ہم لوگوں کی عادت ہی یہ ہے کہ گناہ کرتے ہیں اور طرح طرح کے ظاہری اور باطنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، تکبر کے اندر گرفتار ہیں، ریا کاری ایک محبوب مشغلہ ہے، غیبتیں کرتے رہتے ہیں، بہتان لگاتے ہیں، یہ اخلاقی امراض ہیں، جن کو باطنی امراض کہتے ہیں اور یہ بڑے مہلک ہوتے ہیں اور ان کا چھوڑنا آسان نہیں ہوتا ، ان کا بڑا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، نفس کو زیر کرنا ضروری ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ سے مانگنا پڑتا ہے،آہ و زاری کرنی پڑتی ہے، تب کہیں جا کر اللہ تبارک و تعالیٰ ان امراض سے نجات عطا فرماتے ہیں۔ اہلِ علم میں بھی یہ بیماریاں موجود ہیں، شاذ و نادر اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ ان سے خالی ہوتا ہے اور اِسی طرح ظاہری گناہ بھی موجود ہیں تو ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے متعلق یہ کیسے کہاجاسکتا ہے کہ وہ علم کے نور کے حامل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ نور ان کو عطا فرمایا ہوگا؟
امام شافعی رحمہ الله تعالیٰ نے ایک مرتبہ اپنے استاذ وکیع رحمہ الله تعالیٰ سے شکایت کی، فرماتے ہیں کہ:
شَکَوْتُ اِلٰی وَکِیْعٍ سُوْءَ حِفْظِی
فَاَوْصَانِیْ اِلٰی تَرکِ الْمَعَاصِی
فَاِنَّ الْعِلْمَ نُوْرٌ مِنْ الہ
وَنُوْرُ الله لاَ یُعْطیٰ لِعَاصِیْ
ترجمہ :میں نے شکایت کی اپنے حافظے کی کمزوری کی (استاد) وکیع کے سامنے تو انہوں نے مجھے گناہوں کے ترک کرنے کی وصیت فرمائی( اور فرمایا ) کہ بے شک علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ہے ( جو انسان کو عطا کیا جاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ کا یہ نور گناہ گار کو عطا نہیں کیا جاتا۔
آپ ان اشعار کو پڑھتے رہتے ہیں، لیکن کبھی دل پر اثر نہیں ہوتا ، گناہ کا سلسلہ اپنی جگہ جاری رہتا ہے، وجہ یہی ہے کہ ان گناہوں میں رسوخ ہوگیا ہے، عادت بن چکی ہے اور ان کو دور کرنے کی ہمیں فکر بھی نہیں۔ یہ جو اہل علم میں زوال اور انحطاط ہے اس کا سبب یہی ہے کہ الفاظ یاد کر لیتے ہیں اور اپنی اپنی استعداد اور محنت کے مطابق مسائل کا بھی علم ہوجاتا ہے، لیکن گناہوں کی وجہ سے نورانیت پیدا نہیں ہوتی اور نورانیت آدمی میں آجائے تو پھر ”اذا رأوا ذکر الله“ (قال النبیا :ألا انبئکم بخیارکم ، قالوا بلیٰ یا رسول الله ، قال: خیارکم الذین اذا رأوا ذکر الله ․ رواہ ابن ماجہ فی ابواب الزہد، ص:313) کی شان پیدا ہوجاتی ہے، اللہ کے ان بندوں کو دیکھ کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے، وہ بندے اللہ کی یاد دلانے کا سبب بنتے ہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنے سے انسان کے قلب میں ایک اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ میراا للہ تبارک و تعالیٰ سے صحیح تعلق قائم ہوجائے، گناہوں سے نفرت اور طاعات و عبادات کا شوق اور رغبت پیدا جائے ،یہ اللہ کے ان بندوں کی شان ہوتی ہے جو گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں اور علم کا نور ان کے قلب اور دماغ کو روشن کردیتا ہے۔