
عہد نامہ جدید کے متعلق تحریف کا اقرار
مسیحی حضرات عہد نامہ جدید کے متعلق بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس میں کوئی تحریف نہیں ہوئی، مگر یہ دعوی کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ عہد نامہ جدید کی تحریف کا اقرار خود مسیحی محققین نے کر کے مسلمانوں کے موقف کی تصدیق کر دی ہے۔ ذیل میں تحریف کے چند اقرار نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
1۔ آرچ ڈیکن پادری برکت اللہ نے لکھا ہے۔ ”حسن اتفاق سے ان معلّموں کے ہاتھوں میں ایک رسالہ بھی تھا، حضرت کلمة اللہ کی تعلیم اور آپ کے کلمات طیبات پر مشتمل تھا“۔ (قدامت واصلیت اناجیل اربعہ، جلد اول: ص 37)
اسی کتاب میں آگے لکھا ہے۔
”اور یہ رسالہ آہستہ آہستہ نقل ہونا بند ہوگا اور ایک زمانہ آیا جب یہ رسالہ ناپید ہوگیا“۔ (قدامت واصلیت اناجیل اربعہ، جلد اول: ص 85)
2۔ پادری ایچ پوسٹینٹس کا کہنا ہے : ”بعض مصنفین نے خیال کیا ہے سناپٹک اناجیل کے مصنفین کے سامنے ایک اورانجیل تھی، جو ہماری موجودہ اناجیل سے بہت پہلے کی تھی اور اب مفقود ہے“ (تفیسر متی، مترجمہ پادری طالب الدین بی اے، ص:18)
4۔ مفسر کریز اسٹم اپنی تفسیر ”ہوم لی“ میں لکھتا ہے۔ ”پیغمبروں کی بہت سی کتابیں ناپید ہوگئیں اس لیے کہ یہودیوں نے غفلت، بلکہ بے دینی سے بعض کتابوں کو کھو دیا اور بعض کو پھاڑ ڈالا اور بعض کو جلا ڈالا“۔ (”ہوم لی“ جلد: 9)
5۔ معروف متعصب عالم پادری فانڈر لکھتا ہے کہ : ”ہم لوگ قائل ہیں کہ بعض حروف والفاظ میں تحریف وقوع میں آئی ہے اور بعض آیات کی بابت مقدم اور موٴخر اور الحاق کا شبہ ہے“۔ (اختتام دینی مباحثہ، ص: 05، طبع: 1855)
6۔ معروف مسیحی مورخ موشیم لکھتا ہے کہ: ”بہت سے فریب کاروں نے خود کتابیں لکھیں اور انہیں مقدس حواریوں کی طرف منسوب کردیا“۔ (پہلی صدی، حصہ دوم، باب: 17/2)
تحریف کی داخلی شہادت کی چند مثالیں
1۔ مکہ مکرمہ کا ایک نام فاران ہے اور آپ علیہ السلام فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ کے پہاڑوں سے اتر کر حرم میں تشریف لائے۔ بائبل میں یہ واقعہ پیشن گوئی کے طور موجود ہے کہ:
”خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا، وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار مقدسیوں کے ساتھ آیا“۔(استثناء: باب، 33، آیت: 1 تا 3)
تورات کی اس عبارت میں ”سینا“ سے شریعت موسوی کی طرف اشارہ ہے اور سعیر سے تعلیمات عیسوی کی طرف اور کوہ فاران سے ذات محمدی کی بعثت اور غلبہ کی طرف اشارہ ہے اور دس ہزار قدسیوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مراد ہیں، جو فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
اس قدر واضح اور صریح پیشن گوئی کو مسیحی علما نے تحریف کر کے بدل ڈالا اور ”دس ہزار قدسیوں“ کی جگہ لکھ دیا ”وہ لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا“ حالاں کہ بائبل کا اردو ترجمہ جو 1927ء میں طبع ہوا تھا۔ اس میں ”دس ہزار“ کا عدد موجود ہے۔ عربی بائبل میں ”لاکھوں“ کے لفظ کو بھی اڑا کر اسے ”ربوات القدس“ (قدس کے ٹیلوں) سے بدل دیا، مگر ان تمام تر فن کاریوں کے باوجود انگریزی ترجمہ میں آج بھی ”دس ہزار“ کا عدد موجود ہے، جو نبوت محمدی کی صداقت کا اعلان کررہا ہے، شاید محرفین کا ابھی تک اس طرف خیال نہیں گیا۔
“And he came with the thouzand of sain”
مثال دوم
قرآن کریم سورہ آل عمران میں مکہ مکرمہ کے لیے ”بَکة“ کا نام بھی آیا ہے اور سورہ ابراہیم میں مکہ مکرمہ کو بنجر وادی ”وادٍ غیرَ ذِي زرعٍ“ بھی کہا گیا ہے۔ مسیحی علما نے اپنی کتاب میں مکہ مکرمہ کا نام بھی گوارا نہیں کیا۔ ”وادی بکہ“ کا تذکرہ اسی لفظ کے ساتھ بائبل کی کتاب زبور میں موجود ہے، مگر مسیحیوں نے ارو ترجمہ میں بَکّة کو ”بُکا“ سے بدل دیا، حرف با پر پیش دے کر اس کا ترجمہ رونے سے کردیا۔
چناں چہ اردو زبور میں ہے۔
”مبارک ہے وہ آدمی جس کی قوت تجھ سے ہے جس کے دل میں صیّوں کی شاہراہیں ہیں۔ وہ وادی بُکا سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں“۔( زبور، باب 84: آیت 5 تا 6)
یہی ترجمہ عربی بائبل میں بھی کیا گیا ”عابرین في وادي البکا“ جب کہ کیتھولک بائبل میں بکّہ کا ترجمہ خشک وادی سے کیا گیا ہے، جو ”غیر ذی زرع“ کا مصداق ہے۔ پروٹسٹنٹ محرفّین کی اس تحریف کا محاسبہ کرتے ہوئے مولٰنا رحمت اللہ کیرانوی لکھتے ہیں:
”تغیر وتبدل اور اصلاح کرتے رہنا فرقہ پروٹسٹنٹ کے لیے ایک امر طبعی بن گیا ہے، اس لیے آپ دیکھیں گے جب کبھی ان کی کوئی کتاب دوسری بار طبع ہوتی ہے اس میں پہلے کی نسبت بے شمار تغیر وتبدل پایا جاتا ہے۔ یا تو بعض مضامین بدل دیے جاتے ہیں یا گھٹا بڑھا دیے جاتے ہیں یا کسی مبحث کو مقدّم یا موخر کردیا جاتا ہے“۔ (اظہار الحق: 1/46)
تحریف کے یہ اقراری نمونے اتمام حجت کے طور پر پیش کے گئے ہیں، کیوں کہ عمومًا اہل کتاب مسلمانوں کے تحریف کے دعوی کو الزام سمجھتے ہیں۔
مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ پر بہتان کی حقیقت
اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے۔ اور لفظی تحریف سے محفوظ ہے۔ البتہ معنوی تحریف یعنی خود ساختہ تفسیر کا شکار ہوا ہے۔ جیسے مرزا غلام احمد قادیانی، سر سید احمد خان، غلام احمد پرویز، جاوید احمد غامدی کی قبیل کے لوگوں نے خلاف نصوص تفسیر کر کے معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے، اگر چہ مسلمان معاشرے میں ان کی معنوی تحریف سند قبولیت نہ پاسکی۔
حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کی شرح بخاری میں سابقہ کتب سماوی کی تحریف کے متعلق اہل سنت کے تین موقف بیان کیے گئے۔ اس عبارت میں کسی شریر بدعتی شخص نے ایک ضمیر کا مرجع خود ہی متعین کر کے حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ پر تحریف قرآن کے عقیدے کا بہتا ن لگا دیا۔ ذیل میں مولٰنا انور شاہ کشمیری کی عربی عبارت نقل کر کے بہتان باندھنے والوں کی علمی خیانت کی نشان دہی کی جاتی ہے:
واعلم أن في التحریف ثلاثة مذاہب: ذہب جماعة إلی أنّ التحریف في الکتب السماویة قد وقع بکل نحو في اللفظ والمعنی جمیعًا، وہو الذي مَال الیہ ابن حزم: وذہب إلی أن التحریف قلیل ولعل الحافظ ابن تیمیة جَنَحَ الیہ، وذہب جماعة إلی انکار التحریف اللفظی رأسا، فالتحریف عندہم کلہ معنويٌ․
قلتُ یلزم علی ہذا المذہب أن یکون القرآن أیضا محرفًا․․․ فإن التحریف المعنوی، غیر قلیل فیہ أیضًا والّذی تحقق عندی أن التحریف فیہ لفظي أیضا أما إنہ عن عمد منہم لمغلطة فاللہ تعالی اعلم بہ“․( فیض الباري)
مذکورہ عبارت میں غور کریں شاہ صاحب نے اوّلا کتاب سماویہ کی تحریف کے متعلق تین اقوال نقل کیے۔ پھر تیسرے قول کی تردید کی، جو کہتے ہیں سابقہ کتب سماویہ میں تحریف لفظی نہیں ہوئی، صرف معنوی ہوئی ہے، ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا، اگر صرف معنوی تحریف تسلیم کی جائے تو ایسی تحریف تو قرآن کریم میں بھی ہوئی ہے (جیسے قادیانی اور سر سید نے کی ہے)
پھر سابقہ کتب کو محرّفہ ماننے کی کیا خاصیت رہ جاتی ہے؟ آگے وَالذي تحقق عندي سے اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”أن التحریف فیہ لفظي أیضًا“ سابقہ کتب میں تحریف لفظی بھی ہوئی ہے۔
اس عبارت میں ”فیہ“ کی ضمیر سے مخالفین نے آسمان سر پر اٹھایا لیا اور از خود ضمیر کا مرجع قرآن کریم کو متعین کر کے یہ الزام دھر دیا کہ مولٰنا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ قرآن کریم میں تحریف لفظی کے قائل ہیں۔
بہتان کا منصفانہ جائزہ
1۔ فیض الباری حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی خود نوشتہ تصنیف نہیں ہے، بلکہ املائی تقریر ہے، جسے مولانا بدر عالم میرٹھی نے مرتب کیا ہے۔
2۔ یہاں پہ اشکال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اگر ”فیہ“ کی ضمیر ”الکتب السماویة“ کی لوٹ رہی ہے تو نحوی قاعدہ کے مطابق اسے موٴنث کی ضمیر ”فیھا“ ہونا چاہیے۔ لیکن یہاں مفرد مذکر کی ضمیر ہے، جس کا قریبی مرجع ”قرآن کریم“ بنتا ہے۔ اسی وجہ سے قاری کا ذہن مشوش ہوکر قرآن کریم کی لفظی تحریف کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لفظی اور عبارت کی کم زوری کی وجہ سے عجلت پسند طبائع نے تہمت لگانے میں دیر نہیں کی۔ اگر اس عبارت میں غور کیا جائے تو کئی احتمال ہیں:
جہاں ضمیر اور اس کے مرجع میں ایسے احتمالات موجود ہوں وہاں مفہوم کی تعیین کے لیے قرائن اور دیگرذرایع کو سامنے رکھا جاتا ہے، ایسے حساس موقع پر قرائن کو نظر انداز کرنا یا صاحب تحریر کے موقف کو دیگر تحریروں سے موازنہ کیے بغیر کفر کا فیصلہ کرنا علم ودانش اور ارباب فتاوی کی رو سے کسی طرح بھی درست نہیں کہا جاسکتا۔
3۔ یہاں آگے قرینہ موجود ہے ”عن عمدٍ منہم“ تحریف لفظی اہل کتاب سے جان بوجھ کر ہوئی ہے۔ منہم ضمیر کا مرجع اہل کتاب ہیں۔
4۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے روافض کی وجوہ تکفیر بیان کرتے ہوئے ان کے عقیدہ تحریف قرآن کو بیان کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ نے جس عقیدہ کی وجہ سے روافض کی تکفیر کی ہو خود اسی عقیدے کے حامل ہوں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔
چناں چہ آپ فرماتے ہیں:والمختار تکفیرہم، فإن مکفر جمہور الصحابة کافر․․․․ وللروافض في القرآن العظیم اقوال․ قیل زاد فیہ عثمان ونقص، وقیل نقص ولم یزد، وقیل إنہ محفوظ، ولا یقولون بصحة احادیث کتب اہل السنة ولہم صحاح اربعة وہی سِقام ومفتریات“․ (العرف الشذی، شرح سنن الترمذي: 1/82)
5۔ فیض الباری میں صحیح بخاری کے ایک باب کو ذکر کر کے اس کی تفصیل میں لکھتے ہیں: یہ باب روافض کے رد میں ہے، کیوں کہ روافض ملعون یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم میں کمی (تحریف) کی تھی۔ چناں چہ لکھتے ہیں۔
”باب من قال: لم یترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم إلّا ما بین الدفتین“․
”رد علی الروافض حیث زعم الملاعنة أن عثمان نقص من القرآن“․ (فیض الباري شرح صحیح البخاري: 3/464)
6۔ حضرت مولٰنا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ نے اپنی معروف کتاب ”اکفار الملحدین“ میں کئی مقامات پر قرآن کریم کی معنوی تحریف کو بھی کفر قرار دیا۔ (دیکھیے اکفار الملحدین، ص: 141) بلکہ ایک مقام پر واضح طور پر لکھا ”انکار مراد قرآن اور انکار قرآن کا حکم ایک ہی ہے“۔ (اکفار الملحدین، ص: 204)
ان تمام تر شواہد، دلائل کے باوجود ایک محتمل ضمیر کی بنیاد پر ان کو تحریف قرآن کے عقیدہ کا حامل قرار دینا انتہائی درجے کی بد نیتی اور بد دیانتی ہے۔ اس الزام کو تھوپنے میں روافض ہی کا پروپیگنڈا ہے، جنہوں نے اپنے عقیدہ تحریف پر پردہ ڈالنے اور انتقام لینے کے لیے یہ فعل بد انجام دیا ہے۔
نصاریٰ کو گروہ بندی اور فرقہ واریت کی سزا
ومن الذین قالوا إنا نصاری․․․․ فاغرینا بینھم العداوة والبغضاءَ… الآیة․
نصاری سے عہد لیا گیا تھا آخری نبی پر ایمان لانے کا، مگر انہوں اس عہد کا پاس نہیں رکھا، جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے گروہوں میں تقسیم کردیا، مسیحیت میں فرقہ بندی کی ابتدا حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع سماوی کے ساتھ شروع ہوگئی تھی، مگر بعثت نبوی کے بعد یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ کئی فرقے وجود میں آئے، کئی مٹ گئے، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
ان کی تاریخ پر خود مسیحی حضرات نے بھی قلم اٹھایا، مورخین نے نقاب کشائی ہے۔ اس وقت بھی دنیائے مسیحیت میں کم وبیش ایک سو پندرہ مسیحی فرقے موجود ہیں۔ ان میں چار فرقے مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، باقی فرقے در فرقے بن کر شاخ وفرع کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ مسیحیت کا مقبول عام فرقہ کیتھولک ہے۔ پھر ایسڑن آرتھوڈکس، اس کے بعد پروٹسٹنٹ ہے۔ ذیل میں ان کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
۱- رومن کیتھولک / Roman Catholic/ مغربی کلیسا/ لا طینی گر جا /پطرسی، رسولی فرقہ
یہ دنیائے مسیحیت کا قبول عام اور سب سے بڑا فرقہ ہے، اس فرقے کا دعوی ہے کہ اس کی بنیاد پطرس نے رکھی اور پطرس حضرت عیسی رحمة اللہ علیہ کے حواریوں میں سے تھا۔ 445ء میں یہ قانون بنا دیا گیا جو بھی روم کا بشپ ہوگا وہی رومن کیتھولک کا سربراہ بھی ہوگا۔ دینی معاملات میں پاپائے روم کی اطاعت کرنے والوں کو کیتھولک کہا جاتا ہے۔ پوپ کا مرکز ویٹی کن سٹی ہے، جو اٹلی کے اندر کے ایک چھوٹی خود مختار مذہبی ریاست ہے، چوتھی صدی عیسوی میں ایک رومی بادشاہ Constantini نے مسیحی مذہب قبول کر لیا تھا اور مسیحیت کو روم کا سرکاری مذہب قرار دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ فرقہ بھی اور مسیحیت بھی یورپ میں پھیلی اور بڑھی، یہاں تک دسویں صدی عیسوی میں یورپ کے اکثری ممالک کا سرکاری مذہب یہی تھا۔
کیتھولک میں مرکزی پوپ بننے کی بنیادی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شادی شدہ نہ ہو۔ اور پوپ کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر طرح کے مذہبی احکام میں ردّ وبدل کے اختیارات کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اس فرقے پر یہ آیت قرآنیہ درست اور بجا طور پر صادق آتی ہے۔ ﴿اتخذوا أحبارہم ورُھبانہم أربَابًا مِن دون اللّٰہ﴾ (التوبة: 31)
کیتھولک فرقے کا ایک عقیدہ ”رسولوں کا عقیدہ“ کے نام سے موسوم ہے، اس سے تثلیث کا عقیدہ، حلول وتجسیم کا عقیدہ، مصلوبیت مسیح علیہ السلام کا عقیدہ، حیات ثانیہ کا عقیدہ، کفارہ اور نجات کا عقیدہ مراد لیا جاتا ہے۔
ان کے نزدیک معبود بر حق تین اقانیم پر مشتمل ہے۔ اور تینوں ایک جیسے درجے پر فائز ہیں، کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔ اس لیے عقیدہ توحید کا بیان ان الفاظ سے کرتے ہیں ”خدا تین میں ایک ہے اور ایک میں تین ہے“۔ اس فرقے کی بائبل میں سات کتابیں ایسی ہیں جنہیں دیگر فرقے بائبل کا حصہ نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں حقیقی بائبل سے زائد کتابیں شمار کہتے ہیں، وہ سات کتابیں درج ذیل ہے:
1- طوبیاہ، 2- یہودیت، 3-حکمت ،4-یشوع بن سیراخ، 5-باروک، 6- مکابین اول، 7- مکابین دوم۔
اس فرقے کو کیتھولک، مغربی کلیسا، لاطینی گرجا، پطرسی فرقہ، رسولی فرقہ بھی کہا جاتا ہے۔
2- ایسٹرن آرتھوڈکس Easternorthodox / مشرقی کلیسا
عصر حاضر میں دنیائے مسیحیت کا یہ دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں کیتھولک فرقے کے بعض عقائد قبول نہ کرنے کی وجہ سے یہ فرقہ وجود میں آیا، ان کی بائبل کا نام لیمیزا ہے۔ اس فرقے کے مذہبی سربراہ کو بطریرک یا پپڑیارک کہتے ہیں۔
ان کا رومن کیتھولک سے چند بنیادی امور میں اختلاف ہے: مثلًا 1- کیتھولک کے نزدیک روح القدس باپ اور بیٹے دونوں سے پیدا ہوا ہے۔ آرتھوڈکس کے نزدیک روح القدس صرف باپ سے پیدا ہوا ہے، بیٹے سے پیدا نہیں ہوا۔ 2- کیتھولک کے نزدیک تینوں اقنوم مرتبے میں برابر ہیں۔ آرتھوڈکس کے نزدیک معبود باپ معبود بیٹے سے افضل ہے۔ ان کے نزدیک الہامی کتابوں کی تعداد صرف چودہ ہیں۔ بائبل کی یہ چودہ کتابیں اسفار (Deuterocanonicals) کہلاتی ہیں۔
ایسٹرن آرتھوڈکس اس وقت دنیائے مسیحیت کا سب سے بڑا دوسرا فرقہ ہے۔ اس کے پیروکار بنیادی طور پر بیلا روس، بلغاریہ، قبرص، جارجیا، یونان، مقدونیہ، رومانیہ، روس، یوکرائن، میں پائے جاتے ہیں۔
3- پروٹسٹنٹ /Protestant/ لوتھرن چرچ
1600 عیسوی میں ایک جرمن فلاسفر مارٹن لوتھر نے رومن کیتھولک میں پوپ کے اختیارات کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور کلیسا کی کئی رسموں کو ماننے سے انکار کردیا۔
1- ان کے نزدیک پوپ کی بجائے بائبل حتمی اتھارٹی ہے۔
2- پوپ انسان اور خدا کے درمیان واسطہ نہیں ہے۔
3- پوپ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی گناہ گار کی مغفرت کا اعلان کرے۔
4- ہر شخص بائبل سے براہ راست استفادہ کر کے اپنی مذہبی معاملات میں خود مختار ہے۔
5- کیتھولک بائبل کی جن سات زائد کتابوں کو الہامی قرار دیتے ہیں پروٹسٹنٹ کے نزدیک وہ جعلی ہیں۔
6- کلیسا کی سات رسموں میں سے صرف دو رسموں کے قائل ہیں: بپتسمہ، عشائے ربانی۔
مارٹن لوتھر کی اس بغاوت کے نتیجے میں کیتھولک کلیسا نے اسے عیسائی مذہب سے نکال دیا، جس کے نتیجے میں اس نے نئے فرقہ کی بنیاد رکھی، پھر یورپ میں اس فرقے کی کئی شاخیں ہیں، مثلًا: کیلورنسنٹ، ریفائنڈ چرچ پرینس بائی ٹرین، چرچ آف انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں کارلائل کے زمانے میں اس فرقے کی ایک شاخ یونیٹیرپن (مُوَحّد) وجود میں آئی، جو مسلمانوں کی طرح عقیدہ توحید کی حامل ہے۔
4- یہوواہ وٹنس
اس فرقے کی بنیاد1879ء میں چارلس تیز رسل نے امریکہ میں رکھی، یہ تمام مسیحی رسومات کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے خدا اکیلا ہے، حق یسوع اس کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔ بعد میں خدا نے تخلیق کائنات میں یسوع کو اپنا شریک کار بنا لیا، یہ فرقہ دیگر فرق کے موافق عقیدہ کفارہ نہیں رکھتا، ان کے نزدیک جب سات ہزار سال مکمل ہوں گے تو تمام انسان پاکیزہ ہوجائیں گے۔ اس فرقے کے لوگ رومن کیتھولک کے سخت مخالف ہیں، ان کا مقدس دن ہفتہ ہے، اپنے قومی جھنڈے کو سلام نہیں کرتے، ووٹ نہیں دیتے، صلیب کی علامت نہیں اپناتے، کسی مورتی کو سجدہ نہیں کرتے اور نہ ہی جنت وجہنم کا عقیدہ رکھتے ہیں، حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اُن کے نزول کی کئی بار تاریخیں بھی دے چکے ہیں۔ پیشگوئیاں غلط ثابت ہونے پر ان میں بھی کئی شاخیں پیدا ہوگئی ہیں، ان کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔
(تمام مسیحی فرقوں کو دعوت ہدایت)
یأھل الکتاب قد جاء کم․․․․ جب تمام مسیحی اقوام افتراق وانتشار میں بٹ کر باہمی جنگ وجدل میں برسرپیکار تھی، اسی دوران اللہ نے اپنے فضل و کرم سے حضور علیہ السلام کو سراپا نور بنا کر اور کتاب ہدایت دے کر مبعوث فرمایا، اقوام عالم کو ان کی ذات وکردار میں ہدایت کی روشنی نصیب ہوتی ہے، ان کے دعوی نبوت کی صداقت کتاب ہدایت قرآن کریم میں موجود ہے، اسے پڑھ کر اپنے اختلاف کو وحی کی روشنی میں ختم کر کے اللہ کے فرماں بردار بن جائیں۔ مگر یہودیوں اور مسیحیوں نے جو آسمانی کتاب کے پیروکار ہونے کا دعوی رکھتے ہیں، قرآن کریم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے سے مجموعی حیثیت سے گریز کیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ﴿یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ﴾ راہ حق پر چلنے کی توفیق اللہ تعالی اسی کو دیتا ہے جو حق کی تلاش میں سچا ارادہ اور کڑھن رکھتا ہے ۔ جس میں حق کی طلب نہ ہو اسے زبردستی نورِ ہدایت سے سرفراز نہیں کیا جاتا ہے۔
ہاں! جس میں ہدایت پانے کی سچی طلب ہوتی ہے اور وہ سچائی کی تلاش میں نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے قرآن کریم کے ذریعے، ذات نبوی کے ذریعے، سیرت کے ذریعے، حق کی منزل تک پہنچادیتا ہے۔ سلامتی کے راستے دکھادیتا ہے، کفر کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی سے منور فرمادیتا ہے۔ (جاری ہے)