حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی کا طلبائے جامعہ سے بیان و قیمتی نصائح ،جو افادہ عام کے لیے ماہنامہ الفاروق میں شائع کیا جارہا ہے، تاکہ قارئین”الفاروق“ بھی مدارس دینیہ کے کردارو تاریخی واقعات سے مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾․ (سورہ فصلت، آیت:30)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم
میں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل سفر میں رہا اور جو سفر ہو چکا ہے وہ بہت تھوڑا سا ہے اور جو باقی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔
یہاں سے اسلام آباد جانا ہوا، میرے منجھلے بیٹے مولانا عمار خالد سلمہ استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی وناظم شعبہٴ حفظ پورے سفر میں ہمراہ تھے، وہاں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلا س تھا، منگل کے روز ، اس سے اگلے دن اجلاس سے فراغت کے بعد اسلام آباد ہی میں اسلام آباد، کشمیر ، گلگت اور پورے راولپنڈی ڈویژن کے مسئولین، ممتحنین اعلیٰ اور ممتحنین کا اجتماع تھا، جس میں سارا دن مصروفیت رہی، شام کو دیر سے فراغت ہوئی او رمجلس عاملہ کے اجلاس میں جامعہ فاروقیہ کے قدیم فاضل اور ایسے فاضل جنہوں نے ابتدائی تعلیم سے دورہ حدیث تک جامعہ میں پڑھا اور پھر کئی برس جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
ہمارے بہت ہی عزیز شاگرد مولانا عبدالستار صاحب دامت برکاتہم کا بہت شدید اصرار تھا کہ آپ کو شام میں فیصل آبادجانا ہے۔تو آپ رات تلہگنگ جامعہ بیت السلام میں گزار لیں، ان کی دعوت پر اسلام آباد سے تلہ گنگ گئے اور رات ہم نے وہاں گزاری، راتیں بہت لمبی ہیں، چناں چہ ہم وہاں پہنچ گئے، وہاں طلباء سے بھی بات ہوئی ،اساتذہ سے بھی بات ہوئی اور آج کل تو عشاء کی نماز بھی چھ بجے ہو رہی ہے، تورات کے گیارہ بجے تک اساتذہ اور طلباء کے ساتھ مصروفیت رہی اور اس کے بعد آرام کیا۔
فجر کی نماز پڑھتے ہی متصل مختصرناشتہ کیا اور ہم فوراً فیصل آباد کے لیے روانہ ہو گئے، فیصل آباد کا ایک بہت عظیم ادارہ ہے حضرت مولانا قاری محمد یسٰین صاحب کا، جس کا نام جامعہ دارالقرآن ہے، اس میں فیصل آباد ڈویژن، سرگودھا ڈویژن اور ساہیوال ڈویژن کے مسئولین ممتحنین اعلی اورممتحنین کا اجتماع تھا اور یہ اجتماعات جن کا میں ذکر کر رہاہو یہ تدریبی اجتماعات تھے، چناں چہ شام تک وہاں مصروفیت رہی اور مسلسل رہی، اس سے فراغت کے بعد فیصل آباد میں ہمارے بہت ہی مشفق اور مہربان استاد حضرت مولانا مفتی سید نذیر احمد شاہ صاحب بخاری زید مجدہم کا مدرسہ ہے اورمیں ہر سال ان کے حکم پر ان کے سالانہ جلسے میں بھی حاضر ہوتا ہوں اور ابھی کچھ ہی عرصے پہلے وہاں سے ہو کر آیا تھا، لیکن ان کا حکم تھا اور انہوں نے اپنے جوان بیٹے بھیج دیے اورہمیں یہ حکم دیا کہ اب وفاق کا کام آپ کا مکمل ہوچکا ہے ، لہٰذا فوراً میرے پاس آجائیں، چناں چہ ہم وہاں چلے گئے، الله تعالیٰ ان سب حضرات کو جزائے خیر دے ، رات وہاں گزاری اور اگلے دن جمعہ تھا ،صبح سویرے ہی ہم ناشتے سے فارغ ہو کر لاہور کے لیے رورانہ ہو گئے ، وہاں ہمارے بہت عزیز دوست مولانا اویس گلزار صاحب، ان کے والد حاجی گلزار صاحب میرے بڑے پرانے دوست تھے، انتقال ہو گیا ان کا۔1978ء میں میں فراغت کے بعد تبلیغ میں سات چلے کے لیے گیا تھا ، ہمار ی ایک تشکیل ہوئی تھی90 دن کی، جو لوگ راولپنڈی کے رہنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ راولپنڈی سے مری کی طرف جب جاتے ہیں توشروع میں ایک اسٹاپ آتا ہے، ا س کا نام ہے سترہ میل، سترہ میل سے براستہ مری نتھیا گلی، ایبٹ آباد تک ہمارا وہ سفر تھا، تین ماہ اور یہ پیدل سفر تھا، روزانہ فجر سے پہلے ہم اگلے گاؤں کی طرف تہجد کے بعد روانہ ہوتے تھے اور اگلے گاؤں میں فجر کی نماز پڑھتے تھے، یہ سارا علاقہ گلیات کہلاتا ہے اور میں گلیات والوں سے کہتا ہوں کہ تمہیں گلیات کا اتنا پتہ نہیں جتنا مجھے پتہ ہے، میں نے وہاں پیدل تین ماہ کا سفر کیا ہے۔
تو مری سے آگے ایک گلی آتی ہے، اس کا نام ہے ڈونگہ گلی، جب ہماری جماعت مری سے آگے گئی تو ایک صاحب اپنی گاڑی میں ہماری نصرت کے لیے آئے اور پھر انہوں نے ہماری ایسی نصرت کی کہ ڈونگہ گلی سے گلیات تک روزانہ نصرت کے لیے آیا کرتے تھے اور یہی وہ صاحب تھے جن کا نام حاجی گلزار صاحب تھا۔
پھر بہت عرصہ ہوا ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔78ء کے بعد پھر الله تعالیٰ نے حرمین شریفین مکہ مکرمہ میں ملاقات کروا دی اور ایسی ملاقات کروائی کہ اس کے بعد ہر سال مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوتی تھی اور وہ ان لوگوں میں تھے جنہیں الله تعالیٰ نے اپنے گھر کا عشق عطا فرمایا تھا۔
آپ حضرات حیران ہوں گے ، اس زمانے میں وہ روزانہ یومیہ چالیس طواف کرتے تھے اور برسہا برس ان کا یہ معمول رہا تو وہ تعلق جو یہاں قائم ہوا تھا وہ مکہ مکرمہ منتقل ہو گیا۔ ان سے وہاں ملاقات رہتی تھی، ان کے بیٹے ہیں مولانا اویس گلزار، انہوں نے لاہور کے ایک علاقہ چوبرجی، میں جامعہ دارالتقویٰ قائم کیا ہے، بہت شان دار ادارہ ہے، تعلیم کے اعتبار سے بھی اور تربیت کے اعتبار سے بھی، پھر اس کی کئی شاخیں ہیں، بنات کا بھی کام ہے اور لاہور میں شاید ان کے بنات کے کئی مدارس ہیں۔
تو لاہور ڈویژن اور گوجرانوالہ ڈویژن کے مسئولین اور ممتحنین اعلیٰ اور ممتحنین کا اجتماع مولانا اویس گلزار کے ادارے جامعہ دارالتقویٰ میں تھا، اب آپ اندازہ لگائیں کہ جب ان کے والد کے ساتھ ہمارا اتنا گہرا اور دیرینہ تعلق تھا تو وہ بے چارے تو بس آپ سمجھیئے کہ قربان اور فدا تھے ،الله تعالیٰ ان کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔
چناں چہ وہاں کا اجلاس مکمل ہوا او رپھر وہاں سے واپسی اسلام آباد تھی، اتوار کے دن ہم اسلام آباد آگئے اور پیر کو گزشتہ کل ،اسلام آباد سے کراچی واپسی ہوئی اور ابھی صرف یہ ہوا ہے۔ کل پورے حیدرآباد ڈویژن کے مسئولین، ممتحنین اعلی اور ممتحنین کا اجتماع ہے حید رآباد میں۔
اور پھر 30،31 دسمبر کو سکھر ڈویژن کے مسئولین، ممتحنین اعلیٰ ممتحنین کا اجتماع ہے اور پھر 6 جنوری کو ملتان ڈویژن، ڈیرہ غازی خان ڈویژن اور بہاولپور ڈویژن کے مسئولین، ممتحنین اعلی او ر ممتحنین کا اجتماع ہے، ان سب میں جانا ہے، اس طرح جو تفصیل میں نے بیان کی، سندھ مکمل ہو جائے گا اور ان شاء الله6 جنوری کو پنجاب بھی مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد واپس آکر پھر خیبر پختونخواہ جانا ہے و،ہاں پشاور ڈویژن ہے ، ہزارہ ڈویژن ہے، مالاکنڈڈویژن اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن ہے اور کوہاٹ او راس کے متعلقات ہیں یہ سارا سلسلہ پھر آنے کے بعد مرتب ہو گا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد پھر بلوچستان اور یہ سب سالانہ امتحان سے پہلے ان شاء الله مکمل ہو جائے گا۔
آپ حضرات کی خدمت میں جو گزارش ہے وہ یہ کہ آپ نے اندازہ لگایا ہو گا، یہاں آپ رہتے ہیں، مجھے آپ دیکھتے ہیں کہ میں ضعیف بھی ہوں، بیمار بھی ہوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہے اور یہ وفاق کی جو ذمہ داریاں ہیں، جس کی صرف ایک جھلک میں نے آپ کو دکھائی، وہ آپ کے سامنے ہے۔
اور یہ سب کچھ کرنے کا جو جذبہ ہے اصل وہ ہے ، آدمی کو اس کا جذبہ چلاتا ہے اور خوب یاد رکھیں کہ جو قومیں اپنے اکابر کی، اپنے بزرگوں کی تاریخ سے انجان ہو جاتی ہیں، ناواقف ہو جاتی ہیں، ان میں پھر یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا، تو وہ ختم ہو جاتی ہیں، بے اثر ہو جاتی ہیں، ہم ایک قوم ہیں، ہماری ایک تاریخ ہے اور وہ ایسی عظیم الشان تاریخ ہے اور ایسی زندہ وجاوید تاریخ ہے اور ایسی بھرپور تاریخ ہے کہ اس کی اس دنیا میں، عالم اسلام میں، کم از کم خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کوئی مثال نہیں۔
ہم اپنی تاریخ سے اگر ناواقف ہو گئے ، ہمارا رشتہ اگر تاریخ سے ٹوٹ گیا او رہم اپنے اکابر کو بھول گئے، تو پھر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔
اور آپ بہت خوش قسمت ہیں، ہم سب بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں الله نے ایسے اکابر دیے۔1803ء میں انگریز نے متحدہ ہندوستان کی سرزمین پر یہ اعلان کیا کہ مخلوق خدا کی، بادشاہی انگلستان کے بادشاہ کی اور حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا، یہ 1803ء میں انگریز نے اعلان کیا، اسی وقت جب یہ اعلان ہوا توشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ الله، خانوادہٴ شاہ ولی الله کے فرزند کھڑے ہو گئے او رانہوں نے کہا کہ اب یہ ملک ظلم او رجبر کے اندر چلا گیا ہے لہٰذا ہمیں اس کے خلاف جہاد کرنا ہے، انہوں نے اعلان جہاد کیا اور 1803ء میں جہاد کا سلسلہ شروع ہوا،اس کے نتیجے میں شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ الله کے مدرسے کو دفن کر دیا گیا، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ الله کے کتب حانے کو آگ لگا دی گئی، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ الله کو زہر دیا گیا، لیکن وہ خاموش نہیں بیٹھے کہ انگریز سرکار کی غلامی ہمیں قبول نہیں اور وہ سلسلہ چلا، 1803 ء کے 31 سال بعد اسی خانوادے کے حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمة الله علیہ ،حضرت سید احمد شہید رحمة الله علیہ انگریز کے خلاف کھڑے ہو ئے اور یہ سارے کے سارے حضرات انگریز کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے ان سب نے جانیں الله کی راہ میں پیش کر دیں اوربالاکوٹ کے میدان میں سب شہید ہو گئے، یہ ہیں آپ کے اکابر۔
پھر1857ء آیا اور 1857ء میں علماء پھر کھڑے ہو گئے، اب کھڑے ہونے والوں میں حاجی امداد الله صاحب مہاجر مرمکی رحمة الله علیہ، امیر المجاہدین، ہم لوگ اوّل تو تذکرہ ہی نہیں کرتے، اپنی تاریخ سے ہی ناواقف ہیں، اگر ہم حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی کا تذکرہ بھی کرتے ہیں تو ایک پیر طریقت کے طور پر، ایک صوفی بزرگ کے طور پر،حالاں کہ وہ امیر المجاہدین تھے اور ان کی ماتحتی میں، ان کے زیر امارت جبل العلم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة الله علیہ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ، حضرت مولانا رحمت الله کیرانوی رحمة الله علیہ، بڑے بڑے اکابرنے، دست بدست جہاد کیا اور ا س جہاد میں کام یابی حاصل کی،، چناں چہ دلی میں، مراد آباد میں، میرٹھ میں، کیرانہ میں، گنگوہ میں، نانوتہ میں، سنبھل میں ،رائے پور میں، تھانہ بھون میں ،جلال آباد میں اسلامی خلافت قائم کی اور ان حضرات نے صرف بیانات نہیں کیے، عملی جہاد کیا،آپ یاد رکھیں:”الجہاد ماضٍ إلی یوم القیامة “اس میں شکست نہیں ہوتی، یہ تو قیامت تک چلے گا، کبھی پیچھے ہٹ گئے کبھی آگے چلے گئے #
جہاں میں اہل ایماں مثل خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
تو1803ء بھی آیا،1831ء بھی آیا،1857ء بھی آیا اور انگریز نے1857ء میں ظلم وتشدد اور جبر کی انتہا کر دی، صرف ایک دلی میں 33 ہزار علماء کو سولی پر لٹکایا گیا، میرٹھ میں، مراد آباد میں نواب مجوخان آزادی ہند کے بہت نام ور نواب تھے، نواب مجو خان کو انگریز نے گھوڑوں سے ان کی ٹانگوں کو باندھا اور انگریر گھوڑوں پر سوار اور دونوں گھوڑوں کو مخالف سمت میں دوڑایا ،ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے، سینکڑوں مجاہدین، مراد آبادمیں شہید ہوئے ،مراد آباد میں آج بھی گنج شہیداں ایک قبرستان ہے، اس گنج شہیداں میں سینکڑوں مجاہدین کی قبریں ہیں، مراد آباد کی مٹی سرخ ہو گئی، ظلم جبر اور مجاہدین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تلاش کرکرکے ایک ایک مجاہد کو شہید کیا گیا، ظلم کیا گیا، یہ وقت بھی گزر گیا اور 1857ء کے اس ظلم وستم کے بعد انگریز نے ایک خوف ناک سازش کی، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، سازش کیا تھی؟ سازش یہ تھی کہ مجاہدین شہید ہو گئے، ان کی عورتیں، بیوہ ہو گئیں ان کے بچے یتیم ہو گئے، ان کی املاک کو قبضے میں لے لیا گیا، ان کی جائیدادوں کو قبضے میں لے لیا گیا، ان کی جو چیز بھی مادی تھی، اس پر انگریز نے قبضہ کر لیا ،یہ سب فقیر ہو گئے ،کھانے کو کچھ نہیں، صبح کو کھا لیا تو رات کو کچھ نہیں اس وقت انگریز نے ایک سازش کی ، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ایک نیا رخ ہے آپ کے لیے کہ 1857 ء میں شہید ہو جانے والوں کے لواحقین بے یارو مد دگار رہ گئے، اس میں انگریز نے عام معافی کا اعلان کیا، انگریز نے یہ لالچ دیا، اس کے لیے بھرپور مہم چلائی کہ یہ یتیم بچے ہمیں دو،ہم انہیں کھلائیں گے، ہم انہیں پہنائیں گے، ہم انہیں پڑھائیں گے، ہم ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں گے او رجب یہ پڑھ لکھ لیں گے تو ان کو نوکری دیں گے، ان کو ملازمت دیں گے اور اس ملازمت سے ملنے والی تنخواہ سے ماں بھی کھائے گی، پیے گی، بھائی بھی کھائے گا ،پیے گا، بہنیں بھی کھائیں گی، پئیں گی۔
چناں چہ یہ خوف ناک سازش کی گئی ، انگریر کی حکومت ہے او روہ یہ آواز لگارہی ہے کہ یہ بچے ہمیں دو،1857ء کے بعد1866ء میں یہ کیفیت ہے، ہر طرف، دلی میں بھی، مراد آباد میں بھی ، میرٹھ میں بھی،کیرانے میں بھی اور گنگوہ میں بھی، رائے پور میں بھی، نانوتہ میں بھی، ہر طرف یہی آواز !!! اس وقت ہمار ے اکابر کھڑے ہو گئے اورانہوں نے کہا کہ کسی مجاہد کا کوئی بچہ انگریز کو نہیں دیا جائے گا، ہمیں بچے دو ،ہم انہیں لکھائیں گے، ہم انہیں پڑھائیں گے، ہم انہیں کھلائیں گے، ہم ان کی اچھی تربیت کریں گے اور ہم مجاہدین کے بچوں کو مجاہد بنائیں گے۔
اس عظیم مقصد کے لیے دارالعلوم دیوبند قائم ہوا اور وہ سلسلہ آج تک جار ی ہے اور یہ طے کیا کہ سرکار اور دربار سے کوئی تعلق نہیں ہو گا ،ہم غربت میں فقر میں، فاقوں میں زندگی گزاریں گے اور عوام کو پیغام دیا کہ تمہیں چندہ دینا ہے، عوام کو پابند کیا، ان کو یہ سکھایا کہ تمہیں ان مدرسوں میں چندہ دینا ہے، اپنی زکوٰة یہاں دو، اپنے صدقات یہاں دو، چناں چہ وہ مسلمان سمجھ گئے کہ اگر ہم نے اس مدرسے کی مدد نہیں کی تو ہمارا نام ونشان مٹ جائے گا، ہماری اقدار ختم ہو جائیں گی۔ ہمارا دین اور ایمان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
وہ ایسی مقدس آواز تھی ہمارے اکابر کی، ایسی مقبول اور مبارک آواز تھی کہ بغیر کسی حکومتی مدد کے، بغیر کسی حکومتی تعاون کے اس خطے کی عوام آج تک ان مدارس کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ کررہی ہے یا نہیں کر رہی؟!
صرف کراچی کے مدرسوں کا اگر آپ سالانہ میزانیہ جمع کریں تو اربوں میں جائے گا اور پورے پاکستان کے مدارس کا اگر میزانیہ جمع کیا جائے جس میں ایک کوڑی حکومت کی نہیں!!!۔
الحمدلله ہمارے علماء انہی کی اولادمیں، انہی کے ورثاء کھڑے ہوئے ہیں، جمے ہوئے ہیں اور پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ہم حکومت کی کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے، ہم جان تو دے سکتے ہیں، جب تک جان میں جان ہے ہم ان مدارس کی حفاظت کریں گے، ہم ان طلباء کی حفاظت کریں گے، ہم کوئی سرکاری مداخلت ان مدارس کے اندر قبول نہیں کریں گے۔
چناں چہ الحمدلله ثم الحمدلله، ہمارے اکابر، چاہے وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی شکل میں ہوں یا قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کی شکل میں ہوں، وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی کے پیر میں لغزش نہیں ہے، پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں ،دھوکے دیے جاتے ہیں ،ہمیشہ سے اور یہ یاد رکھیں کہ جو سازش ہوتی ہیں وہ سازشیں مہینوں اور سالوں پر محیط نہیں ہوتیں، صدیوں پر اس کے اثرات ہوتے ہیں #
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی
لمحوں کی خطا صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔
ہمارے اکابر نے جو رُخ اُمت کا درست کیا اور سیدھا کیا اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ باطل نے، طاغوت نے، چاہے وہ باطل اور طاغوت اند ر کا ہو اور چاہے وہ باطل اور طاغوت باہر کا ہو، ایڑی چوٹی کا زور لگایا، آج سے نہیں 75 سال سے اور سازشوں کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، آپ لوگ سنتے ہوں گے، آج یہ کہا جارہا ہے کہ مدرسہ تو تعلیم کی جگہ ہے، تعلیم ہوتی ہے تو اسے وزارت تعلیم میں رجسٹر ہونا چاہیے، اسے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ تو خوب سمجھیے کہ وزارت تعلیم ایک سرکاری وزارت ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ہی کے بزرگوں نے وزارت تعلیم سے 2019 ء میں جو معاہدہ کیا اس معاہدے پر آپ لوگوں کے دستخط ہیں۔
لیکن میں آپ کو بتاؤں، میں آپ کے سامنے زندہ موجود ہوں کہ اس وقت کی عسکری قیادت نے جبراً علماء کو مجبور کیا اور دھوکہ دیا اور یہ کہا کہ کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی، مدارس آزاد ہیں اور مدارس کے بینک اکاؤنٹس میں جو رکاوٹ ہے وہ ختم کر دی جائے گی، غیر ملکی طلباء اگر تعلیم کے لیے آنا چاہیں تو ان کو 9 سال کا تعلیمی ویزہ دیا جائے گا۔
چناں چہ اس اجلاس میں میرے بڑے بھائی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمة الله علیہ بھی موجود تھے، آج وہ معاہدہ سوشل میڈیا پر چلایا جارہاہے، اس میں دستخط بھی ہیں، لیکن میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں کہ میرے بھائی حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ میں اس اجلاس میں سمجھ گیا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے، چناں چہ اس میں سب کے دستخط ہیں، لیکن مولانا ڈاکٹر عادل خان رحمة الله علیہ کے دستخط نہیں اور وہ اجلاس سے نکل کر آگئے، دستخط نہیں کیے اور یہاں آکر مجھے بتایا کہ میں نے دستخط نہیں کیے۔
بہرحال وہ سازش اور دھوکہ تھوڑے دنوں بعد سامنے آگیا کہ اس وزارت تعلیم نے، جب کہ یہ بالکل معمول کے خلاف تھا، ایک ڈائریکٹریٹ جنرل قائم کیا اور ملک کے اندر 12 مقامات مقرر کیے کہ آپ اس ڈائریکٹریٹ، ڈائریکٹریٹ وزارت تعلیم کے ماتحت اور ڈائریکٹریٹ کے ماتحت12 دفاتر ہیں، یہاں جاکے رجسٹریشن کریں۔
تو ہمارے حضرات نے اس وقت کہا ڈائریکٹریٹ جنرل کیوں قائم کیا ؟ اور اس ڈائریکٹریٹ کا ایک ریٹائرڈ جنرل کو ڈائریکٹر مقرر کیا، تو ہمارے حضرات نے کہا کہ یہ تو معمول کے بالکل خلا ف ہے، جتنے بھی ادارے وزرات تعلیم سے ملحق ہوتے ہیں تو کیا ان کے لیے کوئی ڈائریکٹریٹ جنرل بناتے ہیں آپ؟ مدارس کے لیے کیوں کیا جارہا ہے؟ اورپھر اس معاہدے کے اندر جو آج کل چلایا جارہا ہے آخر میں ایک شق ہے کہ موقع بموقع وزارت تعلیم سے ہدایات جاری ہوں گی، ان کے اوپر مدارس کو عمل کرنا ہو گا۔
اب وہ ایک مہینے بعد ایک ہدایت نامہ جاری کریں گے، اس پہ عمل کریں ،دوسرے مہینے دوسرا ہدایت نامہ آئے گا ،اس پہ عمل کریں، چناں چہ ہمارے اکابر نے معاہدے کے کچھ ہی عرصے بعد اسے مسترد کیا اور نہ صرف وفاق المدارس نے مسترد کیا، بلکہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ، جس میں پانچوں مکاتب فکر کے پانچ بورڈ ہیں، ان سب نے رد کیا۔
ایک او ربات بھی سمجھ لیں کہ 2019ء کا جو یہ معاہدہ ہے، جس کا آج چرچا کیا جارہا ہے آج وہ حضرات جو اس کا چرچا کر رہے ہیں وہ اس میں شریک نہیں تھے، اس کو تو قبول بھی اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے کیا تھا اور جب ان کا غدر اور دھوکہ سامنے آیا تو اس کو رد بھی اور مسترد بھی اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے کیا۔
چناں چہ یہ حضرات جو آج باتیں کر رہے ہیں، یہ نہ اس کے قبول کرنے میں شریک تھے نہ رد کرنے میں، یہ تو خالص اتحاد تنظیمات مدارس کا اور وفاق المدارس سے کا معاملہ تھا۔
اس کے بعد پھر2019ء میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی اور اس پی ڈی ایم کے سربراہ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم تھے۔ چناں چہ انہوں نے اس وقت کی عبوری حکومت کے وزیراعظم سے کہا کہ ہمارے مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ مستقل پریشانی میں ہے اور حکومت نے رجسٹریشن بند کی ہوئی ہے ،سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن نہیں ہو رہی ہے تو اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
یہاں میں ایک او ربات بھی واضح کر دوں کہ مغالطہ پیدا کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ مدرسے تو تعلیم کے لیے ہوتے ہیں ،اس کو وزارت تعلیم میں رجسٹر ہونا چاہیے اور یہ سوسائٹی، عام طور پر زبان زد عام لفظ ہے۔ سوسائٹی کا مطلب عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ ہاؤسنگ سوسائٹی ہے، جیسے محمد علی سوسائٹی ، سندھی مسلم سوسائٹی ہے، بہت سی سوسائٹیاں ہیں تو کہتے ہیں آپ سوسائٹی میں کیوں رجسٹریشن چاہتے ہیں؟
تو آپ سمجھ لیں سوسائٹی کا مطلب یہ نہیں ہوتا، سوسائٹی کا مطلب ہوتا ہے انجمن اور اس انجمن کامطلب کیا ہے؟
اس انجمن کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ادارہ جو تعلیم کابھی انتظام کرے، جو پڑھنے والوں کے کھانے کا بھی انتظام کرے، جو ان کے لیے کمرے اور رہائش کا بھی انتظام کرے، جوان کے علاج معالجے کا بھی انتظام کرے، ان کی تمام ضرورتوں کا انتظام کرے، آپ مجھے بتائیے دنیا میں کوئی وزارت تعلیم ایسا کرتی ہے؟ پھر ،ہمارے یہ ادارے ان کے لیے انگریز کے زمانے میں، 1860ء میں ایک ایکٹ اور قانون پاس کیا گیا کہ اس طرح کے جو ادارے ہیں اورمیں پھر آپ کی وسعت ذہن کے لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ سوسائٹیز ایکٹ ہے ،اس میں صرف دینی ادارے رجسٹرڈ نہیں ہیں، آغا خان فاؤنڈیشن اسی سوسائٹی ایکٹ میں رجسٹر ڈہے اس کی یونیورسٹیاں ہیں یا نہیں ہیں؟ اسی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، الخدمت فاؤنڈیشن اس کے پورے ملک میں سکول ہیں یا نہیں ہیں؟ تعلیمی ادارے ہیں یا نہیں ہیں؟ اسی سوسائٹیز ایکٹ کے اندر ہیں۔ سٹی فاؤنڈیشن جس کے پورے ملک میں سکول ہیں یا نہیں ہیں؟ اسی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔
پورے ملک میں اس طرح کے ادارے جو تعلیم، کھانا پینا،رہنا سہنا اور دیگر تمام ضروریات کا انتظام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ میں سے کچھ طلباء ایسے ہوں گے جو کرونا کے زمانے میں جامعہ میں تھے، تو آپ نے دیکھا کہ لوگوں کو خوراک کی تکلیف تھی ،بازار بند تھے، مشکلات تھیں، اسی جامعہ فاروقیہ کراچی نے پورے علاقے میں، اِدھر شاہ فیصل میں بھی اور ناتھا خان گوٹھ میں بھی، پیکج بنا بنا کر ہمارے اساتذہ اور طلباء گھروں میں پہنچاتے تھے،جس میں آٹا بھی ہوتا تھا،جس میں چاول بھی ہوتے تھے، جس میں دالیں بھی ہوتی تھیں، جس میں خوردنی تیل بھی ہوتا تھا۔
کیا یہ کوئی وزارت تعلیم کا کام ہے؟ سوسائٹی کا کام ہے ، انجمن کا کام ہے او رہمارے ملک کے تمام بڑے دینی ادارے اس طرح کی خدمت سرانجام دیتے ہیں، کہیں ایمولینس سروس بھی ہے ،کہیں میت گاڑی بھی ہے، کہیں قبرستان کا انتظام بھی ہے، کہیں زلزلہ اور طوفان اور سیلاب آتا ہے تو مدارس کے طلباء او راساتذہ وہاں بھی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔
یہ وزارت تعلیم کا کام تو نہیں ہے، یہ تو سوسائٹی ، انجمن کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے ان تمام امور کا بھی خیال کرتے ہیں، بیان ہے، جلسے ہیں، یہ سب سوسائٹی کے اندر ہے، انجمن کے اندر ہے، تو یہ دھوکہ ہے کہ جی آپ وزارت تعلیم کے بجائے سوسائٹیز ایکٹ میں کیوں رجسٹر ہونا چاہتے ہیں؟
اور سوسائٹی کا مطلب لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سوسائٹی تو محمد علی سوسائٹی ہے، سندھی مسلم سوسائٹی ہے تو کیا اس میں مدرسے رجسٹرڈ ہوں گے؟ تو یہ دھوکہ ہے، اس کو سمجھ لیں۔
چناں چہ ہمارے اکابر آج سے نہیں وہ آواز جو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله علیہ نے1803ء میں لگائی تھی وہی آواز پھر1831ء میں حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمة الله علیہ نے لگائی اور بالآخر بالاکوٹ کے میدان میں شہید ہوئے۔
اس کے بعد وہی آواز 1857ء میں لگائی گئی اور ہزاروں علماء پھانسیوں، سولیوں پہ چڑھ گئے، انہیں شہید کر دیا گیا، ان کی جائیدادیں قُرق کر دی گئیں، ان کے گھروں کو آگ لگائی گئی او ران کے بچوں پر پھر دام اور جال ڈالا گیا اور یہ کہا کہ یہ بچے ہمیں دے دو ،ہم انہیں لکھائیں پڑھائیں گے، اس وقت ہمارے علماء کھڑے ہوئے کہ ہم ان مجاہدین کے بچوں کو انگریز کانوکر نہیں بنائیں گے، نہ بننے دیں گے، ہم ان کو کھلائیں، پلائیں گے، ہم ان کو پڑھائیں گے، انبیاء کا وارث بنائیں گے، چناں چہ دارالعلوم دیوبند بنا اوراس کے اصول ہشت گانہ جو دارالعلوم دیوبند کا آئین ہے، جو دارالعلوم دیوبند کا دستور ہے، اس کا نام اصول ہشت گانہ ہے، اس میں صاف صاف لکھ دیا کہ اس ادارے میں کسی حکومت، کسی سرکار، کسی نواب، کسی رئیس، کسی خان اور وڈیرے کی مداخلت ، قبول نہیں کی جائے گی۔
آپ حیران ہوں گے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمة الله علیہ، جو بانی او رمؤسس ہیں دارالعلوم دیوبند کے، ان کے بیٹے مولانا محمد احمد رحمة الله علیہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بنے اس زمانے میں کچھ ریاستیں تھیں ہندوستان میں، جو کسی درجے آزاد تھیں، چناں چہ ان میں ایک ریاست حیدرآباد دکن کی تھی، ان میں ایک ریاست بھوپال کی تھی، انہی میں ایک ریاست کانپور کی تھی،ان کے جو نواب او ر حکم راں تھے وہ دین دار بھی تھے، چناں چہ ایک دفعہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا قاسم نانوتوی صاحب رحمہ الله کے صاحب زادے، جو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بنے، وہ حیدر آباد تشریف لے گئے اور نواب حیدرآباد کے مہمان ہوئے ، نظام حیدر آباد نے مہتمم دارالعلوم سے درخواست کی کہ آپ کے بعض فضلا ہمارے ہاں حیدرآباد آتے ہیں ،ہم انہیں بعض ذمہ داریاں سونپتے ہیں، ملازمت دیتے ہیں، ہمارا یہ تجربہ ہے کہ دارالعلوم کے فضلا جس امانت اور دیانت کے ساتھ، جس ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، دوسرے لوگ ایسی ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام نہیں دیتے ۔چناں چہ نواب حیدرآباد دکن، حیدرآباد دکن امیر ترین ریاست تھی اور میں نے عرض کیا کہ دین دار بھی تھے اہل دین سے محبت کرتے تھے ،تو دارالعلوم کے مہتمم سے انہوں نے درخواست کی کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ہر سال دارالعلوم کے جو طلباء عالم بنتے ہیں اور فارغ التحصیل ہوتے ہیں آپ ان سب کو ہمارے پاس حیدرآباد بھیج دیا کریں، ہم انہیں اپنے نظام میں ملازمتیں دیں گے اس سے ہماری ریاست کو بھی فائدہ ہو گا اور ان طلباء کے لیے ایک مبارک روز گار کا انتظام ہو جائے گا۔
چناں چہ عقل کے اعتبار سے اگرسوچا جائے تو اچھی بات ہے یا نہیں؟!
مہتمم دارالعلوم دیوبند نے جواب میں فرمایا کہ ابھی دارالعلوم کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ حیات ہیں ، میں آپ کو ابھی کوئی جواب نہیں دے سکتا ،میں جاکر ان سے مشورہ کروں گا اور وہ جو مشورہ دیں گے اس کے مطابق ہم عمل کریں گے اور آپ کو جواب دیں گے، وہ واپس آئے دیوبند اور دیوبند سے گنگوہ تشریف لے گئے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله کے سامنے ساری کار گزار ی بیان کی تو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ، جو دارالعلوم کے سرپرست تھے، انہوں نے فرمایا کہ بھائی! میں آپ کو بے وقوف تو سمجھتا تھا ،لیکن اتنا بے وقوف نہیں سمجھتا تھا اور جلال میں حضرت گنگوہی رحمہ الله نے فرمایا: کیا یہ مدرسہ ہم نے سرکاری نوکر بنانے کے لیے قائم کیا ہے؟
ہم نے سرکاری نوکریوں کے لیے مدرسہ قائم نہیں کیا، جواب دے دو ان کو کہ رکھو اپنی نوکریاں اپنے پاس، ہم کسی عالم، فاضل کو حیدرآباد نہیں بھیجیں گے۔
آج میرے دوستو! شیطان ہے، نفس ہے اور وقت بہت گزر چکا ہے،ہم میں بہت سی تبدیلیاں بھی آرہی ، آج بعض ادارے کہتے ہیں کہ ان کو فوج میں کمیشن ملتا ہے۔
حالاں کہ آپ حیران ہوں گے، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں کہ جامعہ فاروقیہ1967ء میں قائم ہوا اور دارالعلوم دیوبند1866ء میں قائم ہوا تھا ،دارالعلوم دیوبند کے101 سال بعد،1967ء سے آج تک ہمیں خوب اچھی طرح یاد ہے کہ جامعہ فاروقیہ کے طلباء، دارالعلوم کراچی کے طلباء، جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے طلباء اور پورے ملک کے مدارس کے فضلا فوج میں جایا کرتے تھے، لیکن کسی سازش کے تحت نہیں اور کیوں جاتے تھے؟ اس لیے کہ بہرحال فوج میں بھی امام کی ضرورت ہے فوج میں بھی خطیب مؤذن کی ضرورت ہے اور فوج میں جو ملازمت کو قبول کرنے کا ادارہ ہے وہ بھی بہت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے، چناں چہ ان کے بورڈ بنے ہوئے ہیں اور وہاں کوئی نااہل اس امتحان کو جو کئی امتحان ہوتے ہیں پاس نہیں کرسکتا،چوں کہ ہمارے مدارس کے طلباء کی استعداد قوی ہوتی ہے، حافظ قرآن بھی ہوتے ہیں، قاری بھی ہوتے ہیں اوراچھے ذی استعداد عالم بھی ہوتے ہیں، تو وہ جو کئی قسم کے امتحانات ہوتے ہیں ان امتحانات میں ہمارے طلباء کام یاب ہو جاتے تھے۔
اور یہ میں آپ کو بات بتا رہا ہوں آج سے 50 سال پہلے کی، چناں چہ فوج میں ایک طویل دور گزراہے۔2001ء تک غالب اکثریت فوج میں ہمارے دیوبندی علما کی تھی، ہمارے مدارس کے فضلا کی ہوتی تھی اور وجہ میں نے بتا دی کہ چوں کہ ان کی استعداد قوی ہوتی تھی۔
آپ کے لیے سب سے بنیادی بات وہ ہے جو میں نے شروع میں عرض کی کہ جو قومیں اپنے اکابر کی تاریخ کو بھول جاتی ہیں پھر ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، پھر وہ ضائع ہو جاتی ہیں، گم ہو جاتی ہیں، ان کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔
آپ کا یہ خطہ برصغیر جہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله علیہ جیسے جلیل القدر عالم ربانی تھے، جنہوں نے قربانی دی، جہاں حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمة الله علیہ، سید احمد شہید رحمة الله علیہ اور ان کے بعد پھر وہ اکابر جن کا میں نے ذکر کیا ،امام المجاہدین حضرت حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی رحمة الله علیہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمة الله علیہ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ، ہمارا تار ان سے جڑا ہوا ہے، ہمیں فیض ان سے مل رہا ہے، ان کو پڑھیں او ران سے جڑیں، آپ ان سے جڑیں گے تو ان شاء الله، الله تعالیٰ آپ کی بھی حفاظت فرمائیں گے اور آنے والی نسلوں کی بھی حفاظت فرمائیں گے، بیدار رہیں، خبر دار رہیں، دھوکہ دیا جائے گا، سازش کی جائے گی، لیکن اگر آپ بیدار رہیں گے اور آپ اپنے آپ کو خبردار رکھیں گے تو ان شاء الله، الله تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔