قرآن کریم باری تعالیٰ کا کلام ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ، کتاب ہدایت اور دستور حیات ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:قرآن ہر زمانہ کی کتاب ہے۔ اس کے الفاظ کے ساتھ معانی کے تحفظ کا ذمہ قدرت خداوندی نے لیا ہے:
”ہم نے ہی قرآن نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔“
یہی وجہ ہے کہ صدیوں بعد بھی کسی لفظ اور کسی حرکت میں ذرا کمی بیشی واقع نہیں ہوئی اور ہمارا عقیدہ ہے کہ تا صبح قیامت قرآن یوں ہی محفوظ رہے گا۔ کیوں کہ قرآن نہ صرف مذہبی کتاب، بلکہ پوری انسانیت کے لیے قانون زندگی ہے، وہ مقدس اور عظمت و ہیبت والا کلام ہے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جب تلاوت شروع کرتے تو بے ہوش ہو کر گر جاتے اور بے ساختہ ان کی زبان پر جاری ہوتا:
”یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے ۔“
در حقیقت یہ رب العالمین کے فرمودات ہیں، قرآن کا شغل سب سے مقدس اور اس کی تلاوت باعث ِثواب ہے، طہارت باطنی اورتزکیہ قلب کا بہترین سامان ہے۔
تعلیم قرآن
قرآن کے نزول کے وقت مکہ مکرمہ میں پڑھے لکھے بہت کم تھے۔ قرآن جس قدر نازل ہوتا مسلمان اس کو یاد کرنے کا اہتمام کرتے۔ چناں چہ عہد نبوت سے اب تک امت نے ہر دور میں تعلیم قرآن پر توجہ دی ہے اور جس طرح اس کے الفاظ کا فہم حاصل کیا، اسی طرح اس کے معانی کی بھی مکمل تصحیح کی فکر رکھی ہے۔ قرآن کریم کے تعلیم و تعلم کے سلسلے میں جناب رسول صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے“۔
اس حدیث کے ذیل میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے لکھا ہے:کلام پاک چوں کہ اصل دین ہے، اس کی بقا واشاعت ہی پر دین کا مدار ہے، اس لیے اس کے سیکھنے اور سکھانے کا افضل ہونا ظاہر ہے۔ اس کا کمال (درجہ ) یہ ہے کہ مطالب و مقاصد سمیت سیکھے، اور ادنی درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے۔
تلاوت قرآن کریم
انسانی ضابطہ ہے کہ جو شے جتنی اہم اور قابل عظمت ہوتی ہے اس کے آداب و حقوق بھی اسی قدر زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی شان کے مطابق اس کا پاس و لحاظ بھی لازم ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی ادنیٰ غفلت اور اس کے حقوق سے ادنیٰ لا پروائی بڑی محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔ اورقرآن مجید جب کلام الٰہی ہے تو اس کے مقام و مرتبہ کا اندازہ انسانی وسعت سے خارج ہے، لہٰذا اس کتاب مبین کے حقوق و مراتب کی مکمل ادائیگی عامة الناس کی سکت سے باہر ہے۔ البتہ اس کے بہت سے ظاہری وباطنی آداب وحقوق ہیں، جن کی رعایت اس مقدس کتاب سے استفادے کو آسان بنا دے گی۔ اورجب کہ یہ محبوب کا کلام ہے اور ہر عاشق مضطر کو اس سے زیادہ کس بات میں خوشی ہوگی کہ محبوب کے کلام سے شغل حاصل ہو جائے، اس سے سرگوشی کی سعادت نصیب ہو جائے اور محبوب بھی ایسا قدردان کہ سب سے زیادہ توجہ سے کلام کو سنتا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”حق تعالیٰ شانہ قرآن پڑھنے والے کی آواز کی طرف اس شخص سے زیادہ کان لگاتے ہیں جو گانے والی باندی سے اپنا گانا سن رہا ہو“۔
تلاوتِ قرآن کے سلسلے میں پہلا حق یہ ہے کہ خوش الحانی سے پڑھے، عربی لہجہ میں پڑھنے کی کوشش کرے، گانے کی شکل پیدا نہ ہو، خوب بنا سنوار کر مکمل دل چسپی سے پڑھے، کیوں کہ نظم قرآن کی عمدگی اور آیات قرآنی کا لاثانی انداز بیان، لامحالہ طبیعت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں ارشاد ہے:
قرآن کو عرب کے لہجے اور ان کی آواز میں پڑھو۔
ایک اور روایت میں ارشاد ہے:
”اچھی آواز سے قرآن کو پڑھا کرو، اس لیے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن کو بڑھا دیتی ہے“۔
اور چوں کہ قرآن حکیم جس زبان (عربی) میں نازل ہوا ہے وہ دنیا کی سب سے قدیم اور وسیع زبان ہے، اس کے الفاظ اور حروف میں بڑی نزاکت ہے، بلکہ کسی قدر تکلف بھی ہے اور سنجیدہ و سلیم طبیعت اور پاکیزہ ذوق کی حامل ہے، اس لیے اس کی نزاکت کا تحمل بہت آسان نہیں۔ اس کے الفاظ و کلمات کو صحیح طور پر ادا کرنا غیر اہل زبان کے لیے مستقل ریاضت اور مشق کا متقاضی ہے۔
لہٰذا تلاوت قرآن میں حروف کی مکمل ادائیگی، ہر ہر لفظ کا درست تلفظ، کلمات کی رخوت و شدت کا خیال، تجوید کے ضروری قواعد اور مخارج و صفات کی رعایت از حد ضروری ہے۔ چناں چہ حضرت اُم سلمہرضی الله عنہا سے کسی نے پوچھا کہ حضورصلی الله علیہ وسلم کلام شریف کس طرح پڑھتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ سب حرکتوں (زبر، زیر، پیش وغیرہ) کو پورا نکالتے تھے اور ایک ایک حرف الگ الگ ظاہر ہوتا تھا۔
صحیح ِقرآن کی اہمیت
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے برائے استفادہ یا اس سے متعلق یا ان سے ماخوذ جن علوم کی ترتیب عمل میں آئی ان میں ایک اہم فن علم تجوید و قرأت ہے اور یہ فن اس اعتبار سے بھی مہتم بالشان اور قابل عظمت ہو گیا کہ اس کا تعلق بلا واسطہ الفاظ و کلمات قرآن سے ہے۔ علوم اسلامیہ میں اس علم کو کافی اہمیت حاصل رہی۔ قرونِ اولیٰ سے اب تک اس علم کی خدمت کرنے والے اور اس کو پروان چڑھانے والے ہر دور میں رہے اور ساری امت کی جانب سے اس فرض کی کفایت فرماتے رہے۔ اور عامة المسلمین کو اس بات کی تلقین اور تبلیغ کرتے رہے کہ بحیثیت مسلم ممکن حد تک اس فریضہ کو انجام دیتے رہیں۔
تصحیحِ قرآن کی ضرورت
تجوید کا لغوی معنی تحسین و عمدگی ہے اور ترتیل کے معنی ہیں: ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ اہل اصول کے یہاں فن تجوید کا حاصل یہ ہے:
قرآن کریم جس طرح حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا، جس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہعنہم کو پڑھ کر سنایا، جس ادائیگی اور نہج سے اس کی تلاوت فرمائی اور جس طریقے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سیکھ کر اس کو پڑھا اور یوں قرآن آپ سے منقول ہو کر صحابہ کرام رضی الله عنہم کے واسطے سے ساری دنیا میں،نسل در نسل ،تواتر و تسلسل کے ساتھ پڑھا جا رہا ہے، اسی انداز قرآء ت کا نام فن تجوید ہے۔ اور زبانِ مبارک صلی الله علیہ وسلم سے صادر اسی کیفیت مخصوصہ کو اختیار کرنا اور بقدر استطاعت اس نہج پر تلاوت کرنا فرضِ عین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر، صاف صاف اور عمدہ طریقے پر پڑھو“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ترتیل کی تفسیر تجوید حروف اور معرفت وقوف سے کی ہے۔ نیز ارشاد باری ہے:
”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں، جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔“
یعنی آداب و مخارج کی رعایت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ علامہ ابو الخیر شمس الدین محمد بن محمد جزری رحمہ اللہ نے متعدد طرق سے اس کے وجوب کو ثابت کیا ہے، ان کا مشہور قول ہے: ” تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا بہت ضروری ہے، جو قرآن تجوید سے نہ پڑھے گناہ گار ہے، کیوں کہ اسی شکل میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا۔ اور اسی شکل میں ہم تک پہنچا ہے“۔ علامہ ابن جزری رحمة اللہ نے مزید فرمایا:تجوید تلاوت کا زیور اور قرآت قرآن کی زینت ہے“۔ یعنی ہر لفظ کو اس کا حق اور مرتبہ دینا۔ جو کلمہ جس حصہ سے نکلتا ہے اس کو وہیں سے ادا کرنا اور اسی مخرج سے نکالنا اور بلا کسی سختی اور مشکل کے اس کو صحیح صحیح پڑھنا اور مکمل لطافت کے ساتھ اس کی ادائیگی کرنا۔
قرآن و حدیث میں تلاوت کی درستگی کی تاکید ملتی ہے، قرآن کریم کو خوش الحانی اور درست ادائیگی کے ساتھ پڑھنے کی کوشش ایمانی تقاضہ اور اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے، لہٰذا قرآن عمدہ انداز میں پڑھنے کی فکر ہونی چاہیے۔ جتنا علم ہو مزید کی سعی جاری رہے، حروف کی مکمل ادائیگی ہو، جو حروف ایک جیسے مخرج کے ہیں بالخصوص ان کی ادائیگی میں کسی قدر تکلف سے کام لے، مثلاً:وَلَا الضَّالِّینَ میں ض کو نہ ظ پڑھے، نہ ذ۔ اسی طرح س اور ش میں فرق رکھے۔ زاور ج میں امتیاز قائم کرے۔ ء اور ع ہر ایک کو اس کے مخرج سے ادا کرے، دونوں کو خلط ملط نہ کرے۔ جو حروف حلق سے نکلتے ہیں ان میں زیادہ مشق اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، حروف ِصفیر یہ (ز، س ، ص ) کو سمجھے۔
دیگر تجوید کے قواعد اور اصول کو سیکھے اور ان کی روشنی میں عمدہ سے عمدہ قرآن پڑھ کر سعادت دارین کا حق دار بن جائے۔ ورنہ بہت سے مواقع پر حروف کی غلط ادائیگی اور اس کا صحیح تلفظ نہ کرنے سے بسا اوقات کلمہ عربیت سے نکل جاتا ہے اور اس سے معنی کا فساد لازم آجاتا ہے اور اس سے نماز بھی باطل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اسی سبب جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت اس انداز سے کرتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے“۔ ورنہ پھر کیا سبب ہے کہ تمام اصلاحی حلقے علمی واسلامی ادارے جہاں معانی و مطالب قرآن کو اپنا نصب العین بناتے ہیں، وہیں الفاظ قرآن اور صحیح حروف، تجوید و ترتیل کو بھی توجہ کا مرکز بناتے ہوئے ضرور نظر آتے ہیں۔ مدارس میں شعبہ تجوید کا قائم ہونا، خانقاہوں اور دعوتی راہوں میں سے قرآن کے حلقوں کا لگنا اور از حد ان کا اہتمام کرنا بالیقین اس علم کی اہمیت پر غماز ہیں۔ اور جب علماء و فضلاء ، طلبہ مدارس اوردین سے وابستہ اور دینی میدانوں میں سرگرم اشخاص قرآن کی تصحیح کے اتنے محتاج ہیں، تو ایک عامی مسلمان کو اس کی کتنی سخت ضرورت ہوگی، اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
لمحہ فکریہ
مسلمان تاریخ کے جس موڑ پر ہے، یقیناوہ خدا اور کلام خدا سے بے زاری کی راہ دکھاتا ہے، اسباب اور مادیات کا داعی ہے، دنیوی تأثرات الحاد و لادینیت کی وادی تیہ میں بھٹکایا جا رہا ہے۔ کام رانی کے عنوان پر ذلت و پستی کا سامان کیا جا رہا ہے، مذہب کو ایک رسم ادائیگی کی چیز باور کرایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے ظاہری و باطنی احوال، اقوال و افعال ان کی متاع اخروی کو سلب کرنے کے موجب ہیں۔
اس تناظر میں کتاب خداوندی کا تعلق اور اس کا شغل ہی باعث نجات ہو سکتا ہے۔بلکہ ہر زمانہ میں قرآن کا شغل سبب نجات ہے، اس کے سوا تنگی اور ہلاکت ہی ہے۔ قرآن کے پیغام کو جان کر اس پر عمل پیرا ہونا، ہر ممکن طریقہ سے اس کا حق ادا کرنا، اس کا ادب و احترام اور اس کی درست تلاوت وقت کا اہم تقاضاہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شفیق باپ اپنے نسل کی افزائش میں اور اپنی اولاد کے تاب ناک مستقبل کے لیے ہر خواب سجاتا ہے، اس کے لیے ترقی کا ہر خیالی محل تیار کرتا ہے، مگر کبھی اس جانب توجہ ہوئی کہ اس نسل میں قرآن کتنا محفوظ ہے؟ آنے والی بہو کے سارے اعمال و اطوار جانچے جاتے ہیں، خاندان سے مکان تک، عزت سے سامان تک، ناک کی نتھ سے پاؤں کے پایل تک، اسکول سے کالج تک، قد اور طوالت و حجم اور سارے امور کا بغور اور بہت دل چسپی سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ کہیں نئی نسل میں کوئی نقص نہ رہ جائے۔
لیکن کبھی اس جانب التفات ہوتا ہے کہ اس اساس نسل میں قرآن ( جو ہر کام یابی کا راز ہے)کتنا زندہ ہے؟ وہ قرآن پر کتنی عامل اور اس کی تلاوت کیسی ہے؟ وہ کیسا اور کتنا قرآن پڑھ لیتی ہے؟ ہماری اگلی نسل کو قرآن سکھا سکے گی یا نہیں؟ خانگی امور میں اس کی مہارت کا امتحان ضرور ہوتا ہے، لیکن کبھی اس کی تلاوت نہیں دیکھی جاتی، اس کا قرآن نہیں سنا جاتا کہ حروف کی ادائیگی کیسی ہے؟ (کہ درستگی کی شکل میں استفادہ، ورنہ اصلاح وتصحیح کی فکر ہو) بہو، بیٹوں کی نافرمانی کی شکایت کرنے والے ذرا غور کریں کہ انھوں نے قرآن کے حوالہ سے کتنی اور کیسی ذمہ داری نبھائی ہے؟
تصحیح تلاوت کی شکلیں
∗… موجودہ دور میں تصحیح قرآن کی سب سے موثر شکل یہ ہے کہ کسی اچھے عالم سے جو قرآن کو صحت مخارج اور ادائیگی حروف کے ساتھ پڑھے، یا کسی اچھے حافظ سے جو قرآن درست پڑھتا ہو حروف کی تصحیح کی جائے۔
∗… قرآن کی صحیح تلاوت اور حروف کی صحیح ادائیگی انتہائی آسان ہے۔ اگر اردو زبان پر گرفت ہو تو علماء اور قراءِ کرام نے سہل، اورعوامی انداز میں تجوید اور مخارج کی کتابیں لکھی ہیں، جن سے بہت آسانی سے استفادہ کر کے حروف کی تصحیح ممکن ہے۔
مختلف علاقوں میں تصحیح قرآن کے حلقے اور مجلسیں قائم ہیں، ان سے مربوط ہو کر اس اہم ذمہ داری سے سبک دوشی ہو سکتی ہے۔
∗…وسائل کی فراوانی اور ایجادات کے اس دور میں کسی چیز کا سیکھنا مشکل نہیں رہا، بہت آسانی سے لوگ اپنی ضرورت کا علم حاصل کر لیتے ہیں، حتی کہ اپنی اغراض کے تحت مختلف زبانوں اور ان کی بولیوں کے بھی ماہر بن جاتے ہیں، تو کسی عالم کی رہبری میں ان چیزوں سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جا سکتا ؟
∗…ورنہ سب سے آسان اور موثر شکل یہ ہے کہ نورانی قاعدہ کی مشقوں کے ذریعے حروف کی ادائیگی درست کی جائے۔
∗… مختلف اماموں کی قراء ت اور ان کی آواز میں مکمل قرآن موبائل فون اور نیٹ پر موجود ہے، روز ا نہ تھوڑا سا وقت فارغ کر کے، اس کو سنا جائے اور اس جیسا پڑھنے کی کوشش کی جائے تو ان شاء اللہ ایک اچھی اور مفید پہل ثابت ہوگی۔
∗…پھر یہ کہ حروف تہجی کل انتیس ہیں، جن میں سے بعض بہت آسان ہیں، جیسے:د،م، ن وغیرہ۔ ان کی درست ادائیگی انتہائی سہل ہے، لیکن عربی سے نا واقف یا دوسری زبان (مثلاً:ہندی، انگلش ) جاننے والوں کے لیے سب سے زیادہ دقت متشابہ الفاظ اور قریب المخارج کلمات میں پیش آتی ہے اور اس وقت ان کے لیے اس کی ادائیگی مشکل اور ان میں امتیاز پریشان کن ثابت ہو جاتا ہے، جیسے : ج ، ذ، ز، ض، ظ، ان سب کا مخرج اور پڑھنے کا طریقہ جدا جدا ہے۔ اسی طرح س، ش، ص، وغیرہ۔ البتہ دو چار مرتبہ کی مشق اور توجہ سے ان حروف کی صحیح پہچان کر لیں، ان کی ادائیگی کا درست طریقہ معلوم کر لیں، پھر اسی کے مطابق قرآن کی تلاوت کے وقت ان کی رعایت ہو تو ان شاء اللہ بہت آسانی کے ساتھ اور بہت جلد، یہ مسئلہ حل ہو جائے اور امت کی ایک بڑی تعداد اپنے رب کا کلام درست پڑھنے لگے اور یہ عمل رحمت باری کے نزول کا سبب ہو، جس کے لیے شوقِ معتبر چاہیے اور بس!