ہندوستان کے ایک بڑے بزرگ عالم حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب دامت بر کاتہم جامعہ فاروقیہ کراچی تشریف لائے ، اس موقع پر حضرت نے طلباء و اساتذہ اور اندرون شہر سے آئے عوام و خواص کے مجمع سے خطاب فرمایا ، جس کو نذر قارئین کیا جاتا ہے۔
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد للہ وحدہ، الحمدللہ وحدہ، ثم الحمدللہ وحدہ والصلاة والسلام علی من لا نبی بعدہ، والحمد للہ الذی ہدانا لہذا وما کنا لنہتدی لولا أن ہدانا اللہ، لقد جاء ت رسل ربنا بالحق ، صلوات اللہ وسلامہ علی سیدنا و مولنا محمد وعلی آلہ و صحبہ و بارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا․
امابعد!تقریر وعظ ، خطابات یہ تو ان حضرات کا کام ہے جو آپ حضرات کو دن رات پڑھاتے سکھاتے ہیں ، مجھے تو ایک بات یاد آئی اپنے مدرسے کی، وہ سناتا ہوں۔
دار العلوم ندوة العلماء ،مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کا نام سب نے سنا ہوگا ، تاریخ ساز شخصیت، ہم ایک زمانہ میں وہاں تھے، سیلاب آیا تھا اور سیلاب بھی کیا ؟ ساری رات لوگ بہتے ، مائیں بچے ان کے سینوں پر بچاؤ بچاؤ آوازے لگا رہے ہیں، لوگ بہہ رہے ہیں ، سامان ، گاڑیاں بالکل مدرسے کے کنارے پر دریا ہے ۔ ہمارا کھانا مطبخ سے دار الاقامہ میں کشتی سے آتا تھا ، نمازیں کمروں میں پڑھتے تھے ، مسجد کے منبر کے اوپر کی سیڑھیوں تک پانی تھا ، سیلاب ختم ہو گیا۔
حضرت علی میاں صاحب نور اللہ مرقدہ نے ہم طلبا کو جمع کیا اور خطاب شروع کیا :﴿فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ مَا لَا یَرْجُونَ ﴾․ (سورہ النساء، آیت:104)
یہ آیت پڑھی، تکلیفیں تو وہ جو تم لوگوں نے دیکھا کہ وہ بہتے ہوئے گئے اور کیا کیا بہہ گیا ۔ تکلیفیں ان کو بھی ہوئیں اور تکلیفیں تم کو بھی ہوئیں ۔
تمہارے ماں باپ یہاں نہیں آسکے اور تم اپنے ماں باپ سے مل نہیں سکے ، لیکن ﴿وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ مَا لَا یَرْجُونَ ﴾
بہ جو ہمارا یہاں رہنا ہے ،اس کی ہر حرکت پر اللہ سے امیدیں وابستہ ہیں۔
اس لیے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمة الله علیہ فرمایاکرتے تھے ۔ ہمارے کام میں فضائل مقدم ہیں ، فضائل علم سے علم کا شوق پیدا ہوتا ہے ، عمل کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ مجھے تو اس وقت یہ عرض کرنا ہے کہ جب یہ ختم ہو گیا تو ایک دوسری مجلس میں حضرت نے فرمایا:
بچو!میری تین باتیں یا درکھو ، کون ہوں ؟ کہاں ہوں ؟ اور کیوں ہوں؟ فرمایاکہ اللہ جل جلالہ عم نوالہ اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہوں ۔کہاں ہوں ؟ بنی بیتا و جعل فیہ مأدبة والداعی رسول الله صلی الله علیہ وسلم
کہ پورے اسلام کو مکان سے تعبیر کیا ہے۔ مکان ہے بہت شان دار ، بہت بڑا اور اس میں دسترخوان چنا ہوا ہے ، بیچ دستر خوان تو دنیا میں بہت بچھے ، شاہی دستر خوان ، سلاطین کے حکم رانوں کے رئیسوں کے اور روزانہ بچھتے ہیں اور ان کے دستر خوانوں کی ورائٹیاں انواع واقسام گننا مشکل ۔
لیکن ان کے تمام دستر خوانوں کے نام انواع و اقسام کا نتیجہ اخیر میں فضلہ، آپ کہاں ہیں ؟ جعل فیہ مأدبة اس تعمیر میں دستر خوان ہے اور اس دستر خوان پر براہ راست بلاوا دینے والے محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم۔
اس لیے حضرت موسی علیہ السلام سے الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ إِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی﴾․(سورہ طہ، آیت:12)
یہ جو نام رکھتے ہیں الگ الگ مدارس کے ، یہ فاروقیہ ہے ، یہ دارالعلوم ہے ، یہ سب وادی مقدس ہیں ، یہ جتنے دینی ادارے ہیں ، یہ سب وادی مقدس ہیں۔
﴿انک بالوادی المقدس طوی﴾
اور قربان جائیں :﴿ وأنا اخترتک﴾ کہاں تھے ؟ فرعونی ماحول ، پو را ماحول ظلم وتعدی کا ، شرک کا کفر کا ، أنا اخترتک ، یہ آپ جتنے ہیں ، خالہ زاد ، پھوپھی زاد ، چچازاد، بہت سے رشتہ دار ہیں ، آپ کے جیسے ہوں گے لیکن جیسے باغ کا مالی باغ میں پھول چننے جاتا ہے، کلیاں بھی ہوتی ہیں اور کھلے ہوئے پھول بھی ہوتے ہیں، یہ دورہ حدیث والے، یہ مشکوٰة والے ، یہ کھلے ہوئے پھول ہیں یہ ناظرہ، فارسی اول، فارسی دوم یہ کلیاں ہیں، جو کل کو کھلیں گی، خوش بوئیں ان کی معطر کر دیتی ہیں
تو یہ اس ادارے میں یہ خدائی انتخاب أنا اخترتک ، جیسے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے صحابہ کرام کواللہ نے چنا ، اپنے بندوں پر نظر ڈالی اللہ نے کہ میرے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے ؟ انتخبہم اللہ
، حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا :”من کان یستن منکم فلیستن بمن قدمات، ابرّھم قلوبا، اعمقھم علما، أقلھم تکلفا، انتخبھم الله لصحبة نبیہ ولنقل دینہ“․
اگر کوئی اپنی زندگی کی باگ ڈور کسی کے ہاتھ میں دینا چاہے توان کے ہاتھ میں دے جو دنیا سے پہلے گئے، تو کیا ان کے چار آنکھیں تھیں باقی لوگوں کی دو دو ہوتی ہیں ، نہیں، جسم تو ان کا بھی ایسے تھا، لیکن ان کی اندرونی صفات جو اصل میں ابر ہم قلوباتمام گندگیوں سے ، رذائل سے دل پاک اور صاف، کیا حسد، کیا کینہ ، کیا حب جاہ او رکیا حب مال او رکیا معصیتیں، ہر گندگی سے زندگیاں پاک، علم بہت گہرا، خالی سنا سنایا نہیں۔ مجھے بیچ میں ایک بات یاد آئی، تمہارے لاہور کا قصہ ہے، حضرت شاہ انور کشمیری رحمة الله علیہ اس زمانے میں لاہورتشریف لائے اور یہ علامہ اقبال جس کا نام سنتے ہیں، علامہ اقبال شاعر اسلام یہ اس وقت قادیانیت سے متاثرتھے، اس کے دفتر کے سیکرٹری تھے، ان کے جو ساتھی تھے انہوں نے کہا بہت بڑے مولوی صاحب آئے ہیں، کہا ہاں! بہت دیکھ لیے مولوی، لیکن وہ دوست تھا، جیسے تشکیل ہوتی ہے بار بار سمجھاتے رہو، کہتے رہو، دل الله کے قبضے میں ہے، کس کے دل میں کب کون سی بات اترے، جب وہ بہت پیچھے پڑے رہے، تو کہا تو مانتا نہیں چل۔ تو علامہ اقبال اپنے ساتھی کے ساتھ حضرت شاہ انور کشمیری صاحب رحمہ الله کی مجلس تھی بیٹھ گئے او ربیٹھتے ہی انہوں نے مضمون چھیڑ دیا یہ جوڈارون گزرا ہے، جس کا نظریہ تھا کہ انسان پہلے بندر تھا اور یہ شروع کیا، حضرت شاہ صاحب رحمة الله علیہ نے فرمایا سنیے! آپ جس کا نام لے رہے ہیں، یہ اس نے خیانت کی ہے، یہ کتاب اس کی نہیں ہے اور اصل اس کتاب کا جو مصنف ہے وہ کتاب میرے پاس دارالعلوم دیوبند میں میرے کتب خانے میں موجود ہے۔ علامہ اقبال حیران رہ گئے کہ یہ تو بہت بڑے مولوی ہیں۔
حضرت کی مجلس ہوتی تھی، لے اپنی نظر سے کا رزماں اے عقل وخرد کے دیوانے، یہاں عقل وخرد کا کام نہیں لے اپنی نظر سے کارزماں، تقریر نہ کرتاثیر دکھا، لے اپنی نظرسے کار زماں
میرے حضرت جی حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمة الله علیہ کو جب میں دیکھتا تھا تو میں یہ شعر پڑھتا تھا
بولتے بہت کم تھے لیکن نظر
ایک دفعہ خدام تو خدام ہی ہوتے ہیں، کچھ حضرت کی ناراضگی چل رہی تھی، لیکن حضرت یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ پیر مرید سے ناراض ہو تو او رمرید پیر سے ناراض ہو تو نقصان کس کا ہوتا ہے ؟ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ الله نے فوائد الفوائد کے نام سے جمع کیے ہیں ، آپ جا کے دیکھو کتب خانے میں ہیں ، بہت ساری چیزیں ہیں اس میں ، یہ باب پڑھایا کہ شیخ ناراض ہو تو مرید کو نقصان نہیں ہوتا ، کیوں شیخ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتا،وہ تو وہاں سے آتا ہے وہ دیتا ہے، لیکن مرید جب ناراض ہوتا ہے تو مرید اپنے کو محروم کر لیتا ہے ۔
وہ شاہ صاحب کی نظر کیا تھی۔ علامہ اقبال پہلے دن مجلس میں آئے ،یہ ہوا ، دوسرے دن یا تیسرے دن آئے اور حضرت کے سامنے بیٹھتے ہی”أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وأشہد أن محمدا رسول اللہ“
کہا مرزائیت سے استعفیٰ دے کر آ گئے ۔
اسی لیے ہمارے لیے قرآن میں کہا ہے :﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَیٰ مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقٰی﴾
آپ کو جو اللہ نے دیا ہے اس لیے کہ علم جو ہے یہ اللہ کی ذاتی صفات میں سے ہے۔ وہ براہ راست آپ کو ملا ہے ، قرآن کی شکل میں ، بخاری کی شکل میں ،صحاح ستہ کی شکل میں، مختلف احادیث اور فقہ کی کتابوں کی شکل میں ، یہ علم الہٰی ہے ۔ اس کے لیے اللہ نے پسند کیا ۔کیوں ؟ اس لیے کہ یہ اس کو لیں گے اورولنقل دینہ ، خود اپنی زندگی کو اس کے رنگ میں رنگیں گے اور دوسروں تک پہنچائیں گے۔
جیسے حضور صلی الله علیہ وسلمجب ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لے گئے، نماز کے بعد آپ نے حلقہ بٹھایا، صحابہ تھے بیٹھ گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:: انما بعثت معلما مجھے اللہ ے بھیجا ہی ہے سکھانے والا بناکر اور اس کی تبلیغ کرنے کے لیے ۔
تو بہر حال یہ ماشاء اللہ بڑے خوش قسمت ہیں ، یہ خدائی انتخاب ہے، اللہ کا ایک ضابطہ ہے، اس لیے کہ اللہ کی کسی سے رشتہ داری نہیں ہے ، احد صمد، اس کا ایک خاص ضابطہ ہے ۔کسے باشد، شرقی غربی، عربی عجمی، کالا گورا، پڑھا لکھااوران پڑھ، جو بھی ہو ایک ضابطہ ہے اور اس ضابطے میں:”ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا“․ اس کی سنت ہے:﴿لَئِن شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ﴾لام تاکید بانون تاکید ثقیلہ استمرار کا فائدہ دیتا ہے۔
اگرشکر ادا کرتے رہے ، نعمتوں کے دریا بہاتے ہی رہوں گا: ﴿لَئِن شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُم﴾
ناشکری کی ، ناقدری کی ، تو سب سے پہلے نعمت سلب کر لوں گا اور اس کے واقعات قرآن میں موجود ہیں، کیسے کیسے امتوں کے سا تھ قوموں کے ساتھ کیا کیا ہوا ؟ اس لیے جو حیاة الصحابہ ہے مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ کی اور حکایات صحابہ جو فضائل اعمال میں ہے ، میں تو یہ عرض کرتا ہوں کہ صحابہ ، ایک دفعہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تشریف فرما تھے ۔ تو صحابہ فاصلے سے بیٹھے ہوئے تھے تو حضور وہاں ان کے پاس گئے تو کیا کر رہے ہو ؟ نحمداللہ ونشکرہ علی نعمة الاسلام ، صدیوں کفر و شرک کے سمندروں میں ڈبکیاں کھاتے رہے، کچھ نہیں جانتے تھے ، اللہ نے ہمیں ان تاریکیوں سے، ان ظلمتوں سے، ان شرک کے سمندروں سے نکال کر اسلام کی نعمت سے نوازا ، اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد حکایات صحابہ میں، حیاة الصحابہ کی دونوں جلدوں میں جتنے واقعات ہحرت، نصرت ، ان کی معاشرت ان کے معاملات ، ان کے اخلاق، ان کی نمازیں، تعلق مع الله، خلق خداکے سا تھ ہم دردی، یہ سارے واقعات اس نعمت کے شکر میں ہیں۔
اس لیے کہ علماء نے لکھا ہے شکر کے تین درجے ہیں ۔ سب سے پہلے نعمت کی عظمت دل میں ہو،دوسرے زبان پر الحمد للہ ، یہ زبانی شکر ہے اور اصل شکر جس وقت کی جو نعمت ہو اس نعمت کا امرالہی اور اتباع سنت کی روشنی میں اس نعمت کا استعمال ، یہ اس نعمت کا صحیح شکرہے۔ صحابہ نے اس کا حق ادا کر دیا، اس لیے قیامت تک آنے والوں کے لیے ہم مصابیح الہدی، ہدایت کی روشنی کے چراغ ، جیسے روشنی میں لوگ چلتے ہیں ، قیامت تک کے لیے ہر ایک کے لیے نمونہ ۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ذمے داری دی تھی:﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا﴾
ہم نے یہ آپ کو ذمہ داری دی ہے :﴿وَدَاعِیًا إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ﴾
دعوت الی اللہ، یہ آپ کی ذمہ داری ہے ، لیکن آپ کی عمر مبارک کتنی ؟﴿ِ وَسِرَاجًا مُّنِیرًا ﴾
اپنی حیات مبارکہ میں اپنے سامنے ایک مجموعہ مرد عورتیں، بچے ، عوام خواص ، پڑھے لکھے ان پڑھ ، مال دار غریب ان سب پرایسیمحنت کرنی ہے کہ وہ سو فیصد آپ کے رنگ میں رنگے ہوئے آپ کے متبع، حضور کریم صلی الله علیہ وسلمنے ذمہ داری ایسی ادا کی کہ عرفات کے میدان میں سب یک زبان ہو کر:” ادیت الرسالة ، ادیت الأمانة، بلغت الرسالة ، نصحت الأمة وکشف الله بک الغمة“
سب نے یک زبان ہو کر کہا ۔ یہ ہمارے اساتذہ یہ ذمہ دار، یہ اس کو کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ حضرت شیخ الہند صاحب رحمة الله علیہ،مولانا سلیم اللہ خان صاحبرحمة الله علیہ اور مولانا مدنی صاحب رحمة الله علیہ ، یہ تمام اپنے اساتذہ کی قدر کرتے تھے ، حضرت مدنی رحمة الله علیہ جب شیخ الہند رحمةالله علیہ مالٹا جیل میں تھے، بہت سخت سردی وہاں کی ، لیکن خدمت ساری رات، مولاناحسین احمد مدنی رحمة الله علیہ لوٹے میں پانی بھر کر بلب جو جلتا تھا اس سے گرم کرتے تھے کہ میرے حضرت کو صبح کو وضو کرانا ہے ۔
اسی لیے قدردانی ، کتابوں کا ادب، درس گاہ کا ادب، اساتذہ کا ادب أدّ بنی ربی فأحسن تأدیبی
حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب نے ادب سکھایا الدین کلہ ادب
۔ یہاں سے شروع ہوتا ہیں صحابہ کی ساری چیزیں کہ جب ایمان ملا، قدر کی تو کیاکہا ، آپ ہی کی سنیں گے آپ ہی کی مانیں گے ۔
بایعنا علی ید رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم
، جیسے آپ داخلہ لیتے ہیں، مدرسے میں فارم دیا جاتا ۔ اس کے قاعدے اورضابطے بھی بتاتے ہیں ، کھانے کی یہ ترتیب ہے، سونے کی یہ ترتیب ہے، رہنے کی یہ ترتیب ہے، اسباق کی یہ ترتیب ہے ۔ یہ سب نظام ہوتا ہے کہ داخلے کا مطلب یہ کہ آپ جو کہیں گے وہ ہم کریں گے۔
بایعنا اور کرکے دکھایا اور وہ ادب اور احترام کہحضور صلی الله علیہ وسلم کو تھوکنے کی ضرورت ہوئی تو زمین پر تھوکنے نہیں دیا ، ہا تھوں میں لے کر چہروں پر مل لیا۔ وہ صحابہ جو قیامت تک کے لیے نمونہ ہیں ،یہ ادارے اسی کے ہیں، اپنے بڑوں کا ادب ، کتابوں کا ادب ، علم پر عمل اور جتنے شرائط ان سب کو پورا کرنا ، اور سب سے پہلے انما الأعمال بالنیات
، کیوں پڑھ رہے ہو ؟ ہمیں خوب یاد ہے ، ہمارے حضرت مولانا انعام الحسن صاحبرحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے۔ بندہ جب بھی کوئی حرکت کرتا ہے تو اس کی حرکت پر کوئی عمل بن رہا ہے ، جیسے میں بول رہا ہوں، یہ میری زبان حرکت کر رہی ہے، یہ زبان کا عمل بن رہا ہے ، آپ کانوں سے سن رہے ہیں تو آپ کے کانوں کا عمل بن رہا ہے ۔فرمایا کہ جب کوئی حرکت کرتا ہے تو عمل بنتا ہے اور ہر عمل کے ساتھ سوال ہوتا ہے: کیوں ؟ بات کر رہے ہو ، کیوں ؟ سن رہے ہو، کیوں ؟ بیٹھے ہو ، کیوں ؟ مدرسے میں داخلہ لیا ہے، کیوں؟ کھانا کھا رہے ہو، کیوں؟ سبق پڑھ رہے ہیں ، کیوں؟ گھر جا رہے ہیں، کیوں ؟ اگر وہ اللہ کے لیے ہے تو اس کا نام اخلاص ہے۔ اور اگر نیت صحیح نہیں تو وہ غیر اللہ کے لیے ہے ۔
اسی لیینیتپہلے بیان کی امام بخاری رحمة الله علیہ نے اور وہ جو قیامت کے میدان میں میزان عمل ، اس لیے کہ اخیر میں وہی ہے ، آخرت ہے، وہ اخیر میں بیان کی ؟ یہ ادارہ ہے ، یہاں اس نیت سے رہیں کہ اللہ کو راضی کرنا ہے، مجھے علی میاں صاحب رحمة الله علیہ کی بات یاد آئی ، جماعت جارہی تھی ، فرمایا کہ جانتے ہو یہ کام کسی کی ذاتی ملک نہیں ہے ، یہ تبلیغ کا کام، دعوت کا کام ،یہ کسی کی ذاتی ملک نہیں ہے ۔
فرمایا :یہ تو کارنبوت ہے اور ہر کام اپنے مزاج سے ہوتا ہے ۔
فرمایا :تجارت تاجرانہ مزاج سے ہوتی ہے ، نوکری نوکری کے مزاج سے ہوتی ہے۔ کھیتی کھیتی کے مزاج سے ہوتی ہے ۔ یہ کار نبوت مزاج نبوت سے ہوگا اور مزاج نبوت کیا ہے ؟ پھر فرمایا:
مزاج نبوت میں سب سے پہلے اللہ کی رضا ، اللہ راضی ہو جائے۔دوسری چیز، مزاج نبوت میں ، آخرت۔
اس لیے جب سیرت پڑھنے میں واقعات پڑھتے ہیں ، حضور کتنا روتے تھے آخرت کو یاد کرکے ، پیروں میں ورم آجاتا تھا ۔ الله کو راضی کرنا،”إنی لأخشاکم للہ، وأتقاکم“
بعد از خدا بزرگ توئی قصہٴ مختصر۔
لیکن اس شان کے ساتھ ،اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا میں ہوں اور جتنی چیزوں سے بچنا ہے ان تمام چیزوں سے سب سے زیادہ بچنے والا میں ہوں ، یہ بتلا کر ہماری رہبری ہے، ہماری تعلیم ہے۔جو ہمارے اساتذہ ہمیں دیتے ہیں ۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی ہے، اس میں تقویٰ بھی ہے۔ توکل بھی ہے ، تو اضع بھی ہے ، تحمل بھی ہے۔ چھوٹا بن کر، ہمارے حضرت جی ہم سے فرماتے تھے کہ یہ کام بڑا ہے، ہم بڑے نہیں ہیں ۔ ایسے علم ، الله کی ذات کتنی بڑی ہے، جس کی کوئی حد ہی نہیں ہے، ساری دنیا کے سارے انسان اور سارے مویشی ، سارے حشرات الارض، سارے جن سب مل کر اللہ کی بڑائی بیان کریں۔ یہ سب ختم ہو جائیں گے، قیامت آجائے ، جنت میں چلے جائیں ،اللہ کو آنکھوں سے دیکھ لیں، پھر بھی کہا جائے گا اللہ اکبر ، جتنا بولا ، جتنا سنا، جتنا سمجھا ، اللہ اس سے بہت بڑا ہے ۔
ایسے ہی علم ہے، یہ علم اس کی ذاتی صفت ہے۔ یہ بہت گہرا ہے۔ اس کی کوئی حد نہیں۔ لیکن وہیبات نعمت کی قدر پر الله نعمت بڑھائیں گے، اس نعمت کی قدر کہ اس کے جو قواعد و ضوابط ہیں مدرسے کے ، سب کی پوری رعایت کے ساتھ اور بار بار اپنی نیت کوٹٹولتے رہیں ، الله کے لیے، الله کے لیے ، پھر اللہ دیتے ہیں:﴿وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ﴾
آج آرہا تھا،گاڑی میں تھا۔ ایک ساتھی آئے ملنے کے لیے ۔ کہنے لگے کچھ عجیب سا ہے بھول جاتا ہوں اور یاد نہیں رہتا ، تو مجھے اسی وقت یاد آیا:
شکوت إلی وکیع سوء حفظی
فأوصانی بترک المعاصی
فان العلم نور من الہی، ونور الله لا یعطی لعاصی
امام وکیع رحمہ الله نے فرمایا جو استاد تھے امام شافعی رحمة الله علیہ کہ میں نے اپنے استاد سے شکایت کی کہ سبق بھول جاتا ہوں، یاد نہیں ہوتا تو استاد نے مجھے نصیحت کی کہ سنو! علم ایک نور ہے اور معصیت ایک اندھیرا اور ظلمت ہے، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ۔
یہاں ادارے میں رہنے کے ساتھ جس طرح کی معصیتیں ہیں۔ تاجر کی الگ ہے، کا شت کار کی الگ ہے ، ڈاکٹر کی الگ ہیں، اسی طرح ہماری کہ ہر بے ادبی ہرگستاخی سے بچتے ہوئے،پھر اللہ تعالیٰ علم دیتے ہیں اپنے پاس سے ۔
﴿وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ﴾
اپنے آپ کومتقی بناؤ اور عجیب بات مجھے یاد آئی ، ہمارے حضرت انعام الحسن صاحب رحمہ الله زندگی کا آخری بیان تھا، اس کے بعد انتقال ہوگیا ۔
فرمایا: ہر چیز کی قیمت جو ہے وہ اس کی اصلی صفت سے ہوتی ہے۔ پھلوں کے بازا ر میں چلے جاؤ، انگور کے خوشے کیسے لٹکاتے ہیں ، امرود اور انار اور سب کو کیسے سجاتے ہیں ، دیکھتے ہی منھ میں پانی آجائے ۔
غریب آدمی ہے ، سیب تو بہت مہنگا ہوتا ہے ، لیکن بچے بار بار کہتے ہیں ابا سیب لاؤنا اور دکان دار سیب کے فضائل بیان کرتا ہے کہ ایک کھا لو، پھر ڈاکٹر صاحب کی ضرورت نہیں ۔
تو بہت مشکل سے، پسینے کی کمائی سے سیب لایا، گھر والوں نے کاٹا بہت خوش ، بچے خوش ، ابا سیب لے آئے، کا ٹا تو سڑا ہوا تھا ،اندر کیڑے تھے ، او تیرا ستیا ناس ہو جائے ، تو نے کیا بتایا تھا اور کیا ہوا ؟ یہ سب ظاہری شکلیں ہیں۔ اس لیے ہماری حضرت فرماتے تھے، اتنے فارغ ہوئے ،اتنے دورے میں، اتنے مشکوہ میں ، اتنے تخصص میں ، حضرت فرماتے تھے کار گزاریاں بہت آرہی ہیں، اتنے اجتماع ہوئے اور اتنی جماعتیں نکلیں اور اتنے ملکوں میں گئیں اور یہ ہوا ،یہ ہوا ،یہ سب ہو رہا ہے ۔
لیکن یہ دیکھو! بنیادی طور پر ان پانچ صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو: تعلق مع اللہ تقوی خوف خدا، تواضع اور عبدیت، اللہ کے وعدوں پر یقین،تحمل آپ تو ماشاء اللہ صبح سے شام تک جو چلتے ہو نا ، فرشتوں کے پروں پر چلتے ہو ۔ ستر ستر ہزار فرشتے ، اس لیے ہم تو آپ لوگوں کی دعاؤں کے محتاج ہیں ۔
تقوی ، توکل ، تواضع اور تحمل کہ اپنی طبیعت کے خلاف کوئی چیز اس کی وجہ سے پیش آئے اس کو اللہ کے لیے برداشت کریں اور بار بار نیت کو ٹٹولتے رہیں کہ الله راضی ہو جائے ، جیسے صحابہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں، روم گئے، فارس گئے ، جنگلوں میں گئے، جب بھی پوچھا ، جیسے بارڈر پر آئے ، کہاں جار ہے ہو، کیوں جا رہے ہو ، جیسے امیگریشن والے پوچھتے ہیں۔
کہاں جارہے ہو؟ کیوں جا رہے ہو؟ صحابہ یہ جہاں گئے ان کو پوچھا تو ان کی ایک ہی بات :”انما ھَمّنا الآخرة، ولیست الدنیا ھَمُّنا“
ہمارا عزم و ارادہ، ہماری نیتیں، ہمارا اندرون صرف اور صرف آخرت، دنیا ہمارے عزم وارادے میں نہیں۔
اور چوں کہ ہمارا ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں ، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ، آپ نے ابتدا ہی سے ایمان وعمل اور آخرت ،آپ اس کو ہمیں میرا ث دے کر گئے ہیں۔
ہمیں اپنا ایمان بھی بنانا ہے اور ہر ایک کو اس کی دعوت دینی ہے، اپنے اعمال کو صحیح بنانے میں اپنی آخرت بنانی ہے ، اس کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ۔
یہ جو آپ سب نکل کر آئے ہیں اللہ بہت مبارک کرے اور اسی نعمت کی قدر کی ہمیں توفیق دے ، آپ کو بھی ہم کو بھی اور اللہ اس میں اور ترقیات در ترقیات عطا فرمائے ۔
دورے والے تو کہیں گے کہ ہم تو فارغ ہو رہے ہیں، ہم تو حضرت ہونے والے ہیں، سال والوں کی تشکیل ہوتی ہے، اللہ کا شکر ہے ، میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ جتنے دورہ حدیث میں ہیں ،اگر آگے تخصص فی الفقہ، حدیث، آگے کی تعلیم کا ارادہ ہے تو وہ تو صرف رمضان مبارک کی چھٹیاں ، تعطیلات لگائیں اور جن کا آگے تعلیم کا ارادہ نہیں وہ سال لگا ئیں اور اس کے بعد کوئی اورکام کریں(اس کے بعد جامعہ کے دورہ حدیث کے طلباء کی سال کے لیے تشکیل ہوئی،فرمایا ) مجھے خوب یاد ہے، مولانا علی میاں صاحب ، مولانا رابع صاحب انہوں نے کہا تھا ، طالب علم اگوتین چیزوں کی رعایت رکھے، تین چیزوں کا اہتمام کرے، سبق کے وقت میں حاضری درس میں ، اور دھیان سے سننا ، اس کے بعد تکرار ، لیکن ان سے پہلے مطالعہ ، سبق کی حاضری ، تکرارو مطالعہ ، کتاب کا مطالعہ ، پھر امتحان کی راتوں میں جاگنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن مطالعہ میں بڑی مشکل ہے، وہ بھی باب مفاعلہ سے ہے اور باب مفاعلہ کا خاصہ اشتراک۔ مطالعہ کیا تھا ؟ جی !وہ مجھے دیکھ رہی تھی، میں بھی اس کو دیکھ رہا تھا ، پڑھا ایک حرف بھی نہیں،اشتراک اب تم جو چاہو کر لو ان اساتذہ کو، انہوں نے بہت دنیا دیکھی ہے، مشائخ کی صحبت اٹھائی ہے، ان کو دھوکہ نہیں دے سکو گے ۔
مطالعہ کرنا ہے
یاد آیا ، ہمارے حضرت جی مولا نا انعام الحسن صاحب رحمة الله علیہ نے فرمایا:مولوی صاحب !ہمیں تو بڑے حضرت جی نے سارا پڑھا یا، مولانا الیاس صاحب رحمة الله علیہ نے ، تہجد کے وقت سے سبق شروع ہوتا تھا فرمایاکہ سارا پڑھایا ہوں، ہوں ں ں ، ہوں۔ ہم نے پوچھا حضرت یہ کیا ؟ فرمایا کہ ہمارے ذمہ تھا ، مولانا یوسف صاحب ،مولانا انعام الحسن صاحب ، جتنے تھے ، فرمایا :مطالعہ ہمارے ذمے ، عبارت ہمارے ذمے ، ترجمہ ہمارے ذمے اور مطلب اور خلاصہ ہمارے ذمے ، اگر یہ سارے امور صحیح ہیں تو ”ہوں“، یعنی آگے بڑھو اور اگر جاء عمرٌ ذہب عمرٌ
، تو ،” ہوں ں ں“اگر کوئی صرف، نحوی، غلطی کی تو… ہوں ں ں“ تو پھر فرمایا: ہم نے سارا پڑھا: ہوں، ہوں ں ں اور ہوں۔
الله آپ کو بھی نصیب فرمادے کہ مطالعہ بھی ہے۔ سبق کی حاضری بھی ہے اور تکرار۔ اس کو دھرا لینا، بس اس نعمت کی قدر کرنی ہے، یہ وہ نعمت ہے جس کا دنیا میں کہیں کوئی بدل نہیں، یہ نبیوں والا علم ہے، الله کا کلام ہے اللہ کے نبی نے فرمایا ہے ،وہ نعمت اللہ نے ہمیں دی ہے ۔
جعل فیہ مأدبة والداعی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم․
اللہ نے اس درس گاہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے دستر خوان پر بٹھایا ہے ،دنیا کی ساری انواع واقسام کا نتیجہ تو پاخانہ ہے اور یہاں الحمد کے الف سے شروع کرو اور والناس تک لو، کتنا لیتے ہو،بھر و تقوی اپنے اندر ، بھرو خوف خدا اپنے میں ،بھرو اللہ سے محبت ، اللہ سے تعلق ، رسول کی اطاعت ،سارا یہاں ہے۔
اور یہ وہ ہے کہ دنیا میں رحمتیں، بر کتیں اور خدائی وعدے اور پھر سکرات سے لے کر آخرت میں یہی سوغاتیں کام آئیں گی۔ اللہ نے ایسی جگہ بٹھایا ہے ، اللہ ہمیں تمہیں برکت نصیب فرمادے اور قبول فرما دے۔