اُسوہٴ حسنہ کی جامعیت

idara letterhead universal2c

اُسوہٴ حسنہ کی جامعیت

مولانا محمد سر فراز خاں

دنیا میں جتنے بھی رسول اور نبی تشریف لائے ہیں، ہم ان سب کو سچا مانتے اور اُن پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور ایسا کرنا ہمارے فریضہ اور عقیدہ میں داخل ہے، ﴿لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رُسُلِہ﴾، مگر اس ایمانی اشتراک کے باوجود بھی ان میں سے ہر ایک میں کچھ ایسی نمایاں خصوصیات اور کچھ جداگانہ کمالات و فضائل ہیں جن کو تسلیم کیے بغیر ہرگز کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ مثلاً آنحضرتe سے پہلے جتنے انبیاء و رسل علیہم السلام تشریف لائے ہیں تو ان سب کی دعوت کسی خاص خاندان اور کسی خاص قوم سے مخصوص رہی، حضرت نوح u تشریف لائے تو اپنی دعوت کو صرف اپنی ہی قوم تک محدود رکھا۔ حضرت ہود u جلوہ افروز ہوئے تو فقط قوم عاد کو خطاب کیا۔ حضرت صالح u مبعوث ہوئے تو محض قوم ثمود کی فکر لے کر آئے۔ حضرت ابراہیم u اپنی قوم کے پیغمبر تھے۔ حضرت موسیٰ u بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لیے بھیجے گئے تھے اور حضرت عیسیٰ u تو بس بنی اسرائیل کی کھوئی بھیڑوں کی تلاش اور سراغ میں نکلے تھے۔ جب غیروں نے اُن کے روحانی کمالات سے استفادہ کرنے کی اپیل کی تو انہوں نے جواب میں کہا لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں۔ (انجیل متی، باب15، آیت 26)

یہی وجہ تھی کہ ان پیغمبروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی قوم سے باہر نظر نہیں ڈالی، لیکن جب رحمتِ خداوندی کی وہ عالم گیر گھٹا، جو فاران کی چوٹیوں سے اٹھی تھی، جس سے انسانیت وشرافت، دیانت وامانت، عدل وانصاف اور تقوی وورع کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں پھر سے سرسبز وشاداب ہو کر لہلہا اٹھیں۔ وہ قوم وجماعت، ملک وزمین، مشرق ومغرب، شمال وجنوب اور برو بحر کی تمام قیدوں اور پابندیوں سے بالکل آزاد تھی۔ وہ بلا امتیاز وطن وملت، بلا تفریق نسل وخاندان، بدوں تمیز رنگ وخون، بغیر لحاظِ سیاہ وسپید اور بے اعتبار حسب ونسب، تا قیامت پوری نسلِ انسانی کے لیے رحمتِ مُہداة بن کر نمودار ہوئی اور ربّ ذو الاحسان نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان فیض رساں سے یہ اعلان کردیا کہ:
﴿قُلْ یَایُّہَا النَّاسُ إِنّی رَسُولُ اللہِ الَیْکُم جَمِیعًا﴾․ (پ: 9، اعراف: 19)

آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

وہ ابرِ کرم اٹھا تو فاران کی چوٹیوں سے، مگر سب روئے زمین پر پھول برساتا اور مژدہٴ جان فزا سناتا ہو اچھا گیا اور پوری دھرتی کے چپہ چپہ پر خوب کھلکھلا کر برسا، دشت وصحرا نے اُس سے آسودگی حاصل کی۔ بحر وبر اس سے سیراب ہوئے، چمنستانوں نے اس سے رونق پائی اور ویرانوں کو اس کی فیض پاشی نے لعل وگوہر سے معمور کردیا۔ اہل عرب اس سے مستفید ہوئے۔ باشندگانِ عجم نے اُس سے اکتسابِ فیض کیا۔ یورپ نے اس کی خوشہ چینی کی اور ایشیا اس کا گرویدہ بنا۔ دُنیا کے تمام گم راہوں کو وادیٴ ضلالت سے نکالنے کی اس نے راہ نمائی کی اور آوارگانِ دشتِ غوایت کی رہبری کی اور نسلِ انسانی کے سب مایوس مریضوں اور ہر قسم کے نا امید بیماروں کو زُود اثر تریاق اور نسخہٴ شفا بخشا۔
اتر کر حرا سے سُوئے قوم آیا!
اور اِک نسخہٴ کیمیا ساتھ لایا

آنحضرت e کی نبوت ورسالت صرف نسلِ انسانی ہی کے لیے نہیں، بلکہ جنات بھی اس امر کے مکلف اور پابند ہیں کہ آپ e کی نبوت ورسالت کا اقرار کر کے، آپ e کی شریعت پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اور نجات اخروی تلاش کریں۔ ثقلین (انس وجن) کا مکلف ہونا، نیز جنات کا قرآن کریم کو غور وفکر سے سن کر اس پر ایمان لانا اور پھر جا کر اپنی قوم کو تبلیغ کرنا قرآن مجید میں مصرّح ہے اور عالمین کے مفہوم میں جنات بھی شامل ہیں اور قرآنِ کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا گیا: ﴿لِیَکُونَ لِلْعٰلَمِینَ نَذِیْرًا﴾․

اور خود جناب نبی کریم e نے ارشاد فرمایا ہے کہ: اُرسِلت الی الأحمر والاسود․ قال مجاہد: الانس والجن․ (مستدرک جلد 2، ص424 قال الحاکم والذہبی: علی شرطہما)

مجھے سرخ اور سیاہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ سرخ سے انسان اور سیاہ سے جن مراد ہیں۔

جو مکارم اخلاق آپ e کو خالق کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی تکمیل کے لیے آپ e کو اس دُنیا میں بھیجا گیا تھا وہ مکلف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے اور جن کا مقصد صرف یہی نہ تھا کہ اُن کے ذریعہ رُوحانی مریضوں کو اُن کے بستروں سے اٹھا دیا جائے، بلکہ یہ بھی تھا کہ اُٹھنے والوں کو چلایا جائے اور چلنے والوں کو بسرعت دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو روحانی کمال اور اخلاقی معراج کی غایة قُصویٰ تک اور سعادتِ دُنیوی ہی نہیں، بلکہ سعادت دارین کی سدرة المنتہی تک پہنچایا جائے اور اُن کا خوانِ نعمت فقط مریضوں کے لیے قوت بخش اور صحت افزا نہ ہو، بلکہ وہ تمام مکلف مخلوق کی اصل فطری اور روحانی لذیذ غذا بھی ہو اور آپ e کے مکارم اخلاق اور اُسوہٴ حسنہ نے وہ تمام ممکن اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ خلق عظیم کی بلند اور دُشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان اور سہل ہوگیا ہے۔ آپ e کی بعثت کے اغراض ومقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی تھا، جیسا کہ آپ e نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
إِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاخْلَاقِ․ وفی روایة: مکارم الاخلاق (قال الشیخ: حدیث صحیح، السراج المنیر، ج: 2، ص: 47)

مجھے تو اس لیے مبعوث کیا گیا ہے، تا کہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔

اور یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جس طرح دیگر انبیائے کرام علیہم السلام خاص خاص جماعتوں اور مخصوص قوموں کے لیے مُصلح اور پیغمبر تھے، اسی طرح اُن کی روحانیت اور اخلاقی آئینے بھی خصوصی صفات اور اصناف کے مظہر تھے۔ مثلاً حضرت نوح u مجرم اور نا فرمان قوم کی نجات کے لیے باوجود قوم کی ایذا رسانی کے سعی بلیغ کی زندہ یادگار تھے۔ اور حضرت ابراہیم u اخلاص وقربانی کی مجسم مثال تھے کہ انھوں نے اپنے اکلوتے اور عزیز ترین لخت جگر کو خدا تعالیٰ کی خوش نودی اور رضا جوئی کے لیے اپنی طرف سے ذبح کر ہی ڈالا اور اس کے حکم کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی اور کم زوری نہ دکھائی، جس کی ایک ادنیٰ اور معمولی سی برائے نام نقل آج بھی ہر صاحب استطاعت مسلمان اُتارتا اور سُنَّةُ اَبیْکُمْ إِبْرَاہِیمَ کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ جُدا بات ہے کہ
تیری ذبح ذبح عظیم کی ہو مثیل کیوں کر خلوص میں؟
نہ خلیل کا سا ہے دل تیرا نہ ذبیح کا سا گلا تیرا!

حضرت ایوب u صبر ورضا کے پیکر تھے، مصائب وآلام کے بے پناہ سیلاب بہ گئے، مگر وہ مضبوط پہاڑ کی طرح اپنی جگہ ثابت رہے۔ حضرت موسیٰ u کی زندگی جرأت حق کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی کہ فرعون جیسے جابر اور مطلق العنان بادشاہ کے دربار میں ساون کے بادلوں کی طرح گرج اور صاعقہٴ آسمانی کی طرح کڑک کر تہلکہ ڈال دیتے تھے۔ حضرت یعقوب u کی صبر آزما حیات یاد گارِ دہر تھی کہ اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھ سے پیارے یوسف کے سلسلہ میں اذیت اور دکھ اٹھا کر فَصَبْرٌ جَمِیل فرما کر خاموش ہو گئے اور اندر ہی اندر آنسوؤں کے طوفان موجیں مارتے ہوئے ساحل اُمید سے ٹکراتے رہے اور نا اُمیدی کو قریب نہیں آنے دیا کہ ع
نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

حضرت یوسف u کی عفت مآب زندگی پاک دامن نوجوانوں کے لیے باعثِ صد افتخار ہے کہ انھوں نے اِمرأة عزیز کی تمام مکاریوں اور حیلہ جوئیوں کی استخواں شکن زنجیروں کی ایک ایک کڑی کو ”معاذ اللہ“ فرماتے ہوئے پاش پاش کر دیا۔

حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی شاہانہ زندگی ان سب سے نرالی تھی کہ قبائے سلطنت اور عبائے خلافت اوڑھ کر مخلوقِ خدا کے سامنے ظہور پذیر ہوئے اور اس طریقہ سے عدل وانصاف کے مطابق ان کی خدمت کا عمدہ فریضہ انجام دیا۔

حضرت عیسی u تو کل وقناعت، زُہد وخود فراموشی کی ایک پوری کائنات تھے کہ زندگی بھر سر چھپانے کے لیے ایک جھونپڑی بھی نہیں بنائی اور فرمایا: ”اے لوگو! یہ کیوں سوچتے ہو کہ کیا کھاؤ گے؟ فضا کی چڑیوں کے لیے کاشت کاری کون کرتا ہے؟ اور اُن کے منھ میں خوراک کون ڈالتا ہے؟ اے لوگو! تمہیں اس کی کیا فکر ہے اور تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ کیا پہنو گے؟ جنگل کی سوسن کو اتنی دیدہ زیب پوشاک اور خوبصورت لباس کون پہناتا ہے؟“

یہ تمام بزرگ اور مقدس ہستیاں اپنے اپنے وقت پر تشریف لائیں اور بغیر حضرت مسیح u سب دُنیا سے رخصت ہو گئیں، لیکن جب قصر نبوت اور ایوانِ رسالت کی آخری اینٹ کا ظہور ہوا، جس کے انتظار میں دہر کہن سال نے ہزاروں برس صرف کر دیے تھے۔ آسمان کے ستارے اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ اُن کے استقبال کے لیے لیل ونہار بے شمار کروٹیں بدلتے رہے۔ اُن کی آمد سے محض کسریٰ کے محل کے چودہ کنگرے ہی نہیں، بلکہ رسمِ عرب، شان عجم، شوکت روم، فلسفہٴ یونان اور اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر کر آنِ واحد میں پیوندِ زمین ہو گئے، اور پورے کرہٴ ارض کے لیے ایک عالم گیر سعادت اور ایک ہمہ گیر رحمت لے کر آئے۔ آپ e کا وجود مقدس روحانیت کے تمام اصناف کی ایک خوش نما کائنات، اخلاق حسنہ کی ایک دلآویز جاذبیت اور رنگ برنگ گل ہائے اخلاق کا ایک پورا چمنستان تھا۔ امت مرحومہ کے لیے حضرت نوح u کی دل سوزی، حضرت ابراہیم u کی خلّت، حضرت ایوب u کا صبر، حضرت داؤد u کی مناجات، حضرت موسیٰ u کی جرأت، حضرت ہارون u کا تحمل، حضرت سلیمان u کی سلطنت، حضرت یعقوب u کی آزمائش، حضرت یوسف u کی عفت، زکریا u اور حضرت یحییٰ u کی تقرب الٰہی کے لیے گریہ وزاری اور حضرت مسیح علیہ الصلوة والسلام کا تو کل۔ یہ تمام منتشر اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود میں سمٹ کر جمع اور یکجا ہو چکے تھے۔ سچ ہے کہ
حسن یوسف دم عیسی یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

غرض کہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک کی زندگی خاص خاص اوصاف میں نمونہ اور اُسوہ تھی۔ مگر سرورِ دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلیٰ وارفع زندگی تمام اوصاف واصناف میں ایک جامع زندگی ہے۔

آپ کی سیرت مکمل اور آپ کا اسوہٴ حسنہ ایک کامل ضابطہٴ حیات اور دستور ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر کسی اور چیز کی سرے سے کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہ جاتی اور نہ کسی اور نظام وقانون کی ضرورت ہی محسوس ہو سکتی ہے۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

اگر آپ بادشاہ اور سر براہ مملکت ہیں تو شاہ عرب اور فرماں روائے عالم کی زندگی آپ کے لیے نمونہ ہے۔ اگر آپ فقیر ومحتاج ہیں تو کملی والے کی زندگی آپ کے لیے اُسوہ ہے، جنہوں نے کبھی دقل (ردّی قسم کی کھجوریں) بھی پیٹ بھر کر نہ کھائیں۔ اور جن کے چولہے میں بسا اوقات دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔

اگر آپ سپہ سالار اور فاتح ملک ہیں تو بدر وحنین کے سپہ سالار اور فاتح مکہ کی زندگی آپ کے لیے ایک بہترین سبق ہے، جس نے عفو وکرم کے دریا بہا دیے تھے۔ اور لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم کا خوش آئند اعلان فرما کر تمام مجرموں کو آنِ واحد میں معافی کا پروانہ دے کر بخش دیا تھا۔

اگر آپ قیدی ہیں تو شعب ابی طالب کے زندانی کی حیات آپ کے لیے درس عبرت ہے۔ اگر آپ تارکِ دنیا ہیں تو غارِ حرا کے گوشہ نشین کی خلوت آپ کے لیے قابل تقلید عمل ہے۔

اگر آپ چرواہے ہیں تو مقام ”اجیاد“ میں آپ کو چند قراریط (ٹکوں) پر اہل مکہ کی بکریاں چراتے دیکھ کر تسکین قلب حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر آپ معمار ہیں تو مسجد نبوی کے معمار کو دیکھ کر ان کی اقتدا کر کے خوشی محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مزدور ہیں تو خندق کے موقع پر اُس بزرگ ہستی کو پھاوڑا لے کر مزدوروں کی صف میں دیکھ کر اور مسجد نبوی کے لیے بھاری بھر کم وزنی پتھر اُٹھا اٹھا کر لاتے ہوئے دیکھ کر قلبی راحت حاصل کر سکتے ہیں۔

اگر آپ مجرد ہیں تو اس پچیس سالہ نوجوان کی پاک دامن اور عفت مآب زندگی کی پیروی کر کے سرور قلب حاصل کر سکتے ہیں جس کو کبھی کسی بدترین دشمن نے بھی داغ دار نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی جرأت کی ہے۔

اگر آپ عیال دار ہیں تو آپ متعدد ازواج مطہرات کے شوہر کو أنا خَیْرُکُم لِاَہْلِیْ فرماتے ہوئے سن کر جذبہٴ اتباع پیدا کر سکتے ہیں۔

اگر آپ یتیم ہیں تو حضرت آمنہ کے لعل کو یتیمانہ زندگی بسر کرتے دیکھ کر آپ کی پیروی اور تأسی کر سکتے ہیں۔

اگر آپ ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں اور بہنوں اور بھائیوں کے تعاون و تناصر سے محروم ہیں تو حضرت عبد اللہ کے اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر اشک شوئی کر سکتے ہیں۔

اگر آپ باپ ہیں تو حضرت زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ، قاسم، اور ابراہیم (وغیرہ) کے شفیق و مہربان باپ کو ملاحظہ کر کے پدرانہ شفقت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ تاجر ہیں تو حضرت خدیجہ کے تجارتی کاروبار میں آپ کو دیانت دارانہ سعی کرتے ہوئے معائنہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ عابد شب خیز ہیں تو اُسوہ حسنہ کے مالک کے متورّم قدموں کو دیکھ کر اور اَفَلَا أکُونَ عَبْدًا شَکُورًا فرماتے ہوئے آپ کی اطاعت کو ذریعہ تقربِ خداوندی اختیار کر سکتے ہیں۔

اگر آپ مسافر ہیں تو خیبر وتبوک وغیرہ کے مسافر کے حالات پڑھ کر طمانیت قلب کا وافر سامان مہیا کر سکتے ہیں۔

اگر آپ امام اور قاضی ہیں تو مسجد نبوی کے بلند رتبہ امام اور فصلِ خصومات کے بے باک اور منصف مدنی جج کو بلا امتیازِ قریب وبعید اور بغیر تفریق قوی وضعیف فیصلہ صادر فرماتے ہوئے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ قوم کے خطیب ہیں تو خطیب اعظم کو منبر پر جلوہ افروز ہو کر، بلیغ اور مؤثر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اور غافل قوم کو اِنِّی اَنَا نَذِیْرُ الْعُرْیَانِ فرما کر بیدار کرتے ہوئے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ الغرض! زندگی کا کوئی قابل قدر اور مستحق توجہ پہلو اور گوشہ ایسا باقی نہیں رہ جاتا جس میں سرورِ کائنات e کی معصوم اور قابل اقتدا زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ، عمدہ ترین اسوہ اور اعلیٰ ترین معیار نہ بنتی ہو۔

پس اُس وجودِ قدسی پر لاکھوں بلکہ کروڑوں درود وسلام، جس کے وجود مسعود میں ہماری زندگی کے تمام پہلو سمٹ کر آ جاتے ہیں اور ہماری رُوح کا ایک ایک گوشہ عقیدت واخلاص کے جوش سے معمور ہو جاتا ہے، جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے لعل وگوہر کا جو پائدار خزانہ تمام ارض وسما اور بحروبر چھان ڈالنے کے بعد بھی کسی قیمت پر جمع نہیں ہوسکتا تھاوہ اَنمول خزانہ اُمت مرحومہ کو اپنے پیارے نبی کے اُسوہ حسنہ، اپنے برگزیدہ رسول کی سنت صحیحہ اور اپنے مقبول رسول کے معدنِ حدیث کی ایک ہی کان اور معدن سے فراہم ہوگیا ہے۔ اور قرآن کریم کے بعد ہماری تمام بیماریوں کا مداوا حدیث پاک میں علیٰ وجہ الا تم موجود ہے۔

اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیثِ مصطفی بر جاں مسلم داشتن

تعمیر حیات سے متعلق