یہ کوئی دشوار کام نہیں ہے، اولاد کی محبت سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ مگر اس کے لیے عقل وسلیقہ شرط ہے، جو بدسلیقہ ہیں ان کو اور ان کی اولاد کو زندگی دوبھر ہو جاتی ہے، پرورش پانے کو تو بچے پرورش پا جاتے ہیں، مگر حیوان ہی رہتے ہیں، نہ خاموشی کا سلیقہ، نہ بات کرنے کا طریقہ، بات کے وقت خاموش رہے، خاموشی کے وقت جو چاہا کہہ دیا، نہ کھانے کا سلیقہ، نہ پینے کی تمیز، نہ پہننے اوڑھنے کا انداز، کپڑے پھٹے ہیں تو کچھ پروا نہیں، بیمار ہیں تو بے جا علاج ہے، کسی چیز سے پرہیز نہیں، اپنی زندگی سے جیسے موت آگئی مر گئے۔ ایسی بد سلیقہ ماؤں کے لیے بچوں کا ہونا قیامتہے، ایک بچہ بھی آفت جان ہو جاتا ہے اور جو سلیقہ مند تجربہ کار ہیں، جن کو لڑکے عزیز ہیں او رانجام پر نظر ہے، وہ نہایت خوبی کے ساتھ پرورش کرتی ہیں۔ تربیت اولاد بھی اور اطاعت خاوند بھی اور ان باتوں کو غنیمت سمجھ کر فخر کرتی ہیں اور پرورش کرتی ہیں، ایک قلیل آمدنی پر نہایت خوبی کے ساتھ گزر کرتی ہیں کہ دیکھنے والے خوش ہوتے ہیں۔
پرورش اولاد کا آسان طریقہ
اس کے آسان ہونے کا طریقہ میں ابھی تمہیں بتائے دیتی ہوں، پہلے تم سویرے اٹھنے کی عادت ڈالو کہ دن بھر کی ضرورتوں کو تم با آسانی پورا کرسکو او رایک آدھ گھنٹہ نکال کر دم بھی لے لو، قاعدہ یہ رکھو کہ سویرے اٹھ کر بچوں کو فارغ کراکے بستر پر لٹا دو، کپڑے او ربستر پہلے سے ٹھیک رکھو، گدا اور چمڑا احتیاط کے لیے او رنہا لچے حسب ضرورت، تکیہ، مینڈ، سب موجود رکھو اور صاف رکھو، تاکہ وقت پر دقت نہ ہو اور گندگی سے بیماری پیدا نہ ہو جائے اور دوائیں بھی ان کے ہر مرض کی مہیا رکھو کہ وقتاً فوقتاً کام آتی رہیں اور وقت پر پریشانی نہ ہو، فرض کرواگر رات کو بچے کی طبیعت خراب ہوئی، گود میں بچہ مچلا جاتا ہے، بسترپرتڑپا جاتا ہے، اگریہ دوائیں موجو دہیں تو بہت جلد یہ تکلیف رفع ہوسکتی ہے۔ دوائیں بھی اگر الله نے چاہا تو ضروری ضروری جن کا تجربہ ہوچکا ہے لکھوں گی۔ دواؤں کے ساتھ ساتھ اور ضروری چیزوں کا بھی انتظام رکھو، مثلاً ہاون دستہ، کھرل ،سل بٹہ ، کوئلہ، دیا سلائی، روٹی، کپڑا، چمچہ، کٹوری، پتیلی، ہر قسم کے تیل، جڑی بوٹیاں،برگ وتخم وغیرہ اور دو چار مفید درخت، اپنے گھر میں ہو سکیں تو لگا لو، مثلاً گلاب، چنبیلی، گل صد برگ وغیرہ، ان سے ہوا بھی خوش گوار ہو گی اور وقت پر کام بھی آئیں گے۔
دیہات اور شہر میں جو اشیاء ضروری ہوں انہیں تلاش کر لو، اگر یہ سب چیزیں مہیا رہیں گی تو الله کے فضل سے ضرورتیں بھی رفع ہوں گی اور اس انتظام سے تمہارے بہت سے کام انجام پائیں گے، کوئی کام تمہیں دشوار نہ ہو گا، گھر داری بھی کر سکتی ہو، شوہر کی تابع داری بھی اور تربیت اولاد بھی، بچوں کی طرف سے اطمینان بھی رہے گا۔ دیکھو! یہ سب ضروری باتیں ہیں جن کے ہونے سے کوئی کام رک نہیں سکتا، لیکن پھر بھی ان سب کے لیے سلیقہ در کار ہے، ایک یہ ہے کہ بچہ کو محفوظ وآرام دہ جگہ پر سلا کر دونوں پہلوؤں پر تکیہ رکھ دو اور بے فکری سے نماز پڑھو یا ناشتہ کا انتظام کرو یا کھانے کا، طلوع آفتاب سے پہلے تمہیں بہرحال موقع مل سکتا ہے کہ ناشتہ وغیرہ سے فراغت پا کر کلام مجید پڑھو، کتاب دیکھو، کیوں کہ اکثر یہ وقت بچوں کے سونے کا ہوتا ہے، اگر جاگ اٹھیں تو وہ میری پہلے بتائی ہوئی ترکیب عمل میں لاؤ، لیکن دوسرے وقت طلوع آفتاب کے بعد لامحالہ یہی ترکیب کرنی پڑے گی۔
بس وہی ترکیب کرکے کھانے کا یوں انتظام کرو کہ جنس وغیرہ تُلوا کر دے دو کہ پھر تمہیں بار بار نہ دینا پڑے، پھر ایسی جگہ بیٹھ کر بچہ کو لے لو کہ باورچی خانہ کی بھی نگرانی رہے او ربچہ بھی نہ روئے او رجب باہر بھیجو تو ہاتھ منھ دھو کر، کپڑے بدل کر بھیجو ، تاکہ تازہ ہوا کھا کے خوش اور صحت رہے، ایسے میں تم اور ضرورتیں پوری کرو، یوں تو مدتوں کی ضرورتیں پہلے سے پوری کرسکتی ہو۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم بچوں سے بے فکر رہو، نہیں، ہر وقت خیال رکھو، ان کے کھانے کا بھی معقول انتظام رکھو، اگر وہ بھوکے رہیں گے تو ہر چیز منھ میں ڈال لیں گے، جس سے نقصان پہنچے گا اور عادت خراب ہو گی ، غذا دو تو ہلکی، مگر سال کے اندر اندر دینے سے پیٹ بھاری ہو جاتا ہے اورمعدہ میں خرابی آجاتی ہے، سال ڈیڑھ سال کے بعد دینا مناسب ہے، وہ بھی بے وقت ہر گز نہ دو، بچوں کو بہت اپنے پاس بھی نہ رکھو کہ وہ لہکٹ ہو جائیں، موقع سے لو، ان کو لے کر بے فکری سے نہ لیٹو کہ سو جاؤ، جیسے کہ اکثر بیبیاں بچوں کو لے کر سو جاتی ہیں ، نہ گھر کی خبر نہ باہر کی، مرد بھی پریشان ہیں اور عورتیں بھی، مگر انہیں کچھ پروا نہیں او ربچہ بھی ماں کو نہیں چھوڑتا، بس کش مکش میں جان ہے، یہ طریقہ اچھا نہیں ہے، صبح دن چڑھے تک سونا منحوس ہے۔ ایسی سونے والی بیبیاں نماز سے محروم رہتی ہیں، یہ بہانہ مل جاتا ہے کہ کپڑے ناپاک ہیں ، یہ کفران نعمت ہے، الله نے اولاد کی نعمت دی تو اس کے عوض نماز کھو بیٹھیں، کتنی بری بات ہے! الله مجھے او رہر مسلمان کو ان بری خصلتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!
بچوں کی تعلیم
بچوں کی تعلیم کی ابتدا الله کے نام سے کرو، کوئی اور لفظ نہ کہنے پائیں، ایسی باتیں نہ سکھاؤ جو آج کل رائج ہیں کہ بچپنے سے انگریزی، ہندی الفاظ سکھائے جاتے ہیں، ایسے الفاظ ان کے سامنے زبان سے نہ نکالوں، بچہ بہت جلد سیکھ لیتا ہے، ان باتوں سے خوش نہ ہو، بلکہ افسوس کرو، ان کی زبان پر الله کا نام اور رسول کا نام رواں کرو، اس طرح سے کہ الله کی وحدانیت وقدرت کا ان کو پورا یقین ہو جائے۔ جو چیز تم سے مانگے کہو الله سے مانگو اور جو چیز دو کہو الله نے دی ہے۔ ہر طریقہ سے ان کے دل میں ایمان کی قوت پیدا کرتی رہو، ان کے ہر کام کی ابتدا بسم الله کے ساتھ کرو، ان کو وہ کلمہ سکھاؤ کہ الله اور اس کے رسول کو پہچانیں، جب ان کو سمجھ آجائے تو ان کو کلام مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں، سورہ اخلاص وسورہ کوثر وغیرہ کا ایک ایک لفظ سکھاتی رہو، ساتھ میں ترجمہ بھی سکھاتی رہو، رفتہ رفتہ بڑی سورتیں، یونہی آگے چل کر سیکھ جائیں گے۔
بچوں کی نگہ داشت
بچوں کو بری صحبتوں سے دور رکھو، ہر وقت خیال کرتی رہو کہ ان کی طبیعت کسی اور طرف مائل نہ ہو، ان کی ضد پوری نہ کرو، مانگنے سے پہلے ان کی خواہش پوری کردو، تا کہ ضد نہ پیدا ہو، ان کے ساتھ ایسا انداز رکھو کہ وہ تم سے بے خوف نہ ہوں، تمہارا اشارہ ان کو کافی ہو، بہت مارنے او ربرا بر کہنے سے بچے بے حیا ہو جاتے ہیں، بس اشارہ سے کام لو، ہر وقت ٹیڑھی باتیں نہ کرو، تھوڑی خطا پر سمجھا دو، غصہ میں کوئی لفظ بے جانہ نکالو کہ پچھتانا پڑے، ان کی طرف سے کسی کو برا نہ کہو، بلکہ ان ہی کا قصور سمجھو، ان کا کہنا نہ مانو، ہر بات کو جانچ کرتی رہو۔ دوسرا شخص جو کہے اس کا یقین کرو، مگر تھوڑی دیر کے لیے، جب تک تحقیق نہ کر لو، بچے خوف سے مکر جاتے ہیں، اگر تم ان کی بے جاپاس داری کرو گی تو ان کو پھر موقع ملے گا، اگر کوئی پڑی چیز اٹھالیں تو فوراً اسی جگہ رکھوا دو، اگرچہ دور ہی کیوں نہ ہو، اگر تم اس جگہ تک جاسکتی ہو تو جاکرسامنے رکھواؤ کہ آئندہ احتیاط رہے۔ کسی غیر کی چیز کے سامنے کھڑا نہ ہونے دو، اگر وہ دے تو حد ادب میں رہ کے واپس کر دو، جھوٹ او رچغلی سے روکتی رہو، مار کر ہنسو نہیں، ان سے بے تکلف ہو کے باتیں نہ کرو کہ وہ بے حجاب ہو جائیں، ان پر اپنی محبت کا اظہار نہ کرو، کسی بات میں ان کی بے جا طرف داری نہ کرو۔ سب بچوں کو ایک نظر سے دیکھو، ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دو کہ ایک دوسرے کو ذلیل سمجھیں، کبھی بچوں کے ہاتھ میں پیسہ نہ دو، خود مناسب سمجھ کر چیز منگا کر سب کو برابر تقسیم کر دو، بچوں کے ہاتھ میں پیسہ دینا، ان کی ہرخواہش پوری کرنا بڑی غلطی ہے، یہ محبت نہیں، بلکہ عداوت ہے۔
لڑکیوں کے پردہ کا خیال
لڑکیوں کے پردہ کا بہت لحاظ رکھو، جس وقت سے ان کو سمجھ آئے، ہم عمر لڑکوں سے علیحدہ رکھو، ان سے بات کرنے کا موقع نہ دو، بلکہ لڑکیوں کے پاس بھی تنہا نہ رہنے دو، ہنسی مذاق سے روکتی رہو، ان کو بے موقع کہیں آنے جانے نہ دو، اپنے ساتھ بھی ہر روز ہر جگہ لے جانا مناسب نہیں، اگرچہ چچااور ماموں ہی کا گھر کیوں نہ ہو، گھر سے ممانعت نہیں، بلکہ راستہ کا خیال ہے او ران کے شوق میں ترقی ہونے کا خوف ہے، آج تمہارے ساتھ گئیں، کل کسی اور کو ساتھ لے کر جائیں گی، ہر کام میں انجام پر نظر رکھو، یہ تعلیم بچوں اور بچیوں کی ضروری ہے، بچیوں کے پردہ کا زیادہ خیال رکھو، ہر بری بات میں روک ٹوک کرتی رہو، ان میں کسی قسم کی آزادی پیدا نہ ہو سکے، کپڑے اور زیور اپنی خوشی کے مطابق پہناؤ، ان کی رائے پر نہ چھوڑو،گزشتہ زمانہ کی حالت پر نظر رکھو، اس کے خلاف نہ کرو، بے جاکتابیں نہ دیکھنے دو، نماز پڑھنے اور قرآن وحدیث پڑھنے کی تاکید کرتی رہو، ادب اور لحاظ سکھاؤ، زیادہ باتیں کرنے سے روکو، زیادہ باتیں کرنا بے وقوفی کی دلیل ہے، بچیاں کم سخن اور شرمیلی بھلی معلوم ہوتی ہیں، کم سخنی اور شرم شریفوں کے انداز ہیں۔
دست کاری
بچیوں کو کاہل نہ بناؤ، ان سے کام لیتی رہو، کپڑے سلواؤ، کھانے پکانے میں شریک رکھو، کوئی ہانڈی خاص انہیں سے پکواؤ، خانہ داری میں شریک کرتی رہو، تاکہ ان کو مہارت حاصل ہو او ربخوبی اس سے واقف ہو جائیں۔ حساب خانہ داری انہیں کے ہاتھ میں رکھو، مگر تم ان سے حساب لیتی رہو، کپڑے وغیرہ کے لینے دینے او ران کے بدن کی صفائی کا وہی خیال رکھو جس کی بابت میں لکھ آئی ہوں، یہاں تک کہ جتنی ضرورتیں تمہیں پیش آتی ہیں او روہ ان کو بھی پیش آنا ہیں، وہ سب ان سے پوری کراتی رہو، انہیں پر نہ چھوڑ بیٹھو کہ ان کے چلے جانے سے تمہیں مصیبت پیش آئے، ہر کام کو الٹتی پلٹتی رہو کہ کرنے کی عادت رہے۔ غرض یہ کہ نہ تم، نہ لڑکیاں کسی کام میں محتاج رہیں، کتربیونت اور دست کاری میں ایسی مشتاق رہیں کہ دوسروں کو ان سے مدد ملتی رہے۔ سلیقہ شعار عورتوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے، اگر یہ باتیں ہیں تو قلیل آمدنی میں بھی آرام پاسکتی ہیں، جہاں تک ممکن ہو اور معیوب نہ ہو بچیوں کو ہر کام کا عادی بنانا چاہیے، کسی وقت وہ بے کار نہ رہیں، آج ان کی محنت اگر تم سے نہیں دیکھی جاتی تو کل تم کیسے دیکھ سکو گی جب زندگی کا انہیں پہاڑ اٹھانا پڑے گا ؟!اور اس وقت پھر یہی مثل ٹھیک اترے گی کہ ”اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت“۔