تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے ،اگر ہم کسی طور بھی کسی کے کام آسکیں ، یہ اس فیاض داتا کا فضل و احسان ہے۔ آج کل لوگوں میں اوّل توکسی کے کام آنے کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ احسان جتانے کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ کچھ لوگ کرنے کے وقت تو کچھ نہیں کہتے، لیکن کسی خاص موقع کے انتظار میں رہتے ہیں اور بالآخر احسان جَتاکر ہی دم لیتے ہیں اور اپنے پرائے دوست احباب، بھائی بہن، میاں بیوی، اولاد والدین اور شاگرد استاذ کے سامنے بھی احسان جتانے سے نہیں چوکتے۔ کھلے لفظوں میں نہیں تو دبے لفظوں یا اشاروں کنایوں میں وہ کوئی نہ کوئی ایسی حرکت بالقصد یا بلا قصد ضرور کر دیتے ہیں جس سے سامنے والے کے دل میں یہ احساس پیدا ہو کہ کاش! اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا احسان مند نہ کیا ہوتا!اس رویے سے آپسی محبت اور تعلق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ احسان جتانے والا شاید بھول جاتا ہے کہ مجھے بھی کبھی کسی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بعض تو زندگی بھر جس کے احسان مند رہے ہوں، ذرا سا کام آنے پر اس کے سامنے بھی احسان جتانے لگتے ہیں۔
احسان جتانا اور احسان جتانے والا
احسان جتانے یا جتلانے والے کو عربی میں ”مناّن“ کہتے ہیں۔ حضرت ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:منّان“ وہ ہے جو احسان جتلائے بغیر کچھ نہیں دیتا۔ (ابوداؤد)
احسان جتانا ایک آفت
انسان کا کسی پر احسان کرنا بہت بڑی نیکی ، لیکن احسان کر کے اسے جتلانا بہت بری صفت ہے۔ حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے : ظرافت کی آفت ڈینگیں مار نا ، شجاعت کی آفت سرکشی، احسان کی آفت احسان جتلانا، حسن و جمال کی آفت تکبر ، عبادت کی آفت توقف، بات کی آفت جھوٹ ، علم کی آفت نسیان، برد باری کی آفت بے وقوفی ، خاندانی شرافت کی آفت فخر ، جو دوسخا کی آفت اسراف اور دین کی آفت ہوا پرستی ہے۔ (کنز العمال)
احسان نہ جتانے والوں کی فضیلت
مومن کا ہر قول و فعل اللہ کے لیے ہوتا ہے ، جب تمام اعمال اس رب کی رضا و محبت کے لیے کیے جائیں تو بندوں پر احسان جتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو لوگ احسان کر کے جتاتے ہیں وہ یا تو جب ِجاہ اور حبِ مال کے مریض ہیں یا بدلے کے خواہاں، جب کہ نیکی کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، انھیں نہ کو کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔ (البقرة) مخلوق کے ساتھ کیے جانے والے احسان کی بہترین جزا اللہ تعالیٰ خود احسان کی صورت میں عنایت فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کیا ہے ؟ (الرحمن)
احسان جتانا کبیرہ گناہ ہے
المن کسی نعمت و احسان کا ذکر کرنا ہے اس کو شمار کرنے اور گننے کے لیے اور اس کے سبب (دوسرے کو) پریشان کرنے کے لیے ، مثلا وہ یہ کہے:میں نے تجھ پراحسان کیا اور تجھے ہلاک ہونے سے بچالیا اور اس کے مشابہ دیگر الفاظ۔ بعض نے کہا ہے :المن کا مفہوم ہے ؛ اس کے بارے میں گفت گو کرنا جو اس نے دیا، یہاں تک کہ وہ گفت گو اس تک پہنچ جائے جسے دیا گیا اور وہ اس کے لیے باعث تکلیف ہو اور احسان جتلانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (تفسیر قرطبی)
اللہ کا احسان ہے، ہمارا کوئی احسان نہیں
جو شخص احسان کر کے جتلا دے اس سے بہتر وہ شخص ہے جو بھلے ہی کام نہ آسکے ، لیکن دو بول محبت کے بول لے۔ اس لیے عقل مند انسان کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے احسان کرنا چاہیے اور خوب خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بے نیاز ہے، یہ اس کا فضل و احسان ہے کہ ہمیں اس لائق بنایا کہ ہم کسی کے کام آسکیں،ہمارا کسی پر کوئی احسان نہیں۔ ارشاد ربانی ہے :بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے اور اللہ بڑا بے نیازبہت بردبار ہے۔ (البقرة)
احسان جتانے اور نہ جتانے والے کی مثال
احسان جتانے والا دنیا میں اپنی نیکی کا بدلہ چاہتا ہے اور اس طرح نیکی بر باد اور گناہ لازم کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، چناں چہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنی چٹان پر مٹی جمی ہو، پھر اس پر زور کی بارش پڑے اور اس (مٹی کو بہا کر چٹان) کو (دوبارہ)چکنی بنا کر چھوڑے۔ ایسے لوگوں نے جو کمائی کی ہوتی ہے وہ ذرا بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ (ایسے) کافروں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ نیز فرمایا :اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی خوش نودی طلب کرنے کے لیے اور اپنے آپ میں پختگی پیدا کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ کسی ٹیلے پر واقع ہو، اس پر زور کی بارش برسے تو وہ دگنا پھل لے کر آئے اور اگر اس پر زور کی بارش نہ بھی برسے تو ہلکی پھوار بھی اس کے لیے کافی ہے اور تم جو عمل بھی کرتے ہو اللہ اسے خوب اچھی طرح دیکھتا ہے۔ (البقرة)
احسان جتانے والا جنت سے محروم
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دھوکا دینے والا ، کنجوس اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ (ترندی) حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہسے روایت ہے:جنت کی خوش بو پانچ سو سال کی مسافت سے سونگھی جا سکتی ہے ، لیکن احسان جتلانے والا، والدین کا نافرمان اور دائمی شراب پینے والا جنت کی خوش بو سے بھی محروم رہیں گے۔ (کنز العمال)
احسان جتانا صرف مال کے ساتھ خاص نہیں
احسان جتانا صرف مال کے ساتھ خاص نہیں کہ کوئی شخص مال خرچ کر کے اس پر احسان جتلائے ، کسی کے ساتھ کوئی بھی نیکی کر کے اسے اس طرح بتانا کہ میں نے تمھارے لیے یہ کیا، یہ بھی احسان جتلانا ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں صدقے کا ذکر ہے اور حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہر نیکی کو صدقے سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ہر نیکی صدقہ ہے۔ (بخاری) حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ روزانہ واجب ہوتا ہے ،کوئی شخص کسی کی سواری میں مدد کرے ، اس کو اس پر چڑھائے یا اس کا اسباب اس پر رکھوادے، یہ بھی صدقہ ہے ، کسی سے اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے، ہر قدم جو نماز کے لیے بڑھے وہ بھی صدقہ ہے ، کسی مسافر کو راستہ بتادینا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری)
حضرت ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا سب صدقہ ہے ،کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتادینا ،نابینا کے ساتھ چلنا ،راستے سے پتھر کانٹا یا ہڈی وغیرہ ہٹادینا اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔ (ترمذی)
احسان جتانے والے سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی
حضرت ابوذر سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے کلام نہیں کرے گا: ایک وہ شخص جو ہر نیکی کا احسان جتلاتا ہے دوسرا وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچتا ہے تیسرااوہ شخص جو اپنے کپڑوں کوٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔ (مسلم)یہ مضمون ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اور بھی سخت الفاظ کے ساتھ وارد ہوا ہے ،ان میں حضرت ابوذر سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ میں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول!وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو بر باد اور خسارے میں پڑ گئے!آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :ایک احسان جتلانے والا، دوسرا تکبر کی وجہ سے شلوار، تہبند وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورتیسرا جھوٹی قسم کے ساتھ مال بیچنے والا۔ (ترمذی)