آج ہمارا بود وباش کا طریقہ غیر اسلامی ہوگیا ہے، لباس میں یہود ونصاری کی نقل ہورہی ہے، سر سے پاوٴں تک ایک مسلمان ایسے لباس میں ملبوس نظر آتا ہے جو کفار وفساق کا شعار ہے، عورتوں میں عریانی اور بے حیائی کے مظاہر اس قدر عام ہیں کہ ایک شریف باحیا انسان کی نظریں شرم وغیرت سے جھک جاتی ہیں، گھروں میں مورتیوں اور تصویروں کی بھر مار ہے، گانے بجانے کا شغل عام ہوگیا ہے، یہ حیا سوز حرکتیں آج فیشن کا جزوِ لاینفک بنی ہوئی ہیں، کاروبار میں جھوٹ، فریب اور دھوکہ، لوٹ مار روزہ مرہ کا دستور بنے ہوئے ہیں، سود اور جوئے کو برائی اور گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا، حلال کی نہیں، حرام کی حرص زیادہ سے زیادہ ہوتی جارہی ہے، بغض وحسد، ریا کاری اور منافقت کا چلن اتنا ہے کہ کوئی بھی پاک نظر نہیں آتا، یہ سب اس لیے ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور ان کی تعلیمات کی پیروی چھوڑ دی ہے، حالاں کہ جس خسارے اور نقصان سے آج ہماری قوم دوچار ہے اگر اسی کا صحیح صحیح جائزہ لے کر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ احکام اسلام سے روگردانی ہی ہماری بیمار قوم کا اصل مرض ہے اور اس کا علاج صرف دامنِ رسالت علی صاحبہا الصلوة والسلام سے وابستگی ہے اور کچھ نہیں۔
دنیا نے آپ کے دامن سے وابستہ رہ کر کام یاب زندگی کا تجربہ کیا ہے،آج کے جدید دور کے تقاضوں کے پیشِ نظر بھی کام یابی حاصل کرنے کے لیے اسی دامن سے وابستگی شرطِ اول ہے، یہ فریب اور دھوکہ ہے کہ آج کے تقاضے اور ہیں اور آج چودہ سو سال پہلے کی تعلیمات کار گر اور مفید نہیں ہیں، صداقت، خلوص اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑنے اور اسلامی احکام کی پیروی کرنے کی قیمت اور اہمیت لازوال ہے، یہ وقت گزرنے کے ساتھ پرانے نہیں ہوتے، بلکہ ان کی عظمت کو اور چار چاند لگتے ہیں، زمانہ آج بھی پکار پکار کر ان کی عبقریت کی گواہی دے رہا ہے، پوری دنیا آج انسانوں کے نامعقول اور نامکمل دساتیر کی زبوں حالی کی پکار پکار کر شہادت دے رہی ہے اور زبان حال سے اللہ تعالیٰ کے قانون ودستور کی عظمت واہمیت کی تائید کر رہی ہے۔ کاش! مسلمان اس متاع گم گشتہ کو پھر از سر نو سنبھال لیں اور تعلیمات پیغمبر پر عمل پیرا ہو جائیں تو اس میں ان کا بھی بھلا ہے اور پوری انسانیت کا بھی بھلا ہے۔