(استاذ و رفیق شعبہ تخصص فی الحدیث، جامعہ فارقیہ کراچی)
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلٰی اٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
أما بعد:
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
«قل ادعوا اللہ أو ادعوا الرحمٰن، أیاما تدعوا فلہ الأسماء الحسنٰی».(بنی اسرائیل، الآیۃ:110)
ترجمہ: کہہ دو! کہ تم ( اللہ کو) اللہ (کے ناموں سے) پکارو یا رحمان (کے نام سے) پکارو، اور اس کے سبھی نام اچھے ہیں۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
«وللہ الأسماء الحسنٰی فادعوہ بھا».(الاعراف، الآیۃ: 180)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کے سبھی نام اچھے ہیں، سو اس کو اس کے ناموں سے پکارو!
اسی طرح جناب نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
عن أبی وھب الجشمی قال: قال رسول اللہ ﷺ : ’’تسموا بأسماء الأنبیاء، وأحب الأسماء إلی اللہ عبداللہ وعبدالرحمان، وأصدقھا حارث وھمام، وأقبحھا حربٌ ومرۃ‘‘. (سنن ابو داؤد، رقم الحدیث:4950)
ترجمہ: حضرت ابووھب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: کہ (اے مسلمانوں!) اپنے بچوں کے نام انبیاء کرام علیہ السلام کے ناموں پر رکھا کرو! اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمان ہیں۔ اور سب سے سچا نام حارث (محنت کرنے والا) اور ہمام (اونچے ارادے والا، ہمتی) ہے، اور سب سے برا نام حرب( جنگ) اور مُرہ(کڑوا) ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:
عن أبی الدرداء رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہﷺ:’’إنکم تدعون یوم القیامۃ بأسمائکم، وأسماء اٰبائکم، فأحسنوا أسمائکم‘‘. (مسند احمد، رقم الحدیث:21693)
ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، لہٰذا تم اچھے نام رکھاکرو!
اسی طرح ارشاد مبارک ہے:
عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ ﷺ :’’ان احب اسمائکم إلی اللہ عبداللہ وعبدالرحمٰن‘‘. (رواہ مسلم، رقم الحدیث:5587)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: تمہارے ناموں میں سے اللہ جل شانہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔
والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچے کا نام اچھا اور پسندیدہ رکھیں۔ اس لیے ان کی رہنمائی کے لیے آج کل ناموں کے سلسلہ میں کچھ غلط رواج نکل پڑے ہیں ،جن سے اجتناب ضروری ہے۔ یہاں نام رکھنے سے متعلق ہدایات وسنتیں نقل کی جائیں گی۔
حدیث بالا میں جو عبداللہ اور عبدالرحمٰن کے پسندیدہ ہونے کا ذکر ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اس میں بندے کی عبدیت کا اعلان ہے اور یہ چیز جس میں عبدیت کا اظہار ہو اللہ جل شانہٗ کو بہت پسند ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں نام انبیاء کے ناموں کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ (مظاہر حق: 4/380)
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام اس سے مستثنیٰ ہیں۔
ایک حدیث میں فرمایا: ’’سموا بأسماء الانبیاء‘‘. (ابو داؤد، رقم الحدیث:4950)
یعنی پیغمبروں کے ناموں پر (اپنے بچوں کے) نام رکھو۔ چنانچہ خود آپ ﷺ نے اپنے صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے بچوں کے ایسے نام بھی رکھے جو معنوی لحاظ سے اچھے ہوں ، اگرچہ وہ پیغمبروں کے معروف ناموں میں سے نہیں۔ مثلاً: آپ ﷺ نے اپنے صاحبزادوں کے نام عبداللہ اور قاسم بھی رکھے، چنانچہ ابو القاسم آپ ﷺ کی کنیت انہی کے انتساب سے تھی۔
اب نام رکھنے سے متعلق چند ہدایات وسنتیں نقل کی جاتی ہیں:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ برے ناموں کو بدل کر ان کے عوض اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے۔(ترمذی، ص:638، رقم الحدیث:2839)
ایک جماعت رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص تھا جس کو’’اصرم‘‘ کہتے تھے۔ آپﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے کہا مجھ کو اصرم کہتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا (نہیں) بلکہ آج سے تمہارا نام ز ُرعہ ہے۔ اس روایت کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔ (رقم الحدیث:4954)
نیز انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے عاص، عزیز، عتلہ،شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔
۱…مالک الاملاک، سلطان السلاطین (شہنشاہ، بادشاہوں کا بادشاہ) حاکم الحکام(حاکموں کا حاکم) اور قاضی القضاۃ (قاضیوں کا قاضی) نام رکھنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسندیدہ ہیں، اس لیے ان ناموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (تحفۃ المودود بأحکام المولود لابن قیم، ص:168)
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’أخنعُ اسمٍ عنداللہ رجلٌ تسمی بملک الأملاک‘‘.(صحیح بخاری، ص:1080، رقم الحدیث:6206)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ہاں(قبیح اور ذلیل ترین) نام اس شخص کا ہے جو اپنا نام مالک الاملاک (یعنی بادشاہوں کا بادشاہ) رکھتا ہے۔
۲…اللہ تعالیٰ کے ناموں پر نام رکھنا:
اللہ تعالیٰ کے ذاتی صفات پر نام رکھنا ممنوع ہے، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ناموں پر نام رکھنا ممنوع ہے، لہٰذا أحد، صمد، خالق، رازق
،اور وہ تمام نام جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، اسی طرح بادشاہوں کے لیےقاھر، ظاھر، جبار، متکبر، أول، اٰخر، باطن،
اور علام الغیوب
نام رکھنا جائز نہیں ہے۔ (تحفۃ المودود بأحکام المولود ، ص:182)
۳…توحید کے منافی نام:
وہ تمام نام جو توحید کے منافی ہیں ، جن میں شرک کا شائبہ اور غیر اللہ کے لیے عبدیت کا اظہارہوتا ہے، ایسے تمام نام بالاتفاق حرام ہیں، جیسے: عبدالعزی، عبدھبل، عبد عمرو،عبدالکعبۃ وغیرہ۔ (تحفۃ المودود، ص:165)
۴…کسی پیر یا ولی کی طرف نسبت کر کے نام رکھنا:
بعض لوگ جو اولاد سےمحروم ہوتے ہیں یا نرینہ اولاد کے فقدان کا شکار ہوتے ہیں،وہ کسی نبی، پیر، ولی یا بزرگ کے مزار یا آستانہ پر جا کر منتیں اور نذریں مانتے ہیں کہ اگر ہمیں اولاد نصیب ہوئی، تو ہم اس بچے کا نام ان ہستیوں کے نام پر رکھیں گے،پھر جب اللہ تعالیٰ انہیں نعمت اولاد سے نوازتے ہیں ، تو وہ بچوں کے نام رسول بخش، پیرداتاں، عطاء محمد، پیر بخش، غوث بخش، غلام فرید رکھتے ہیں، ایسے نام قطعا حرام ہیں۔
۵…نبی ﷺ کے مخصوص اوصاف پر نام رکھنا:
رسول اللہ ﷺ کی وہ صفات جن سے صرف آپ ہی متصف تھے، ان صفات پر نام رکھنا امتیوں کے لیے حرام ہے، جیسے: سید الناس، سید وُلد آدم نام
رکھنا جائز نہیں ہے۔ (تحفۃ المودود، ص:168)
۶…جن ناموں میں نفس اور ذاتی نیکو کاری نمایاں ہو:
ایسے نام جن میں ذاتی ستائش یا تزکیہ نفس یا برتری کا معنیٰ نمایاں ہو، ایسے ناموں سے احتراز بہتر ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام بَرَّہ (نیکوکار) تھا، پھر آپﷺ نے ان کا نام بدل کر جویریہ رکھ دیا، آپﷺ ناپسند کرتے تھے کہ انہیں یہ کہا جائے کہ وہ برّہ کے پاس سے نکلے ہیں۔ (صحیح مسلم، ص:654، رقم الحدیث:5606)
۷…جن ناموں میں نافرمانی کے معنی ہوں:
ایسے نام جن میں نافرمانی ،سرکشی،اور بغاوت کے معنی ہوں، ان سے بھی احتراز بہتر ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاصیہ (نافرمان) نام تبدیل کردیا اور فرمایا: کہ تم جمیلہ ہو۔ (جامع الترمذی، ص:638، رقم الحدیث:2838)
۸…جن ناموں میں رحمت سے دوری وغیرہ کا مفہوم ہو:
جن ناموں میں رحمت سے دوری، اور شخصی نقائص کے معنی ہوں، وہ نام مکروہ ہیں۔ حضرت اسامہ بن خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو اصرم کہا جاتا تھا، وہ ان لوگوں میں سے تھا جو (وفد) رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے تھے، تو رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: میں اصرم(رحمت سے کٹا ہوا) ، آپﷺ نے فرمایا:’’ بل أنت زُرعۃ‘‘ بلکہ تم زرعہ (کھیتی ،شادابی) ہو۔ (سنن ابوداؤد، ص:698، رقم الحدیث:4954)
۹…جن ناموں میں سختی اور اکڑپن ہو:
جن ناموں میں سختی، اکڑپن، ترش روئی وغیرہ کا معنی ومفہوم ہو اسے تجویز کرنا مکروہ ہے، کیونکہ نام کا شخصیت پر اثر ہوتا ہے، اور بُرے نام کے اثرات انسانی نفس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ میرے دادا حزن نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپﷺ نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا:میرا نام حَزن(سخت رو، غم وپریشانی) ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: بلکہ تم سہل(آسان ) ہو۔ انہوں نے عرض کیا: اپنے والد کا تجویز کردہ نام تبدیل نہیں کروں گا، حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں: اس کے بعد ہم میں ہمیشہ سختی وترش روئی اور غم وپریشانی موجود رہی۔ (صحیح البخاری، ص:1078، رقم الحدیث:6193)
۱۰…عدد اور تاریخ کے اعتبار سے بچے کا نام رکھنا:
بعض لوگ بچے کا نام تجویز کرتے وقت قرآن مجید سے نام کے حروف نکال کر اور بچے کے نام کے حروف کے اعداد اور تاریخ پیدائش کے اعداد کو آپس میں ملا کر نام رکھتے ہیں، جسے علم الاعداد کہاجاتا ہے۔ (علم الاعداد دراصل پرانے زمانے کی آرائیں، مصری، یونانی اور عبرانی قوموں میں اس کا بہت رواج تھا، جس طرح علم نجوم کا تعلق ستاروں اور سیاروں کی فرضی چالوں اور خیالی اثرات سے ہے، اسی طرح علم الاعداد کا تعلق بھی شیطان کے دیے ہوئے خیالی آسمانی دیوتاؤں کی کہانیوں سے ہے) ، لہٰذا اس طریقہ سے نام رکھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ قرآن وحدیث میں علم الاعداد پر اعتماد کی اجازت نہیں ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل:8/262)
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں صریح اثر وارد ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إن قوماً یحسبون أباجاد، وینظرون فی النجوم، ولا أریٰ لمن فعل ذلک من خلاق‘‘.(شعب الایمان: 4/306، رقم الحدیث:5196)
ترجمہ: کچھ لوگ حروف ابجد کو (علم) تصور کرتے ہیں، اور ستاروں میں نظریں دوڑاتے ہیں،(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں) میرے نزدیک ان لوگوں کا جو یہ کام کرتے ہیں (دین میں) کوئی حصہ نہیں ہے۔
۱۱…بعض لوگ پیارو اظہار محبت کی غرض سے اپنے بچوں کے اصلی ناموں کے علاوہ ایک اور عرفی نام رکھتے ہیں۔ مثلاً: محمد اسماعیل عرف پیارو، عبدالرحمٰن عرف مانی، عبدالقادر عرف صابو، عبدالباسط عرف پپی وغیرہ۔ یہ نامناسب بات ہے۔
۱۲…بعض لوگ قرآن مجید کھول کر ساتویں سطر کی ابتدا میں جو حرف ہوگا اسی حرف سے نام رکھتے ہیں۔ مثلاً :حرف ’’ش‘‘ نکلا تو نام ’’ش‘‘ سے شکیل یا شکیلہ، شمیم الدین یا شیماں رکھتے ہیں۔ یہ غلط ہے شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
۱۳…بعض لوگ خوب صورت اشیاء کے نام بھی بچوں کے لیے رکھتے ہیں۔ جیسے :ثریا، قمر، مہر، بدر، گلناز،گلاب، شمیم، نسیم، کوثر، تسنیم وغیرہ۔ اگرچہ یہ نام برے نہیں، مگر ان سے مذہبی تہذیب واخلاق کی جھلک نظر نہیں آتی۔ البتہ ان مفرد ناموں کو مرکب کردیا جائے تو حرج نہیں، جیسے: نسیم احمد، کوثر احمد، شمیم الدین، گلاب محمد، تسنیم الدین وغیرہ۔
۱۴…بچیوں کے نام رکھتے ہوئے کسی نام کے آخر میں خاتون، آراء، بیگم، سلطانہ، بانو، بی بی، خانم ،وغیرہ لگاسکتے ہیں۔ مثلاً: امیر خاتون، عائشہ بانو، سائرہ خانم، نورین آراء وغیرہ۔
۱۵…دو مفرد ناموں کو ملاکر ایک نام رکھنا بھی صحیح ہے۔ مثلاً: رابعہ زینت، زرینہ احسان، ثمرین نشاط، مدیحہ اقبال، نزہت جمال، حمیرا تسکین وغیرہ۔
۱۶…بعض لوگ بچیوں کے اچھے ناموں کو بگاڑ کر بولتے ہیں۔ مثلاً: میمونہ کو ممو، مجیداں کو مجو، ناجیہ کو نجو، تسنیم کو تسی، خورشید کو شیدہ وغیرہ۔ اس طرح سے کہہ کر پکارنا غلط ہے۔
۱۷…بعض بچے اپنی ماں کو بھابھی، باجی یا آپا اور باپ کو بھائی مثلاً: کسی کے باپ کا نام معاویہ یا عبداللہ ہے، اسے معاویہ بھائی، عبداللہ بھائی وغیرہ کہہ کر پکارنا یا وڈیرہ یا وڈیری کہہ کر پکارنا یہ غلط اور والدین کی توہین بھی ہے۔ لہذا اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
۱۸…بعض لوگ عبدالرحمٰن، عبدالخالق، عبدالقدوس، ناموں سے لفظ’’عبد‘‘ کو چھوڑ کر صرف رحمن، خالق، اور قدوس، رزاق، غفار، قادر وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس طرح ’’عبد‘‘ کا لفظ ہٹا کر اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ دوسروں کو پکارنا حرام اور ناجائز ہے۔
۱۹…بعض لوگ اپنی اولاد کے لیے اچھے نام تو رکھتے ہیں، مگر مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کرکے پکارتے یا لکھتے ہیں جو بالکل مہمل اور غیر ضروری حرکت ہے۔ جیسے: تامل ناط میں شمس الدین کو کدورن کہہ کر پکارتے ہیں یا عبدالرحمن کو عبدل رگمال تامل میں لکھتے ہیں۔ یہ غلط اور ناجائز ہے اور مذہب کی خصوصیات سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
۲۰…اگر کسی کا نام محمد عمر، محمد معاویہ یا محمد حسین ہے تو لفظ محمد پر’’ص‘‘ کا نشان نہیں لگانا چاہیے، کیونکہ اس شخص کے نام کا تبرکا جز ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا نام نہیں ہوتا۔
۲۱…بعض لوگ اپنے بچوں کے وہی نام رکھ دیتے ہیں ، جن مہینوں میں وہ بچے پیدا ہوتے ہیں جیسے: رمضانی، شعبانی وغیرہ یہ طریقہ بھی صحیح نہیں ہے۔
۲۲…بعض لوگ ستارگان دیکھ کر بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ مثلاً: ستارہ عطارد، برج سنبلہ پر نام رکھا جاتا ہے اور پھر پتھر لاجوردی، نیلم، زرقون، وغیرہ پہنانے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ شرک اور عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔ ایک مسلمان کو ان چیزوں پر اعتماد کرنا حرام ہے۔
۲۳…بعض پڑھے لکھے سنجیدہ لوگ بھی غلط ناموں کے عادی ہوگئے ہیں، جیسے: عبدالمصطفیﷺ، عبدالحسن، عبدالحسین، عبدالکعبہ، عبدالعثمان جیسے نام عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ کیا اس طرح ہم لوگ (جن کا یہ ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں)شرک کے مرتکب نہیں ہورہے ۔ لہٰذا عبد کا لفظ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہی کسی نام کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ جیسے: عبداللہ، عبدالرحمٰن، عبدالغفور، عبدالصبور وغیرہ۔ کیونکہ مذہب اسلام میں اس قسم کے ناموں کو مستحسن قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام، اور سلف صالحین کے ناموں کا رکھنا بھی باعث خیروبرکت اور شعار ملت ہے۔
۲۴…پرویز نام رکھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ پرویز شاہ ایران کا نام تھا، جس نےا ٓنحضرتﷺ کا نام مبارک چاک کردیا تھا اور ہمارے زمانہ میں مشہور منکر حدیث کا نام بھی پرویز ہی تھا۔ لہٰذا ایسا نام نہیں رکھنا چاہیے۔
۲۵…اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے نام اچھے رکھے جائیں۔ لہذا اپنی اولاد کا نام غیر اسلامی ہندؤوں،کافروں جیسا نام رکھنا جائز نہیں۔
۲۶…اگر کوئی شخص اپنے نام کے ساتھ کسی لقب یا تخلص کو اختیارکرتا ہے (بشرطیکہ وہ بذات خود غلط نہ ہو) تو یہ جائز ہے۔
۲۷…کنیت کو بطور نام استعمال کرنا صحیح بلکہ بہتر ہے۔مثلاً: ابوبکر، ابو عمر، ابوعبیدہ، وغیرہ نام رکھنا صحیح بلکہ بہتر ہے۔
۲۸…واضح رہے کہ جو بچہ زندہ پیدا ہوا ہو اور چند لمحوں کے بعد مرجائے ، تو نام اس کا بھی رکھنا چاہیے۔
نوٹ:نام رکھنے کے سلسلے میں اوپر ذکردہ ھدایات وآداب کے مطابق ہی ایک غیرت مند اور سچے مسلمان کو اپنے بچوں کا نام رکھنا چاہیے۔