حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿وَالْعَصْرِ ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾․(سورة العصر)
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم
آپ حضرات جانتے ہیں کہ اس برصغیر میں ہمارے اکابر نے جو مدارس قائم فرمائے ، ایک رخ اس کا تعلیمی ہے، دوسرا رخ اس کا تربیتی ہے اور تیسرا رخ اس کا فتنوں او ران رسومات اور خرافات اور وہ چیزیں، جو امت میں پیدا کر دی گئیں ان کو درست کرنے اور ٹھیک کرنے کا ہے۔
چناں چہ جہاں یہ مدرسہ تعلیم کا مرکز ہوتا ہے او راس میں طلباء نحو وصرف او راس کے بعد ادب اور اس کے ساتھ پھر فقہ او راس کی معاونت کے لیے پھر منطق اور آگے معانی اور بلاغة اور پھر اصول فقہ اور اصول تفسیر، اصول حدیث اور پھر حدیث کا ایک مستقل سلسلہ، بظاہر نظریہ آتا ہے کہ یہ تعلیمی سلسلہ ہے، لیکن خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ وہ تعلیم جواِن اداروں میں دی جاتی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے او رکچھ نہیں ہے کہ الله تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوش نودی حاصل کی جائے اور اس مدرسے کا تعلق اس مدرسے سے ہے جو آپ صلی الله علیہ و سلم نے ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں دارارقم میں قائم فرمایا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی میں صفہ کے چبوترے پر قائم فرمایا، اسی کا یہ تسلسل ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے، خواہ مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی ، اس میں صرف تعلیم برائے تعلیم نہیں دی، بلکہ تعلیم برائے تربیت دی اور صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کی وہ جماعت جو کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پر مشتمل ہے، وہ تربیت کے اعتبار سے ایسے مقام پر پہنچی کہ قیامت تک ان جیسا کوئی نہیں آسکتا۔
اور ان کی تربیت ایسی کامل اور مکمل کی گئی کہ خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم“
میرے صحابہ ستاروں جیسے ہیں ان میں سے تم جس کسیکی بھی اقتدا اور پیروی کرو گے ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، تو یقینا وہ تربیت یافتہ تھے او ران کی تربیت آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی تھی چناں چہ ہمارے ان مدارس کی جو پہچان ہے وہ تعلیم اور تربیت دونوں ساتھ ساتھ ہیں اسی لیے آپ نے غور کیا ہو گا کہ برصغیر میں یہ جو مدارس کا سلسلہ ہے، ان میں ترجیح اور اصرار اس پر ہوتا ہے کہ طالب علم مدرسے میں رہے، غیر رہائشی طالب علم کو پسند نہیں کیا جاتا ، ہاں اس کی کوئی مجبوری ہے، اس کے ماں باپ اصرار کر رہے ہیں، سفارش کر رہے ہیں، اس کے بغیر گھر کا نظم متاثر ہو رہا ہے تو مجبوراً اکادکا طلباء کو اس کی اجازت د ی جاتی ہے، ورنہ اس کو پسند نہیں کیا جاتا کہ طالب علم گھر جائے، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں اس چاردیواری کے اندر آپ ہیں تو آپ بہت بڑے بڑے فتنوں سے محفوظ ہیں، جیسے ہی آپ دروازے سے باہر نکلیں گے، تو ہر طرف آپ کو فتنہ ہی فتنہ نظر آئے گا، شیطان ہی شیطان نظر آئے گا اور یہ ممکن نہیں کہ آدمی اس ماحول میں جائے اور اس سے متاثر نہ ہو، صبح سے عصر تک وہ مدرسے کے ماحول میں ہے او رعصر سے صبح تک وہ باہر کے ماحول میں رہا تو عام طور پر باہر والا ماحول غالب آجاتا ہے، اس لیے کہ اس میں شیطان اور نفس بھیساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔
تو کوشش ہوتی ہے کہ مدرسے کے اندر طلباء رہیں، میں عرض کر رہا ہوں کہ ان مدارس کے قیام کا ایک مقصد یہ ہے کہ یہاں تعلیم وتربیت ہو، چناں چہ الله تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کرم فرمایا کہ برصغیر میں جب سے یہ مدراس قائم ہوئے ہیں۔ الحمدلله ثم الحمدلله علماء کی ایک بڑی جماعت ان سے فیض حاصل کرکے اپنے اپنے علاقوں میں گئی اور وہاں جاکر ،خواہ جانے والا کسی جنگل میں گیا، خواہ وہ فاضل کسی صحرا میں گیا، خواہ وہ فاضل کسی پہاڑ میں گیا، خواہ وہ فاضل کسی چھوٹی بستی میں گیا، لیکن وہاں جاکر اس نے چراغ روشن کیا، شمع روشن کی، اسلام کا، ایمان کا جھنڈا بلند کیا اور الحمدلله اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ اگر دنیا میں سفر کریں تو آپ حیران ہو جائیں گے، اسلامی ممالک میں آپ سفر کریں، برصغیر کی یہ کیفیات آپ کو دنیا میں کہیں نظر نہیں آئیں گی، یہ امتیاز ہے یہاں کا، یہاں کی مساجد یہاں کے منبر ومحراب آزاد ہیں، دنیا میں کہیں ایسا نہیں، خواہ وہ مکہ مکرمہ ہو، خواہ وہ مدینہ طیبہ ہو، خواہ وہ دنیا کا اورکوئی اسلامی ملک ہو، کہیں آزادی نہیں۔ علماء،ا ئمہ،خطباء سب حکومتوں کی قید میں ہیں، ان کے ماتحت ہیں، ان کی مرضی، ان کے نظام او ران کی پالیسی کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں، اگرحکومت کہہ دے ایسا کرنا ہے تووہ ایسا کرتے ہیں، حکومت کہہ دے ویسا کرنا ہے تو وہ ویسا کرتے ہیں۔
چناں چہ ان مدارس کی خدمات برصغیر میں بھی اور پھر الحمدلله ثم الحمدلله یہاں سے جو علماء فراغت حاصل کرکے ملک سے باہر گئے تو انہوں نے وہاں جاکر بھی جتنا ان کے لیے ممکن ہوا، جیسا ان سے بن پڑا، انہوں نے حتی الامکان اس کی کوشش کی، بعض جگہ مواقع مل گئے، تو جہاں مواقع مل گئے انہوں نے وہاں خدمات انجام دیں۔
آج ہی میں کچھ دوستوں سے ذکر کررہا تھا کہ جنوبی افریقا، براعظم افریقا کا ایک اہم ملک ہے الحمدلله جامعہ فاروقیہ کے فضلاء وہاں موجودہیں، جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے علماء وہاں موجود ہیں، دارالعلوم کراچی کے فضلا وہاں موجود ہیں اور بھی دیگر پاکستان، ہندستان کے مدار س کے علماء وہاں موجود ہیں، انہوں نے وہاں خدمات انجام دیں، ان کو کام کرنے کا کسی درجے موقعملا، تو انہوں نے مدارس قائم کیے، انہوں نے مساجد کے اندر خدمات انجام دیں، انہوں نے قوم کی خدمت فلاحی اور سماجی انداز میں بھی کی۔
اس کا میں ایک قصہ آپ کو سناتا ہوں کہ یہاں جامعہ فاروقیہ میں جنوبی افریقا کے ایک طالب علم تھے اور یہ مسجد کا جو خادموں والا کمرہ ہے ۔ اس میں رہتے تھے، اس طرح ایک طالب علم فرانسیسی تھے وہ فرانسیسی الاصل تھے، گورے تھے اور اسلام لانے سے پہلے عیسائی تھے۔انہوں نے یہاں کراچی میں اسلام قبول کیا، لمبی بات ہے وہ بھی اسی کمرے میں رہتے تھے۔
حضرت والد ماجد نورالله مرقدہ کے کئی اسفار جنوبی افریقا کے ہوئے تھے اور وہاں ایک عجیب صورت حال حضرت کے سامنے آئی کہ جب کسی کا انتقال ہو جاتا تو وہ میت مہینہ مہینہ، بعض دفعہ اس سے زیادہ، دفن نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ اس کے متعلقہ کاغذات تیار نہ ہو جائیں اورکاغذات سے مراد یہ ہے کہ اس میت نے اپنی زندگی میں حکومت سے، بینک سے ،فلاں ادارے سے، فلاں ادارے سے کیا لیا، کیا دیا، جب تک ان ساری چیزوں کا کلیئرنس نہ ہو جائے اس وقت تک لاش کو مردہ خانے میں رکھتے اور جب وہ سارے کاغذات مکمل ہو جاتے تب اس کی تجہیزو تکفین اور اس کے کفن دفن کا قصہ شروع ہوتا۔
حضر ت رحمہ الله نے جنوبی افریقہ کے طالب علم سے کہا کہ آپ کے ہاں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، آپ اس کے لیے کوئی کوشش کریں کہ وہاں ایسے کچھ نوجوان ہوں ،ایسے کچھ لوگ ہوں، جو میت کے ان تمام معاملات کو جلد سے جلد حل کریں اور جلد سے جلد تدفین ہوجایاکرے۔
اس طالب علمنے حضرت کی اس ترغیب پر وہاں ایک چھوٹا سا کمرہ کرایے پر لیا، اس کمرے کے اندر انہوں نے پانی کا انتظام کیا، تاکہ میت کو غسل دیا جائے، کفن کے کپڑوں کا انتظام کیا او رایک چھوٹی سی ایمبولینس کا انتظام کیا، تاکہ میت کو لے جایا جاسکے، الله تعالیٰ نے حضرت کے اس فرمانے میں ایسی برکت ڈالی ، ایسی برکت ڈالی کہ میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ اب جنوبی افریقا میں کفن، دفن کا جو نظام ہے اس میں بے شمار گاڑیاں ہیں اور وہ گاڑیاں آپ نے شاید یہاں نہیں دیکھی ہوں گی، یورپ او رامریکا کے ممالک میں عیسائی میت کو ایک خاص گاڑی کے اندر لے جاتے ہیں، وہ خاص گاڑی آرڈر پر بنوائی جاتی ہے، اس میں تابوت رکھا جاتا ہے اور وہ مرسیڈیز کمپنی کی گاڑی ہوتی ہے، لمبی گاڑی ہوتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ چلتی ہے اور اس کے ساتھ میت کے ورثاء ہوتے ہیں، متعلقین ہوتے ہیں ان حضرات نے اس نظام کے لیے جرمنی میں مرسیڈیز کمپنی سے میّت گاڑیاں بنوائیں، اسی معیار کی او راب کافی زیادہ ہیں۔
اور اب میت کا اگر آج انتقال ہوا تو چند گھنٹوں میں اس میت کے تمام کاغذات مکمل ہوجاتے ہیں، ہر ہر گاؤں، ہر ہر شہر میں دفاتر اور نظام موجود ہے اوران کے ساتھ نوجوانوں کی ایک جماعت ہوتی ہے، جیسے ہی فون آتا ہے کہ فلاں کا انتقال ہوگیا، فوراً وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ان کے کاغذات، دفاترمیں اِدھر ُادھر جاکے چندگھنٹوں میں سارے کام مکمل کرواتے ہیں او راس کے بعد اس کی تدفین کا سلسلہ ہوجاتا ہے، یہ مدرسے کی ایک خدمت ہے ،ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ جنوبی افریقا ہی میں ریڈیواسلام ہے، میں ایک دفعہ گیا تو وہاں ہمارے ساتھی ریڈیواسلام قائم کرنے کی فکر کررہے تھے میں نے ان سے ہنستے ہوئے کہا کہ آج کا دور ریڈیو کا کہاں ہے؟ ریڈیو کون سنتا ہے؟ تو انہوں نے بڑی عجیب بات بتائی، کہا ریڈیو آپ کے ہاں نہیں سنتے، ہمارے ہاں سنتے ہیں، سب سے زیادہ سنا جانے والا ذریعہ ہے انہوں نے کہا ہم نے پوری دنیا کا سروے کیا ہے آج بھی ریڈیو سب سے زیادہ سنا جاتا ہے، آپ حیران ہوں گے ہمارے حضرت رحمة الله علیہ کوبھی ریڈیو سننے کا بہت شوق تھا، خود ان کا پروگرام درس حدیث کے عنوان سے ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا تھا۔
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله کی جو معارف القرآن ہے، یہ ریڈیو پاکستان پر نشر ہوئی ،درس قرآن کے نام سے، اسی کو پھر مرتب کرکے معارف القرآن کی شکل دی گئی، اسی طرح حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی رحمہ الله کا درس ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا تھا اور پاکستان کے مختلف اسٹیشنوں سے ہمارے اکابر علماء کے بیانات او ران کے دروس نشر ہوا کرتے تھے۔انہوں نے کہاکہ آج ریڈیو آپ کے ہاں لوگ نہیں سنتے، ہمارے ہاں تو بہت سنتے ہیں، سب سے زیادہ سنتے ہیں او رانہوں نے پھر بتایا کہ ایک آدمی صبح کو اپنے گھر سے نکلتا ہے ،اسے دفتر جانا ہے، تو گھر سے دفتر تک مثلاً ایک گھنٹہ اسے گاڑی چلانی ہے، گھر سے اسے دکان جانا ہے، دکان کسی دوسرے شہر میں ہے، دو گھنٹے میں پہنچتا ہے، اسی طرح مختلف لوگ ہیں ،سب اپنے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقا میں کوئی شخص گاڑی میں بیٹھنے کے بعد سب سے پہلا کام ریڈیو آن کرتا ہے اور وہ اسے سنتا ہے اور چوں کہ ہمارا ریڈیو اسلام ہے تو سب ریڈیو اسلام سنتے ہیں اور اس کو جو منظم کیا گیا ہے، مرتب کیا گیا ہے وہ لوگوں کی چوبیس گھنٹے کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے۔ مثلاً صبح خواتین سب سے پہلے بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتی ہیں تو اس وقت ریڈیو اسلام سے ایسے پروگرام نشر ہو رہے ہوتے ہیں جو ماں اور بچوں سے متعلق ہوتے ہیں، مائیں بچوں کو تیار بھی کرر ہی ہیں اور ریڈیو بھی چل رہا ہے، جب یہ مرحلہ مکمل ہو گیا اور بچے سکول چلے گئے تو اب دوسرا مرحلہ یہ شروع ہوتا ہے کہ خواتین اپنے مردوں کو دفتروں کے لیے تیار کرتی ہیں، ان کے کپڑے، ان کے جوتے، ان کا ناشتہ، ان کا کھانا،یہ ساری چیزیں تو اب جو ریڈیو اسلام پر پروگرام نشر ہو رہا ہے وہ میاں بیوی کے حوالے سے نشر ہو رہا ہے ، مرد بھی سن رہا ہے، عورت بھی سن رہی ہے، اس کے بعد تیسرا مرحلہ شروع ہو گیا کہ عورتوں کے کام ختم ہو گئے اور مرد اب گاڑیوں میں بیٹھ کے اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو گئے تو اب پروگراموں کی نوعیت بدل گئی، اب وہ پروگرام ایسے نشر ہو رہے ہیں کہ لوگوں کو دین کے حوالے سے، عقیدے کے حوالے سے دلچسپ انداز میں سہل انداز میں رہ نمائیمل رہی ہے۔
میں عر ض کر رہاہوں کہ یہ خدمت بھی کون کر رہا ہے؟ مدرسہ، یہی جامعہ فاروقیہ۔ تو ہمارے اکابر نے جو مدارس قائم فرمائے، تعلیم وتربیت کے لیے، یہاں رجال سازی ہو، لوگ بنائے جائیں، وہ یہاں سے جاکر جس کا میلان اور رجحان تدریس کی طرف ہو تدریس کرے، جس کا میلان امامت وخطابت کی طرف ہو وہ کرے، لیکن کیا ان دوکاموں کے بعد کام ختم ہو جاتے ہیں؟ بہت بڑے بڑے کام باقی ہیں، سیاست ہے آپ مدرسے میں ہیں، آپ کو مدرسہ اجازت نہیں دے گا، سیاست میں حصہ لینے کا، لیکن جب آپ مدرسے سے چلے جائیں گے اور سیاست میں حصہ لیں تو ہم ہی آپ کو شاباش دیں گے، تو اب آپ کے علاقے کی ضرورت ہے، آپ کو کام کرنا ہے۔ سیاست کا ترجمہ کیا ہے ؟ سیاست کا ترجمہ ہے خدمت، آپ کو خدمت کرنی ہے، گلی محلوں کے اندر کرنی ہے، لوگوں کے اندر کرنی ہے ،ان کے حقوق ہیں، مسائل ہیں، کہیں ہسپتال کی ضرورت ہے، کہیں سڑک کی ضرورت ہے، یہ امام اور خطیب تو نہیں کرے گا۔یا مدرسے میں پڑھانے والا مدرس تو نہیں کرے گا، یہ تو وہ آدمی کرے گا جو میدان کے اندر ہے اور اس کے لیے بھاگ دوڑ کرے گا۔
تو سیاست بھی، یہاں سے جانے کے بعد آپ سیاست میں حصہ لیں، مدرسہ ہی، اساتذہ ہی آپ کی سرپرستی کریں گے، آپ کو شاباش دیں گے، آپ کے لیے دعائیں کریں گے۔
ایسے ہی بے شمار کام ہیں یہ تو آپ پر ہے کہ آپ کے ہاتھ آپ کی قوم، آپ کے قبیلے، آپ کے ارد گرد رہنے والوں کی نبض پر ہو، جیسے حکیم صاحب کا ہاتھ نبض پر ہوتا ہے تو وہ امراض بتا دیتے ہیں، ایسے ہی آپ بھی اپنے علاقے کی نوعیتوں کو دیکھ کر سوچیں کہ میں یہاں کیا کروں کہ جس سے دین کی خدمت ہو سکے، جس سے لوگوں کو دین کے قریب کیا جاسکے؟!
اب آپ بتائیے کہ یہ جوتدفین کا اور تکفین وتجہیز کا کام وہاں علماء کرتے ہیں تو پورا کا پورا ملک ان کے لیے دعائیں کرتا ہو گایا نہیں کرتا ہو گا؟! لوگ خوش ہوں گییا نہیں ہوں گے؟! ریڈیو اسلام قائم کیا تو لوگ دعائیں دیتے ہوں گییا نہیں دیتے ہوں گے؟! عورتوں کو بھی فائدہ ہو رہا ہے، مردوں کو بھی فائدہ ہو رہا ہے، بچوں کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔
تو یہ مدارس رجال سازی کے لیے ہیں، میں نے عرض کیا کہ ایک کام تو یہ ہے کہ آپ مدرسے کے اندر تعلیم وتربیت حاصل کریں اور یہ یاد رکھیں کہ مدرسہ اسکول نہیں ہے، مدرسہ کالج یونی ورسٹی نہیں ہے، مدرسہ مدرسہ ہے اور مدرسہ ایک بہت مقدس او رمبارک نام ہے، چناں چہ اس کا جو تقدس ہے یہ اس صورت میں حاصل ہو گا کہ جیسے آپ کا تعلق کتاب سے ہے ایسے ہی کتاب پڑھانے والے سے اس سے زیادہ ہو۔
الله تعالیٰ نے قرآن نازل کیا تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کا تعلق قرآن سے تو تھا ہی کہ کلام الله ہے، لیکن محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے تھا یا نہیں تھا؟! آپ صلی الله علیہ وسلم سے تعلق نہ ہوتا تو قرآن سے تعلق قائم رہ سکتا تھا؟ یاد رکھیں کہ مدرسے کے آداب بالکل الگ ہیں ، اسکول کالج کے آداب بالکل الگ ہیں، آپ سے اگر کوئی پوچھے کہ آپ کے استاد کا کیا نام ہے؟ تو آپ بتائیں گے فلاں ہے، ان کے استاد کا کیا نام ہے ؟ فلاں ہے، ان کے استاد کا کیا نام ہے؟ فلاں ہے، آپ کے پاس سند ہے، جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی ہے، لیکن اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ آپ نے جو میڈیکل کالج میں فلاں مضمون فلاں استاد سے پڑھا ہے، اس استاد کے استاد کا کیا نام ہے؟ تو بے چارہ یکدم سے پریشان ہوجائے گا، اوراگر پوچھ لیاکہ استاد کے استاد کے استاد کا نام کیا ہے تو وہ بتاسکے گا؟ کوئی سند نہیں، کوئیبنیاد نہیں۔
یہاں محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم تک آپ کا سلسلہ مربوط ہے، چناں چہ یہاں جو تعلیم وترتیب آپ حاصل کر رہے ہیں، میر ی بات آپ یاد رکھیں کہ اگر اساتذہ سے تعلق نہیں ہو گا جو بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ کم سے کم ہوتا جارہا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم حروف پڑھ رہے ہیں، نقوش پڑھ رہے ہیں، کتاب خوانی ہو رہی ہے جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ کوئی مر گیا تو قرآن خوانی ہوتی ہے۔ کوئی تین صفحے پلٹتا ہے، کوئی چار صفحے پلٹتا ہے، ہاں! میرا سیپارہ ہو گیا، اسی طرح ہم بھی کیا کرتے ہیں، کتاب خوانی، کتاب پڑھ لی، نصاب پورا ہو گیا، سہ ماہی امتحان ہو گیا، شش ماہی امتحان ہو گیا، سالانہ امتحان ہوگیا، پاس ہو گئے، سند مل گئی، کیا ہوا؟ عالم بن گئے؟ ایسے عالم نہیں بنتے، عالم بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا اپنے اساتذہ کے ساتھ تعلق کتاب سے زیادہ قوی ہو، وگرنہ آپ نے کتاب پڑھ لی، کتاب خوانی ہو گئی، لیکن ملے گا کچھ بھی نہیں، ملے گا استاد کے ذریعے سے ،ملے گا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے تو اس لیے درخواست ہے کہ اساتذہ کرام کے ساتھ ہمارا بہت گہرا تعلق ہو اور عقیدت کا تعلق ہونا چاہیے، کبھی ہم اس کا تصور بھی نہ کریں کہ خدانخواستہ خدانخواستہ کسی استاد کے بارے میں ہمارے منھ سے نامناسب جملہ نکلے ،فیض بند ہو جائے گا، پھر کچھ نہیں ملے گا، وہ لوگ جو اپنے اساتذہ کی خوانخواستہ ،ہلکے پھلکے انداز میں بھی مذاق اور مزاح میں بھی کوئی بات کر دیتے ہیں، ان کا معاملہ بھی بہت خوف ناک ہوتا ہے، ہم نے یہاں اپنی آنکھوں سے دیکھا، ہمارے حضرت رحمة الله علیہ حیات تھے، حضرت کی جوانی کا زمانہ تھا اور حضرت شیخ الاسلام شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی نورالله مرقدہ کے تلمیذ خاص تھے، ہمیں یاد ہے کہ حضرت اس زمانے میں مکمل صحیح بخاری اس زمانے میں صحیح بخاری کی دو جلدیں نہیں ہوتی تھیں صحیح بخاری ایک ہوتی تھی اور مکمل بخاری حضرت پڑھاتے تھے اس زمانے میں سنن الترمذی کی دو جلدیں نہیں ہوتی تھیں، ایک ہوتی تھی، مکمل ترمذی خود پڑھاتے تھے، مشکوٰة مکمل حضرت پڑھاتے تھے، تو حضرت کے پاس ایک صاحب آتے تھے، انہوں نے پتلون پہنی ہوئی ہوتی تھی، انہوں نے شرٹ پہنی ہوئی ہوتی تھی اور شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے ہوتے تھے، داڑھی بھی ہوتی تھی، بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے، پان کھاتے تھے اور پورا منھ پان سے سرخ ہوتا تھا، جب وہ آتے اور حضرت کی درس گاہ میں آتے تو حضرت ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے ، انہیں اپنے برابر میں بٹھاتے ہم نے سبق میں کئی دفعہ یہ منظر دیکھا، حضرت فرماتے تھے کہ یہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمة الله علیہ کے شاگرد ہیں اور ان کا دماغی توازن سو فیصد درست نہیں تھا کچھ کمی تھی، لیکن حواس قائم تھے ،حضرت ان سے فرماتے ہاں بھائی! حضرت شیخ کا سبق حضرت کی عبارت پڑھو، تو بس وہ جناب حضرت شیخ الاسلام نور الله مرقدہ کی نقل اتارتے او ربالکل اسی طرح سے، فوراً شروع ہو جاتے، پھر حضرت فرماتے ہاں بھائی! حضرت مولانا ابراہیم بلیاوی رحمة الله علیہ کا سبق سناؤ، تو حضرت بلیاوی رحمة الله علیہ کا سبق سنانا شروع کر دیتے۔
خیر ہم نے حضرت رحمة الله علیہ سے پوچھا کہ حضرت یہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، شیخ الاسلام کے شاگرد ہیں اور اس کو حضرت کا اندازکلام اورعبارت خوانی ایسی آتی ہے کہ آپ ان سے درخواست کرتے ہیں آپ اس کا اعزاز واکرام کرتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟
توحضرت کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور فرماتے کہ بھائی! یہ اپنے پڑھنے کے زمانے میں بھی اپنے اساتذہ کی اسی طرح نقل اُتارتے تھے،اس کا نتیجہ ہے۔
اب تو ظاہر ہے کہ ہمار ے اکابر چلے گئے، ہم تو اس شوق سے کہ ہماری یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس وجہ سے ہوا کہ یہ اپنی طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ کی نقلیں اتارتا تھا، حضرت مولانا اسرار الحق صاحب اکوڑوی، ہمارے حضرت رحمة الله علیہ کے ہم درس تھے، اکوڑہ خٹک کے تھے اور وہ اتنے نفیس انسان تھے او راتنی مرتب اور منظم زندگی تھی ان کی کہ ہمارے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ طالب علمی کا وہ پورا زمانہ جس میں وہ اکوڑہ خٹک سے راولپنڈی، راولپنڈی سے لاہور ، لاہور سے امر تسر، امر تسر سے سہارن پور، سہارن پور سے دیوبند، یہ روٹ ہے، راستہ ہے کہ اگر کسی کو اکوڑہ خٹک سے دیوبند جانا ہے تو ریل کا ٹکٹ لے گا راولپنڈی کا ، انگریز کے زمانے میں متحدہ ہندوستان۔ پنڈی سے ٹکٹ لے کرلاہور جائے گا ، لاہور سے گاڑی بدل کر امرتسر جائے گا، امرتسر سے ٹکٹ لے کر سہارن پور جائے گا، سہارن پور سے ٹکٹ لے کر دیوبند جائے گا۔حضرت فرماتے تھے کہ مولوی اسرار الحق کے پاس اپنی طالب علمی کے زمانے میں تمام ریل کے ٹکٹ محفوظ تھے، جتنا انہوں نے ریل سے دیوبند آنے اور چھٹیوں میں واپس جانے کے سفر کیے، سارے ریل کے ٹکٹ محفوظ تھے۔
حضرت فرماتے تھے کہ وہ بہت ہی نفیس آدمی تھے، اب تو آپ شاید نہیں جانتے، ایک اسٹو ہوتا تھا ، چولہا ہوتا تھا، وہ تیل کا ہوتا تھا اور اس کی تین ٹانگیں ہوتی تھیں اور اسٹوپ کے نیچے والا حصہ ہوتا تھاوہ ٹنکی ہوتی تھی اور اس کے اندر پمپ ہوتا تھا، اس سے پمپ کرتے تھے، اس کے اندر مٹی کا تیل ہوتا تھا او راس کے اوپر چولہے نما چیز ہوتی تھی، جب اس کو پمپ کرتے تو تیل گیس کے ساتھ نکلتا اورفوراً ماچس لگاتے تو چولہا جلنا شروع ہو جاتا تھا۔
حضرت فرماتے ہیں کہ مولوی اسرار کے پاس اسٹو تھا اور انگریز کے زمانے میں متحدہ ہندوستان میں ایک پالش آتی تھی اس کا نام تھا ”براسو“۔ یہ بھی ہمیں حضرت نے سنایا،جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ جوتا پالش کرنے کے لیے ڈبیہ آتی ہے، پالش کی ڈبیہ، ایسے ہی پیتل کو چمکانے کے لیے ایک پالش آتی تھی اس کا نام ”براسو“ تھا، وہ مولوی اسرار کے پاس ہوتی تھی اور وہ اپنے چولہے کو چمکتا دمکتا رکھتے تھے اور چائے بنانے کے بڑے شوقین تھے، اس اسٹو پر چائے بناتے تھے، حضرت فرماتے ہیں کہ ہمار ی اس سے گہری دوستی تھی ، ہم ان کے کمرے میں چائے پینے جاتے تھے، ایسے ہی حضرت فرماتے تھے، مولوی اسرار کے پاس ایک قلم دان تھا اس میں آٹھ دس قسم کے قلم تھے، دواتیں تھیں، اور باقاعدہ لکڑی کا قلم دان تھا جس میں دستہ بھی تھا، وہ اس قلم دان کو لے کر اساتذہ، جس میں شیخ الاسلام نور الله مرقدہ، حضرت بلیاوی رحمة الله علیہ اور بڑے بڑے اکابر اساتذہ کرام کے اسباق میں مولوی اسرار وہ قلم دان لے کر درس گاہ میں جاتے اور استاد ان کو اپنے پاس بٹھاتے،ان کی نشست استاد کے قریب ہوتی او رانہیں لکھنے پر ایسا ملکہ او رکمال حاصل تھا کہ استاد کے منھ سے لفظ نکلتا اور مولوی اسرار اس کو قلم بند کرلیتے، صحیح بخاری کا سبق، مسلم کا سبق، ترمذی کا سبق، ابوداؤد کا سبق، تمام اسباق۔
خیر! حضرت ان کے بڑے فضائل سناتے تھے، ہم نے پوچھا کہ حضرت وہ ہیں کہاں؟ فرمایا: اکوڑہ میں۔ کیا کر رہے ہیں؟ کچھ بھی نہیں کر رہے، بات سمجھ رہے ہیں؟ چناں چہ اکوڑہ تو ہم جاتے رہتے ہیں، حضرت والد صاحب رحمة الله علیہ کے استاد حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة الله علیہ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ کے استاد تھے اور ہمارے حضرت کے محبوب اساتذہ میں سے تھے۔
آپ حیران ہوں گے آپ لوگ تو استاد سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے، جب کہ ہمارے اکابر کا حال یہ تھا کہ حضرت والد ماجد رحمة الله علیہ جب پاکستان بن گیا تو ہندوستان آنا جانا موقوف ہو گیا، جو اساتذہ ہندوستان میں تھے وہ وہیں رہ گئے، حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة الله علیہ ایسے استاد تھے جو پاکستان میں تھے، اکوڑہ خٹک میں تھے، آپ حیران ہوں گے کہ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ حضرت مولانا عبدالحق صاحب نورالله مرقدہ کی زیارت اوران کے پاس قیام کے لیے دس دس دن وہاں ٹھہرتے تھے۔
اور یہ جو اکوڑہ خٹک کا مدرسہ آپ لوگ دیکھتے ہیں، یہ ایسا نہیں تھا، ہم نے بھی وہ زمانہ دیکھا ہے کہ حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمة الله علیہ اکوڑہ شہر کے بازار کی ایک مسجد میں امام تھے اور اسی مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا گھر تھا ،اس میں قیام تھا، مدرسہ دور تھا، اب بھی دور ہے تو حضرت فرماتے کہ میں وہاں جاتا، بعض دفعہ شدید گرمیوں کا زمانہ ہوتا ،بعض دفعہ شدید سردیوں کا ، حضرت کی مسجد میں آپ نے دیکھا ہو گا، پنجاب میں بھی، خیبر پختونخواہ میں بھی چٹائیاں ہوتی ہیں، صف والی چٹائی، وہ چٹائیاں بچھی ہوتی تھیں، مجھے توحضرت کے پاس کبھی ہفتہ ٹھہرنا ہوتا تھا، کبھی دس دن، تو میں اسی مسجد کے اندر، چاہے گرمیوں کا زمانہ ہو چاہیے سردیوں کا زمانہ اور حضرت شیخ عبدالحق صاحب رحمة الله علیہ اپنے استاد سے ملنا جلنا ملاقات کا سلسلہ سب وہیں ہوتا تھا، تو ہمارے اکابر تو اپنے اساتذہ سے ملنے کے لیے باقاعدہ سفرکرتے تھے اور کئی کئی دن ان کے پاس رہتے تھے۔ یہاں ہمارے فضلاء آتے ہیں، وہ ہم سے ملتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ آپ یہاں قیام کریں، آپ ہمار ے پاس رہیں، وہ نہیں کہتے، ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ یہاں ٹھہر جائیں، رات کو یہاں رہیں، کہتے ہیں نہیں نہیں میں تو اصل میں علاج کے لیے آیا ہوں او رمجھے ہسپتال جانا ہے، پھر فلاں جگہ جانا ہے، فلاں جگہ جاناہے، ہمارا حصہ اتنا ہی ہے، ٹھیک ہے، ہمارے پاس آگئے، الله جزائے خیر دے کہ کم از کم چہر دکھا دیا۔ ملاقات کر لی۔
تو وہ ذوق ختم ہو گیا، میں جو عرض کر رہا ہوں کہ اساتذہ سے ربط اور تعلق ہوتا ہے، وہ ربط اور تعلق اب باقی نہیں ہے او رجب وہ ربط اور تعلق نہیں ہو گا تو ظاہر ہے کہ پھر وہ فیض نہیں آئے گا۔بہت سے ساتھی کہتے ہیں کہ استاد مصروف ہیں ہم ان سے ملیں گے تو مصروفیت متاثر ہوگی۔
تو یاد رکھیں کہ ملنے جلنے کے، تعلق قائم کرنے کے بھی آداب ہوتے ہیں، آپ پہلی دفعہ ملیں تو شاید آپ کو پوری توجہ نہ ملے، دوسری دفعہ ملیں گے تو ہو سکتا ہے کہ توجہ کی” تا“ مل جائے، پھر تیسری دفعہ ملیں گے تو ہو سکتا ہے کہ توجہ کی ”واو“ مل جائے پھر چوتھی دفعہ ملیں گے تو ہوسکتا ہے کہ توجہ کی ”ج“ مل جائے، ہو سکتا ہے کہ پانچویں دفعہ ملیں اور توجہ کی” ہ“ مل جائے، آپ ملیں گے دو دفعہ تین دفعہ اور آپ ملنا چاہیں گے آپ جان چھڑانانہیں چاہیں گے، ملنا چاہیں گے، بات کرنا چاہیں گے، تو آہستہ آہستہ آپ کی جگہ بننا شروع ہو جائے گی۔ تعلق قائم ہونا شروع ہو جائے گا اوریہی طریقہ ہے دنیا میں۔
اس لیے درخواست ہے کہ اساتذہ سے اپنا تعلق قائم کریں اور اچھا ان ملاقاتوں کا فائدہ کیا ہے؟ بالکل واضح ہے کہ وہ طلباء جو مستقل ملتے رہتے ہیں وہ نظروں میں رہتے ہیں، جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں تو یقینا ان کا دعا میں پورا حصہ ہوتا ہے او رجو جتنا زیادہ ملتا جلتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے احوال کی بھی آگاہی زیادہ ہوتی ہے تو پھر ان احوال کے اعتبار سے بھی دعا ہوتی ہے، کسی کے والد بیمار ہیں، والد کے لیے دعا کا کہا تھا، کسی نے گھر کا مسئلہ بیان کیا تھا، اب ان مسائل کے لیے بھی دعا ہوتی ہے، یہ ہے اس کا فائدہ، کس وقت وہ دعاقبول ہوجائے اور آپ کے لیے آسانی ہو جائے، آپ کا علم منور ہوجائے، آپ کا علم مبارک ہو جائے، آپ کے لیے وہ ایسی دعائیں کریں کہ یہ اپنے علاقے میں جاکے ایسی ایسی خدمتیں کریں۔
ہمارے حضرت رحمة الله علیہ آپ یقین فرمائیں کہ ہم نے کبھی زندگی میں نہیں دیکھا کہ حضرت نے اپنے کسی بھی استاذ کا تذکرہ کیا ہو اور اس تذکرے میں حضرت کی آنکھیں بھیگ نہ گئی ہوں، آنسو آجاتے تھے کہ ہمارے فلاں استاد ایسے تھے، کیوں؟ اس لیے کہ استاذ سے گہرا تعلق تھا، استاذ سے جذباتی تعلق تھا، تو آپ کا کیاخیال ہے کہ حضرت نے جو خدمات انجام دیں ان خدمات میں حضرت کی اساتذہ کی دعائیں شامل نہیں ہیں؟! یقینا شامل ہیں۔
ایسے ہی میں نے عرض کیا کہ ان مدارس کا ایک بہت بڑا کام احقاق حق اور ابطال باطل ہے، چناں چہ ہمارے حضرت رحمہ الله جب یہاں تشریف لائے تو آپ حیران ہوں گے کہ یہاں رافضیت اور بریلویت عروج پر تھی ،طلبا کے لیے مدرسے سے باہر نکل کر چلنا پھرنا بھی مشکل تھا ، مّلا او فلاں کی آوازیں لوگکستے تھے اور ہتک آمیز سلوک کرتے تھے اور ہر طرف شور، محرم آجاتا تو اساتذہ کے لیے درس گاہ میں سبق پڑھانا مشکل ہوجاتا، ہر گھر پر لاؤڈ اسپیکر او رگھر والے وہاں نہیں ہیں، لاؤڈ اسپیکر لگایا ہوا ہے، ٹیپ ریکاڈر رکھا ہوا ہے ، خود کہیں جلوس کسی مجلس میں گئے ہوئے ہیں، ہر گھر پر لاؤڈاسپیکر، اتنا شور ہوتا تھا کہ بیان سے باہر ،پھر محرم میں جلوس، محرم میں مجلسیں، ایک ہنگامہ، ربیع الاول آتا تھا تو ایک ہنگامہ، چاروں طرف شور، لاؤڈاسپیکر،جلسے اور ایسا خوف ناک معاملہ کہ علمائے دیوبند کو نام لے کر گالیاں دیتے ، ہمارے حضرت رحمة الله علیہ نے خدمت کی، یہاں ابھی محرم گزرا ہے، آپ لوگوں کو پتہ چلا محرم کا، یہ یونہی نہیں ہوا، اس کے پیچھے بہت بڑی بڑی قربانیاں ہیں ،اس کے پیچھے بہت بڑے بڑے مجاہدے ہیں، جو حضرت رحمة الله علیہ نے اپنے زمانے میں انجام دیے اور اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ الحمدلله محرم کا مہینہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے، آپ حضرات کے سبق متاثر نہیں ہوتے، آپ حضرات کا کہیں آنا جانا متاثر نہیں ہوتا۔ الله تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق نصب فرمائے۔