بیت المقدس مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے

idara letterhead universal2c

بیت المقدس مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے

مولانا مفتی امانت علی قاسمی

اس روئے زمین پر الله کا پہلا گھر خانہٴ کعبہ ہے اور دوسرا خانہٴ خدا مسجد اقصیٰ ہے۔ ایک روایت میں ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، یا رسول اللہ! سب سے پہلی مسجد کون سی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مسجد حرام، سوال ہوا:اور دوسری؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:مسجد اقصی۔ پوچھا گیا:ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چالیس سال کا۔ یہ مسئلہ علماء کے درمیان اختلافی ہے کہ مسجد حرام کی تعمیر سب سے پہلے کس نے کی؟ ایک روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اور ایک روایت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔ اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ مسجد اقصی کی تعمیر سب سے پہلے کس نے کی ہے؟ ایک قول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اور دوسری روایت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے، لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور بیت المقدس کی تعمیر حضرت یعقوب علیہ السلام نے کی ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں کی عمر میں چالیس کا فاصلہ ہے، جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی عمر میں کئی سو سال کا فاصلہ ہے۔

اسلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سولہ یا سترہ مہینہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے، اس لیے مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس طرح مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے، اسی طرح مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے۔ مسجد حرام کی بنسبت مسجد اقصیٰ میں ایک چوتھائی ثواب ملتا ہے۔ ایک روایت میں ہے:مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کا ملتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں ڈھائی سو نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابنیاء کی امامت فرمائی ہے۔ سفر معراج کی پہلی منزل بیت المقدس ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ معراج پر تشریف لے جاتے وقت ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابنیاء کی امامت فرمائی تھی، جب کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج سے واپسی پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس میں فجر کی نماز میں انبیاء کی امامت فرمائی۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبادت کی نیت سے کسی مسجد کا سفر کرنا درست نہیں ہے، سوائے تین مساجد کے، مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی ۔ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ ایمانی اور مذہبی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ مسلمان بیت المقدس کو فتح کر لیں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی بہت جلد پوری ہو گئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے لشکر کشی کی اور فلسطین کا محاصرہ کر لیا، اس وقت اس کا نام ایلیا تھا۔

چالیس روز کے محاصرے کے بعد فلسطینی مصالحت کے لیے تیار ہو گئے، لیکن ان کی شرط تھی کہ مصالحت پر دستخط مسلمانوں کے خلیفہ خود آکر کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے مشورہ کیا اور فلسطین تشریف لے آئے اور معاہدہ پر دستخط فرما دیے، جس کی رو سے بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور فلسطینی جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر سایہ رہنے لگے، ایک زمانے تک بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا، پانچویں صدی ہجری میں سلجوقی حکومت کا فاطمی حکومت سے مقابلہ ہوا اور فاطمیوں نے ان سے بیت المقدس اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس کے بعد493ھ میں پہلی صلیبی جنگ ہوئی اور بیت المقدس صلیبیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اس کی بازیابی کے لیے اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو پیدا فرمایا۔ صلاح الدین ایوبی یہ دیکھ کر کہ جس بیت المقدس کے ساتھ مسلمانوں کا والہانہ رشتہ رہا ہے، آج وہ غیروں کے ہاتھوں میں ہے، وہ تڑپ جاتے ہیں، ان آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، ان کے چہروں پر ہمیشہ غم کے آثار رہتے ہیں، بالآخر وہ ایک مضبوط فوج تیار کر کے، بیت المقدس کی بازیابی کا عزم مصمم کر لیتے ہیں، اورسلطان کے عزم و استقلال کے آگے صلیبی فوجیں ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ مقابلہ تو خوب ہوتا ہے، مسلمان بڑی تعداد میں شہید ہوتے ہیں۔ عیسائی بیت المقدس کے ارد گرد بہت مضبوط قلعہ تعمیر کرتے ہیں، جسے عبور کر پانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ایوبی کی ہمت اور عزیمت کے آگے مضبوط قلعہ مسمار ہو جاتا ہے، اور نوے سال کے عرصے کے بعد 583ھ میں بیت المقدس پر دوبارہ اسلامی پر چم لہرانے لگتا ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کے فتح ہونے کے بعد وہاں ایک مصلی تعمیر کروایا تھا، پھر اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس سادہ مصلیٰ کو از سر نو تعمیر کرایا اور اس کے شمالی جانب میں ایک قبہ بھی تعمیر کرنے کا حکم دیا، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام ان کے ہاتھوں تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ پھر ان کے بیٹے ولید بن عبد الملک نے المصلی الجامع اور قبة الصخرا کو عالی شان انداز میں تعمیر کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بیت المقدس ایک بہت بڑے احاطہ کا نام ہے، جس کی چاروں طرف سے مضبوط دیواروں کے ذریعہ گھیرا بندی کی گئی ہے اور یہ حصہ غیر مسقف ہے، اس میں المصلی الجامع اور قبة الصخرا کے علاوہ اور بھی چیزیں تعمیر کی گئی ہیں اور ہر دور میں مسلم حکمرانوں نے مسجد حرام کی طرح بیت المقدس کی تعمیر و تزئین کاری کے ذریعہ، فن تعمیر کی عظیم شاہ کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج کل جو بیت المقدس کی تصویر دکھائی دیتی ہے وہ در حقیقت قبة الصخرا کی تصویر ہے، بیت المقدس تو بہت بڑے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہودیوں کے سلسلہ میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں، انہوں نے عہدِ نبوی میں بد عہدی کی، اس کے علاوہ اسلام کو جس طرح نقصان پہنچا سکتے تھے اس سے دریغ نہیں کیا۔ قرآن نے ان کی عداوت ودشمنی کے سلسلے مختلف آیتیں نازل کی ہیں۔ یہودی فلسطین پر اپنا حق مانتے ہیں اور بیت المقدس کی جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام سے قبل یہودی فلسطین میں آباد تھے، لیکن سن 135ئمیں رومی شہنشاہ ہیڈریان نے یہودیوں کو فلسطین سے جلا وطن کر دیا تھا۔ سن 1700ء تک یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی، اس مدت میں صرف 90 سال تک بیت المقدس عیسائیوں کے قبضہ میں رہا، سب سے پہلی مرتبہ سن1800ء میں کچھ یہودی خاندان فلسطین میں آکر آباد ہوئے، پھر1897ئمیں یہودی تحریک معرض وجود میں آئی، جس کا مقصد فلسطین پر قبضہ کرنا اور ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا تھا۔ 1901میں ہرٹزل نے ترکی خلیفہ سلطان عبد الحمید کو لالچ دیا، اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کی ماتحتی میں تھا کہ آپ فلسطین میں یہودیوں کے مملکت کے قیام کی اجازت دے دیجیے، یہودی ترکی کا سارا قرضہ چکا دیں گے، لیکن سلطان عبد الحمید نے نہ صرف ان کے پیش کش کو ٹھکرا دیا، بلکہ ان کی غیرت ایمانی جوش میں آگئی انہوں نے کہا ”ہم اس وطن کی ایک بالشت زمین بھی اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک کہ اس پر ہمارا خون نہ بہ جائے“۔

یہودی اس بات پر سلطان کے مخالف ہو گئے اور1908ئمیں سازش کے ذریعہ ان کو معزول کر دیا گیا ،1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی تو برطانیہ نے دو قومی نظریہ کے ذریعہ تحت عربوں اور ترکوں میں منافرت پیدا کر دی اور عرب برطانیہ کے اور ترکی جرمنی کے حلیف ہو گئے، اس دوران وائزمین نامی ایک یہودی نے برطانیہ کو یہ پیش کش کی کہ اگر جرمنی پر فتح کی صورت میں فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن بنا دیا جائے تو یہودی اس جنگ کا سارا خرچہ برداشت کرنے کو تیار ہیں اور1917ئمیں یہ خفیہ معاہدہ ہو گیا، جسے تاریخ میں اعلان بالفور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ برطانیہ کی دھوکے بازی اور بربریت کا عملی ثبوت ہے اور یہ وہ بد نما داغ ہے جسے انگریز کبھی دھو نہیں سکتے۔ اس لیے کہ عربوں کی زمین انگریزوں کو فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔ پھر وہ انگریز شریف مکہ سے بھی وعدہ کر چکے تھے کہ عرب کی زمین پر عرب کی حکومت ہوگی، اسی معاہدے کی وجہ سے شریف مکہ نے ترکی کے خلاف بغاوت کی تھی، جس کی وجہ سے فلسطین اور عراق پر برطانیہ کا قبضہ ہوا تھا۔ لیکن مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ نظر انداز کر کے فلسطین یہودیوں کو دے دیا گیا۔ 1917میں فلسطین کی یہودی آبادی چھپن ہزار تھی، لیکن اعلان بالفور پر عمل ہونے کی وجہ سے 1921میں یہودی آبادی83ہزار پہنچ گئی، اور بڑی تیزی سے یہودی آباد ہونے لگے۔1922 سے1947 کا زمانہ برطانوی انتداب کا زمانہ ہے، جس میں یہودیوں کو بسانے کا کام منظم طور پر کیا جاتا ہے اور فلسطین کی زمین خریدنے کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ اب یہودیوں کی آبادی چار لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔1947ئمیں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں پیش کر دیا، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کر دیا، اور فلسطین کا بچپن فیصد رقبہ یہودیوں کو اور پینتالیس فیصد رقبہ عربوں کو دے دیا۔ یہ تقسیم بالکل ظالمانہ تھی کہ عربوں کی زمین بلا کسی وجہ کے زبردستی یہودیوں کو دے دی گئی تھی، اس لیے عرب اس تقسیم سے راضی نہیں تھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہودی بھی اس تقسیم سے راضی نہیں ہوئے، چناں چہ انہوں نے لڑائی کے ذریعہ عرب کی باقی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع دیا ۔14مئی1948کو یہودیوں نے اپنے قومی وطن اسرائیل کا اعلان کر دیا جسے امریکہ اور برطانیہ نے سب سے پہلے تسلیم کر لیا۔ اس وقت عرب ممالک نے اس تقسیم کی مخالفت کی اور کوششیں کی ، لیکن یہودی جارحیت کے سامنے عربوں کی ایک نہ چلی، بالآخر1967ئمیں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا، بلکہ انہوں کے بیت المقدس کے علاوہ مصر کے صحرائے سیناء اور شام کے جولان کی پہاڑیوں پر بھی اپنا قبضہ جما لیا۔ اس طرح تیرہ سو سال جو بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں تھا یہودیوں کا اس پر قبضہ ہو گیا۔ اب ان کا منصوبہ یہ ہے بیت المقدس کو منہدم کر کے ایک عظیم ہیکل سلیمانی وہاں پر تعمیر کیا جائے، اس کے لیے وہ منصوبہ بند کوششیں کر رہے ہیں۔ کبھی اس کے ارد گرد کھدائی کرتے ہیں، سرنگیں بناتے ہیں، تا کہ بیت المقدس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا سکے، بیت المقدس میں موجود قبروں کے نشان یا اس کے اسلامی نشان کو مٹا رہے ہیں، اس شہر سے اسلام کے نشان کو مٹانے کے لیے مسجدوں کو مسمار کر رہے ہیں، وہاں موجود مسلمانوں کو جبر و تشدد کے ذریعہ فلسطین چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کبھی بیت المقدس میں آگ لگا دی جاتی ہے، گویا ہر طرح بیت المقدس کونیست و نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن قربان جائیے فلسطینی مسلمانوں پر کہ بے سروسامانی کے عالم میں اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، اپنی ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، نوجوان اور بچے بھی اس جنگ میں پیچھے نہیں ہیں، اپنی جان کی بازی لگا کر بیت المقدس کی بازیابی کی جد و جہد کر رہے ہیں۔ اسلام نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح قرار دیا ہے، اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے، اسی طرح اگر دنیا کے کسی خطے میں مسلمان تکلیف میں ہوں تو دوسرے مسلمانوں کو بھی وہ تکلیف محسوس ہونی چاہیے، اگر فلسطین کے مسلمان اسرائیلی جارحیت کے شکار ہیں تو دوسرے مسلمانوں کو اس کے خلاف دستوری جد و جہد کرنی چاہیے اور اپنے ایمان و یقین کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ ہمیں مسئلہ فلسطین کا مطالعہ کرنا چاہیے، ہماری نوجوان نسل شاید اس پورے قضیہ سے ہی نا بلد ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ کریں، حالات سے واقفیت حاصل کریں، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ اظہار ہم دردی و غم خواری کا معاملہ ضرور کر سکتے ہیں، اتنا تو ہمارا حق ضرور بنتا ہے ان نہتے، جانباز فلسطینیوں کے لیے۔ اللہ تعالی فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے اور کوئی صلاح الدین پیدا کرے، جو مسلمانوں کی مذہبی میراث کو واپس دلا سکے۔ فلسطین مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے، مسلمان کبھی بھی اور کسی صورت میں اس سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔

اسلامی دنیا سے متعلق