حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا﴾․ (سورہ مریم، آیت:96)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! اس دنیا کا اگر آپ مشاہدہ فرمائیں، تو یہاں دو چیزوں کو جو ڑنے کے لیے کسی تیسری چیز کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثلاً آپ دو اینٹوں کو جوڑنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سیمنٹ چاہیے ، آپ سیمنٹ کے ذریعے دو اینٹوں کو جوڑنا چاہیں تو جڑ جائے گی۔ آپ دو کاغذ آپس میں جوڑنا چاہیں تو آپ کوگلو چاہیے ، یہ آپ کا غذپر لگائیں گے تویہ دونوں کاغذ آپس میں جڑ جائیں گے۔
لیکن اگر ان دو کا غذوں کو آپ سیمنٹ سے جوڑنا چاہیں گے تو نہیں جڑیں گے ، تو دو اینٹوں کے لیے سیمنٹ چاہیے ۔ دو کاغذوں کے لیے گوند اور گلو چاہیے ۔ دو لکڑی کے ٹکڑے ہیں، انہیں آپ جوڑنا چاہیں تو اس کے لیے کیل چاہیے، کیل لگائیں گے تو لکڑی کے یہ دو ٹکڑے آپس میں جڑ جائیں گے۔ایسے ہی لوہے کے دو ٹکڑوں کو آپ جوڑنا چاہیں تو ویلڈنگ کی ضرورت پڑتی ہے، ویلڈنگ کے ذریعے آپ لوہے کے دو ٹکڑوں کو جوڑ سکتے ہیں، ایسے ہی پلا سٹک کے دو ٹکڑوں کو آپ سیمنٹ سے جوڑنا چاہیں گے تو نہیں جڑیں گے ، گلو سے نہیں جڑیں گے ، اس کے لیے آپ ایلفی استعمال کریں گے، ایسی ہیکپڑے کے دو ٹکڑوں کو جوڑنے کے لیے آپ کیل استعمال کریں ، گلو استعمال کریں، ویلڈنگ استعمال کریں تو کپڑے کے دو ٹکڑے نہیں جُڑیں گے، اس کے لیے سوئی دھا گہ چاہیے، یہ عام مشاہدہ ہے، صبح شام کامشاہدہ ہے کہ دو چیزیں کیسے جڑتی ہیں ، ہر چیز کے لیے خاص طریقہ ہے۔
ایسے ہی دو دلوں کو اگر آپ جو ڑنا چاہتے ہیں۔ تو کیا دو دلوں کو سیمنٹ سے، کیل سے جوڑ سکتے ہیں ؟ گوند سے جوڑ سکتے ہیں ؟ ایلفی سے، سوئی دھاگے سے جوڑ سکتے ہیں ؟ دو دل کیسے جڑیں گے آپس میں ؟ دو دل جڑیں گے:﴿إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا﴾․
جب ایمان ہوگا ، جب اعمال صالحہ ہوں گے، بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ﴿ِسَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا﴾
․ الله تعالیٰ ان میں محبت پیدا فرما دیں گے۔
اب یہاں تین چیزیں ہیں، ایک چیز تو یہ ہے کہ ہم مخلوق ہیں۔ بندے ہیں، ہم عبد ہیں ، ہمارے خالق اللہ ہیں ، ہمارے معبود اللہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ، الحمد للہ ،الله تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ بات ڈالی، ہمارا رب الله ہے اور ہم بڑے خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا بندہ بنایا اور اپنا تعارف اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے عطا فرمایا۔
ظاہر ہے کہ اگر اگرانبیاء علیہم السلام نہ آتے ، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نہ آتے تو ہمیں کون بتاتا کہ الله ہیں؟! الله کا تعارف تو انبیاء کرواتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں بتایا :” ایھا الناس، قولوا لا الہ الا الله“
اے لوگو!اللہ کی الوہیت کا اقرار کرو، تفلحوا، کام یاب ہو جاؤ گے۔
چناں چہ ایک ہے بندے اور معبود کی، مخلوق اور خالق کی آپس میں محبت ، آپ نے سنا ہے، صبح شام زبان پر یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ فلاں اللہ کا ولی ہے، اولیاء اللہ ، اللہ کے ولی کا کیا مطلب ہے ؟ اللہ کا دوست ، تو یہ لوگ اللہ کے دوست کیسے بنتے ہیں؟ اللہ سے تعلق کیسیقائم ہوتا ہے ؟ سیمنٹ کے ذریعے سے؟ یا سوئی دھاگے کے ذریعے سے؟ یا ایلفی کے ذریعے سے؟ اور کیسا تعلق ؟ ایسا تعلق کہ گردن اڑوادی ، تو وہ تعلق جو اللہ سے قائم ہوتا ہے وہ بھی ایمان کی بنیاد پر ، جتنا ایمان قوی ہوگا آدمی اتنا الله کا دوست ہوگا ، آپ نے نام سنا ہوگا حضرت ابراہیم ادھم رحمةالله علیہ کا ، بہت بڑے الله کے ولی گزرے ہیں،لیکن یہ اس مقام پر پہنچنے سے پہلے بادشاہ تھے۔
چناں چہ ایک رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ہے اور وہ ان کے کمرے میں بیٹھا ہوا ہے،کمرے میں روشنی ہے اور وہ پرچے پہ کچھ لکھ رہا ہے تو انہوں نے پوچھا کہ بھائی! تم کیا لکھ رہے ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں ان لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں جو اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔ تو انہوں نے پوچھا کہ یہ جو فہرست ہے اس میں میرا نام بھی ہے ؟ تو اس نے کہا کہ آپ تو بادشاہ ہیں ، آپ کا نام نہیں اس میں ، یہ تو وہ لوگ ہیں جو الله سے محبت کرتے ہیں ۔
تو انہیں بڑا افسوس ہوا کہ میرا نام نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ چلو تم میرا ایسی فہرست میں لکھ لو جس میں لوگ الله کے بندوں سے محبت کرتے ہیں ،اس فہرست میں میرا نام لکھ لو ، تو اس نے کہا ٹھیک ہے ،میں اس فہرست میں آپ کا نام لکھ لیتا ہوں ، اس کے بعد پھر ایک دن خواب دیکھاکہ ایک آدمی کمرے میں بیٹھا ہے او رنام لکھ رہا ہے، تو انہوں نے پوچھا کہ کن کے نام لکھ رہے ہو؟ تو اس نے کہا میں ان لوگوں کے نام لکھ رہاہوں جو الله کے بندوں سے بہت کرتے ہیں ۔ انہوں نے پو چھا کہ میرا نام اس میں ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں، تمہارا نام اس میں ہے۔ چناں چہ اللہ کے بندوں سے جو اللہ کے لیے محبت کرے ۔
آپ یاد رکھیں کہ جس محبت کا تذکرہ ہورہا ہے۔ اس سے خواہشات نفسانیہ والی محبت مراد نہیں ، اس لیے کہ وہ محبت نہیں ہوتی، وہ خواہش نفسانی ہوتی ہے اور جیسے ہی خواہش نفسانی ختم ہوتی ہے تو محبت دل سے اتر جاتی ہے۔
یہ تو وہ محبت ہے جو الله کے لیے ہو، چناں چہ جو لوگ اللہ کے لیے اللہ کے بندوں سے محبت کرتے ہیں، جیسے انبیائے کرام علیہم السلام، جیسے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین ،جیسے تابعین رحمہم اللہ ، جیسے تبع تابعین رحمہم اللہ، جیسے اولیائے کرام، بزرگان دین اللہ کے بندوں سے محبت کرتے ہیں، کس لیے کرتے ہیں ؟ اللہ کے لیے کرتے ہیں ۔
آپ نے نام سنا ہو گا حضرت عبدالله بن مبارک رحمة الله علیہ، بہت بڑے محدث ہیں، بہت بڑے فقیہ ہیں، بہت بڑے مجاہد ہیں، بہت بڑے عابد اور زاہد ہیں اور بہت بڑے تاجر ہیں، اپنی تجارت کے منافع حرمین کے عباد وزہاد فقہاء ومحدثین پر خرچ کرتے تھے۔
کسی نے ان سے سوال کیا اور پیغام بھیجا کہ مجھے سات700 دینار چاہئیں تو حضرت عبد الله بن المبارک رحمہ الله نے اسے سات ہزار دینار بھیجے۔ کسی نے کہا کہ حضرت! اس نے تو آپ سے سات سو دینار مانگے تھے، آپ نے سات ہزار دینار کیوں بھیجے ؟تو فرمایا کہ جب اس کو سات ہزار دینار ملیں گے تو ایک دم خوش ہو جائے گا اور جب یہ خوش ہو گا اچانک تو یہ الله کو بہت پسند ہے اور ایسا شخص جو دوسرے کو اچانک بہت بڑی خوشی دے الله اس کے پچھلے سار ے گناہ معاف فرما دیتے ہیں، میں تو یہ فضیلت حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ الله تعالیٰ سے تعلق ،آج بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہم اللہ کو اپنا الٰہ مانتے ہیں ، اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں ، اللہ کو اپنا خالق مانتے ہیں، اللہ کو اپنا مالک مانتے ہیں، لیکن اللہ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ، دوستی نہیں اور میں نے ابھی عرض کیا کہ ہم دنیا کے خوش قسمت ترین لوگوں میں ہیں، جنہیں اس نے اپنا تعارف عطا فرمایا۔ میں ایک دفعہ برما گیا ، وہاں جامعہ کے فضلاء بہت ہیں ماشاء اللہ ۔ ایک دن ساتھی مجھ سے کہنے لگے کہ آئیے آج ہم آپ کو ایک ایسابازار دکھاتے ہیں جہاں خدا فروخت ہوتے ہیں، جیسے سبزی منڈی میں کیا بکتا ہے؟ سبزی،فروٹ مندی میں کیا بکتا ہے ؟ فروٹ ، ایسے ہی مختلف منڈیاں، بازار ہوتے ہیں ، جو کچھ خاص چیزوں کے لیے خاص ہوتے ہیں، کوئی لوہا خریدے گا، لوہے کے بازار میں جائے گا، لکڑی خریدے گا، لکڑی کے بازار میں جائے گا، اجناس خریدے گا، اجناس کے باز میں جائے گا، فروٹ خریدنا ہو گا تو فروٹ کے بازار میں جائے گا۔
تو انہوں ے کہا کہ ہم آپ کو ایسے بازار میں لے چلتے ہیں جہاں خدا فروخت ہوتے ہیں، ہم گئے ، دونوں طرف دکانیں ہیں اور ہر ہر دکان خداؤں سے بھری ہوئی ہے، اتنا بڑا خدا ، اتنا بڑاخدا ، پانچ روپے کا خدا ، دس روپے کا خدا ، بیس روپے کا خدا ، لوگ خرید رہے ہیں اپنے خدا کو۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ الله تعالیٰ نے ہمیں ایمان عطا فرمایا اپنا تعارف عطا فر مایا وہ اللہ جس نے ساتوں آسمان بنائے ہیں ، وہ اللہ جس نے ساتوں زمینیں بنائی ہیں، وہ اللہ جس نے سورج چاند بنایا ہے ، وہ الله جس نے ستارے سیارے بنائے ہیں ، وہ الله جس نے سمندر پیدا فرمائے ہیں ، یہ دریا ،یہ ندیاں ، یہ نالے ،یہ پہاڑ، سب کچھ اللہ نے بنایا جنت الله نے بنائی، جہنم اللہ نے بنائی ، فرشتے الله نے پیدا کیے، ہم تو اس الله کے بندے ہیں ۔ ہم یہ بازاروں میں بکنے والے خداؤں کے بندے نہیں ہیں ، خدا خر یدا بیس روپے میں، جیب میں رکھا ہوا ہے :﴿إِنَّا ِلِلَّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾
، عقلوں پہ کیسے پردے پڑے ہوئے ہیں:﴿خَتَمَ اللَّہُ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ وَعَلَیٰ سَمْعِہِمْ وَعَلَیٰ أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ﴾․(سورة البقرہ، آیت:7)
آج اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس آدمی کو جو نا پاک قطرے سے پیدا ہوا ہے، جو پیشاب کرتا ہے، جو پاخانہ کرتا ہے ، جو بیمار ہوتا ہے ،جو داڑھی مونڈتا ہے ، جو زنا کرتا ہے، جو ریس کھیلتا ہے، اس کو خدا بنایا ہوا ہے اور ایسا خدا بنایا ہوا ہے کہ ان لوگوں کی بچیوں کی شادیاں نہیں ہوتیں جب تک وہ ان کا بنایا ہوا خدا نہ آجائے اور وہ سینکڑوں بچیاں ہوتی ہیں ۔ ان سب کو زمین پر لٹایا جاتا ہے ، ایک صف ہوتی ہے ،جس میں لڑکیاں لیٹی ہوئی ہیں، ان کے پاؤں مشرق کی طرف اور پھر انہی کے بالکل ساتھ دوسری صف میں لڑکیاں لیٹی ہوئی ہیں اور ان کے پاؤں مغرب کی طرف ، اب دونوں کے سر ایک دوسرے کے قریب ہوگئے اور ان دونوں صفوں میں جو بچیاں لیٹی ہوئی ہیں ان کے بال پھیلے ہوئے ہیں، مشرق والی بچیوں کے بال مغرب کی طرف پھیلے ہوئے ہیں اور مغرب والی بچیوں کے بال مشرق کی طرف پھیلے ہوئے ہیں اور درمیان میں ان بالوں سے راستہ بنایا ہوا ہے ، یہ شخص آتا ہے اور ان بالوں پر چلتا ہے، وہ کون ہے ؟ ان کا خدا ہے ، ساری دنیا جانتی ہے صبح شام اس کی خبریں کہ وہ کلب میں جاتا ہے، فلاں جگہ شراب پیتا ہے۔ فلاں جگہ ریس کھیلتا ہے۔
لیکن ایک طبقہ ہے جنہوں نے اسے خدا بنایا ہوا ہے ، تو میرے دوستو!ہمارے رب تو الله ہیں ،اس اللہ کا تعارف جو ہمیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کروایا ، اس اللہ سے ہمارا تعلق ہو، جوڑ ہو۔ اور میں نے عرض کیا کہ دو چیزوں میں جوڑ کسی تیسری چیز سے ہوتا ہے ، چناں چہ﴿إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا﴾
․
الله ان کے درمیان محبت پیدا فرما دیں گے،ان بندوں میں الله اپنی محبت پیدا فرما دیں گے اور الله ان سے محبت فرمائیں گے۔
﴿إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ﴾
بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ، ثم استقاموا، پھر اس پرڈٹ گئے ، کسی کو نہیں مانتے صرف اللہ کو مانتے ہیں ، لا الہ الا اللہ ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، چاہے جان جاتی ہے جائے ۔ لیکن اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
﴿إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ﴾․
آپ بتائیے! یہ خوشی کااظہار ہے یا ناراضگی کا؟ خوشی کا، کس کی طرف سے؟ رب کی طرف سے ۔ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ ایمان والے ہیں۔
اسی طریقے سے اعمال صالحہ ہیں ، ہم نماز پڑھتے ہیں ، لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ نماز جو پڑھتے ہیں، کیوں پڑھتے ہیں؟ بچپن سے پڑھ رہے ہیں، قیام ہے ،رکوع کر لیا ۔ سجدہ کر لیا ، سلام پھیر لیا ، فجر بھی ہوگئی ۔ ظہر بھی پڑھ لی، عصر، مغرب بھی، عشاء بھی۔
ہم سوچیں کہ اس میں الله سے کوئی تعلق ہے؟ تلاوت کرتے ہیں اور الله کا کلام پڑھتے ہیں، کبھی الله ذکر کی توفیق دے دیتے ہیں ۔ تعلق ہے ؟
اس تعلق کو پیدا کرنا ہوگا ، ایمان کے ذریعے سے ، اعمال صالحہ کے ذریعے سے اور جب یہ ایمان اور اعمال صالحہ اللہ کے لیے ہوں گے ، تو پھر آپ الله کے لیے ہوں گے۔
من کان للہ کان اللہ لہ ، جو الله کا ہو جاتا ہے ، الله اس کے ہو جاتے ہیں ۔ پھر کوئی خوف، کوئی خطرہ ، کوئی پریشانی،کچھ نہیں، کیوں؟ اللہ سے تعلق ہے ۔ اس کائنات میں اللہ سے بڑا کوئی ہے ؟ کسی کی ڈپٹی کمشنر سے دوستی ہو جائے، کیسا اکڑ کے چلتا ہے۔ کسی کی کمشنر سے ہو جائے اور زیادہ اکڑ، کسی کی وزیر سے ہو جائے اور زیادہ، کسی کی وزیراعلیٰ سے ہو جائے تو اس کے پاؤں بھی زمین پر نہیں لگتے ۔
یہ سب کون ہیں ؟ ہگنے والے ،موتنے والے ، مرنے والے ، بخار والے ، پیشاب کی بیماریوں والے ، پیٹ کی بیماریوں والے، عہدے آج ہیں کل نہیں ہیں تو کوئی حیثیت نہیں۔
میرے دوستو! الله سے جس کی دوستی ہو جائے، یا درکھیں اس کے لیے آدمی کو کوشش کرنی ہوگی اور یہ کوشش بہت مبارک ہے ، جب آدمی اللہ سے تعلق کی کوشش کرتا ہے تو اس پہبھی اللہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
نماز کیا ہے؟ اللہ سے ملاقات، الصلواة معراج المومنینآپ صلی الله علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے ، اللہ سے ملاقات ہوئی ، ظاہر ہے میں اور آپ تو نہیں جاسکتے ملاقات کے لیے ، جو مقام اللہ کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ملا ، وہ مجھے اور آپ کو تو نہیں مل سکتا ، لیکن الله تعالیٰ نے اپنے حبیبا کے ذریعے ہمیں بھی معراج عطا فرمادی اور کتنی دفعہ؟ ایک دن میں پانچ مرتبہ، فجر میں بھی معراج، ظہر میں بھی معراج، عصر میں بھی معراج ، مغرب میں بھی معراج، عشاء میں بھی معراج۔
لیکن آپ دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کہ کبھی آپ نے یہ بات سوچی؟ یہی میں عرض کر رہا ہوں، تو ہمارا دعویٰ تو ہے ۔ کہتے تو ہیں کہ ہم اللہ کے بندے ہیں ۔ لیکن ہم اس میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ وضو ہے ، آپ جانتے ہیں نماز جنت کی چابی ہے، اگر آپ کی چابی کے دندانے خراب ہوں، تالا کھلے گا ؟
اورآپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ وضو نماز کی چابی ہے ۔ میری یہ بات یاد رکھنا کہ جس آدمی کا وضو اہتمام سے نہیں ہے، اس کی نماز بھی اہتمام سے نہیں ہو سکتی ، اس لیے کہ نمازمیں تو داخل وضو کے ذریعے سے ہوں گے ، ہمارے ہاں جو بڑی مشکل ہے ،وہ یہ کہ معلومات تو ہیں ، لیکن وہ معلومات معمولات نہیں۔
ہم سوچیں کہ فجرکا بھی وضو کیا تھا۔ ظہر کا بھی کیا تھا ، عصرکا بھی کیا تھا، تو کیا ہم نے بسم اللہ پڑھی تھی ؟ ہو سکتا ہے پڑھی ہو، لیکن میں عمومی بات کر رہا ہوں ، مسواک کی تھی؟ ناک میں تین دفعہ پانی ڈالا تھا؟ وضو تو ہو جاتا ہے ، بغیر بسم اللہ کے بھی وضو ہو جاتا ہے۔ ناک میں پانی ڈالے بغیر بھی وضو ہو جاتا ہے، آپ نے جس کو فارسی میں چار اندام کہتے ہیں،یہ چار فرائض ہیں اگر ان کو کر لیا تووضو ہو گیا۔
وضو کے مستقل معارف ہیں ، وضومعمولی چیز نہیں ۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ چار فرائض ہیں ،ان میں سے دو اوپر ہیں دو نیچے، دو اوپر سے کیا مراد ہے؟ تو چہرے کو دھونا یہ فرض ہے اور سر کا مسح بعض ائمہ فرماتے ہیں کہ پورے سر کا مسح اور احناف کے ہاں چوتھائی سر کا مسح ، یہ دو فرض، جسم کے اندر اوپر ہیں۔ اور دو فرض کہاں ہیں؟ نیچے، دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا اور دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا ، کہ یہ جو اوپر والے دوفرض ہیں ،یہ علمی دنیا ہے، دماغ ،کان آپ جانتے ہیں ، دورہ حدیث کے طلبا بھی ہوں گے کہ سماع کے بغیر حدیث کا باب مکمل ہو جاتا ہے؟
ہمارے حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے آسان ترین سبق وہ حدیث کا سبق ہے ، شیخ مسند پر بیٹھ جائیں اور ایک لفظ بھی نہ بولیں،کوئی طالب علم عبارت پڑھے ۔
حضرت فرماتے تھے کہ یہ سبق سو فیصد مکمل ہے ۔ کوئی ترجمہ ، تشریح توضیح کچھ نہیں،محدثین کے حالات آپ پڑھیں تو آپ کو ملے گا کہ طلباء صبح سے لے کر شام تک احادیث پڑھ رہے ہیں اور شیخ چپ بیٹھے ہیں ، کہیں پر اگر غلطی ہوئی تو ، ہوں ہاں ۔ منھ سے ایک لفظ نہیں ۔ لیکن سبق کامل ہے یا نہیں ؟ کامل ہے ،آنکھ ہے، زبان ہے ، علمی دنیا ہے یا نہیں ؟ دماغ بھی ہے ،کان بھی ہے، آنکھ بھی ہے ،زبان بھی ہے اور نیچے والے کے دو فرض وہ مزدوری والے ہیں ، ہاتھ سے محنت کرتے ہیں ۔ دونوں پیر ہیں ، ان سے مزدوری بھی تو دو فرض ہوئے علمی اور دو فرض ہوئے عملی۔ میں عرض کر رہا تھا کہ الله سے تعلق ہو اور الله سے تعلق کے لیے سنجیدگی ضروری ہے، اس کے لیے فکر ضرور ی ہے اور آپ ذرا سی فکر شروع کریں ،دیکھیے الله تعالیٰ آپ کا ہاتھ کیسے پکڑتے ہیں ،حدیث قدسی ہے: بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔
میرے دوستو! الله تعالیٰ ہمیں اپنی معرفت عطا فرمائے اور الله تعالیٰ ہمیں اس کی فکر عطا فرمائے اور الله تعالیٰ ہمیں اس رخ پر آہستہ آہستہ بڑھنے کی توفیق عطافرمائے۔
الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے!