اہلِ علم اپنے اندر چار صفات پیدا کریں

idara letterhead universal2c

اہلِ علم اپنے اندر چار صفات پیدا کریں

مولانا سید احمد ومیض ندوی

الحمد للہ رب العالمین، اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان سیدنا مولانا محمدا عبدہ ورسولہ، صلی اللہ تبارک وتعالی علیہ وعلی آلہ واصحابہ وذریاتہ اجمعین․ امابعد!

عن عبدالله بن عمر رضی الله عنہ، ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال في دعائہ: اللَّہُمَّ اغْنِنِی بِالْعِلْمِ وَزَیِّنِّی بِالْحِلْمِ وَأَکْرِمْنِی بِالتَّقْوَی وَجَمِّلْنی بالعافیة․ (او کما قال علیہ الصلوة والسلام) (الجامع الصغیر للسیوطی:1532)

معزز اساتذہ کرام ،طلبہ عزیز، حاضرین مجلس! ابھی آپ کے سامنے محترم و مکرم ، با فیض عالم دین حضرت مولانامحمد عبد القوی صاحب دامت برکاتہم نے بہت ہی قیمتی اور مفید با تیں پیش فرمائی ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسے فکر مند اور مخلص علماء کا وجود ہم سب کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا بڑا انعام ہے اور ہم آپ سب حضرات سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ آپ اپنے علاقے کے اہل اللہ ، بزرگوں اور علماء سے وابستہ رہ کر اپنی زندگی کا سفر آگے بڑھائیں، ان شاء اللہ ہر ہر قدم پر آپ کی بہترین راہ نمائی ہوگی اور دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ کام یابی سے نوازیں گے۔

آج صبح کی مجلس میں حضرت مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے یہ دعائیہ کلمات بھی اپنی دعا میں ارشاد فرمائے تھے جن کا ابھی آپ کے سامنے ذکر ہوا ، یہ دراصل سید نا حضرت عبداللہ بن عمررضی الله عنہما کی ایک روایت ہے ،جو اگر چہ سنداً ضعیف ہے ،لیکن جو دعائیہ کلمات منقول ہیں وہ معنی کے اعتبار سے بہت ہی شان دار ہیں،اس قابل ہیں کہ ہم ان کا ورد رکھیں اور معنی کو سمجھ کر اپنا جائزہ بھی لیتے رہیں ، اس لیے کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جو دعائیں ہیں وہ اپنے اندر دعا کا پہلو بھی رکھتی ہیں اور نصیحت کا پہلو بھی رکھتی ہیں، آپ ادعیہ منثورہ کو پڑھیں ۔ حزب اعظم ہے، مناجات مقبول ہے، الدعا المقبول پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پیغمبر عالم، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے کوئی خیر کی چیز ایسی نہیں چھوڑی ہے جو مانگی نہ ہو اور کوئی ایسا شر نہیں چھوڑا ہے جس سے آپ نے پناہ نہ چاہی ہو، احادیث شریفہ میں ایسی ایسی بہترین، شان دار اور نفع بخش دعا ئیں ملتی ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے ، ان دعاؤں کے اندر بڑی برکات ہیں، علماء کو اور طلباء کو بالخصوص دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے اور جو ماثور دعائیں ہیں ان کو معانی کے استحضار کے ساتھ اللہ سے مانگنا چاہیے، کوئی بڑی بات نہیں ہے، اگر ہم روزانہ پانچ دس منٹ دعا میں لگا دیں، اپنی دنیاوی، دینی ہر ضرورت اللہ تعالیٰ سے مانگنے میں لگائیں اور اس کی عادت ڈال لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کی کیا برکتیں زندگی کے اندر ظاہر ہوں گی، تو یہ دعائیہ کلمات بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں۔

سرور عالم صلی الله علیہ وسلم نے چار باتیں اس میں مانگی ہیں، فرمایا:”اللہمَّ اغْنِنِی بِالْعِلْم“ (اے اللہ!مجھے علم دے کر مخلوق سے مستغنی کر دے ) اس کی شرح میں علماء لکھتے ہیں کہ اس علم سے علم آخرت مراد ہے، علم دین مراد ہے، حلال و حرام کا علم مراد ہے، کیوں کہ ایک مسلمان اس علم کا سب سے زیادہ محتاج ہے، اگر کسی مسلمان کو اس کے علاوہ دیگر علوم حاصل نہیں تو اُسے کوئی بہت بڑا نقصان نہیں ہے، اگر ہے بھی تو معمولی ہے ، وقتی اور عارضی ہے ،لیکن اگر آدمی علم دین سے محروم ہے، اسے حلال وحرام کا پتہ نہیں ہے، جائز ونا جائز کا پتہ نہیں ہے، صحیح غلط کا پتہ نہیں ہے تو یہ بڑی محرومی کی بات ہے اور اس علم میں آدمی دوسرے کا محتاج نہ رہے، بلکہ خود اس قابل ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کے ذریعہ، احادیث شریفہ کے ذریعہ، فقہ اسلامی کے ذریعہ جان سکے کہ کیا صحیح ہے کیا غلط؟ یہ انسان پر اللہ تعالی کا سب سے بڑا انعام ہوتاہے جب اس کو علم کے اعتبار سے مستغنی کر دیا جائے ۔

چناں چہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسی جگہ تشریف فرما ہوئے کہ سامنے سے حاجیوں کی جماعتیں، قافلے گزر رہے ہیں ، دیکھا کہ ایک صاحب جا رہے ہیں اور وہ کچھ اشعار پڑھ رہے ہیں اور لوگ ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، اشعار سن رہے ہیں اور وہ سنا رہے ہیں، آپ نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ فلاں شاعر صاحب ہیں، ان کی بڑی شہرت ہے۔ کہا:اچھا شاعر صاحب ہیں!فرمایا:جانے دو، کوئی خاص بات نہیں ہے، یہ ایسا علم نہیں ہے کہ اس کی جہالت کی وجہ سے آدمی کو کوئی افسوس ہو، کوئی نقصان ہو، پھر ایک قافلہ گزرا، دیکھا کہ ایک صاحب ہیں، ان سے لوگ کچھ پوچھ رہے ہیں اور وہ جواب دے رہے ہیں، پوچھا:یہ کون صاحب ہیں؟ کہا گیا کہ یہ فلاں صاحب ہیں، ان کو خاندانی نسبتوں کا، شجروں کا بڑا علم ہے، عربوں کے ہاں نسب دانی کا بڑا اہتمام تھا، بڑی اہمیت تھی، کہا کہ:جانے دو، یہ بھی کوئی خاص بات نہیں، علم ہو جائے تو ٹھیک ،نہ علم ہو تو بھی ٹھیک ، یہ جان کر کیا فائدہ ہوگا کہ میرا باپ کیا تھا کیا نہیں ؟ الغرض ایسے قافلے گزرتے رہے اور حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اسی طرح کی بات فرماتے رہے، تا آں کہ ایک قافلہ گزرا ،جس میں ایک صاحب تھے اور لوگ ان کے ارد گرد مسئلے پوچھ رہے تھے کہ آج میں نے قربانی رمی سے پہلے کر لی، کوئی کہہ رہا تھا میں نے طواف زیارت پہلے کر لیا، کوئی کچھ مسئلہ پوچھ رہا ہے ، کوئی کچھ اور۔ وہ جواب دے رہے ہیں، تمہارے حج میں ایسا ہو گیا، تمہارے اوپر دم واجب ہوا یا نہیں ہوا ، وغیرہ، پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ حضرت عبداللہ ابن عمر ہیں ،جو صحابہ کرام رضی الله عنہم میں حج کے مسائل کے متخصص رہے ہیں Specialist ہیں۔ حج کے مسائل کی بخاری شریف میں لمبی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پیغمبر علیہ السلام کے آخری حج کا پورا نقشہ کھنچ دیا، یہ تک لکھ دیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہاں نزول فرمایا؟ کہاں آپ نے قیام فرمایا ؟ ساری جگہیں آپ نے بتلا دیں تو ان کو حج کے مسائل سے خاص شغف تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہ ہے علم کہ آدمی یہ بتا سکے کہ یہ صحیح ہے یہ غلط، یہ جائز ہے یہ ناجائز ، یہ حلال ہے یا حرام اور اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ بھئی! جسے سیکھنا ہوتو یہ سیکھے، یہ دنیا میں بھی کار آمد ہے اور آخرت میں بھی کار آمد ۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت مانگی جارہی ہے:”اللہم اغننی بالعلم“اے اللہ! مجھے علم صحیح دے کر لوگوں سے بے نیاز بنائیے ، یہ صرف علم لفظ بولا گیا ہے، لیکن جب بھی قرآن پاک میں العلم کا ذکر آتا ہے یا احادیث شریفہ میں علم کی فضیلت کا مضمون آتا ہے، تو اس سے علم دین مراد ہوتا ہے اور علم دین میں بھی علم صحیح مراد ہوتا ہے، یہ نہیں کہ اپنی طرف سے کچھ بھی کہنا شروع کر دو ، فلسفیانہ انداز میں گفت گو شروع کر دو، ایسی باتیں بیان کرنی شروع کر دو جو اب تک سلف میں سے کسی نے نہ بیان کی ہوں اور اس کو علم سمجھا جائے، یہ علم نہیں ہے، یہ جہالت ہے ،علم تو وہی ہے جو معروف ہے ،علم تو وہی ہے جو سلف صالحین سے نقل ہوتا چلا آ رہا ہے، جو معتبر علماء سے ثابت ہے وہی علم ہے ۔ وہ علم نہیں ہے کہ نادر و نایاب باتیں ہیں کہ آج تک ایسا نکتہ کسی نے بیان نہیں کیا، آج تک تو ہم نے ایسی بات سنی نہیں، واہ یہ شخص بہت بڑا علامہ ہے، ایسی بات نہیں۔علامہ وہ ہے جو معروف باتیں بیان کرے ، شریعت کی نظر میں وہ علامہ ہے۔ کیوں کہ شریعت کُل کی کُل معروف ہے، منکر نہیں ہے، اجنبی اور نامانوس بات جو بیان کرتا ہے اس کا علم علم صحیح نہیں، علم صحیح وہ علم ہے جومعتبر اور مستند ہو اور جولوگوں میں معروف با تیں بیان کرے، وہی آدمی در اصل علم صحیح کا حامل ہے۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں کئی مرتبہ حاضری ہوئی۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھو!آدمی کو گم راہی سے بچانے والی چیز دو ہیں: علم صحیح اور صحبت صالح ۔

علم پختہ ہو۔ مضبوط ہو تو لاکھ کوئی چرب زبانی کرے ،مضبوط علم والا اس کے جھانسے میں کبھی نہیں آسکتا ، اس کا دل اسے قبول نہیں کرے گا ،جو علم صحیح کا حامل ہے علم صحیح کے ساتھ صحبت صالح، نیک لوگوں کی صحبت میں آدمی رہے گا تبھی گم راہی سے محفوظ رہے گا۔ یہ دعا اساتذہ، طلبہ سب کو مانگنی ہے:”اللہم اغننی بالعلم“ اے اللہ! ہمیں علم دے کر مخلوق سے مستغنی کر دیجیے۔

یادرکھیے گا! یہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہے، کوئی وقت محدود نہیں ہے، یہ سمجھنا کہ ہم تو فارغ ہو گئے ، ہم نے تو دورہ پڑھ لیا، اب تو ہم عالم ہو گئے، ہمیں تو سند مل گئی ، یہ سند کمال علم کی سند نہیں ہے، کمال نصاب کی سند ہے، ہمارے مدرسے کا جو نصاب ہے اس کو آپ نے پورا کر لیا، اس کی آپ کو سند دی جا رہی ہے، یہ نہیں کہ آپ علامہ بن گئے ہیں، ابھی تو آپ شروع ہوئے ہیں۔ حضرت الاستاذ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ طلبہ تین طرح کے ہوتے ہیں: بہت ذہین، متوسط اور کم فہم۔ فرمایا جو بہت ذہین ہے ،وہ اگر فارغ ہونے کے بعد پڑھانے میں لگیں گے تو 10 سال میں ان کو علم آنا شروع ہوگا ۔ اور جو متوسط ہے 15 سال میں اور جو کم فہم ہے 20 سال میں شروع ہوگا، یہ نہیں کہ کورس پڑھتے ہی کامل ہو جائیں گے، بلکہ جب وہ مسلسل علم میں لگے رہیں گے تو علم آنا شروع ہوگا ۔ یہ دعا بہت اہتمام کے ساتھ مانگی جائے :”اللہم اغننی بالعلم“اور اس علم سے علم دین علم صحیح مراد ہے، علم صحیح کہاں ملے گا ؟ علمائے حق کی کتابوں میں ملے گا، ان کے ملفوظات میں ملے گا، ان کے افادات میں ملے گا ، اہل حق کی باتوں کو سن کر، پڑھ کر، مطالعہ کر کے دل میں ایک نور پیدا ہوگا اور غلط باتوں سے دل میں ایک طرح کی تاریکی وبے رغبتی پیدا ہوگی۔نبی اکرم علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی کئی احادیث شریفہ میں یہ دعامانگی: ”اللہم انی اسئلک علما نافعا“ا ے اللہ! میں آپ سے علم نافع چاہتا ہوں اور دوسری حدیث میں فرمایا:”و اعوذ بک من علم لا ینفع“اور میں ایسے علم سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں جو نفع بخش نہ ہو ۔ کیا مطلب؟ علم صحیح نہ ہو تو نفع بخش کیسے ہوگا؟ یا علم پر عمل نہ ہو وہ نفع بخش نہیں ہوگا یا علم گم راہی کا ذریعہ بن جائے تو وہ مضر بن جائے گا۔ الغرض یہ دعا مانگنی ہے :”اللہم اغننی بالعلم“

اللہ سے مانگا جائے، صرف مطالعہ کرنے سے علم نہیں آئے گا، یہ بھی یاد رکھیں، بہت محنت کرنے سے علم نہیں آئے گا ،محض راتوں میں جاگنے سے علم نہیں آئے گا، اللہ سے مانگنا بھی ضروری ہے، مانگا جائے گا تب یہ نعمت ملے گی ، جی لگا کے مانگے نمازوں کے بعد مانگے ، راتوں میں اٹھنے کا موقع ملے تو راتوں میں مانگے ، اور قبولیت کے مواقع پر مانگیں تو اللہ تعالیٰ عطا کریں گے، نبوت اور صحابیت کے علاوہ کوئی دروازہ بند نہیں ہوا ، اللہ کے ولی تو ہو چکے ہیں، اب نہیں ہونے والے، ایسا کچھ نہیں ، ہر مرتبہ مل سکتا ہے، ہر مقام مل سکتا ہے، مانگنے والے چاہییں اور اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے جو شرائط ہیں ان شرائط کو پورے کرنے والے چاہییں تو اللہ تعالیٰ ضرور عطا کریں گے تو پہلا جز اس دعا کا یہ ہے :”اللہم اغننی بالعلم“․

اس کے بعد اگلا جز ہے:”وزینی بالحلم“(اے اللہ!حلم، بردباری ، عاقبت اندیشی، عقل و فراست سے مجھے آپ مزین کر دیجیے ) عالم کے لیے حلیم ہونا بھی ضروری ہے، جو بھی کسی امت کا ، ملت کا، قوم کا ذمہ دار بنایا جائے اس کے لیے علم کے ساتھ ساتھ حلم لازم ہے، اگرحلم نہیں ہو گا تو علم کا فیض آدمی سے جاری نہیں ہو سکتا۔ سرور عالم صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا:﴿ولو کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوا مِنْ حولک﴾اگر آپ ترش رو ہوتے ، دل کے سخت ہوتے تو یہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے ارد گرد جان نثاری کر رہے ہیں، سب یہاں سے چلے جاتے ۔ یہ تو آپ کے کمال خلق کی وجہ سے ، نرم روی کی وجہ سے، نصیحت اور ہمدردی کی وجہ سے اور سختیوں پر صبر کی وجہ سے اور حلم و بردباری کی وجہ سے ہر آدمی آپ کے او پر جان چھڑک رہا ہے ، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حلم کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں ۔ ”و زینی بالحلم“ یہ نہیں کہ بس منٹوں میں تولہ منٹوں میں ماشہ، ایسا آدمی کبھی بھی اللہ کی نظر میں ، لوگوں کی نظر میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکتا، جو بات بات پر بے قابو ہو جائے ، نہ زبان اس کی سلامت رہے نہ قلم سلامت رہے ۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ یمن کا ایک وفد آیا تھا، وفد عبد القیس ، اس کے سردار تھے ان کا نام منظر ابن عائذ اور لقب اشج عبدالقیس تھا، یہ سمجھ دار، بہت ہی بردبار بڑے اعلیٰ درجے کے انسان تھے، جب یہ وفد آیا تو مسجد نبوی کے قریب آکران میں ایسا جوش پیدا ہو گیا کہ سب اپنی سواریوں سے اُتر اُتر کے سیدھے مسجد پہنچ گئے، یہ خیال نہیں رہا کہ سواریاں کہاں باند ھیں ؟ سامان کہاں رکھیں؟ سب چھوڑ چھاڑ کے سیدھے مسجد چلے گئے کہ حضور کی زیارت کریں اور وفد کے سردار اشج عبد القیس نے ساری سواریوں کو بندھوا، یا سامان اتر وایا، کپڑے میلے تھے، قریب میں کنویں پر جا کر غسل کیا ، کپڑے بدلے اور اطمینان سے پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، پیغمبر علیہ السلام نے انہیں اپنے قریب بٹھایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا اکرام کیا اور پھر ارشادفرمایا کہ تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے، ان میں ایک حلم و بردباری ہے اور دوسرے کسی بھی معاملے میں جلد بازی نہ کرنا ہے ۔ یہ جوحلم ہے یہ آدمی کو چار چاند لگا دیتا ہے، آدمی کے علم کے فیض کو عام کر دیتا ہے، اس کی ذات مرکز نور بن جاتی ہے، اس حلم اور بردباری کی وجہ سے خطاؤں سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے، اسے بعد میں شرمندگی نہیں اُٹھانی پڑتی۔ جو آدمی عاقبت اندیشی کے ساتھ کام کرتا ہے، اسے حسرت و افسوس کا سابقہ نہیں پڑتا، ٹھیک ٹھاک کام ہو جاتا ہے، اس لیے حضور صلی الله علیہ وسلم مانگ رہے ہیں: ”وزینی بالحلم“آپ مجھے مزین کیجیے حلم کے ذریعے۔ ابھی حضرت مولانا (محمد عبد القوی صاحب مدظلہ ) اشارہ کر رہے تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، کوئی بات سن لی اور وہ ہمارے تصور اور ہماری رائے کے خلاف ہے تو یہ تحقیق بھی نہیں کرتے کہ جو بات سنی گئی ہے صحیح ہے بھی یا نہیں ؟ حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ آج دنیا میں جھوٹ کا بول بالا ہے، آڈیوز کے اندر ایڈیٹنگ ہو جاتی ہے، ویڈیوز کے اندر ایڈیٹنگ ہو جاتی ہے، بیچ کا جملہ نکال کر کے پیچھے کی بات جوڑ دی جاتی ہے، مطلب بالکل خبط ہو جاتا ہے اور ہم اسی پر اپنی رائے دینے لگ جاتے ہیں، یہ کیا ہے ؟حلم کی کمی ہے، بردباری کی کمی ہے، یہ عجلت پسندی ہے، یہ کسی عالم کو زیب نہیں دیتی، علم میں زینت جب ہی پیدا ہوگی ، جب علم کے ساتھ حلم بھی ہو، بردباری بھی ہو، تحمل مزاجی بھی ہو، عاقبت دیکھ کر اگلا قدم اٹھایا جائے ،محض جذبات کے رو میں آدمی نہ بہہ جائے، کسی کے کہنے میں نہ آجائے ، جب یہ چیز ہوگی تو پھر آدمی کا علم یقینی معنی میں کار آمد ہوگا۔

ابھی چند دن پہلے جلالین شریف کے سبق میں(ملکی حالات کے تناظر میں) کسی نے پرچہ دیا کہ علماء کچھ ٹھنڈے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی کام نہیں کر رہے ہیں ، فلاں ایسا کر رہے ہیں، ہم نے پوچھا کہ کس نے دیا پرچہ؟ وہ صاحب کھڑے ہو گئے ، ہم نے کہاکہ بھئی!کوئی کچھ نہیں کر رہا، تم بتاؤ کیا کریں ؟ وہ صاحب خاموش، کوئی جواب نہیں دیا ، ہم نے کہا:جب تم اعتراض کر رہے ہو تو تم راستہ بھی تو بتاؤ ،تم کیا چاہتے ہو؟ سڑک پر نکل کر آئیں، مقابلے کریں، مقابلے کے لیے مقابلے کے اسباب تو ہونے چاہییں!خالی لکھ دینے سے اور خالی کہہ دینے سے اور خالی سوشل میڈیا پر بات چلا دینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، آپ جس ملک میں رہتے ہیں یہاں بہت سوچ سمجھ کر پالیسیاں بنانی پڑتی ہیں، 20 اور 80 کا تناسب ہے، آپ جتنا بڑا مظاہرہ کر لیں، مقابلے میں اس سے کئی گنا بڑا مظاہرہ ہو جائے گا اور آپ کا مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا، حل تب ہی ہو گا جب آپ جمہوریت کی اور دستور کی دہائی دے کر ، غیروں کو اپنے ساتھ ملا کر تحریک چلائیں گے ، آپ کوشش کریں کہ غیر ہماری بات کو کہنے والے بن جائیں ۔ اس انداز میں ہم لوگوں کو سمجھائیں کہ یہ سب کا مسئلہ ہے، ہمارا اکیلے کا مسئلہ نہیں ہے، ورنہ دشمن تو یہ چاہتا ہے کہ ہم الگ ہو جا ئیں، وہ الگ ہو جا ئیں ، اب اگر ہم الگ ہو کر کے اپنی آواز اٹھائیں گے تو ہم کبھی اس ملک میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، ہمارے یہاں ادارے ہیں، مساجد ہیں، قبرستان ہیں ،تحریکات ہیں، یہ ساری چیزیں چلتی رہیں، یہ اس وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، مسجدیں آبادر ہیں، مدر سے آبادر ہیں، جماعتوں کا آنا جانا باقی رہے ،ان تمام باتوں پر نظر کر کے پالیسی بنائی جاتی ہے اور آج ہم ہیں کہ بس دماغ میں پتہ نہیں کیا آجاتا ہے سمجھتے ہیں کہ جو ہم سوچ رہے ہیں وہی صحیح ہے، ہم نے اس عالم سے کہا کہ جتنا تم سوچ رہے ہو ، اس سے ہزار گنا زیادہ ہم سوچتے ہیں، کیوں کہ ہمارے کاندھوں پر ذمہ داری ہے، تمہارے کاندھوں پر ذمہ داری نہیں ہے۔ الغرض اللہ تعالی سے مانگا جارہا ہے:”زینی بالحلم“اے اللہ!آپ ہمیں علم کے ساتھ حلم سے مزین کر دیجیے ۔

تیسرے نمبر پر مانگا جا رہا ہے :”واکرمنی بالتقوی“(اے اللہ!مجھے تقوے والی زندگی کے ذریعے عزت عطا فرمائیے ) علم بھی ہو،حلم بھی ہو، لیکن آدمی متقی نہ ہو، لوگوں کے سامنے تو بہت بڑا اللہ والا نظر آئے ، صوفی نظر آئے اور بہت بڑا نیک اور اچھا نظر آئے، لیکن جب تنہائی میں ہو تو اللہ کے حدود کو پامال کرنے والا ہو، یہ آدمی کبھی بھی با عزت نہیں ہو سکتا، کیوں کہ عزت کا مدار اللہ سے ڈرنے پر ہے اور اللہ سے ڈرنا لوگوں کے سامنے بھی ہونا چاہیے، تنہائی میں بھی ہونا چاہیے :” ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“ تم میں سب سے معزز وہ ہے جو سب سے بڑا متقی اور پر ہیز گار ہے۔ تو عالم دین ہو حلیم ہو اور پھر متقی پرہیز گار ہو، اس کی زبان بھی غلطیوں سے محفوظ ہو ، اس کے کان بھی محفوظ ہوں، اس کی آنکھیں بھی محفوظ ہوں ، اس کے ہاتھ بھی محفوظ ہوں اس کا دل بھی بغض و عناد اور حسد سے خالی ہو اور اس کے اندر غلط باتوں کے ارادے اور عزائم نہ ہوں ، اس طرح سے آدمی کو تقویٰ کی دولت ملے گی تو انشاء اللہ دنیا میں بھی سرخ رو ر ہے گا، آخرت میں بھی سرخ رو ر ہے گا۔ ”واکرمنی بالتقوی“ ہم میں اس کی بھی بہت ضرورت ہے، اس میں بہت کو تا ہیاں پائی جاتی ہیں ،مگر سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں، اگر اب تک غلطی ہوئی ہے، اب اسی مجلس میں ارادہ کر لیں کہ ہم متقی بن کر کے رہیں گے، دوسروں کو بتلانے کے لیے متقی نہیں بننا ہے ،اپنے فائدے اور بہتر انجام کے لیے ہمیں متقی بننا ہے۔ سرور عالم صلی الله علیہ وسلم جب پہلی مرتبہ مدینہ منورہ میں قبیلے بنو سالم میں تشریف لائے ، آپ نے خطبہ جمعہ دیا تو ایک جملہ اس خطبے میں یہ تھا کہ ”جو آدمی اللہ تعالی سے اپنا معاملہ درست کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں سے اس کا معاملہ درست کر دیتے ہیں“ خود بخود لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے ، انسیت پیدا ہو جاتی ہے، قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر ہے :﴿إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا﴾کہ جو ایمان اور اعمال صالحہ والی زندگی گزارتے ہیں تو رحمان ان کی محبوبیت، مقبولیت لوگوں کے دلوں میں اتار دیتے ہیں ۔ حدیث میں بھی اس کا تذکرہ ہے:”واکرمنی بالتقوی“نبی کے علاوہ کوئی معصوم تو ہو نہیں سکتا، لیکن ہم سے اگر غلطی ہوئی ہے یا ہو رہی ہے تو ہم اس پر تو بہ کر سکتے ہیں، عزم کر سکتے ہیں کہ اب جو ہوا سو ہوا، آئندہ نہیں کریں گے، اللہ تو بہ قبول کرنے والے ہیں ، چھوٹے بڑے گنا ہ سب معاف کرنے والے ہیں، تو ہم سب یہ عزم کر لیں، ارادہ کر لیں اور اللہ سے دعا بھی کریں”واکرمنی بالتقوی“کہ اللہ! مجھے حقیقی تقوی عطا فرمائیے۔

اس کے بعد چوتھے نمبر پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی:”وجملنی بالعافیة“․(اے اللہ! میری زندگی میں عافیت کے ذریعے جمال پیدا کر دیجیے) عافیت اس اعتبار سے کہ صحت ہو ، تن درستی ہو، اچھا ماحول ملے، گھر کا بھی ماحول اچھا ہو، اچھی بیوی مل جائے ، اچھی اولا دمل جائے، جو آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے ، دل کا سرور بن جائے ، اچھے دوست مل جائیں، رہنے کے لیے اچھا ٹھکانہ مل جائے، اللہ تعالیٰ اتنی وسعت دے دے کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ، عزت والی روزی مل جائے ، یہ سب چیزیں بھی مانگنے کے قابل ہیں، یہ عافیت بہت بڑی چیز ہے، عافیت چھوٹا سا لفظ ہے، لیکن بہت جامع ہے، دین میں عافیت ، دنیا میں عافیت ، گھر میں عافیت ، بچوں میں عافیت، بیوی میں عافیت ، رشتہ داروں میں عافیت ، بس عافیت ہی عافیت ۔ نبی اکرم علیہ السلام نے فرمایا:سب سے اعلیٰ جو چیز اللہ تعالیٰ سے مانگی جا سکتی ہے وہ عافیت ہے، عافیت مانگی بھی جائے اور عافیت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ سب باتیں آپ کے علم میں نہ ہوں، کوئی انوکھی یا ان کہی با تیں نہیں ہیں ، یہ سب باتیں ہم نے پڑھ رکھی ہیں، پڑھتے رہتے ہیں، بار بار پڑھتے رہتے ہیں، بس ان کا استحضار کرنے کی ضرورت ہے اوران کی روشنی میں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی ہمیں علم بھی عطا فر مائے، حلم بھی عطا فرمائے ، تقویٰ بھی عطا فرمائے ، عافیت والی زندگی بھی نصیب فرمائے اور عافیت والی موت بھی عطا فرمائے کہ اس حالت میں ہم دنیا سے جائیں کہ ہم اللہ کے دربار میں سرخ رو ہوں اور اللہ ہم سے راضی ہوں، ہم اللہ سے راضی ہوں ۔ یہی ہمارے لیے سب سے بڑی سعادت کی بات ہو گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطافرمائے ، ہم سب کے حق میں ان دعاؤں کو قبول فرمائے ، جو بھی کوتاہیاں ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو معاف فرمائے ۔ وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین، برحمتک یا ارحم الراحمین․

مجالس خیر سے متعلق