فلسطین!اس وقت ظلم وستم کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، جہاں بچے، بوڑھے، خواتین ، جوان اور نوجوان سب کا خون بہتا ہوا نظر آرہا ہے ، جس نے حقیقی مسلمانوں کے دلوں میں ایک چنگاری سلگا رکھی ہے۔ یہ جنگ حق وباطل کی جنگ ہے، جو کئی عرصے سے برپا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے بھی جنگ کا نام دیا جاتا ہے جہاں کفر (باطل) کے ساتھ پوری دنیا کا کفر کھڑا ہو اور مسلمانوں (حق)کے ساتھ کوئی نہ ہو، بلکہ جنگ کے محاذ پر اکیلے کھڑے ہوں ۔
فلسطین کے وہ نہتے مسلمان جنہیں اگلے لمحے کا کچھ پتا نہیں کہ کب گولی سینے کے آر پار ہو جائے یا کب کوئی میزائل ،بم یا راکٹ گھروں کے گھر اور نسلوں کی نسلیں اُجاڑ ڈالے یا کب کوئی ٹینک گاؤں میں داخل ہو کر بستیوں کی بستیاں ویران کر ڈالے تو اسے جنگ نہیں، بلکہ سراسر ظلم کی انتہا کہا جاتا ہے۔ اور یہی نہتے مسلمان باطل کے آگے جبر و استقلال کی وہ چٹانیں بنے ہوئے ہیں، جس کی مثال رہتی دنیا کے لیے ایک سبق آموز دلیل ہے۔
ہم القدس کے جھوٹے نعروں میں تو سب سے آگے ہوا کرتے ہیں ۔ لیکن باری جب حق و باطل کے معرکے کی آتی ہے تو ہم میدان جنگ میں تو کیا، میدان کے کسی کونے میں بھی نظر نہیں آتے ۔ اور جب بات فلسطین کے تحفظ کی کی جاتی ہے تو ہماری زبان گنگ ہو جاتی ہے، ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور جو آواز اُٹھاتا ہے اس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جاتا ہے ۔
اب بات یہ ہے کہ کیا فلسطین کی حفاظت صرف فلسطین میں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے اور باقی مسلمان صرف دیکھنے کے لیے ہیں تو یہ ایک محال سی بات ہے۔
ہم فلسطینی بھائیوں کے قصے پڑھ کر صرف آنسو تو بہا دیتے ہیں، لیکن ایسے آنسوؤں کا کیا فائدہ جس سے فلسطینی بھائیوں کے نقصان کا ازالہ نہ ہو سکے، یہ اس لیے کہ ہم نظریاتی جنگ میں مار کھا چکے ہیں، اسی وجہ سے ہمارا ضمیر مردہ ہو چکا ہے، اگر ضمیر مردہ نہ ہوتا تو گھروں کے آرام و سکون کو ترک کر کے کفار کی صفوں کو چیر ڈالتے ،ان بد بختوں کی نیندیں حرام کر دیتے ۔ اگر ہم میں امت مسلمہ کے مجاہدین جیسا جذبہ ہوتا تو یہود فلسطین کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتے ۔
شاہ فیصل مرحوم کا وہ قول آب زریں سے لکھنے کے قابل ہے جو انہوں نے بیماری کے موقع پر کہا تھا:
جب تک قدس یہودیوں کے قبضے میں ہے مجھ سے آپ آرام کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
سلام ہے القدس کے رہنے والوں پر کہ انہوں نے اپنے سامنے بچوں کو کٹتے ہوئے دیکھا، بیویوں کو بیوہ ہوتے دیکھا ، اولاد کو یتیم ہوتے ہوئے دیکھا، والدین کو بے اولاد ہوتے ہوئے دیکھا، تمہارے گھر لٹ گئے، تمہارے خاندانوں کے خاندان ختم ہو گئے، نسلیں اُجڑ گئیں، لیکن تم نے فلسطین کے تحفظ کو نہ چھوڑ ا،حالاں کہ فلسطین کا تحفظ صرف تمہاری ذمہ داری تو نہ تھا، لیکن مردہ ضمیر مسلمانوں نے تمہیں میدان کار سازار میں، کوفہ والوں کی طرح، اکیلا چھوڑ دیا، سب فانی دنیا کے پیچھے چل پڑے۔
لیکن سلام ہو فلسطین کے رہنے والو! تم نے یہود جیسے بد بختوں کا ہر موڑ پر مقابلہ کیا ،حالاں کہ تم نہتے تھے، پھر بھی تم نے جنگ لڑی، صرف فلسطین کے تقدس اور اللہ کی رضا کی خاطر، تم نے رب کعبہ سے بہترین سودا کیا۔
اے القدس کے رہنے والے مقدس فلسطینیو!تمہیں زندہ دل مسلمانوں کی طرف سے مبارک ہو، اللہ تم سے راضی ہو اور تمہاری شہادتوں اور قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے #
کس رعونیت سے وہ دشمن میرے گھر آیا ہے
داغ دل اب تو جبنیوں پہ ابھر آیا ہے
زخم دھونے کو کہاں جائیں گے زخمی بچے
سارے چشموں میں تو بارود بھر آیا ہے
آج زیتون کے پیڑوں پہ خزاں طاری ہے
آج القدس میں ہر سمت دھواں طاری ہے