسَنَدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولَہُ، أَرْسَلَہُ اللہ إلی کَافِةٍ لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا، وَدَاعِیَا إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا أَمَّا بَعْدُ، فَأَعُوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّحِیمِ، بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ․

ترقی کا پہلا زینہ

عزیز بچیو، محترم بہنواور استانیو ۔! آپ کے اس مدرسہ میں آکر بے حد مسرت اور خوشی ہوئی۔ تعلیم کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کی کوئی قوم بغیر تعلیم کے ترقی نہیں کر سکتی، کسی قوم کی ترقی کا پہلا زینہ تعلیم ہے۔ اسلام میں بھی سب سے پہلے پڑھنے ہی کی آیت نازل ہوئی اور فرمایا:﴿إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ ﴾․(العلق:1)اسلام سے قبل کا زمانہ بداخلاقی، بداعمالی، اوربرائیوں سے بھر پور تھا، لیکن اس زمانے کا نام بداخلاقی اوربداعمالیوں کا زمانہ نہیں رکھا، بلکہ اس کا نام جہالت کا زمانہ رکھا، معلوم ہوا کہ ہر برائی کا سر چشمہ جہالت ہے اور اس کے مقابلہ میں اسلام کا بنیادی سر چشمہ تعلیم ہے۔ تعلیم کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جتنا اہتمام کیا اور کسی چیز کے بارے میں نہیں کیا، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، تو ان کے کھانے، پہننے اور پہنے کا انتظام نہیں کیا، بلکہ اولاً تعلیم کا بندوبست کیا، جیسے:﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا﴾․ (البقرة:31)کے انہیں اشیا کے نام سکھلا کر ملائکہ سے مقابلہ کرایا اور وہ کام یاب ہوئے تو خلافت سے بہرہ ور کیا اور خلافت کا تاج سر پر رکھا۔ اس کے بعد فرمایا: ﴿اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّة﴾َ ، تو رہنے سہنے کا انتظام بعد میں ہوا، پہلے تعلیم کا انتظام کیا۔ معلوم ہوا کہ علم اور تعلیم کا بہت درجہ ہے۔

دنیا ایک تعلیم گاہ ہے

بغیر تعلیم کے حیوان اور انسان میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر اس پر اکتفا نہیں کہ باپ کو تعلیم دیتے اور بس کرتے، بلکہ اولاد کو بھی تعلیم دی۔

حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پشت پر دایاں ہاتھ مارا تو نیک اولادنکلی اور بایاں ہاتھ مارا تو بری اولا دنکلی اور اس کے بعد تمام کو وادی ذاران میں جمع کر کے ان (دونوں) سے خطاب کیا۔ اور فرمایا: ﴿الَستُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی﴾(الأعراف:172) تو اس سے بھی مقصود تمام کو تعلیم دینا تھی ربوبیت کے بارے میں کہ میں تمہارا رب ہوں۔ تو اس سے بھی تعلیم کا اہتمام معلوم ہوا، گویا دنیا ایک مدرسہ ہے اور تمام انسان اس کے طالب علم ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے معلم ہیں اور انبیا علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے خصوصی شاگرد ہیں، تو دنیا کی پیدائش کا مقصد تعلیم ہے اور اس کے بعد عبادت ہے، حسن معاشرت ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے کہ طالب علم کے لیے وظیفہ ہو، تا کہ کھانا پینا اور رزق حاصل ہو تو اس کے لیے زمین اور دریا بنائے، مطالعہ کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے تو چاند ستارے اور سورج کو پیدا کیا، تو جب ہم اس دنیا سے قبر میں جائیں گے اسی تعلیم سے متعلق سوال ہوگا (مَنْ رَّبُّکَ؟) اور اس کا امتحان ہوگا، یہ اول امتحان ہوگا اور بڑا امتحان میدان حشر میں ہوگا۔ کچھ کام یاب ہوں گے اور کچھ نا کام۔کام یاب کو انعامات دیے جائیں گے اور نا کام کو سزادی جائے گی اور اس امتحان میں تمام شریک ہوں گے۔

اس میں بوڑھے، جوان اور بچے کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اگر چہ عالم ارواح میں تو تمام کی روح یکساں تھیں، مگر آخر عمر کے اعتبار سے کہ جو پیدائش کے بعد جلدی مرے گا تو وہ بچپن اور جو جوانی میں مرے گا وہ جوان اور جو بڑھاپے میں وہ بوڑھا، تو ان روحوں میں بھی جوان، بچے اور بوڑھے اس اعتبار سے تھے، اس لیے تعلیم کا اتنا لحاظ رکھا گیا کہ جوان، بچے اور عمر رسیدہ تمام سے امتحان ہوگا، تو تعلیم ایک بنیادی چیز ہے اور دنیا کے آباد کرنے کا مقصد یہی ہے۔

عورتوں کی تعلیمی ذمہ داری اور اس کے نتائج و اثرات

تعلیم کا سلسلہ عورتوں کے لیے بھیبہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ ابتدائی تربیت یہیں سے شروع ہوئی ہے۔ قوم کی تعلیم کا دارو مدار ماں کی تعلیم پر ہے، اگر وہ جاہل ہے تو قوم جاہل رہے گی الا ماشاء اللہ ، جس کی فطرت سلیم، ہو اگر وہ عالم ہوئی تو اولاد بھی عالم ہوگی، اگر والدہ کے قلب میں تعلیم کی طرف رغبت موجود ہو تو بچے بھی اس کی رغبت سے فیض یاب ہوں گے، اگر ماں خود رغبت سے خالی ہے تو بچے بھی ایسے ہی رہیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت بھی سب سے پہلے اس کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ دائیں کان میں اذان دی جاتی ہے، جس میں توحید و رسالت اور عبادت کی تعلیم ہے، تو اس اذان کے ذریعے اصول وفروع عقائد و اعمال کی تعلیم دی جاتی ہے اور حی علی الفلاح میں اس کا انجام اور نتیجہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ فلاح اور کام یابی ہے، جو آخرت میں تمہیں میسر ہوگی تو ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے اسلام میں تعلیم کا کتنا بڑا مرتبہ اور درجہ ہے، اسی لیے اس پر زور دیا گیا ہے:

”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ ومُسْلِمَةٍ“ (المعجم الأوسط للطبرانی) علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے، تا کہ علم حاصل کرنے کے بعد ہر مسلمان مرد و عورت کو معلوم ہو جائے کہ میں کیسا مسلمان ہوں اور مسلمان کے کیسے اخلاق ہونے چاہییں، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں سے ادب و احترام سے پیش آنا ، رہنے سہنے اورحسن معاشرت کا طرزعمل معلوم ہو، اس لیے تعلیم واجب قرار دے دی گئی ہے تمام پر، خواہ مرد ہو یا عورت ، اس کے بعد دوسرے اعمال کی تعلیم دی جاتی ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو عبادت کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔

تو حقیقت میں یہ مقصد عورتوں سے ہی حاصل ہوتا ہے کہ جب ماں تعلیم یافتہ ہوگی ، بچے کو بھی تعلیم سے آشنا کر دے گی، جس سے اس کے اخلاق سدھر جائیں گے اور اگر بالفرض ماں بچے کو تعلیم نہ بھی دے، مگر وہ ماں نیکو کار اور با اخلاق ہے تو اس کی نیکوکاری اور حسنِ اخلاق کی برکت سے اولاد بھی دین دار بن جائے گی۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو قوم میری فرماں برداری کرتی ہے تو میں اس کی سات پشتوں تک اور نسلوں تک رحمت کو بھیجا کرتا ہوں اور اگر فرماں برداری نہیں کرتی اس کی سات پشتوں تک لعنت بھیجا کرتا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی نیکوکاری اور بدکاری کا بڑا اثر ہے جو سات پشتوں تک جاتا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ والدین جیسے ہوں ویسے ہی ان کے بچے بھی اثر قبول کرتے ہیں۔ اگر والدین عالم ہیں تو بچے میں بھی علم کا اثر ہوگا کہ وہ جائز و ناجائز کے مطابق گفت وشنید کرتا ہوگا۔ اگر دکان دار ہیں تو بچے میں بھی دکان داری کے اثرات، حساب وغیرہ کچھ نہ کچھ موجود ہوں گے۔ اگر والدین کھیتی باڑی کرتے ہیں تو بچے میں بھی اس کا اثر موجود ہوگا، تو یہ اثر ہے ماں کے ماحول کا بچے پر اثر ہوگا۔ اب سب سے پہلاحق انسان پر اپنے نفس کا ہے۔ دوسرا حق اولاد کو پڑھانا کہ وہ صحیح راستہ پر چلے، یعنی مخلوق کا ہے اور تیسرا حق معاشرے کا ہے اور یہ تینوں علم پر موقوف ہیں تو جتنا علم حاصل کریں گے خاندان علمی بنتا جائے گا اور ماحول خوش گوار ہوتا جائے گا۔

ملکہ کے تقوے کا اس کی اولاد پر اثر

امیر عبد الرحمن خان والی کابل کے دادا امیر دوست محمد کا واقعہ ہے کہ اس کے ملک پر کسی نے چڑھائی کی ، اس کی سرکوبی کے لیے اس نے ایک فوج اپنے ولی عہد شہزادے کے ہاتھ بھیجی، دو تین دن بعد اطلاع آئی کہ شہزادے کو شکست ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا آرہا ہے اور دشمن اس کے پیچھے ہے، اس سے بادشاہ کو بہت صدمہ ہوا اور کئی غم سوار ہوئے ۔ شکست کا غم ، شہزادے کی کم زوری کا اور قوم کی ملامت کا، تو وہ اس غم کے اندر محو ہو کر گھر آیا اور بیگم صاحبہ سے تمام قصہ سنایا۔ بیگم نے کہا کہ یہ سارا قصہ غلط ہے۔ امیر نے کہا: سی آئی ڈی کی رپورٹ ہے، وہ کیسے غلط ہوسکتی ہے؟ مگر بیگم نہ مانی کہ شکست ہر گز نہیں ہو سکتی، تو بادشاہ گھر سے نکل آیا کہ یہ عورت ہے۔ یہ مرغے کی ایک ٹانگ ہانکے گی۔ دوسرے دن اطلاع آئی کہ وہ خبر غلط ہے، شہزادہ فتح پا کر واپس آ رہا ہے۔ اس پر بیگم نے شہزادے کی سلامتی اور فتح یابی پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

بادشاہ نے پوچھا، تجھے کیسے معلوم ہوا تھا کہ وہ شکست نہیں کھا سکتا؟ کیا دلیل ہے تیرے پاس کہ میری پوری حکومت کو تو نے جھٹلایا ؟ اس نے کہا کہ کچھ نہیں، صرف اللہ تعالی نے میرے لاج رکھ لی، یہ میرا راز ہے، میں اس کو فاش نہیں کرنا چاہتی۔

آخر اصرار کرنے پر بتایا، جب شہزادہ میرے پیٹ میں آیا تو میں نے اس وقت سے عہد کر لیا تھا کہ میرے پیٹ میں مشتبہ لقمہ نہیں آنا چاہیے، اس لیے کہ حلال غذا سے اچھی طبیعت اور اچھے اخلاق بنتے ہیں اور حرام غذا سے طبیعت فاسد ہوتی ہے اور اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ شہزادہ نومہینے تک میرے پیٹ میں رہا اور ایک لقمہ غذا کا میں نے ایسانہیں کھایا جو مشتبہ ہو، اس لیے اس کے اخلاق رذیل اور برے نہیں ہو سکتے۔ شہید ہونا یہ اچھا خلق ہے اور پشت پھیرنا یہ اچھا خلق نہیں ہے، تو شہزادہ شہید ہوسکتا ہے اور کٹ کر مر سکتا ہے، مگر پشت پھیر کے فرار نہیں ہو سکتا۔

اور پھر اس پر بس نہیں، بلکہ جب یہ شہزادہ پیدا ہوا تب بھی مشتبہ غذا استعمال نہیں کی، تا کہ اس غذا سے دودھ بن کر اس کے اخلاق پر اثر انداز نہ ہو۔ اور جب دودھ پلاتی تو وضو کر کے اور دو رکعت نفل ادا کر کے پلاتی ، اس لیے ان چیزوں سے شہزادے کے اخلاق بہت بلند ہونے چاہییں، اس لیے میں نے تمہاری ساری فوج اور حکومت کی بات کو جھٹلایا، مگر اپنے قول سے باز نہیں آئی۔

جب امیر دوست محمد کی بیگم اتنی متقی بن سکتی ہے جب کہ آرام وعیش کے تمام اسباب موجود ہیں ۔ تخت پر بیٹھ کر متقی بن سکتی ہے تو ہماری آج کل کی بہنیں جھونپڑیوں میں رہ کر کیوں کامل نہیں ہو سکتیں؟ جو رکاوٹیں ان کو تھیں وہ تمہیں نہیں۔ بعض لوگ حیلہ جو ہوتے ہیں اور ہر کام اور ہر بات میں حیلہ تلاش کرتے ہیں، مگر حیلوں سے کچھ نہیں بنے گا۔ اور یہی حیلہ کرنے والے قیامت کے دن بھی حیلہ سازی کریں گے اور کہیں گے کہ ہمیں وقت نہیں ملا ، اس لیے اطاعت نہیں کی، بلکہ دولت میں مشغول رہے اور اس سے فرصت نہیں ملی تو اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان اور حضرت یوسف علیہما السلام کو پیش کریں گے کہ باوجود اتنی دنیا اور دولت کے اللہ کے مقبول بندے اور نبی ہیں۔

حضرت سیدہ عائشہ رضی الله عنہاکا علمی مقام

ایسے حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم جیسے مردان ہمت تھے، ان کی عورتیں بھی ایسی تھیں اور ایسے ازواج مطہرات رضی الله عنہن بھی، حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:میری وحی کا آدھا علم صحابہ رضی الله عنہم سے اور آدھا علم صرف حضرت عائشہ رضی الله عنہاسے سیکھو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے بہت بڑے بڑے درجہ کے تابعین رحمة الله علیہم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم ، جیسے حضرت ابن عباس رضی الله عنہما وغیرہ شاگرد رہے ہیں، تو جب حضرت عائشہ رضی الله عنہا وحی کا آدھا علم سیکھ سکتی ہیں تو آج کل کی بہنیں ابتدائی حالات اسلام کے اور معاملات کا علم بھی حاصل نہیں کر سکتیں؟ حضرت امام ابو جعفر طحاوی رحمة الله علیہ کی حدیث کی کتاب کا املا ان کی لڑکی نے لکھا تھا ، آج تمام اُمت پر اس کا احسان ہے۔ حضرت رابعہ بصری رحمہا الله بڑے صوفیا میں سے گزری ہیں۔

عورت اور منصب افتا

فقہ کی کتاب ”بدائع الصنائع“ کی وجہ تصنیف یہ ہوئی کہ ایک بہت بڑے محدث کی لڑکی بڑی عالم اور محدث تھی اور اس کے ساتھ ساتھ حسین اور خوب صورت تھی ، بہت بڑے بڑے علما کے پیغام نکاح کے آئے اور ایسے ہی سلاطین وغیرہ نے بھی پیغام بھیجے، مگر تمام سے اس لڑکی کا علم زیادہ تھا، اس لیے پیغام قبول نہیں ہوتا تھا، اس لڑکی نے یہ شرط مقرر کی کہ تمام علم فقہ میں کتا بیں تصنیف کریں، جس کی کتاب مجھے پسند ہوگی میں اس سے نکاح کر لوں گی اس پر ہزاروں کتابوں کی تصنیف ہوئی تو اسے بدائع الصنائع پسند آئی ، اور اس سے اس نے نکاح کیا ۔ آج کل اگر ہماری بہنیں کمال اور مہارت حاصل نہ کر سکیں تو کم از کم حقوق کی ادائیگی کا علم تو حاصل کر لیں کہ خاوند کے یہ حقوق ہیں اور بچوں کے یہ حقوق ہیں۔

مقصد علم

اور ”وقائع“ میں لکھا ہوا ہے کہ سلجوقی کے عہد میں مدرسہ نظامیہ بنایا گیا، شیخ تقی الدین ابن دقیق العید اس مدرسہ کے صدر مدرس تھے، بعد عرصہ مدید کے معلوم ہوا کہ پڑھنے والوں کی نیتیں فاسد ہیں تو بادشاہ وقت نے ارادہ کیا کہ مدرسے کو ختم کر دوں ، مگر خیال آیا کہ ایک دفعہ دیکھ لوں کہ واقعی سب کی نیتیں فاسد ہیں کہ نہیں؟

چناں چہ ایک رات نظام الملک خود آیا، ایک ایک طالب علم سے سوال کرتا رہا تم کس لیے پڑھ رہے ہو؟ کوئی جواب دیتا کہ میرا والد بادشاہ کا قاضی ہے، میں اس لیے پڑھ رہا ہوں میں کہ میں بھی قاضی بن جاؤں ۔ کوئی کہتا کہ میرا والد بہت معروف اور مشہور عالم ہے۔ اطراف میں اس کی شہرت کا ڈنکا بج چکا ہے، تو میں اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ میری بھی شہرت ہو جائے۔ وغیر ذلک۔

نظام الملک نے تمام طلبا کو دیکھا کہ ان کی نیتیں فاسد ہیں ، تو تہیہ کر لیا کہ مدرسے کو بند کر دیا جائے۔ میرے لاکھوں روپے ضائع ہو رہے ہیں۔ صحیح نیت سے کوئی نہیں پڑھتا کہ ثواب حاصل ہو جائے، اس فیصلہ پر پہنچ چکا تھا کہ اس کی نظر ایک طالب علم پر پڑی، جو مطالعہ میں مستغرق تھا۔ نظام الملک اس کے پاس گیا، مگر اس طالب علم نے کتاب سے ایک لمحہ کے لیے نگاہ نہ اٹھائی۔ پوچھا:تم بڑے مستغنی ہو؟کہا:میرا مقصد کتاب کا مطالعہ کرنا ہے، چہروں کا مطالعہ کرنا نہیں۔ نظام الملک نے پوچھا:تمہارا ایک دو منٹ کے لیے حرج تو ہوگا لیکن یہبتاؤ کہ آپ کا اس پڑھنے سے مقصد کیا ہے؟ تو اس نے کہا:میں نے ماں باپ سے سنا ہے ہمارا ایک خدا ہے جس نے ہمیں زندگی عطا کی ہے۔ وہ ایک محسن ہے اور اس کے حقوق مجھے معلوم نہیں تو میں محسن کے حقوق جاننے کے لیے تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ نظام الملک نے کہا: میرا تو ارادہ اس مدرسے کے توڑنے اور بند کرنے کا تھا، لیکن جب تک تم اس مدرسہ میں پڑھتے رہو گے تمہاری وجہ سے مدرسہ جاری رہے گا۔ یہ طالب علم حضرت امام غزالی رحمہ الله تھے ۔ چناں چہ نظام الملک نے اس مدرسے کو باقی رکھا۔ معلوم ہوا اصلی مقصد علم سے حقوق کی ادائیگی ہے اور ہم میں سے کون ہے جس پر حقوق نہیں ہیں۔ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، تمام پر حقوق ہیں، تو ان حقوق کے بتلانے کے لیے تعلیم سکھائی جاتی ہے۔

تعلیم حق فطرت و عقل ہے

تعلیم ایک فطری چیز ہے کہ فطر تاًمحسن کا حق ادا کرنا چاہیے اور عقلی بھی ہے، تو جو جاہل ہے وہ فطرت اور عقل دونوں کے خلاف کر رہا ہے اور احکام شرعیہ و عقلیہ کے خلاف کر رہا ہے، ہمیں اپنی بچیوں سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ محسن کشی کریں گی اور عقل و فطرت کو آگ لگائیں گی۔

عورت کی صلاحیت

اکثر عورتوں کو یہ خلجان اور شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ترقی اور علم وفضل کا میدان مردوں کے لیے ہے اور عورت تو گھر میں بیٹھنے والی ہے، اس کو علم سے کیا واسطہ؟ مگر ان کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ تاریخ اس کو جھٹلاتی ہے، بلکہ کتابوں سے عورتوں کے بڑے فضائل معلوم ہوتے ہیں۔

”صفة الصفوة“ ایک کتاب ہے، اس میں مستقل عورتوں کا ایک باب باندھا گیا ہے۔ ان کی سیاست ، ان کی تعلیم اور جہاد کا بیان ہے، حتی کہ عورتوں کی کشتی کا بھی بیان ہے کہ انھوں نے کشتی میں بڑے بڑے بہادر مردوں کو پچھاڑ دیا، تو تاریخ اس کو جھٹلاتی ہے، بلکہ عورتوں نے میدان جنگ میں کام کیا ہے۔

عورت کی نبوت

دوسری بات یہ ہے کہ دین مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہاں! بعض چیزیں ایسی ہیں جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے رسالت اور قاضی القضاة کا عہدہ کہ عورت رسول اور قاضی القضاة نہیں بن سکتی، کیوں کہ اس کی قابلیت عورت میں نہیں ، مگر سب سے بڑا کمال جو نبوت کا ہے، ایک بڑی جماعت اس پر ہے کہ عورت کو نبوت مل سکتی ہے۔ ابن حزم بھی یہی کہتے ہیں، اگر چہ جمہور کا یہ مسلک نہیں ، جس جماعت نے اس کا قول لیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی آتی رہی، تو وہ نبی ہیں، فرعون کی بیوی آسیہ رضی الله عنہا نبی تھی ، تو جب اس قول کے مطابق عورت کو نبوت، جو ایک اعلیٰ درجہ کا کمال ہے، اس کا حصول ممکن ہے تو اور کیا کمال چاہیے؟ اور کون سی فضیلت ہے جس کو وہ حاصل نہیں کر سکتی؟ قرآن مجید میں ہے:﴿إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمْتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنتِ… الآیة﴾․ (الاحزاب:35) اس آیت میں مرد اور عورت کو برابر کا درجہ دیا ہے۔ عبادات ، اخلاق اور معاملات میں یکساں ہیں تو مبدائے فیاض سے فرق نہیں، عقل اور نقل اس کو جھٹلاتی ہے، حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ اہتمام تعلیم کا ہے۔

عورتوں کی دینی ترقی

انبیاعلیہم السلام کو بھی اس کا اہتمام ہے، امت کے بڑوں اور نامور لوگوں کو بھی اس کا اہتمام ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ہماری بچیاں جہل کو چھوڑ کر دینی تعلیم کی طرف نہیں آسکتیں، تو مدرسہ خیر المدارس کا یہ شعبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ عورتیں اور بچیاں بھی ترقی میں حصہ لے رہی ہیں اور دین کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں کہ اصل ترقی یہی ہے۔

عورتوں کی عمومی تعلیم

ایک دور میں یہ بات تھی کہ مخصوص گھرانے علم سے مختص ہو گئے اور مائیں اولاد کو تعلیم سکھاتی تھیں، مگر اب یہ اختصاص نہیں، تو خیر المدارس کا یہ شعبہ پوری قوم کے لیے خوشی کی بات ہے، عورتیں اس میں تعلیم حاصل کریں تو آئندہ چل کر نسلیں نیک بنیں گی۔ عورتوں کے لیے اب یہ موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں۔

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو دن دوگنی، رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین ثُمَّ آمین․