اسلام دین قیم ہے، اس نے کفر و شرک ، بدعت و ضلالت اور کج راہی وگم راہی کا ایک ایک کانٹا چُن چُن کر صاف کر دیا ، تمام اولادِ آدم کو ایک صاف، سیدھا اور نکھرا ہوا” صراط مستقیم “عطا کیا، جس پر چل کر وہ امن و امان اور راحت وعافیت کی زندگی بسر کر سکے اور مرنے کے بعد قرب ورضا اور جنت و نعیم کی وارث بنے:
﴿تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لَا یُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ﴾․(القصص،آیت:83)
ترجمہ:”یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں جو نہ تو زمین میں سرکشی چاہتے ہیں اور نہ فساد اور اچھا انجام پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے“۔
اسلام نے انسانیت کے اعمال و اخلاق کے تزکیہ کے لیے شروفساد کے تمام راستوں کو مسدود کر دیا ،شرک جو اسلام کی نظر میں سب سے بڑا ظلم ہے تاریخ شاہد ہے کہ وہ دنیا میں مجسموں، مورتیوں اور تصویروں اور فوٹوں کے راستہ سے آیا تھا، اس لیے اسلام نے اس منبع کفر و شرک کو حرام اور تصویر سازوں کو ملعون اور بدترین خلق قرار دے کر اس راستہ کو بند کیا، صحیحین میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے یہ حدیث موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وصال میں ایک دفعہ ازواج مطہرات آپ کے پاس جمع تھیں، کسی تقریب سے ماریہ نامی کنیسہ (گرجا)کا ذکر چھڑا ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ رضی الله عنہن کو،چوں کہ ہجرت حبشہ کے دوران اس کے حالات معلوم کرنے کا موقعہ ملا تھا اس لیے ان دونوں حضرات نے اس کے حسن تعمیر اور وہاں کی آراستہ تصویروں کا تذکرہ کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ گفت گوسُن رہے تھے،بستر علالت سے سراٹھایا اور فرمایا:
”أُولَئِکَ إِذَا مَاتَ فِیہِمُ الرَّجُلُ الصالح بنوا علی قبرہ مسجداً ثُمَّ صَوَّرُوا بہ تلکَ الصُّوَرَ أُولَئِکَ شِرَارُ خَلقِ اللَّہِ“․ (القصص :83)
ترجمہ:”ان لوگوں میں جب کسی نیک آدمی کا انتقال ہو جاتا تو یہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا لیتے، پھران تصویروں سے اسے آراستہ کر لیتے تھے ،یہ لوگ اللہ کی مخلوق میں بد ترین قسم کے لوگ ہیں“ ۔
ایک حدیث میں حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تھے ، آپ کی تشریف آوری سے پہلے میں نے گھر میں ایک طاقچہ پر کپڑے کا پردہ لٹکا دیا، جس میں تصویریں بنی تھیں، جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو چہرہ انور پر غضب کے آثار نمودار ہوئے اور نہایت نفرت کے لہجہ میں فرمایا: ” یَا عَائِشَةُ، إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِندَ اللہِ یَومَ القِیَامَةِ الَّذِینَ یُضَاہُونَ بِخَلْقِ اللَّہِ “ (بخاری ومسلم )
ترجمہ:”عائشہ!قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق یہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی صفت خلق میں ریس کرتے ہیں“۔
صحیح مسلم اور مسند احمد کی حدیث میں ہے:
”انَ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ القَیَامَةِ المُصَوِّرُون․“
ترجمہ:”یقینا سب سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق قیامت کے دن تصویر ساز ہوں گے“ ۔
اور صحیحین اور دوسری کتب حدیث میں بہت سی احادیث صحیحہ مبارکہ موجود ہیں جو جان دار چیزوں کی تصویر سازی کی حرمت اور ملعونیت کو بیان کرتی ہیں اور تمام فقہائے امت نے متفقہ طور پر جان دار چیزوں کی تصاویر کو حرام قرار دیا ہے ۔
تصویر اور فوٹو ایک وبائی فتنہ
بد قسمتی سے عالم کی زمام قیادت کافی عرصہ سے ناخدا شناس تہذیبوں اور بد دین قوموں کے ہاتھ میں ہے ،جن کے یہاں (الاماشاء اللہ) دین و دیانت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور شرم و حیا، عفت و عصمت ، غیرت وحمیت کا لفظ ان کی لغت سے خارج ہے، ان کے نزدیک مکر و فن اور دغاو فریب کا نام سیاست ہے، انسانیت کشی کے اسباب و وسائل کا نام ”ترقی“ ہے ، فواحش و منکرات کا نام”آرٹ ہے ، مرد و زن کے غیر فطری اختلاط کا نام”روشن خیالی“ اور ”خوش اخلاقی“ ہے، پردہ دری اور عریانی کا نام” ثقافت“ ہے اور پس ماندہ ممالک ان کی تقلید۔ اندھی تقلید اور نقالی کو فخر سمجھتے ہیں ، اس لیے آج سارے عالم میں فتنوں کا دور دورہ ہے اور شاید یہ دجال اکبر کے دجالی فتنہ کی تیاری ہو رہی ہو ، خصوصاً عالم اسلام ہر معصیت ،ہر فتنہ اور ہر برائی کی آماج گاہ بنا ہوا ہے ، آئے دن کے ان ہزاروں فتنوں میں ایک فوٹو کا فتنہ ہے، جہاں دیکھیں فوٹو گرافر موجود ہیں، دعوت و ضیافت ہو یا مجلس نکاح ، اجلاس عام ہو یا پرائیوٹ اجتماع، ہر جگہ فوٹو گرافر موجود ہو گا اور کیمرہ سامنے ، اس معصیت نے وبائی فتنہ کی شکل اختیار کر لی ہے، جس سے بچنا دشوار ہو گیا ہے، کوئی بالا رادہ بچنا بھی چاہے تب بھی اسے معاف نہیں کیا جاتا ہے ،بے خبری میں اس کا فوٹو بھی لے لیا جاتا ہے اور دوسرے دن اخبارات کے صفحات پر دنیا کے سامنے پیش بھی کر دیا جاتا ہے، آج ان فوٹو گرافروں ، کیمرہ بازوں اور اخبار نویسوں کے طفیل عریاں غلاظت کے انبار ہمارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں اور اس سے پورا معاشرہ متاثر، بلکہ متعفن ہو رہا ہے، مگر حیف ہے کہ اس پر کوئی گرفت کرنے والا نہیں ،ستم یہ کہ اس عمومی اور عالم گیر صورت نے عام طبقہ کے ذہن سے یہ خیال ہی ختم کر دیا ہے کہ یہ بھی کوئی نا جائز کام یا معصیت اور گناہ ہے ،کیوں کہ برائی کا یہ خاصہ ہے کہ جب وہ عام ہو جاتی ہے اور اس پر گرفت کا بندھن ڈھیلا ہو جاتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کی نفرت و حقارت دلوں سے نکلتی جاتی ہے اور قلوب مسنح ہوتے جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ وہ معیار شرافت بن جاتی ہے #
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج
اور اسی کو کچھ نظر اور غلط پندار لوگ انسانی قدروں کی تبدیلی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں، ورنہ ظاہر ہے کہ جب تک انسان انسان ہے اور اس کی انسانیت باقی ہے تب تک کسی انسانی قدر کے بدل جانے کا تصور ہی غلط ہے، ہاں انسان نما جانور، انسان ہی نہ رہیں، کسی اور نوع میں تبدیل ہو جائیں تو دوسری بات ہے ۔
چند دن ہوئے ایک عالم کے یہاں خصوصی دعوت تھی، وہاں دو ایک مشہور شخصیتیں بھی مدعو تھیں اور خصوصی مہمان بھی تشریف فرما تھے، راقم الحروف کو بھی شرکت کی نوبت آئی اور سوءِ اتفاق سے مجھے ان ہی کے ساتھ بٹھا دیا گیا، یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک عالم کے مکان پر خصوصی دعوت میں فوٹو گرافر کیمرہ لے کر آموجود ہو گا، جب فوٹو گرافر سامنے آیا تو راقم الحروف نے سختی سے روکا اور ایک دوسرے عالم نے بھی شدید نکیر فرمائی، اطمینان ہوا کہ فتنہ ٹل گیا، لیکن کچھ وقفے کے بعد دوبارہ کسی قدر فاصلہ پر دروازہ پر کھڑا دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس نے ہماری بے خبری اور غفلت سے فائدہ اٹھا کر اپنا ارادہ پورا کر لیا ، اگلے دن جنگ کے صفحات پر تین اشخاص کا ،جن میں ایک راقم الحروف تھا، فوٹو آ گیا اور ستم ظریفی یہ کہ نیچے یہ عبارت لکھ دی: گروپ فوٹو ۔ انا للہ ۔
تصویر سازی کی حرمت پر امت کا اتفاق ہے
حدیث نبوی میں تصویر سازی پر جود عید شدید آئی ہے وہ ہر جان دار کی تصویر میں جاری ہے اور تمام امت جان دار اشیاء کی تصاویر کی حرمت پر متفق ہے، لیکن خدا غارت کرے اس مغربی تجدد کو کہ اس نے ایک متفقہ حرام کو حلال ثابت کرنا شروع کر دیا، اس فتنہٴ ا با حیّت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مرکز مصر اور قاہرہ تھا ، چناں چہ آج سے نصف صدی پہلے قاہرہ کے مشہور شیخ محمد سجیت مطیعی نے جو شیخ الازہر بھی تھے إباحة الصور الفوتوغرافیة کے نام سے ایک رسالہ تالیف کیا تھا، جس میں انہوں نے کیمرے کے فوٹو کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ اس وقت عام علمائے مصر نے ان کے فتوے کی مخالفت کی، حتی کہ ان کے ایک شاگر در شید علامہ شیخ مصطفی حمامی نے اپنی کتاب النہضة الإصلاحیة للأسرة الإسلامیة میں اس پر شدید تنقید کی اور اس کتاب میں ص260 سے268 پر اور ص310 سے 328 تک اس پر بڑا بلیغ رد لکھا، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:” تمام امت کے گناہوں کا بارشیخ کی گردن پر ہو گا کہ انہوں نے تمام امت کے لیے شر اور گناہ کا دروازہ کھول دیا “۔
اسی زمانہ میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کے قلم سے ماہنامہ” معارف“میں ایک طویل مقالہ شیخ مطیعی کے رسالہ کی روشنی میں نکلا، اس وقت حضرت امام العصر مولانا انور شاہ رحمہ اللہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی اور اس مضمون سے واقف ہوئے تو آپ کی تحریک پر آپ کے تلامذہ میں سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے ماہنامہ” القاسم“میں (جو دارالعلوم دیو بند کا ماہنامہ تھا) اس پر تردیدی مقالہ شائع فرمایا ، وہ مقالہ حضرت شیخ کی راہ نمائی میں مرتب ہوا ،جسے بعد میں:” التصویر لأحکام التصاویر“ کے نام سے حضرت مفتی صاحب نے شائع فرمایا ۔
یہ واضح رہے کہ حضرت سید صاحب موصوف مرحوم نے اپنی حیات طیبہ کے آخری سالوں میں، جب کہ آپ کی عمر مبارک ساٹھ تک پہنچ چکی تھی ،جن چند مسائل سے رجوع فرما لیا تھا، ان میں فوٹو کے جواز کے مسئلہ سے بھی رجوع فرمایا تھا، مولانا ابو الکلام آزاد جیسے آزاد صاحب قلم نے اگر چہ ذوالقرنین کو سا ئرس بنا کر اس کے مجسمہ کا فوٹو ترجمان القرآن میں شائع کیا تھا، لیکن بعد میں اسے ترجمان القرآن کے تمام نسخوں سے نکال کر تصویر کے حرام ہونے کا اعلان کر دیا تھا ۔
الغرض نہ صرف ہمارے اکابر، بلکہ تمام فقہائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ فوٹو حرام ہے، البتہ پاسپورٹ وغیرہ ضروریات کے لیے نصف چھوٹے فوٹو کو اس سے مستثنیٰ کرنا ہو گا ، اس کا گناہ ان لوگوں کے ذمہ ہے جن کی طرف سے یہ مجبوریاں عائد کی گئی ہیں ، اس لیے یہ واضح ر ہے کہ میرا مسلک یہی ہے کہ فوٹو، بلا ان خاص ضرورتوں کے، ناجائز اور حرام ہے، اگر میری بے خبری میں چالا کی سے کسی نے فوٹو لے لیا تو اس کا گناہ اس کی گردن پر ہے اگر چہ اس ملعون فن سے اسلامی معاشرہ میں نفرت عام نہیں رہی، نا واقف عوام اسے معمولی اور ہلکی چیز سمجھنے لگے ہیں اور کچھ لوگ تو اس کے جواز کے لیے بھی حیلے بہانے تراشنے لگے ہیں، لیکن کون نہیں جانتا کہ کسی معصیت کے عام ہونے یا عوام میں رائج ہونے سے وہ معصیت ختم نہیں ہو جاتی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کو جب حرام قرار دے دیا تو اس کے بعد خواہ سو بہانے کیے جائیں ،مگر اس کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، آج کل سود، بیمہ اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں، جنہیں مغربی تہذیب و تمدن کی بد دینینے جنم دیا ہے، ہمارے جدید تمدن میں گھس آئی ہیں اور اب پوری طرح ان کا رواج ہے ،لیکن کون مسلمان ہوگا جو یہ کہنے کی جرات کرے کہ یہ سب جائز ہیں ؟ ہاں! یہ ممکن ہے کہ گناہ میں عموم بلوی کی وجہ سے آخرت کی سزا میں کچھ تھوڑی بہت تخفیف ہو جائے، اس کا علم حق تعالیٰ ہی کو ہے ۔
اسلامی سلطنت کو کیا کرنا چاہیے؟
افسوس ہے کہ ہمارے یہاں ہر چیز پر پابندی ہے، لیکن اگر آزادی ہے اور پوری آزادی ہے تو اہل الحاد کے لیے آزادی ہے کہ وہ جو چاہیں لکھیں اور جو چاہیں کہیں، کوئی روکنے والا نہیں ، اس سے بڑھ کر صدمے کی بات یہ ہے کہ اسلامی حکومت جس سے بجا طور پر مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی سچی خادم ہو گی اور اسلامی حصار میں شگاف ڈالنے والے قزاقوں کو سرزنش کرے گی اور انہیں قرآن و سنت اور مسلمانوں کے دین سے کھیلنے کا موقعہ نہیں دے گی ،مگر ہماری شامت ِ اعمال ہے کہ ہماری خوش فہمی کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے، ڈاکٹر فضل الرحمن ،جن کے بارے میں ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے، مگر ہماری سنی ان سنی ایک کر دی گئی تھی ،عوامی مطالبہ کے پیش نظر گذشتہ دنوں ان کا استعفاء تو منظور کر لیا گیا ، مگر حکومت کی طرف سے ان کی لغویات کی مذمت میں ایک حرف نہیں کہا گیا ،بلکہ اس کی طرف سے صفائی ہی کی کوشش کی گئی اور اب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظریات کی نشر و اشاعت کریں گے۔
بعض ذرائع سے ہمیں یہ افسوس ناک اطلاع ملی ہے کہ حکومت کی طرف سے فوجوں کے افسروں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ مسٹر پرویز کی کتابوں کی روشنی میں کریں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اگر اس خبر میں ذرا بھی صداقت ہے تو یہ نہایت ہی افسوس ناک اور روح فرسا خبر ہے، مسٹر پرویز کے نظریات ہر عام و خاص کو معلوم ہیں، وہ اسلام کو” عجمی سازش“ کہتے ہیں اور پوری امت کو گم راہ ، ان کے نزدیک خد اور رسول مرکز ملت کا نام ہے وغیرہ وغیرہ، ایسے زندیق کی کتابوں کے مطالعہ کی تحریک ؟
بسوخت عقل زحیرت کہ این چہ بو العجبی است
ہم ارباب اقتدار سے خدا اور رسول کا واسطہ دے کر (جن کے نام پر ہمیں یہ ملک اور حکومت ملی) گزارش کرتے ہیں کہ وہ اخلاص اور سچائی سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل دین اور سچے اسلام کی حفاظت کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم ملحدین کی حوصلہ افزائی نہ کریں، خدا نخواستہ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم والے اسلام کو یہاں ختم کر دیا گیا تو پاکستان کو نہ مسٹر پرویز کا طلوع اسلام بچا سکتا ہے، نہ ڈاکٹر فضل الرحمن کا ”اسلام“اور نہ کوئی ظلی بروزی نبوت، واللہ یقول الحق وہو یہدی السبیل ، حق تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہماری لغزشوں سے درگذر فرمائے ۔
تصویر اور اسلام
اللہ تعالیٰ رحم فرمائے قرب قیامت کی وجہ سے اس تیزی سے فتنوں پر فتنے اٹھ رہے ہیں کہ ایمان کی سلامتی مشکل ہو رہی ہے اور اعمال صالحہ کی توفیق سلب ہوتی جارہی ہے ، ایک فتنہ تنہا بذات خود فتنہ ہوتا ہے اور ایک فتنہ مختلف فتنوں کو جنم دیتا ہے، مثلاً فوٹو گرافی کا فتنہ شروع ہوا، یہی کیا کم گناہ تھا کہ اس سے سینکڑوں فتنے پیدا ہوئے، حضرت حق جل شانہ کا علم ہرشے کو محیط ہے ، اس کے علم میں ہے کہ فلاں فتنہ فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے ابھرے گا، اس بنا پر شریعت الہیہ کا منشا یہ ہوتا ہے کہ جو چیز کسی درجہ میں بھی معاصی اور گناہوں کا سبب بن سکتی ہو اس کو منع فرمائے ، انسانی عقل بسا اوقات اپنے تصور علم اور کم فہمی کی وجہ سے اس کی علت و حکمت کو محسوس نہیں کر سکتی، انسان بسا اوقات تعجب کرتا ہے کہ بظاہر اس معمولی بات کو اتنی سختی سے کیوں روکا گیا، لیکن بعد میں واقعات دشواہد سے اس کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ شریعت الہیہ نے جو فیصلہ کیا تھا عین حکمت تھا، ایک مصوری کے پیٹ سے کیسے کیسے فتنے پیدا ہوں گے شریعت محمد ی نے ابتدا ہی سے فرما دیا تھا:
”أشد الناس عذاباً یوم القیامة المصورون“․
یعنی سخت ترین عذاب قیامت کے دن صورت بنانے والوں کو ہوگا ۔
اور کبھی یہ فرمایا کہ ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح پھونکو اور کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اور کہیں یہ فرمایا کہ صورت ساز ی حق تعالیٰ کی خالقیت کی نقل کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
تصویر کے معاملہ میں شریعت محمدیہ کی سختی کی وجہ
تصویر کے معاملہ میں اس شدت کی بنیاد در حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے، یعنی حق تعالیٰ کی وحدانیت کا بدل وجان اقرار کرنا، خواہ توحید ذات الہٰی کی ہویا توحید صفات الہی کی ہو یا توحید افعال الہی کی ہو، اسلام میں کسی قسم کا شرک قابل برداشت نہیں، اس لیے ابتدا ہی سے شریعت نے تمام اسباب شرک پر، جن میں تصویر بھی شامل ہے، شدید پابندی لگا دی ، اسی لیے میں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی گناہ نہ تھا، لیکن اس وقت جب کہ حق تعالیٰ نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعہ یہ اعلان کرایا تھا اور یہ احکام نازل فرمائے تھے خیال بھی نہیں گذر سکتا تھا کہ آئندہ چل کر یہ فتنہ کتنے بڑے فتنوں کا ذریعہ بنے گا۔
تصویر اور اس کے گندے اور فتنہ انگیز نتائج
آج اسی مصوری کی وجہ سے حسن و جمال کی نمائش ہوتی ہے اور اسی تصویر سازی کی وجہ سے بے حیا قوموں کی عورتوں کے عریاں فوٹو، بداخلاقی، بد اطواری اور خدا فراموش زندگی کا ذریعہ بن چکے ہیں ، یہی لعنت شہوانی و حیوانی جذبات بھڑکانے کا سبب ہے ، اسی لعنت کی وجہ سے کتنے معصوموں کا خون بہہ رہا ہے اور کتنی جانیں تلف ہو رہی ہیں اور خود کشی کی کتنی وارداتیں ہو رہی ہیں ، تھیٹر اور سینما کے پردوں پر اسی مصوری کی وجہ سے بے حیائی کے مظاہر اور روح فرسا مناظر سامنے آرہے ہیں، اسی فتنہ کی وجہ سے نہ کسی کی آبرو محفوظ ہے ، تہمت تراشی سے کوئی بچ سکتا ہے ،کسی کا سر اور کسی کا دھڑ لے کر جو چاہے کر شمہ سازی دکھلائے ، کسی کو بد نام کرنا ہو۔ اس کے بالائی بدن کی صورت لے کر کسی طوائف کے عریاں فوٹو میں پیوند لگا کر جو چاہے کر لیجیے، آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ایک بڑی قوی اسلامی مملکت کی تباہی و بربادی اور اس کے حکمراں کی جلا وطنی میں یہی فتنہ ایک مؤثر عامل ثابت ہوا ہے ، اس قسم کی عریاں تصویروں کے ذریعہ ملک میں ان کی بد اخلاقی و بے حیائی وبے دینی کا پروپیگنڈہ کیا گیا اور بد نامی کی انتہا کر دی گئی اور آخر تخت و تاج سے محرومی کا باعث بنا، افسوس کہ واقعہ کی پوری تفصیل سے معذور ہوں، الغرض اس فتنے کے کرشموں سے نہ دین محفوظ ہے نہ اخلاق ، نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ کسی کا ایمان ، نہ آبرو محفوظ ہے نہ کسی کی عصمت ، فواحش و منکرات کی اشاعت میں مصوری کا اتنا بڑا دخل ہے کہ اسی کی وجہ سے تقویٰ و طہارت و پاکیزگی زندگی کی بنیادیں ہل گئیں ، لیکن آج کل کی اصطلاح میں یہ ثقافت اور آرٹ ہے اور غضب یہ کہ اس کو اسلامی آرٹ کا نام دیا جاتا ہے
بسوخت عقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی است
کسی معاشرہ میں بے حیائی کا سراٹھانا اس کے دلوں سے اسلامی روح نکلنے کی علامت ہے تھیڑو سینما اور یہ فلمیں جن سے آج معاشرہ ہلاکت کے کنارے پہنچ گیا ہے یہ تمام اسی مصوری کی بدولت ہے اور یہ فتنہ اتنا عام ہو گیا ہے کہمسجدیں جو خالص عبادت گا ہیں ہیں وہ بھی اس سے محفوظ نہیں، نکاح کی محفلوں سے مقامات مقدسہ تک، ہر جگہ یہ فتنہ پہنچ گیا ہے، بعض وہ حکومتیں جو اسلامی قانون جاری کرنے کی مدعی ہیں اور وہ جن کا دعوی اتباع سنت ہے ان کے ہاں یہ فتنہ اس قدر شباب پر ہے اور آب و تاب سے ہے کہ الامان والحفیظ، بہر حال یہ فتنہ اتنا عالمگیر ہوگیا ہے کہ نہ مسجد بچی، نہ مدرسہ ، نہ اسلامی ملک بچا ،نہ صالح مسلمان بچے اور آج اس لعنت کی وجہ سے ایک فلم تیار کی جا رہی ہے ، روز نامہ جنگ کراچی (مورخہ10جنوری1970، صفحہ:15) میں اس کا مندرجہ ذیل اشتہار شائع ہوا ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔تاریخ اسلام پر تیار کی ہوئی دنیا کی سب سے پہلی رنگین فلم، جسے حکومت سعودی عرب کے تعاون سے سرزمین حجاز میں فلمایا گیا ۔
اللہ اکبر! مکہ معظمہ کے وہ تمام تاریخی مقامات جن سے تاریخ محمدی کا آغاز ہوتا ہے ، حجر اسود، خانہٴ کعبہ ،مقام ابراہیم ، زم زم ، صفا اور مروہ ، منحر ابراہیم ، مولد نبی، دولت کدہ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا،مولد علی ، مولد فاطمة الزہرا ، غار حراء ، دار ارقم ،غار مرسلات ، غار ثور ، جبل الرحمة کے علاوہ مسجد الراتیہ ،مسجد الجن، مسجد الشجرة ، مسجد الغنم ، مسجد بو قیس ، مسجد طوی، مسجد عائشہ، مسجد العقبہ، مسجد الجعرانہ، مسجد الخیف ، مسجد البیعة ، جنت المعلیٰ وغیرہ وغیرہ ، مدینہ منورہ کے وہ مقدس مقامات جہاں اسلام پروان چڑھا، مسجد نبوی، روضہ مبارک سرور کونین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم، منبر و محراب ، اسطوانہ حنانہ ، اسطوانہ جبرئیل ، اسطوانہ عائشہ ، اسطوانہ علی، حجرہ مبارک حضرت فاطمہ ، مسجد قبا ، مسجد قبلتین ، مسجد حضرت ابوبکر ، مسجد حضرت علی، مسجد فاطمہ، جنت البقیع وغیرہ کے علاوہ وہ تمام میدانِ جنگ جہاں جنگ احد ، جنگ بدر، جنگ خندق ، جنگ خیبر جیسے مشہور غزوات ہوئے ہیں، اس رنگین فلم میں فتح مکہ کے علاوہ طائف کا وہ مقام بھی دیکھیں گے جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور دشمنان اسلام کے پتھراؤ سے بے ہوش ہو گئے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ حج کے تمام مناسک تفصیل اور تسلسل کے ساتھ دکھائے گئے ہیں۔
اسلام نے غیرت و حیا، عصمت و پاک دامنی اور پردہ پر جتنا زور دیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، حیا کو ایمان کا اہم شعبہ قرار دیا، بے غیرت اور دیوث افراد کو ملعون کہا گیا، حیا باختہ لوگوں کو اسلامی معاشرہ سے خارج کیا گیا ، صنف نازک کی بڑی خوبی اس کی طہارت و نزاہت پاک دامنی و پردہ داری بتائی گئی :
﴿فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّہُ﴾ ․ (سورة النساء، آیت:34)
ترجمہ:”پھر جو عورتیں نیک ہیں سوتا بع دار ہیں، نگہبانی کرتی ہیں پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت سے “۔
بہت سی آیات و احادیث میں مستورات کے لیے پردہ وغیرہ کے خصوصی احکام صادرکیے گئے اور ان تمام راستوں کو بند کر دیا گیا جن سے بے حیائی کو در آنے کا موقع ملتا ہے:
﴿وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَیٰ﴾․ (سورة الاحزاب،آیت:33)
ترجمہ: ”اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھلاتی نہ پھر وجیسا کہ دکھلانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں“۔
ان ساری تعلیمات کے باوجود کسی مسلم معاشرہ میں بے حیائی کے اسباب و محرکات کا سر اٹھانا اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ دلوں سے اسلامی روح نکل چکی ہے اور ان مسلمانوں کے بے جان لاشے پڑے ہیں جن پر خدا فراموش تہذیبوں کے کرگس منڈلا رہے ہیں ۔
بے حد افسوس کی بات ہے کہ یہ مملکت خداداد پاکستان، جو آج تک تمام عالم اسلام میں کم از کم انفرادی طور پر دینی فضا اور دینی کردار کے لحاظ سے ممتاز تھا، دینی درس گاہیں اعلیٰ سے اعلیٰ یہاں موجود ہیں، خانقاہیں بہتر سے بہتر یہاں موجودہیں، محقق علماء اور صالح عوام کی کثرت سے، ایک بڑی خصوصیت کا حامل رہا ۔ اب بڑی سرعت سے خدا فراموش قوموں کی نقالی کر رہا ہے اور خرد باختہ تمدن کی تقلید – اندھی تقلید میں لعنت و غضب کے راستوں پر رواں دواں ہے ، معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں مقابلہ حسن ہونے والا ہے، اگر یہ خبر صحیح ہے اور ہمیں واقع کی رپورٹ غلط نہیں پہنچی ہے تو پاکستان کے مسلمانوں کے ڈوب مرنے کا مقام ہے، یہ لیڈ ر جو آج کل ہر جگہ، ہر تقریر میں اسلام اور کتاب و سنت کا نام لینا ضروری سمجھتے ہیں، کیوں خاموش ہیں ؟ اور یہ حکومت جو اسلام کے تحفظ کا دعوی بار بار کرتی ہے اسے کیوں کر برداشت کر رہی ہے ؟ اگر یہ ملک بھی یورپ و امریکہ کے نقش قدم پر چلنے لگا تو یہاں کسی خیر کی کیا توقع ہو سکتی ہے؟ کیا پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ یہاں بے حیائی کو فروغ دیا جائے گا ؟ یہاں نمائش حسن کے میلے ہوں گے ؟ یہاں سینما و تھیٹر اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے قوم کو ناچ گانے کی مشق کرائی جائے گی ؟ اور شرم ناک مناظر سے ہوس پرستی کی تسکین ہوگی ؟ قحبہ خانوں ، شراب خانوں اور کلبوں کے ذریعہ یہاں کی فضا کو گندہ اور نظر و قلب کو زہر آلود کیا جائے گا ؟ ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ اس قسم کے فواحش کو بند کیا جائے ،ورنہ خطرہ ہے کہ اس عذاب الہٰی سے بٹی ہوئی قوم پر مزید عذاب اور غضب نازل نہ ہو جائے۔
یکم جنوری سے سیاسی آزادی بحال ہوتے ہی مختلف تنظیمیں اورجماعتیں میدان کار راز میں اتر آئی ہیں ، بیان بازی، دھینگا مشتی ، مکروہ پروپیگنڈا اور تہمت طرازی کے اسلحہ سے لیس ہو کہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں، لطف یہ کہ ہر جماعت اور جماعت کا لیڈر عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ اسلام اسلام پکارتا اور کتاب وسنت کا نام لیتا ہے (حالاں کہ ان میں سے بعض حضرات کتاب و سنت کو سمجھنا تو در کنار نماز پڑھنا بھی نہیں جانتے ہوں گے، نہ انہیں ایسا اتفاق کبھی پیش آیا ہو گا)
سوال یہ ہے کہ ہر جماعت کا جب یہی دعویٰ ہے کہ ہم یہاں اسلام لائیں گے اور کتاب و سنت کا آئین بنائیں گے تو پھر یہ سارے متحد کیوں نہیں ہوتے ؟ آخر اتحاد سے کس نے روکا ہے ؟ اگر اس پر اتفاق ہے کہ سوشلزم ، کمیونزم اور سرمایہ داری ایک لعنت ہے، اگر اس پر سب متفق ہیں کہ یہاں کتاب و سنت کے مطابق اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے ، اگر یہ عقیدہ ہے کہ دین اسلام ہمارے تمام امراض کے لیے نسخہٴ شفا ہے، اگر یہ تسلیم ہے کہ اسلام صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ وہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی اور معاشرے کے ایک ایک فرد کی ضروریات کا کفیل ہے، اگر یہ ایمان ہے کہ اسلامی قانون اور شرعی احکام تمام عالم کے قوانین سے اعلی و ارفع ہیں ،تو یہ تمام جماعتیں ان روح فرسا اختلافات کو ختم کیوں نہیں کرتیں اور بے چارے عوام پر رحم کرتے ہوئے انہیں اس حیرت انگیز انتشار سے کیوں نہیں بچایا جاتا؟ اگر پیش نظر صرف اپنی جماعت کا وقار اور اقتدار نہیں تو پھر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ، فضول نعروں اور دوروں سے قوم کو پریشان کرنے اور نئے نئے جرائد و اخبارات پر لاکھوں روپیہ ضائع کرنے کے کیا معنی ہوئے ؟ اگر اخلاص ہے، نیت صحیح ہے ، مقصد متحد ہے تو یہ اختلاف کیوں؟ یہ تھو تھ کار کیسی ؟ یہ شور و غوغا کیوں کر ؟ ہماری دعا ہے کہ حق تعالیٰ تمام جماعتوں کو اخلاص و عمل اور اتفاق و اتحاد کی توفیق نصیب فرمائے ۔
دراصل آج کی سیاست کے لیے یہ ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ عوام سے لمبے چوڑے وعدے کیے جائیں ، عوامی فلاح و بہبود کے نعرے لگائے جائیں، خصوصیت سے وقت کے کسی اہم مسئلہ کو انتخابی اہمیت دی جائے، قرآن وسنت و خدا اور سول اور دین اسلام کے نام پر لوگوں سے اپیل کی جائے (خواہ داعی صاحب کی زندگی اس سے بعد المشرقین رکھتی ہو ) اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے، اس کی معمولی لغزش کو مبالغہ آمیزی سے دہرایاجائے، جہاں تک بس چلے اسے ذلیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہے، ہنگامے کیے جائیں، فساد اور او ھم مچایا جائے، انتخابات کے موقع پر ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے، بدقسمتی سے اب پھر یہی مناظر سامنے آنے لگے ہیں ، بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے سیاست کے تالاب کو اتنا گندہ کر دیا ہے کہ اس کا تعفن پوری قومی زندگی میں رچ بس گیا ہے، بہر حال اس اختلاف و انتشار کے نتائج کیا مرتب ہوں گے۔ ہم تمام مسلمانوں سے کہیں گے کہ اگر ہمیں اب بھی صالح وفاسق اورنیک وبد کے درمیان تمیز نہ ہوئی، کھوکھلے نعروں پر اعتماد کر لیا، صحیح افراد کو منتخب نہیں کیا تو آئندہ یہ ملک بد ترین حالات سے دوچار ہوگا اور پھر کوئی توقع اس بات کی نہیں ہوگی کہ یہاں اسلامی قانون نافذ ہو سکے ، اللہ تعالیٰ صحیح عقل وبصیرت نصیب فرمائے ۔
اسلامی قانون کو نافذ کرنے میں ان حضرات کو دودقتیں پیش آرہی ہیں:
یہ کہ ہمارے یہاں کا ایک مخصوص طبقہ اپنی تعلیم و تربیت کی بنا پر مغرب سے بے حد مرعوب اور احساس کم تری کا شکار ہے ، اس غلط نگہی اور مرعوبیت کا اثر ہے کہ اسلامی حدود و تعزیرات کے بارے میں سمجھا جارہا ہے کہ یہ عصر حاضر کے خلاف ہے اور دور حاضر کی مغربی تہذیب انہیں برداشت نہیں کر سکتی ، اب اگر ہم اسلامی تعزیرات کو نافذ کر دیتے ہیں تو مہذب دنیا ہمیں رجعت پسندی اور قدامت پرستی کا طعنہ دے گی اور غیر مہذب وحشی کے خطاب سے نوازے گی، لیکن اگر اللہ عقل دے، ذرا غور کرنے کی توفیق نصیب فرمائے تو یہ وہم دور کیا جا سکتا ہے ۔
اگر یورپ و امریکہ کی عصر حاضر کی تاریخ کا سرسری مطالعہ کیا جائے اور تہذیب کے مدعی قوموں کے اعمال کا جائزہ لیا جائے تو ہر انصاف پسند یہ فیصلہ آسانی سے کر سکتا ہے کہ اسلامی تعزیرات کو وحشیانہ قرار دینے والی مہذب قوموں کے دامن پارسائی پر وحشت و بربریت اور بہیمیت اور درندگی کے کتنے دھبے ہیں ؟ روس نے بخارا اور سمر قند میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟ فرانس نے الجزائر میں کیا کیا ؟ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں آتشیں بمباری سے خدا تعالیٰ کی بے گناہ مخلوق کے ساتھ کیا کیا اور اب ویت نام میں کیا کر رہا ہے ؟ برطانیہ نے اپنی پوری تاریخ میں ضعیف و ناتواں مخلوق کو کس بے دردی و سنگ دلی سے تباہ و برباد کیا ؟ مہذب قوموں کو اور ان کی ترقییافتہ تہذیبوں کو شرم نہیں آتی کہ اسلام ایک مجرم کو اس کے گھناؤنے جرم کے بدلے میں معقول سزا دیتا ہے، تا کہ معاشرہ اس قسم کے جرائم سے پاک ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی مخلوق آرام و راحت کی نیند سوئے وہ تو وحشیانہ سزا ٹھہرے اور ان کے سیاہ کارنامے اور وحشت و بر بریت سے لبریز عمل نامے عین تہذیب اور سراپا رحم دلی قرار پائیں، کیا تعزیرات و حدود کے سلسلے میں اسلامی سزاؤں کے بد نام کرنے میں ذرا بھی معقولیت ہے ؟ اگر انصاف ہو، بصیرت ہو تو یہ جو کچھ کیا جارہا ہے اس سے بڑھ کر خیرہ چشمی اور بے حیائی کیا ہو سکتی ہے، پاکستان میں بالخصوص جو روح فرسا حالت بے اطمینانی و بدامنی کی پیدا ہو چکی ہے صحیح اسلامی سزاؤں کے بغیر اصلاح کا کوئی امکان نہیں ۔
ہمارے ان حضرات کا دوسرا بہانہ یہ ہے کہ اسلامی قانون بنا بنا یا موجود نہیں، مرتب کرنے میں ایک بڑا عرصہ چاہیے ،لیکن غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہ محض دلفریب دھوکاہے۔ اسلامی قانون ”فقہ اسلامی“ کی صورت میں مدون موجود ہے، جو شخص عربی میں مہارت اور قانون سے مناسبت رکھتا ہو وہ آسانی سے ہر حادثہ کا شرعی حکم معلوم کر سکتا ہے اور اسے واقعات پر تطبیق دے سکتا ہے اور اگر ہمارے قانون دانوں کی عربی سے نا واقفیت کو عذر قرار دیا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں، کیوں کہ جہاں آپ ایل ایل بی کی شرط عائد کرتے ہیں، وہاں عربی فقہ میں مہارت کو کیوں شرط قرار نہیں دیتے ؟ علاوہ ازیں فقہ اسلامی کی تمام اہم کتابوں کے تراجم اردو میں موجود ہیں، کنز الدقائق، ہدایہ، شرح وقایہ، عالم گیری وغیرہ وغیرہ تمام کتابیں اردور میں منتقل ہو گئی ہیں اور بعض اہم کتابوں کے انگریزی تراجم بھی دستیاب ہیں ۔
ثانیا۔ اگر مقصد یہ ہے کہ اسلامی دفعات پر مرتب شدہ موجودہ قوانین کے مرکز پر ہونا چاہیے تو اس پر بھی کسی قدر کام ہو چکا ہے ۔
ترکی میں سلطان عبد الحمید خان کے دور میں”المجلة العدلیة“ کے نام سے دفعات پر ترتیب شدہ مواد موجود ہے، افغانستان میں ”تمسک القضاة الامانیہ“اور تشکیلات جزا عمومی افغانستان کے نام سے مجموعے موجود ہیں ، ان کتابوں کو اردو یا انگریزی میں منتقل کرنے پر کتنا عرصہ لگے گا؟ مختصرعرصہ میں یہ سب کام ہو سکتا ہے ۔
ثالثاً۔ اگر اسلامی فقہ کسی طرح بھی ہمارے قانون دانوں کے بس کا روگ نہیں تو کم از کم اتنا ہی کر لیا جائے کہ ہر محکمہ میں ایک مستند عالم دین کا تقرر ہو اور اس کی رائے واعانت سے شرعی حکم معلوم کر کے نافذ کیا جائے ، بہر حال اگر خدا کا خوف ہو اور آخرت کا محاسبہ پیش نظر ہو اور اس ملک کو صحیح اسلامی مملکت بنانا مقصود ہو تو پھر نہ اسلامی قانون نافذ کرنا مشکل ہے، نہ مرتب قانون کو اردو میں منتقل کرنا دشوار ، نیت درست ہو تو سب آسان ۔