الله تعالیٰ نے انسان کے اندر خیر وشر دونوں قسم کے مادے ودیعت رکھے ہیں، نہ تو وہ فرشتہ ہے کہ اس کے دل میں گناہ کا خیال تک بھی نہ آئے اور نہ وہ شیطان ہے کہ برائی سے اس کا دل خالی ہی نہ ہو۔ سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ وہ الله تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور نبی تھے،اس کے باوجود ان سے بھی زلّہ اور لغزش صادر ہوئی ہے، لیکن انہوں نے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں عجز وندامت کا اظہار کیا اور اپنی لغزش پر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ وزاری کی۔ قرآن مجید میں بھی ان کے اس واقعے کا ذکر موجود ہے اور ان کی اس دعا کے الفاظ ہیں:﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ﴾
”ائے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔“
انسان کو الله تعالیٰ کی مخلوق اور بندہ ہونے کے ناطے کوشش تو یہ کرنی چاہیے کہ اس سے الله تعالیٰ کی نافرمانی اور کوئی غلطی سرزد نہ ہو، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد او رانسان ہونے کے ناطے کوشش کے باوجود بھی غلطی کا صدور اس سے بعید نہیں ہے،لیکن جب بھی ایسا ہو تو انسان کو توبہ واستغفار سے کام لینا چاہیے اور الله تعالیٰ کی بارگاہ میں عجز وندامت کا اظہار کرنا چاہیے، الله تعالیٰ کی ذات بڑی کریم ہے او رغفور رحیم ہے، انسان کے معافی مانگنے میں تو دیر ہو سکتی ہے، لیکن اس کے معاف کرنے میں دیر نہیں ہو سکتی۔ الله تعالیٰ کی صفت تو ”عفوّ“ ہے، بہت زیادہ معاف کرنے والا۔ عفو کے اصل معنی مٹانے کے ہیں کہ وہ گناہ کو اس طرح معاف کرتا ہے کہ اسے نامہٴ اعمال سے ہی مٹا دیتا ہے۔ پھر توبہ واستغفار کا فائدہ صرف آخرت کا نہیں بلکہ دنیا میں بھی اس کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ چناں چہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ :﴿اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْکُم مِّدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾
”تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو بے شک وہ بخشنے والا ہے، کثرت سے تم پر بارش برسائے گا، تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا،تمہارے لیے باغ لگا دے گا او رتمہارے لیے نہریں بہا دے گا۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ واستغفار سے گناہوں کی بخشش اور آخرت کا فائدہ تو ہے ہی دنیا کے فوائد بھی اس سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ حدیث میں توبہ کرنے والے انسان کو بہترین خطار کار قرار دیا گیا ہے۔ آپ صلی الله علیہ سلم نے فرمایا کہ :﴿کلُّ بني آدمَ خطَّاء ٌ ، وخیرُ الخطَّائینَ التَّوَّابونَ﴾
ہر بنی آدم خطاکار ہے اور بہترین خطاکار توبہ کرنے والے لوگ ہیں۔“
الله تعالیٰ ہمیں اپنی بارگاہ میں گناہوں سے معافی مانگنے اور توبہ واستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العلمین․