دین میں غلو کی ممانعت

idara letterhead universal2c

دین میں غلو کی ممانعت

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ إِلاَّ الْحَقِّ إِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللّہِ وَکَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إِلَی مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِّنْہُ فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرُسُلِہِ وَلاَ تَقُولُواْ ثَلاَثَةٌ انتَہُواْ خَیْْراً لَّکُمْ إِنَّمَا اللّہُ إِلَہٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَہُ أَن یَکُونَ لَہُ وَلَدٌ لَّہُ مَا فِیْ السَّمَاوَات وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَفَی بِاللّہِ وَکِیْلا، لَّن یَسْتَنکِفَ الْمَسِیْحُ أَن یَکُونَ عَبْداً لِّلّہِ وَلاَ الْمَلآئِکَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن یَسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ إِلَیْہِ جَمِیْعاً، فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیْہِمْ أُجُورَہُمْ وَیَزیْدُہُم مِّن فَضْلِہِ وَأَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنکَفُواْ وَاسْتَکْبَرُواْ فَیُعَذِّبُہُمْ عَذَاباً أَلُیْماً وَلاَ یَجِدُونَ لَہُم مِّن دُونِ اللّہِ وَلِیّاً وَلاَ نَصِیْراً﴾․(سورة النساء، آیت171 تا173)

اے کتاب والو!مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں اور مت کہو اللہ کی شان میں مگر پکی بات، بے شک مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا ،وہ رسول ہے اللہ کا اور اس کا کلام ہے جس کو ڈالا مریم کی طرف اور روح ہے اس کے ہاں، سو مانو اللہ کو اور اس کے رسولوں کو اور نہ کہو خدا تین ہیں اس بات کو چھوڑ دو، بہتر ہوگا تمہارے واسطے، بے شک اللہ معبود ہے اکیلا ۔اس کے لائق نہیں ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور کافی ہے اللہ کارساز O مسیح کو اس سے ہرگز عار نہیں کہ وہ بندہ ہو اللہ کا اور نہ فرشتوں کو جو مقرب ہیں اور جس کو عار آئے اللہ کی بندگی سے اور تکبر کرے سو وہ جمع کرے گا ان سب کو اپنے پاس اکٹھاO پھر جو لوگ ایمان لائے اور عمل کیے انہوں نے اچھے تو ان کو پورا دے گا ان کا ثواب اور زیادہ دے گا اپنے فضل سے اور جنہوں نے عار کیا اور تکبر کیا سو ان کو عذاب دے گا دردناک اور نا پاویں گے اپنے واسطے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ مددگار O

دین میں غلو کی ممانعت

لغت میں غلُوّ حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں۔(مقاییس اللغة:4/387)

اصلاح میں ”الغلو فی الدین ہو مجاوزة حد الحق فیہ“ دین میں غلو یہ ہے کہ جس چیز کی جو حد مقرر ہے اس سے نکل جائے۔ (أحکام القرآن للجصاص، النساء، ذیل آیة:171)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس کی مزید صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”غلو کا معنی حد سے نکل جانے کے ہیں، دین میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ اعتقاد وعمل میں دین نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھ جائیں، مثلاً انبیاء علیہم السلام کی حد یہ ہے کہ ان کو خلق خدا میں سب سے افضل جانے، اس حد سے آگے بڑھ کر ان ہی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دینا اعتقادی غلو ہے“۔(معارف القرآن، مفتی محمد شفیع، النساء، ذیل آیت نمبر:171)

اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو امتِ وسط یعنی معتدل امت بنایا ہے، چناں چہ قرآن کریم میں ہے ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَّسَطًا﴾ (البقرة:143)جو اُمتیں اورمذہبی گروہ اعتدال کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں ان کی گم راہی کسی منزل پر جاکر نہیں رکتی، بلکہ وہ مزید سے مزید تر گم راہی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو خاص طور پر غلو فی الدین سے روکا، کیوں کہ نصاری نے حضرت عیسی علیہ السلام کی محبت میں غلو کرکے انہیں اللہ کا بیٹا قرار دیا، اس کے برعکس یہود نے ان کی عظمت کے انکار میں غلو کرتے ہوئے انہیں ولد الزنا ٹھہرادیا۔

آیت کریمہ میں نصاری کو حبّ عیسی کے غلو پر تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ حضرت مریم علیہا السلام کے بیٹے ہیں، اللہ کے رسول ہیں، اس کا کلمہ ہیں، روح ہیں، جس کا القا حضرت مریم علیہا السلام کو کیا گیا تھا لہٰذا اسے تین میں تیسرا خدا کہہ کر تثلیث سے باز آجاؤ، آیت کریمہ میں چار مختلف تعبیرات میں تثلیث کے شرکیہ عقیدے سے سختی سے روکا گیا ہے:1.. ﴿وَلاَ تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ إِلاَّ الْحَقِّ﴾ 2.. ﴿وَلاَ تَقُولُواْ ثَلاَثَةٌ﴾ 3.. ﴿انتَہُواْ خَیْْراً لَّکُمْ﴾ 4.. ﴿إِنَّمَا اللّہُ إِلَہٌ وَاحِدٌ﴾

کلمہ اور روح کے الفاظ سے مسیحی استدلال کا جائزہ

قرآن کریم میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو کلمة اللہ اور روح اللہ قرار دیا گیا ہے، جس سے مسیحی علماء حضرت عیسی کی الوہیت کا استدلال کرتے ہیں، یہ دونوں الفاظ عہد جدید میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق استعمال ہوئے ہیں، مسیحی طرز استدلال یہ ہے اللہ کا کلمہ اللہ کی صفت ازلی ہے اور قدیم ہے، اسی طرح روح اللہ کا مطلب ہے اللہ کی حیات، وہ بھی ازلی ہے اور قدیم ہے، لہٰذا حضرت عیسی علیہ السلام کا کلمة اللہ اور روح اللہ ہونے کا نتیجہ جز الوہیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ابن الله ہیں۔

جوابات:1.. مسیحی حضرات ہمیشہ ایسے ذو معنی الفاظ اور تشریحات کے ذریعے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں، ایسے الفاظ وکلمات جو مختلف معنی ومفہوم کا احتمال رکھتے ہوں انہیں متشابہات کہتے ہیں اور متشابہات کا درست مطلب اور مصداق جاننے کے لیے اس سے متعلقہ دیگر دلائل وقرائن سے مدد لی جاتی ہے، مگر فکری کج روی کا شکار ہر گروہ متشابہات سے، اپنے مطلب کی بات اخذ کرکے، اپنے مزعومہ مفہوم پر ہی اڑا رہتا ہے، مسیحیت کا یہ طرز استدلال بہت پرانا ہے، جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجران کا مسیحی وفد آیا تھا تو انہوں نے بھی حضور علیہ السلام سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو کلمة اللہ اور روح اللہ نہیں مانتے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا بالکل مانتے ہیں، مسیحی وفد مزید تفصیل جانے بغیر اسی بات پر اڑ گیا کہ بس ہمارے لیے یہی کافی ہے، ان کے اس رویے پر یہ آیات نازل ہوئیں:﴿ہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُّحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَأَمَّا الَّذِیْنَ فیْ قُلُوبِہِمْ زَیْْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِیْلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ﴾ (آل عمران:7)

2.. مسیحی علماء نے قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کلمہ اور روح کے ساتھ بھی یہی مذاق کیا، اگر قرآنی آیات کا سیاق وسباق اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بیان کردہ حقائق پر مشتمل آیات پڑھ لیتے توان کو معلوم ہو جاتا کہ کلمہ اور روح کی جو اصطلاح قرآن کریم میں مذکور ہے اس کا الوہیت سے کوئی تعلق نہیں، مگر مسیحی علماء نے اپنی اصطلاح کی روشنی میں کلمہ اور روح کا مفہوم اخذ کیا اور اسے قرآنی استدلال بناکر پیش کیا، ضد وتعصب، ہٹ دھرمی اور دھونس کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے؟!
قرآن کریم میں لفظ ”کلمة“ فلسفی اور کلامی اصطلاح میں استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ کلمة اللہ سے مراد لفظ ”کُن“ہے، اللہ تعالی اس کلمہ سے کسی بھی معدوم کو وجود میں لے آتے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:﴿إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَّقُوْلَ لَہ، کُنْ فَیَکُوْنُ﴾(یٰس:82) حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو کلمة اللہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے امر کن سے پیدا ہوئے۔

یہاں پر ایک طالب علمانہ اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کے امر کُن سے وجود میں آئی ہے، پھر سب کو کلمة اللہ کیوں نہیں کہا جاتا؟ صرف حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو کلمة اللہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر کُنْ کے بعد ہر مخلوق علل واسباب سے وجود میں آئی ہے، مگر حضرت عیسی علیہ السلام کو وجود دینے کے لیے جو کلمہ کُنْ فرمایا اس میں اسباب وعلل کا سلسلہ نہیں تھا، ایک ہی لمحہ میں بلا مَسّ بشر حضرت مریم علیہا السلام کو کامل استقرارِ حمل ہوا،اس خرق عادت کے نتیجے میں وجود پانے کی وجہ سے اختصاصاً آپ کو کلمة اللہ کہا جاتا ہے اور کلمہ کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف ہونا آپ علیہ السلام کی عظمت کے اظہار کے لیے ہے۔

حضرت مسیح علیہ السلام کو روح کہنے کی وجہ

روح کا لفظ ریح سے ہے، ریح ہوا کو کہتے ہیں، منھ سے نکالی جانے والی ہوا کو پھونک اور روح کہتے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام کو روح یعنی پھونک سے وجود میں آنے والا کہا گیا ،چوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو حضرت مریم علیہا السلام پر یہ پھونک ماری تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے شرف وعزت کو نمایاں کرنے کے لیے اس روح کی نسبت اپنی طرف فرماکر رُوْحٌ مِنْہ کہا۔(تفسیر البغوی، النساء، ذیل آیة:171)

اور یہ مِن تبعیضیہ (جزء) کے لیے نہیں ہے، بلکہ کسی چیز کے صادر ہونے کے لیے ہے، جس کا ترجمہ ہوگا (اللہ) کی طرف سے صادر ہونے والی روح۔

تفسیر بحر المحیط میں ہے:
”ومعنی روح منہ أی صادرة؛ لأنہ ذو روح وجد من غیر جزء من ذی روح کالنطفة المنفصلة من الأب الحی، وإنما اخترع اختراعًا من عند اللہ وقدرتہ، وقال أُبیّ بن کعب: عیسی روح من أرواح اللہ تعالی الذی خلقہا واستنطقہا بقولہ:﴿ألست بربکم قالوا بلی﴾ بعثہ اللہ إلی مریم فدخل․ وقال الطبری وأبو رَوق: وروح منہ أی نفخة منہ، إذ ہی من جبریل بأمرہ․(البحر المحیط، النساء، ذیل آیة:171)

”اور روح منہ کا معنی ہے صادر ہونے والی روح، کیوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایسی روح ہیں جو کسی ذی روح کے حصے کے طور پر وجود میں نہیں آئی، جیسے زندہ والد سے جدا ہونے والا نطفہ ہوتا ہے، حضرت عیسی علیہ السلام کو محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے قدرت سے پیدا کیا گیا، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان روحوں سے ہے جنہیں پیدا کرکے ان سے ”ألستُ بربکم“ کے جواب کا مطالبہ ہوا تو انہوں نے ”بلیٰ“کہا اللہ تعالیٰ نے اس روح کو حضرت مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور وہ ان کے وجود میں داخل ہوئی اور امام طبری اور ابو رَوْق فرماتے ہیں ”روحٌ منہ“ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھونک؛ کیوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پھونک ماری ۔روح کا معنی حیات بھی ہے ،روح کا معنی پھونک بھی ہے، روح کا معنی رحمت بھی ہے، روح حضرت جبرائیل علیہ السلام کا صفاتی نام بھی ہے، روح وحی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔(دیکھیے تفصیل، الوجوہ والنظائر لکتاب اللہ العزیز، ص:229)

مسیحی حضرات نے اپنی مرضی کا آپ معنی منتخب کرلیا کہ یہاں روح ”حیات“ کے معنی میں ہے، حالاں کہ ایسے متشابہ لفظ کا مصداق جاننے کے لیے دیگر شواہد وقرائن،سیاق وسباق کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انہوں نے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لیے متشابہ لفظ میں کج روی اختیار کی۔

دوسری غلطی یہ کہ ”روح منہ“میں لفظ ”مِنْ“کا تبعیضی معنی (جز) مراد لیا اور دعوی کردیا کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اللہ تعالی کی حیات کا جزء ہے لہٰذا وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرح ازلی، قدیم اور الوہیت کا حصہ ہے۔
حالاں کہ اگر یہاں روح کا معنی حیات بھی مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے، اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل سے، خرق عادت کے طور پر، حضرت عیسی علیہ السلام کو حیات حاصل ہوئی ہے، اس مفہو م میں الوہیت کا کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا اور مِنْ تبعیضیہ کا دعوی اس لیے باطل ہے کہ یہ خلاف واقعہ ہونے کے علاوہ ایک دوسری آیت میں بھی مِنْ کا لفظ روح کے ساتھ استعمال ہوا ہے، مگر مسیحی وہاں مِن تبعیضیہ نہیں مانتے، سورہ سجدہ میں انسانی تخلیق کے بیان میں ہے:﴿الَّذِیْ أَحْسَنَ کُلَّ شَیْْء ٍ خَلَقَہُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاء مَّہِیْنٍ، ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِن رُّوحِہِ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ﴾․ (السجدة9-7) ان آیات میں انسانی تخلیق کے مراحل میں جب نفخ روح کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَنَفَخَ فِیْہِ مِن رُّوحِہِ﴾ یہاں نفخ روح کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف ہورہی ہے اور من بھی موجود ہے، جب کہ اس کے برعکس حضرت مسیح کے تخلیقی مراحل میں حضرت جبرائیل کا واسطہ ہے، پس مسیحی طرز استدلال کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے سے زیادہ مضبوط دلیل ہے، ہر انسان کا ابن اللہ ہونا ثابت ہورہا ہے، کیا مسیحی علما اسے تسلیم کرلیں گے؟ اگر کوئی انسان من تبعیضیہ کا نعرہ لگا کر ابن اللہ ہونے کا دعوی کرے تو مسیحی اسے کیسے جھٹلائیں گے؟

نیز تمام ائمہ اسلام اور علمائے اسلام کے نزدیک انسانی جسم میں پائی جانے والی روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں ہے۔

اگر بائبل پر نظر دوڑائیں تو کئی مقامات پر یہ بات ملتی ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں پر اپنی طرف سے روح بھیجی ہے تو کیا وہ سارے خدا یا ابن اللہ کہلائیں گے؟ مثلاً:

پھر خداوند نے موسی سے کہا O دیکھ میں نے بضلی ایل بن اُوری بن حور کو یہوداہ کے قبیلہ میں سے نام لے کر بلایا ہے O اور میں نے اس کو حکمت اور فہم اور علم اور ہر طرح کی صنعت میں روح اللہ سے معمور کیا ہے O (خروج 31:1 تا 3)

تو ان کا دم روک لیتا ہے اور یہ مرجاتے ہیں اور پھر مٹی میں مل جاتے ہیں O تو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں۔ (زبور 104:29، 30)

یہ مثالیں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر دی گئی ہیں، اسی طرح کی کئی مثالیں کتاب مقدس میں بکھری ہوئی ہیں۔

مسیحی حضرات کی ایک غلط فہمی

﴿لَّن یَسْتَنکِفَ الْمَسِیْحُ أَن یَکُونَ عَبْداً لِّلّہِ﴾مسیحی حضرات حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کو محبت وعظمت میں ابن اللہ قرار دیتے ہیں، ان کو مرتبہ الوہیت سے محروم کرنے کو سخت بے ادبی سمجھتے ہیں، اس آیت کریمہ میں واضح کیا گیا ہے کہ خود حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے تھے اور اللہ کی بندگی پر کوئی عار نہیں کھاتے تھے اور نزول سماوی کے بعد بھی کوئی عار نہیں کھائیں گے، اس لیے ان کو اللہ کا بندہ کہنا کوئی بے ادبی نہیں ہے۔

﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْناً، فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ بِاللّہِ وَاعْتَصَمُواْ بِہِ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَیَہْدِیْہِمْ إِلَیْْہِ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً، یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْ الْکَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ یَرِثُہَا إِن لَّمْ یَکُن لَّہَا وَلَدٌ فَإِن کَانَتَا اثْنَتَیْْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ﴾․ (سورة النساء، آیت:175-173)

اے لوگو!تمہارے پاس پہنچ چکی ہے تمہارے رب کی طرف سے سند اور اتاری ہم نے تم پر روشنی واضح O سو جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کو مضبوط پکڑا تو ان کو داخل کرے گا اپنی رحمت اور فضل میں اور پہنچا دے گا ان کو اپنی طرف سیدھے راستہ پر O حکم پوچھتے ہیں تجھ سے، سو کہہ دے اللہ حکم بتاتا ہے تم کو کلالہ کا، اگر کوئی مرد مر گیا اور اس کا بیٹا نہیں اور اس کی ایک بہن ہے تو اس کو پہنچے آدھا اس کا جو چھوڑ مرا اور وہ بھائی وارث ہے اس بہن کا ،اگر نہ ہو اس کا بیٹا ،پھر اگر بہنیں دو ہوں تو ان کو پہنچے دو تہائی اس مال کا جو چھوڑ مرا اور اگر کئی شخص ہوں اس رشتے کے کچھ مرد اور کچھ عورتیں تو ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے، بیان کرتا ہے اللہ تمہارے واسطے، تاکہ تم گم راہ نہ ہو اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے O

حضور کی رسالت عامہ پر تمام انسانوں کو ایمان لانے کی دعوت

﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ﴾ سے خطاب کرکے حضور علیہ السلام کی رسالت کو تاقیامت تمام انسانوں کے لیے عام کردیا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کسی قوم، قبیلہ، علاقہ، وطن، رنگ ونسل کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

﴿بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُم﴾ اے انسانوں! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان یعنی دلیل قاطع، حجت واضح آچکی ہے، برہان سے حضور علیہ السلام کی ذات گرامی مراد ہے، ان کی نبوت ورسالت کی صداقت پر واضح دلائل نے ان کے دعوی کو سچا کردیا ہے، پس اس پر ایمان لانے سے پیچھے ہٹنا محض تعصب اور ہٹ دھرمی ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے لفظ برہان کی نسبت لفظ رب کی طرف فرمائی ہے ﴿بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُم﴾ اس میں حکمت یہ ہے رب پالنے والے کو کہتے ہیں، جو ذات اپنی مخلوق کی تمام ضروریات کا انتظام کرتی ہے وہ رب ہے، پس جو ذات انسان کی جسمانی ضروریات پورا کرتی ہے وہی ذات اپنے لطف وکرم سے تمہاری روحانی ضروریات بھی پورا کرنا چاہتی ہے، پس اس کے نبی پر ایمان لاکر اپنی روحانی ضروریات کی بھی تکمیل کرو اور اپنے محسن حقیقی کی نعمتوں کی قدر جانو، گویا اس انداز بیان سے اپنے لطف وکرم کا اظہار ہے، شفیق لہجے میں ایمان لانے کی دعوت ہے۔

﴿أونزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾نور مبین سے مراد قرآن کریم ہے اس کا نور حسی نہیں ہوتا، معنوی ہوتا ہے، یہ دل کی ظلمتوں کو دور کرتا ہے، کفر ونفاق کا خاتمہ کرکے ایمان وسکون کی روشنی سے بھردیتا ہے۔

﴿فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُواْ بِاللّہِ﴾جو لوگ بھی آپ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لاکر، اپنے تمام امور زندگی میں ان کی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامے رہے، ان کے لیے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرے گا ،جو سراپا مقام رحمت ہے۔ اس لیے آیت میں جنت کو رحمت سے تعبیر کیا گیا ﴿فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْہ﴾ اور جنت میں بھی اپنے فضل وکرم سے ان کے اعمال سے کئی گنا زیادہ مراتب اور نعمتوں سے نوازے گا ﴿وَفَضْلٍ﴾ سے اسی انعام کی طرف اشارہ ہے۔

کلالہ کے ترکہ کا وارث کون ہوگا؟

﴿یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللّہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْ الْکَلاَلَةِ﴾ ان آیات میں کلالہ کے ترکہ کے متعلق احکام بیان کیے گئے ہیں۔
کلالة اس شخص کو کہتے ہیں جس کے اصول وفروع یعنی والدین اور اولاد نہ ہوں، ایسا شخص انتقال کرجائے تو اس کے ترکہ کی تقسیم کس طرح عمل میں آئے گی؟

اسی سلسلہ میں درج ذیل احکام بیان کیے گئے ہیں۔
واضح رہے اس آیت کریمہ میں اس کلالہ کے ورثا کا حصہ بیان کیا گیا جس کے حقیقی بہن بھائی یا باپ شریک بہن بھائی موجود ہوں، جس کلالہ کے حقیقی بہن بھائی یا باپ شریک بہن بھائی نہ ہوں، بلکہ ماں شریک بہن بھائی ہوں اس کے ترکہ کی تقسیم کے احکام اسی سورت کی آیت نمبر ۱۲ میں گزر چکے ہیں، اس تمہید کے بعد اس آیت کریمہ میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
ا

1.. گر ورثاء میں صرف ایک حقیقی، یعنی ماں باپ شریک یا علاتی، یعنی باپ شریک بہن ہو تو وہ نصف ترکہ کی حق دار ہوگی، باقی نصف عصبہ رشتہ داروں، مثلا چچا زاد بھائی وغیرہ کو ملے گا، اگر یہ بھی نہ ہوں تو باقی آدھا حصہ بھی بہن کے حصہ میں آئے گا۔

2.. اگر فوت ہونے والی عورت ہو اور کلالہ ہو اس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اولاد بھی نہ ہو صرف بھائی ہو، خواہ ایک ہو یا زیادہ تو وہ اس کے پورے ترکہ کا وارث ہوگا۔

3.. اگر کلالہ مرد کی دو بہنیں ہوں تو یہ دونوں تہائی ترکہ کی حق دار ہوں گی، دو سے زیادہ بہنیں ہوں تب بھی یہی حکم ہے، باقی ایک تہائی عصبہ رشتہ دار ،مثلا چچا، چچا زاد بھائی وغیرہ کو ملے گا، اگر کوئی عصبہ موجود نہ ہو تو یہ باقی ایک تہائی بھی بہنوں کو ہی ملے گا۔

4.. اگر کلالہ مرد یا عورت کا بھائی بھی ہو اور بہن بھی تو ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرد کا حصہ عورت کے مقابلے میں دہرا ہوگا۔

آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ احکام بیان کرکے احسان فرمایا کہ ہم احکام کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ،تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور گم راہ نہ ہوجاؤ، باقی احکام کی مصلحت کہ کس کو کس قدر کیوں ملا اور کیوں نہیں ملا اور کس کو کس قدر ملنا چاہیے اور نہیں ملنا چاہیے، یہ تم نہیں سمجھتے، ہم خوب سمجھتے ہیں، تمہارا فریضہ یہ ہے کہ تم ان احکام پر عمل کرو اور بتائے گئے حصوں کے مطابق ترکہ تقسیم کرو۔ 

کتاب ہدایت سے متعلق