تبلیغ دین و دعوت الی اللہ

idara letterhead universal2c

تبلیغ دین و دعوت الی اللہ

محدث العصر مولانا سید محمدیوسف بنوری

عرصہ دراز سے اُمت محمدیہ سے ایک اہم تقصیر ہو رہی اور خیر القرون کے بعد سے ہی اس تقصیر کی بنیاد پڑ گئی تھی، یعنی تبلیغ دین اور دعوت الی اللہ میں قابل حسرت کو تاہی ہو رہی ہے ، دعوت و ہدایت دین اسلام کا اساسی اصول ہے ، جب دعوت ناکام ہو اور اس کی اشاعت کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں تو جہاد و قتال کی نوبت آتی ہے، قرون اولی کے سلف صالحین گفتار سے زیادہ اپنے کردار سے یہ دعوت پیش کرتے رہے، قوت بیانی سے پہلے اخلاقی و ایمانی قوت سے دعوت دیتے رہے، ہر ایک صحابی سر سے پیر تک اسلامی اخوت، اسلامی مواسات اور اسلامی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھا، دنیا میں اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے دینی حسن و جمال اور حسن اخلاق کے کمال سے پھیلا، تلوار کے زور سے نہیں پھیلا ، صاحب انصاف و صاحب عقل و بصیرت مورخ اس سے بے خبر نہیں ، اگر مسلمان اس اہم فریضہ میں کو تا ہی نہ کرتے تو شاید تمام عالم مسلمان ہوتا، تکوینی مصالح تو حق تعالے ہی جانتا ہے، تا ہم دنیا کے مزاج میں کفر و اسلام کے امتزاج سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن جہاں تک عقل اور اسلامی اصولوں کا تقاضا ہے وہ یہی ہے جو کچھ عرض کیا جا رہا ہے ، چناں چہ اپنے اثرات کے اعتبار سے دیر پا اسلام وہی رہا ، جو دعوت وارشاد کے راستوں سے پھیلا ہے، اسلامی فتوحات کے ادوار میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حضرات صحابہ کے عہد میمون میں جو ممالک اسلام کے زیر نگین آئے وہ آج تک اسلام پر قائم ہیں اور بعد میں سلاطین اسلام کی تلوار سے جو مسلمان ہوئے وہ یکے بعد دیگرے اسلام سے نکلتے جا رہے ہیں، نیز یہ فرق بھی واضح ہے کہ قرون اولیٰ کے مفتوحہ ممالک میں عقائد کی پختگی آج بھی باقی ہے، اگر چہ اعمال و اخلاق میں یورپ کی نقالی کا رنگ غالب ہے ، اس کے برخلاف جو ممالک بعد میں سلاطین اسلام اور ملوک اسلام کے زور تلوار سے فتح ہوئے ہیں ان میں عقائد کی خامی واضح ہے ،اگر کہیں اعمال ظاہری میں بظاہر تنگی بھی نظر آئے تو کریدنے کے بعد معلوم ہوگا کہ قلبی عقیدہ اتنا کھو کھلا ہو چکا ہے کہ ایک دھکے سے ختم ہو جاتا ہے، در اصل ابتدائی دور کی فتوحات میں اخلاص نمایاں تھا، انہوں نے اگر جہاد بھی کیا تو وہ بھی صرف اس غرض سے تھا ”لتکون کلمة اللہ ہی العلیا“ تا کہ صرف حتی تعالے کا دین غالب ہو ، اس لیے ان فتوحات کی برکات سے مسلمانوں کے عقائد میں پختگی پائی جاتی ہے اور جو ملک بعد میں فتح ہوئے ان میں اخلاص کا وہ درجہ نہ تھا ، بلکہ ملوکیت اور شان و شوکت کی آمیزش تھی، اس لیے وہ دینی تصلب حاصل نہ ہو سکا، کہنا یہ تھا کہ دعوت وارشاد میں امت مقصر رہی ہے اور آج جو نقشہ اسلام اور مسلمانوں کا ہے اسی تقصیر کے نتیجے ہیں۔
 
تبلیغی جماعت اور اس کے شان دار اثرات
 
حق تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی روح پر، جنہوں نے مسلمانوں کو بھولا سبق یاد دلایا اور اس سبق یاد دلانے میں ہی فنا ہو گئے ، اگر کوئی فنافی اللہ، فنافی الرسول اور فنافی الشیخ کے مظاہر کوسمجھنا چاہتا ہو تو حضرت مرحوم کو دیکھ لے کہ کس طرح فنافی التبلیغ ہو گئے تھے ، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے بس یہی فکر ہی دامن گیر تھی، تمام زندگی اور تمام افکار و انفاس بس اسی مقصد کے لیے وقف تھے، حق تعالیٰ نے ان کی جانفشانی و قربانی، ایثار و اخلاص اور جد و جہد کو قبول فرمایا اور چار دانگ عالم میں اس کے ثمرات و برکات پھیل گئے ، شاید روئے زمین کا کوئی خطہ ایسا باقی نہ رہا ہو گا جہاں ان کی جماعت کے قدم نہ پہنچے ہوں ، ماسکو، فن لینڈ واسپین سے لے کر چین و جاپان تک ان قافلوں کی دعوت انبیائے کرام علیہم السلام کے طریق دعوت سے بہت مشابہت رکھتی ہے ، اس کا انتظار نہیں کہ لوگ خود آئیں گے اور دین سیکھیں گے، بلکہ گلی، کوچوں اور بازاروں میں چل پھر کر اور گھر گھر لوگوں کے پاس پہنچ کر دعوت دی جاتی ہے اور زبان سے، حسن اخلاق سے اور اپنے طرز عمل سے دعوت دی جاتی ہے، سر سے پیر تک اسلامی مجسمہ بن کر اسلام کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے، اس لیے اس کا اثر یقینی ہوتا ہے۔
 
آج اُمت تقریر و تحریر کی محتاج نہیں، یہ بہت کچھ ہو چکا ہے ، ضرورت عملی نمونہ پیش کرنے کی ہے ، فصاحت و بلاغت کا دریا اُمت بہا چکی ہے، لیکن آج صرف سادہ عملی دعوت کی ضرورت ہے ، الحمد للہ کہ آج تبلیغی جماعت اس پر عمل پیرا ہے ، بہر حال طبیب خود مریض کے پاس جاتا ہے،اس کا انتظار نہیں کرتا کہ مریض طبیب کے پاس پہنچے تو علاج ہو، اگر یہ طریقہ عام ہو جائے اور امت کی اکثریت یا کم از کم بڑی کثرت اس مقصد کو شروع کر دے تو تو قع ہو سکتی ہے کہ امت کو نجات مل جائے اور بیڑہ پار ہو جائے، اگر امت پوری طاقت اسی طرح اصلاح و دعوت پر لگائے اور معاشرے کی اصلاح ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ آئندہ اقتدار بھی انہی صالح ہاتھوں میں آجائے اور پھر جو کام سالوں میں ہوتے ہیں وہ منٹوں میں ہو جایا کریں، بنیادی اصول بھی یہی ہے کہ پہلے معاشرے کی اصلاح کی جائے، اگر اصلاح شدہ معاشرے کے افراد کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور ہو تو کام یابی یقینی ہے ور نہ ،امت کا وہی حشر ہو گا جو آج ہو رہا ہے اور اکثریت کے جو نمائندے مسند حکومت پر براجمان ہیں ان کا ”صورت ببین حالش مپرس “‘والا قصہ ہے، اس طرح بلا شبہ کچھ دیر تو لگے گی، لیکن قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ میں دس پندرہ سال کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا، آج قوم کی کشتی جس خطر ناک بھنور میں پھنس گئی ہے ،روزانہ اخبارات کے صفحات میں اس کو دیکھیے اور پڑھیے ، حیرت و اضطراب کی کوئی انتہا باقی نہیں رہتی ، لے دے کر ایک عالم دین مسند حکومت پر متمکن ہوا، مگر شیطانوں کے لیے اس کا وجود بھی ناقابل برداشت ہے، خدا جانے کتنی مشکلات ان کے لیے پیدا کی جا رہی ہیں، کتنے روڑ ے ان کے راستے میں اٹکائے جارہے ہیں ، تمام شیاطین الانس والجن مقابلے پر سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ہیں ، الغرض جب تک معاشرے کی اصلاح نہ ہو جائے نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ؟! اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں ۔
 
لندن میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع
 
لندن سے برادرم محترم مولانا مفتی عبدالباقی کا ایک مکتوب گرامی آیا تھا، جس میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع (لندن)کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے، اوپر جو کچھ عرض کیا گیا اس سے اس کی تائید ہوتی ہے ،نا مناسب نہ ہوگا اگر اس کا اقتباس پیش کروں، وہ لکھتے ہیں :
 
1…بین الاقوامی تبلیغی اجتماع ختم ہو چکا ، تثلیث کے اس ملک میں توحید کی آواز عجیب منظر پیش کر رہی تھی، ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا قرون اولیٰ کے بچے بچائے لوگ جن کی زندگی میں اسلام کی جھلک نظر رہی تھی جمع ہوئے ہیں، ان میں لمبی لمبی ڈاڑھیوں والے لمبے لمبے کرتوں والے، پاجاموں والے، شلواروں والے ، بڑی بڑی پگڑیوں والے تھے، جنہیں دیکھ کر ”گورے لوگ“ محو حیرت بھی تھے اور محو تما شا بھی۔
 
جب ہندوستان کا وفد لندن کے ہوائی اڈہ” ہیتھرو “بلڈنگ نمبر3 پر تشریف لایا تو قانونی کارروائی سے فراغت کے بعد سب سے پہلے امیر التبلیغ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب باہر تشریف لائے نہ زندہ با دیا مردہ باد کے نعرے، نہ ہنگامہ، نہ شور و شر، کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ انتہائی وقار اور خاموشی کے ساتھ، لبوں پر تبسم ، چہروں پر طلاقت، اطمینان اور سکون کی فضا میں معانقے ہوئے ، مصافحے ہوئے اور پھر دعا شروع ہوئی جس میں آہیں، سسکیاں اور پھر آخر میں دھاڑیں مار کر رونے کی آوازیں بلند ہوئیں، تثلیث کے پرستار نیم عریاں لباس میں کیمرے تان کر کھڑے تماشہ کر رہے تھے اور تماشہ دکھا رہے تھے ، ان کو فوٹو اتارنے سے منع کیا گیا، تاہم چپکے چپکے سے وہ کیمروں کو ہلاتے رہے، سرتا پا حیرت کے مجسمے بنے ہوئے تھے، چوں کہ لندن ائیرپورٹ(ہیتھرو)پر ایک منٹ میں جہاز اترتا ہے اور قریبا دوسرے میں اڑتا ہے، اس لیے مسافروں کا تانتا بندھا رہتا ہے، مسافر آتے جاتے تھوڑی دیر کے لیے ضرور رکتے ،اس لیے کہ منظر ہی ایسا تھا کہ ہر ایک کو دعوت نظارہ دے رہا تھا۔
 
2…یہ مجمع مرکز تبلیغ لندن گیا اور پھر دوسرے دن اجتماع گاہ شیفیلڈ میں پہنچا، تین دن شیفیلڈ میں بڑی رونق رہی، خاص طور پر جب خیموں میں اور خیموں سے باہر میدان میں نمازوں کے لیے صفیں درست ہو جاتی تھیں تو اس منظر کو دیکھنے کے لیے محل اجتماع سے با ہر فٹ پاتھوں پر انگریز مرد اور انگریز عورتیں کافی تعداد میں کھڑے ہو کر تماشہ کرنے لگتے، یہ روح پرور منظر ان پر بڑا اثر انداز ہو رہا تھا ، اجتماع میں قریبا اڑتیس ملکوں کے وفود شامل ہوئے، جو آسٹریلیا کے علاوہ باقی چاروں براعظموں کے مختلف بولی بولنے والے مختلف نسل درنگ کے لوگ تھے، کینیڈا ، امریکہ، افریقہ اورایشیا اور یورپ ، ، عرب و عجم ، اسلام کے عالم گیر دین ہونے کا عملی نقشہ نظر آرہا تھا ، قریباً بارہ سو آدمیوں نے چار مہینوں ، چلوں اور کم و بیش وقت لگانے، دور اور دیر کے لیے نکلنے کے لیے اپنے نام پیش کیے،بائیس جماعتیں بیرونی ممالک کے لیے تیار ہو گئیں اور پینتالیس اندرون ملک کے لیے ۔
 
3…کینیڈا اور امریکا سے آئی ہوئی جماعتوں میں قریبا پندرہ آدمی حاجی حسین احمد جا جبھائی کی مسجد میں، جہاں میرا قیام ہے، جہاز کی روانگی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے بارہ دن تک ٹھہرے، رات کو عشاء کی نماز کے بعد یہ لوگ ٹانسلیٹر د ترجمان کے ذریعہ مجھ سے سوالات کرتے رہتے اورمیں ان کو جوابات دیتا رہتا، کبھی کبھی چار چار ترجمان ہوتے تھے، یہ سلسلہ رات کے ڈیڑھ بجے اور کبھی دو دو بجے تک چلتا تھا، انہوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کیے ، علم رمل، علمجفر ، علم نجوم ، قیافہ ، پامسٹری ، کہانت ، الہام ، وحی، عذاب قبر ،برزخ ، دوزخ ، جنت، علامات قیامت ، دجال ، امام مہدی علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یا جوج ماجوج ،دیدار الہٰی سے لے کر خوابوں کی تعبیرات تک سوالات کیے، چوں کہ ان میں اکثر نومسلم تھے، اس لیے علم کے بہت پیاسے تھے، آخر میں انہوں نے کہا کہ نیو یارک میں ہمارے اور بہت سے بھائی ہیں، جو اپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات چاہتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ نیو یارک اور کینیڈا چلیں، بہت عذر پیش کیا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی وغیرہ، ہاں! اگر یہ میرے ترجمان میرے ساتھ جائیں تو کسی وقت آپ کے ہاں آنا ہو سکتا ہے، لیکن یہ لوگ بضد رہے، پھر یہ لوگ واپس چلے گئے، یہ اکثر کالے رنگ اور نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔
 
4… ہم نے محمد علی کلے سے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے محمد علی کلے کے بارے میں کسی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا ، کہنے لگے اس نے آج تک پورا کلمہ نہیں پڑھا ، لا الہ الا للہ پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، محمد رسول اللہ آج تک نہیں پڑھا اور اس نے آج تک نماز نہیں پڑھی اور بہت مال دار ہے، کبھی زکاة نہیں نکالی اور حج ابھی تک نہیں کیا، روزہ کا حال خدا کو معلوم ہے۔
 
تبلیغ دین اور دینی مدارس
 
بہر حال میرا ناقص خیال ہے کہ جتنے عملی فتنے رونما ہو رہے ہیں ان کی اصلاح کے لیے یہ طریقہ دعوت اور اس میں شمولیت بلا شبہ مؤثر نسخہ اور علاج ہے، لیکن علمی فتنوں کے لیے ٹھوس علم کی ضرورت ہے ، آج کل اعدائے اسلام مستشرقین وغیرہ اسلام کے بنیادی مسائل کو ڈائنامیٹ لگا رہے ہیں ، قرآن کریم کے کلام الہٰی ہونے میں شبہات ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وساوس ، فقہ اسلامی پر تنقیدات و اعتراضات ، ان علمی فتنوں کی سرکوبی کے لیے ٹھوس علم دین ، جدید علم کلام ، جدید سائنس ، معلومات عامہ، احسن تحریر، شگفتہ بیانی، سنجیدہ متوازن دماغ ، پیہم کوشش اور صالح و موثر لٹریچر کی ضرورت باقی رہے گی ،جو علم سے نا واقف تبلیغی حضرات یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ اب نہ مدارس کی ضرورت ہے، نہ خانقاہوں کی ، یہ غلو ہے ، جہل ہے۔ علم دین تو تمام دینی کاموں کے لیے بنیاد ہے، امت علوم دینیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہو سکتی، جب مسلمانوں میں علمی فتنوں کا دور زیادہ نہ تھا، اس وقت بھی علوم اسلامیہ میں مہارت کی اہمیت سے انکار نہیں ہو سکتا تھا، سابقہ ادوار میں ارباب اقتدار کو علمی فتنوں کے عام کرنے کا موقع بہت کم ملا، شخصی طور سے فتنے برپا کیے جاتے تھے، صرف امام احمد بن حنبل کے دور میں مامون عباسی کو اقتدار کے ذریعہ خلق قرآن کا فتنہ مسلط کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد امین و معتصم ،لیکن آج تو برطانوی و امریکی اور روسی اقتدار کے سایہ میں فتنوں پر فتنے پرورش پا رہے ہیں، اتنی بڑی بڑی طاقت ور حکومتیں خود مختلف راستوں سے علمی فتنے پھیلانے میں مصروف ہیں، اگر علمائے امت نہ ہوتے اور ان کے دانت کھٹے نہ کرتے تو آج اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور خاکم بدہن! اسلام صفحہ ہستی سے کبھی کامٹ چکا ہوتا، یہ تو ان بوری نشین علماء کے کارنامے ہیں کہ آج بھی اسلام باقی ہے اور جو کچھ حصہ باقی نظر آرہا ہے وہ سوکھی روٹی کھانے والوں کا رہین منت ہے ، بہر حال عصر حاضر کے علمی فتنوں کے پیش نظر علمی خدمات اور علمی مدارس کی اہمیت پہلے سے ہزار گنا زیادہ ہے، نیز آج کے پر آشوب دور میں، جب عقیدہ اسلامی بہت کمزور ہو گیا ہے، اس کی حفاظت کے لیے علم دین کی ضرورت بہت زیادہ ہے، لینن و کارمل ، مارکس و ماؤزے تنگ کے اقتصادی فلسفوں کی سرکوبی کے لیے حاذق علماء کی ضرورت ہے ، ہاں! یہ ضروری ہے کہ ارباب علم پوری طرح جدید علمی ہتھیاروں سے مسلح ہوں تا کہ صحیح مقابلہ ہو سکے ، عصری تقاضوں کے پیش نظر جدید علمی تربیت سے آراستہ ہونا اور جدید معلومات فراہم کرنا اور نئی دنیا سے با خبر ہونا بے حد ضروری ہے ، بس شکوہ اگر ہے تو اس کا ہے کہ صحیح پختہ کار علماء کا وجود کبریت احمر ہے ۔
 
بہر حال خدمت دین اور اسلام کو ان علمی فتنوں سے بچانے کے لیے محقق اور بابصیرت ارباب علم کی بے انتہا ضرورت ہے اور ان علمی خدمات کو موثر بنانے کے لیے انتہائی اخلاص کی شدید حاجت ہے ، نرے علم پر مطلوبہ اثرات مرتب نہیں ہو سکتے، جب تک علم کے ساتھ اخلاص نہ ہو، قبولیت عند اللہ کے لیے اخلاص کا ہونا تو بالکل واضح ہے ، لیکن علمی خدمات پر صحیح اثرات مرتب ہونے کے لیے بھی اخلاص کے بغیر چارہ کار نہیں، گویا قبول عند الناس بھی ثمرہ ہے قبول عند اللہ کا۔ کہنا یہ ہے کہ تبلیغی خدمات اورموجودہ طرز پر دین کا جو کام ہو رہا ہے بلاشبہ دین ہے اور اہم جزو دین، لیکن یہ سمجھنا کہ بس یہی دین ہے اور اس کے بعد علم دین کی ضرورت نہیں، یہ بالکل غلط بلکہ گم راہی ہے ۔( علمائے اہل حق سے سوئے ظن اور ان کی بے وقعتی بہت ہی خطرناک ہے ،علماء کرام سے استغنا گم راہی اور کج روی کا پہلا زینہ ہے، کسی کجر و جماعت یا تحریک کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ علمائے حق سے بے نیاز ہو ، تفصیل کے لیے حضرت شیخ الحدیث الحاج مولانا محمد زکریا کاندہلوی دامت برکا تہم کی تصنیف الاعتدال فی مراتب الرجال کا مطالعہ کیا جائے ۔
 
الحمدللہ تبلیغی جماعت کے اکابر کو ہمیشہ اس کا اہتمام رہا کہ اس کام میں عوام کا علماء سے جوڑ ہو، وہ ان کی قدرد قیمت کو سمجھیں اور ان سے استفادہ کریں، حضرت مولانا محمد الیاس مختلف عنوانات سے بار بار اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے، ایک بار فرمایا :”ایک عامی مسلمان کی طرف سے بد گمانی بھی ہلاکت میں ڈالنے والی ہے اور علماء پر اعتراض تو بہت سخت چیز ہے ۔“ پھر فرمایا :”ہمارے طریقہ تبلیغ میں عزت مسلم اور احترام علما ء بنیا دی چیز ہیں ، ہر مسلمان کی بوجہ اسلام کے عزت کرنی چاہیے اور علماء کا بوجہ علم کے بہت احترام کرنا چاہیے ۔“ ایک موقعہ پر فرمایا:”ہمارے کا رکن جہاں بھی جاویں وہاں کے حقانی علماء و صلحاء کی خدمت میں حاضری کی کوشش کریں الخ“ ایک صاحب کو تحریر فرمایا : علم کے فروغ اور ترقی کے بقدر اور علم ہی کے فروغ اورترقی کے ماتحت دین پاک فروغ اور ترقی پاسکتا ہے ، میری تحریک سے علم کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے، یہ میرے لیے خسران عظیم ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس اور حضرت مولانا محمد یوسف (نور اللہ مرقدہما) کی اس قسم کی بے شمار تصریحات ہیں۔ (تفصیل کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی مدظلہ کی تازہ تالیف ”دہلی کی تبلیغی جماعت پر عمومی اعتراضات اوران کے مفصل جوابات” ملاحظہ فرمائیے۔
 
اس سے معلوم ہوا دہ تبلیغی کارکن جو علمائے کرام کی مساعی کو (بعض اس وجہ سے کہ وہ تبلیغی کام میں لگے ہوئے نہیں) قدر و منزلت کی نظر سے نہیں دیکھتے وہ ناپختہ کاری کی وجہ سے دعوت کے مزاج سے نا آشنا ہیں یابقول حضرت شیخ الحدیث” در اصل وہ دعوت کے کام میں لگنے سے پہلے علمائے کرام سے بے زار تھے اور اس کام میں لگنے کے بعد بھی ان کی خونہ بدلی، گویا طالب علم چور نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات چور طالب علمی کرنے لگتے ہیں۔“ (مدیر)
 
آج کل ایک سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ جو ارباب علم ہیں وہ صرف علم اور تعلیم پر قناعت کر کے بیٹھ گئے ہیں اور جو ارباب عمل اور ارباب دعوت ہیں وہ اپنے آپ کو علم اور علماء سے مستغنی سمجھتے ہیں، علماء کو میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور ارباب عمل کو علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ قدم قدم پر اخلاص کی ضرورت ہے ۔
 
جب علم وعمل واخلاص تینوں باتیں جمع ہو جائیں گی تو اس کے بہترین نتائج وبرکات ظاہر ہوں گے، مزید برآں سراپا اخلاص بن کر بھی حق تعالیٰ کی توفیق وفضل کی ضرورت ہے، افسوس کہ مادیت کے اس درد ناک دور میں تمام دینی اقدار ختم ہو گئے اور یہ سارے دینی کلمات صرف بے معنی الفاظ رہ گئے، مسلمانوں کے معاشرے میں اتنا شدید انقلاب آگیا کہ تمام دینی اصطلاحیں مسلمانوں کی زندگی میں بے حقیقت الفاظ رہ گئے ، اگر حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور دورِ اوّل کے مسلمان زندہ ہو کر ہمارے دور ِ حاضر کے نام لیوا مسلمانوں کی زندگیاں دیکھ لیں تو کیا فرمائیں؟ الله تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے صحیح اسلام پر قائم رکھے اور صحیح مسلمانوں کے خدوخال کی حفاظت فرمائے اور تقویٰ وطہارت کی حیات ِ طیبہ نصیب فرما کر فوز وفلاح کے مدارج ِ عالیہ سے نوازے۔ آمین۔
 
بحرمة النبي الأمین علیہ صلوات الله وسلامہ إلی یوم الدین

مقالات و مضامین سے متعلق