اخوت اور بھائی چارہ نوع انسانی کے لیے اتنا اہم ترین عمل ہے کہ اس کے بغیر گھر، معاشرہ، اقوام وعالم سب کا چین وسکون ناممکن ہے، اگر آپس میں اخوت وبھائی چارگی نہ ہو تو سب کے سب اختلاف وانتشار کے شکار ہوجائیں گے، دنیا میں امن وامان ختم ہو جائے گا اور اس طرح گھر گھر فتنہ وفساد برپا ہونے لگے گا۔ دنیا میں امن وسلامتی کے قیام کی خاطر ہی اسلام نے اخوت وبھائی چارگی کی تعلیم پر زور دیا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان عالی شان ہے۔
ترجمہ: مومن مرد عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے(مددگار ومعاون) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ بہت جلد رحم فرمائے گا، بے شک اللہ غلبے والا، خوب حکمت والا ہے۔(سورہ توبہ:17)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلے ﴿بعضھم أولیاء بعض﴾ فرما کر یہ تعلیم دی کہ جب ہم آپس میں
دوست بن کر رہیں گے تو کام یابی سے ہمکنار ہوں گے، جب ہم آپس میں ایک دوسرے کو بھائی سمجھیں تو اسی وقت برائی سے رک کر اچھائی کرسکیں گے، کیوں کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ﴿یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر﴾ کا خطاب ملا ہے ،سورة الحجرات کی آیت نمبر 10میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو۔یہ آیت کریمہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک عالم گیر برادری قائم کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے، جس سے اس کی پوری پوری وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا، دوسرے یہ کہ زکوة دیتا رہوں گا، تیسرا یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا۔(بخاری) ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کے کام آئے گا اللہ اس کے کام آئے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرے گا اللہ قیامت کے دن کی تکلیفوں سے اس کی تکلیف کو دور کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی یعنی عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا َ۔(صحیح بخاری)
پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا کہ: آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھاوٴ، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور ایک دوسرے کے بیچ میں چڑھ کر خرید وفروخت نہ کرو۔ اس کے بجائے آپس میں اللہ کے بندے اور بھائی بن کر رہو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھتا ہے، نہ اس کو بے یارو مددگار چھوڑتا ہے، اللہ کا ڈر یہاں (یعنی دل میں) ہوتا ہے۔ (ایسا کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا) آدمی کے برا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھے ۔ ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان ومال ، عزت اور آبرو حرام ہے۔(صحیح بخاری، مسلم)
اسلام ایک عالمی دین ہے اور اس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، وہ سب بھائی بھائی ہیں اور ان کی اس اخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے۔ مسلمان دنیا کے کسی خطہٴ زمین میں آباد ہوں، وہ امت اسلامی کا ایک جزوہیں۔ امت کا اتحاد اور اخوت کا یہ رشتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہے، اسی لیے قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جا بجا اس پر بہت زور دیا گیا ہے، امت کو اختلاف اور تفریق سے روکا گیا ہے۔ اسلام نے اخوت کو قائم رکھنے اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا حکم دیا ہے اور ایسے تمام اسباب اور تصرفات سے روکا ہے جو اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
آج کے مسلم معاشرے میں جس تیزی سے مغربی افکار کو قبول کیا جارہا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ دجالیت مسلم معاشرے میں فعال ہے ،جس کی وجہ سے فحاشی وعریانی بڑھ رہی ہیں، عوام الناس میں مغربی طور طریقہ اپنانے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے ، بچوں کو مغربی دنیا کے ہیروز کے بارے میں ساری معلومات فراہم کی جاتی ہیں تو اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلامی کلچر کے فروغ کے لیے کوشاں ہوں، تا کہ نئی نسل کو گم راہی سے بچایا جاسکے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ گھروں میں اسلام سے متعلق گفتگو ہو، بھائی چارہ کی باتیں اور پھر اس پر عمل ہو اور عمل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم کسی غریب کی مدد کرتے ہیں تو یہ سعی کریں کہ غریب کو وہ رقم یا خوردو نوش کی اشیاء اپنے بچوں کے ہاتھوں سے دلوائیں ،تاکہ ان میں جذبہٴ خیر خواہی پیدا ہو اور ساتھ ان کا جذبہٴ خیر خواہی بھی جو ان ہو جائے تو اس کا دیرینہ اثر ہمارے مسلم معاشرے پر آپ خود محسوس کریں گے۔ انشاء اللہ۔
آج امت کے اتحاد اور اخوت کے رشتہ کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کی رسی، یعنی قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑیں، وہ تعلیمات جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے امت کے سامنے پیش فرمائی ہیں ان پر ایمان لے آئیں اور آپ کی ہدایت کی روشنی پر چلیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سلف وصالحین کے راستے پر چلیں، یہی کامیابی کا راستہ اور اسی سے امت میں اتحاد اور اخوت کا رشتہ مضبوط ہوگا۔
بس امت کے زعماء اور قائدین، چاہے وہ سیاسی ہوں یا دینی ، ان کا فرض ہے کہ امت کے اس اتحاد اور اخوت کو مضبوط کریں اور اس کے اسباب کو ترقی دیں اور اختلاف وانتشار سے امت کو دو رکھیں اور ان اسباب کا ازالہ کریں جن سے امت کے قلوب میں دوری ، نفرت اور اس کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح امت کے قائدین کا یہ بھی فرض ہے کہ امت کے اس اتحاد اور اخوت میں کوئی رسم ورواج رکاوٹ بن رہے ہوں تو ایسے رسم ورواج پر بابندی لگائیں، چاہے اسے کتنا ہی مذہبی اور تقدس کا رنگ دے دیا گیا، اس لیے کہ ان رسوم ورواج کے بالمقابل امت کی وحدت اور اخوت ہم سب کو زیادہ عزیزہونی چاہیے۔ نیز ہر مسلمان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اندر صفت ایمان پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخوت وبھائی چارگی کے ساتھ رہنے اور ملک و ملت میں امن وامان رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین!