
حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، تاکہ ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہوسکیں۔ (ادارہ)
الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونوٴمن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ وحدہ وحدہ لا شریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولٰنا محمداً عبدہ ورسولہ، ارسلہ بالحق بشیرا ونذیرا وداعیا إلی اللّٰہ بإذنہ وسراجا منیرا․
اما بعد! فأعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم․
﴿إن الصلوٰة تنہی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللّٰہ اکبر واللّٰہ یعلم ما تصنعون﴾․ صدق اللّٰہ مولٰنا العظیم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إن الصلوٰة تنہی عن الفحشاء والمنکر﴾، بے شک نماز روکتی ہے فحش سے اور منکر سے، ﴿ولذکر اللّٰہ اکبر﴾اور البتہ اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو، ہم اگر پوری دنیا کا جائزہ لیں تو اوپر آسمان، نیچے زمین، پھر آسمانوں میں سورج، چاند، ستارے، سیارے، زمین پر جنگلات اور طرح طرح کی مخلوقات، سمندر، دریا، ندیاں، نالے، چشمے، یہ سب نظر آتے ہیں اور یہ جتنی نظر آنے والی چیزیں ہیں یہ بھی ایک نہیں، یہ سب کی سب جیسے ہمیں نظر آرہی ہیں، جیسے ہم اور آپ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور جیسے ہم اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جسم بس یہی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے، اس جسم کے ساتھ روح ہے اور اگر یہ روح نہ ہو تو یہ جسم پھول جائے گا، پھٹ جائے گا، اسی طریقے سے اس کائنات کو جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ بھی ایک نہیں، اس سب میں بھی روح موجود ہے اور اسی وجہ سے کہ اس میں روح موجود ہے تو سب کے سب اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ﴿یسبح اللّٰہ ما فی السموات وما فی الارض﴾، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے وہ اللہ کی تسبیح کر رہا ہے۔
چناں چہ یہ جو پانی چل رہا ہے، بہہ رہا ہے، یہ اللہ کی تسبیح کر رہا ہے اور خوب یاد رکھیں کہ اسی لیے وہ پاک ہے اور نہ صرف یہ کہ وہ پاک ہے، بلکہ پاک کرنے والا بھی ہے، طاہر بھی ہے، مطہر بھی ہے۔
اور جہاں تسبیح بند، پانی رک جائے تو اب وہ ماء جاری نہیں، بلکہ ماء راکد ہے اور جب وہ ماء راکد ہوگا اور وہ تھوڑا ہوگا اور اس میں نجاست گرے گی تو وہ نجس ہوجائے گا، اس میں بدبو آجائے گی، اس میں تعفن پیدا ہوجائے گا، چناں چہ جتنی چیزیں ہیں، درخت ہیں، سمندر ہیں، چاند، ستارے ہیں، سیارے ہیں، جو کچھ ہیں وہ اللہ کا ذکر کر رہے ہیں اور یاد رکھیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی، جب تک اس زمین پر کوئی ایک بھی ”اللہ، اللہ“ کہنے والا باقی رہے گا اور جیسے آدمی میں سے روح نکل جائے تو مر جاتا ہے اور پھول جاتا ہے، پھٹ جاتا ہے، اسی طریقے سے اس دنیا میں جب کوئی ایک بھی ”اللہ، اللہ“ کہنے والا نہیں ہوگا تو اس کا مطلب یہ کہ اس دنیا کی روح ختم ہوجائے گی اور جب اس دنیا کی روح ختم ہوجائے گی تو جیسے انسان کی روح نکل جائے تو وہ مر جاتا ہے، ایسے ہی یہ دنیا بھی مر جائے گی، ختم ہوجائے گی ﴿القارعة ما القارعة، وما ادرک ما القارعة، یوم یکون الناس کالفراش المبثوث، وتکون الجبال کالعھن المنفوش﴾․
یہ سب سورج، چاند، تارے، یہ سب کا سب ختم ہوجائے گا، اس سے اور آگے چلیں کہ یہ جو عبادات ہم کرتے ہیں، نماز ہے، روزہ ہے، حج ہے، زکوٰة ہے، صدقات ہیں، یہ تمام کے تمام اعمال اسلام کا ڈھانچہ ہیں، جسم ہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یا ایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافة﴾، اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاوٴ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلام الگ چیز ہے اور ایمان الگ چیز ہے، ایمان نظر نہیں آتا، ہم سب اہل ایمان یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا ہم ایک دوسرے کا ایمان دیکھ سکتے ہیں؟ ایمان نظر نہیں آتا اور جب ایمان طاقت ور ہوتا ہے تو اعمال کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے اور جب ایمان کم زور ہوتا ہے تو نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا، روزہ رکھنے کو جی نہیں چاہ رہا، تلاوت کرنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ اور اسلام نظر آنے والی چیز ہے، نماز ہے، آپ نماز پڑھ رہے ہیں، ہر آدمی کو معلوم ہوتا ہے آپ نماز پڑھ رہے ہیں، نماز نظر آرہی ہے، روزہ ہے، آپ انتہاءِ سحر پر روزے کی نیت کرتے ہیں، آپ نے سحری کی، آپ افطار کر رہے ہیں، نظر آرہا ہے کہ آپ نے روزہ رکھا تھا اور اب آپ افطار کر رہے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں، زکوٰہ کا دینا، لینا سب نظر آتا ہے، آپ حج کرتے ہیں، احرام باندھتے ہیں، بیت اللہ شریف حاضر ہوتے ہیں، منٰی جاتے ہیں، عرفات جاتے ہیں، رمی جمرات کرتے ہیں، قربانی کرتے ہیں، طواف زیارت کرتے ہیں، سب نظر آتا ہے، خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ یہ جو نظر آرہا ہے یہ ڈھانچہ ہے، یہ جسم ہے، اس کے اندر اگر روح نہیں ہے، ایک آدمی ہے، مسجد میں داخل ہوا، کوئی نیت نہیں کی اور نیت نظر نہیں آتی، کیوں کہ نیت دل کا کام ہے، النیة فعل القلب، آپ نے نیت نہیں کی اور آکر آپ نے نماز پڑھ لی، تو یہ نماز نہیں ہوگی، اس لیے کہ نماز کا جسم تو ہے، لیکن روح نہیں ہے، روزے میں آپ نے نیت نہیں کی تو وہ روزہ نہیں ہوگا، فاقہ ہوگا، اسی طرح حج ہے، کوئی نیت نہیں ہے تو ایک سیر وتفریح ہوجائے گی، مکہ چلا جائے گا، منٰی چلا جائے گا۔
تو خوب یاد رکھیں کہ یہ جو نماز پڑھتے ہیں اس نماز کو اگر اس کی روح کے ساتھ ادا کریں گے تو یہ نماز نماز ہوگی۔
چناں چہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿ان الصلوة تنہی عن الفحشاء والمنکر﴾، بے شک نماز، فواحش سے منکرات سے روکتی ہے، بہت سی دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ہے، نماز پڑھ رہا ہے، لیکن چوری بھی کر رہا ہے، رشوت بھی لے رہا ہے، جھوٹ بھی بول رہا ہے، بد نظری بھی کر رہا ہے، وہ تمام گناہوں میں مبتلا ہے، ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ اس نے اپنی نماز کو نماز بنایا نہیں ہے۔
﴿إن الصلوة تنہی عن الفحشاء والمنکر﴾، کے بعد اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ ﴿ولذکر اللہ اکبر﴾ اور البتہ اللہ کا ذکر، سب سے بڑا ہے، وہ اللہ کا ذکر اگر اس نماز کے اندر نہیں ہے، وہ اللہ کا ذکر اگر روزے کے اندر نہیں ہے، وہ اللہ کا ذکر اگر زکوٰة کے اندر نہیں ہے، وہ اللہ کا ذکر اگر حج کے اندر نہیں ہے اور اللہ کی یاد، ذکر اگر دعا کے اندر نہیں ہے، تو وہ جسم ہے، ایک جسم ہے، ایک ڈھانچہ ہے، جیسے آدمی کے جسم سے روح نکل گئی ہو، اب وہ مردہ کہلاتا ہے۔
وہ اپنے ہاتھ ہلا نہیں سکتا، زبان سے بول نہیں سکتا، آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا، دانتوں سے چبا نہیں سکتا، پیروں سے چل نہیں سکتا، حالاں کہ وہ آدمی ہے، لیکن یہ آدمی کا ڈھانچہ ہے، اس میں سے روح نکل چکی ہے، چناں چہ یہ جو نماز ہے، روزہ ہے، زکوٰة ہے، حج ہے، دعا ہے، ان سب کی باقاعدہ روح ہے اور روح پیدا کرنے کے لیے مشق کی ضرورت ہے۔
اس کے لیے با قاعدہ کوشش کرنی ہوگی، تب جا کر نماز، نماز ہوگی، بہت سے ساتھی کہتے ہیں نماز میں دل نہیں لگتا، نماز میں وسوسے آتے ہیں، تو چوں کہ ہم نے کوئی محنت نہیں کی، ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انسان ایسی چیز بنائی ہے کہ اس میں دو خیال ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے اور یہ علاج ہے کہ اگر کوئی وسوسہ آتا ہے اور کوئی غلط خیال آتا ہے تو فوراً کوئی نیک خیال لے آئیں، اب جیسے آپ نیک خیال لائیں گے تو جیسے میں نے عرض کیا کہ دو خیال جمع نہیں ہوتے، نیک خیال لائیں گے تو غلط خیال خود بخود نکل جائے گا۔
یہ ایک محنت ہے، ایک ریاضت ہے، ایک کوشش ہے، جیسے ہم دنیا کے بہت سے پیشے، ہنر باقاعدہ سیکھتے ہیں، وہ صرف بولنے سے نہیں آتے،آدمی اگر صبح سے لے کر شام تک تیرنا تیرنا کہتا رہے، کیا اسے تیرنا آجائے گا؟ ایک آدمی صبح سے شام تک ڈرائیونگ، ڈرائیونگ کہتا رہے، کیا وہ ڈرائیور بن جائے گا؟ اسی طرح سے اور کام، اس کے لیے تو وقت فارغ کرنا پڑے گا، اس کے لیے تو کسی استاد کے پاس وقت صرف کرنا ہوگا اور وہ ساری چیزیں جزئیات کے ساتھ تھوڑی تھوڑی سیکھنا ہوں گی، اب آدمی کو تیرنا بھی بہترین آجائے گا، اب آدمی کو ڈرائیونگ بھی بہترین آجائے گی، اب آدمی کو کپڑے سینا بھی بہترین آجائے گا، اب آدمی کو دنیا کے اور بہت سے پیشے جن کو آدمی سیکھنا چاہتا ہے، اگر اس ترتیب کے مطابق سیکھنا چاہے تو وہ سیکھ جائے گا، اب آدمی سوچے کہ نماز کیا ہے، نماز الصلوة معراج الموٴمن، نماز مومنوں کی معراج ہے، اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر نماز کا تحفہ عطا فرمایا کہ اگر کوئی مومن، اور امتی یہ چاہے کہ اللہ کا قرب حاصل ہو جائے تو اس کے لیے بہت سہل اور آسان طریقہ نماز ہے اور وہ دن میں ایک دفعہ نہیں، پانچ دفعہ ہے۔فجر میں بھی، ظہر میں بھی، عصر میں بھی، مغرب میں بھی، عشاء میں بھی، اب آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ یہ جو اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے تو یہ زیادہ اہم ہے یا ڈرائیور بننا زیادہ اہم ہے؟ کھیتی باڑی، دکان داری وہاں تو ہر شخص کہتا ہے سیکھنے میں وقت لگے گا، ایسے تیرنا نہیں آئے گا، کتنے کام ایسے ہیں کہ جن میں برسوں لگتے ہیں کہ برسوں ریاضت، محنت کرنی پڑے گی، تب جا کے کچھ حاصل ہوگا، تو اللہ کا قرب وہ بغیر محنت اور ریاضت کے آجائے گا؟ آپ سوچیں، غور کریں۔
اور محنت کرنے کا راستہ وہ نوافل ہیں، جو حفاظ ہیں وہ لمبی تلاوت کریں، موقع ہے، ایسا وقت ہے جس میں تعلیم کا حرج نہیں ہے، جس میں نوکری ، ملازمت کا حرج نہیں ہے، جس میں آسانی ہے تو دس منٹ کے نوافل پڑھیں، پندرہ منٹ کے نوافل پڑھیں، بیس منٹ کے نوافل پڑھیں، تو آپ دیکھیں گے کہ چند دنوں میں آپ کی نماز میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی، قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں، اس کے لیے وقت نکالیں اور یہ یاد رکھیں کہ جب آپ نوافل کے ذریعے نماز کو بنانے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالی کا جب قرب حاصل ہونا شروع ہوگا، تو پھر نماز ہی نماز ہوجائے گی، پھر تلاوت ہی تلاوت ہوجائے گی، پھر بے چینی ہوگی، فجر کی نماز کے بعد فکر لگی ہوگی ظہر کی، ظہر کی نماز کے بعد عصر کی فکر لگی ہوگی، عصر کی نماز کے بعد فکر لگی ہوگی مغرب کی، مغرب کی نماز کے بعد فکر لگی ہوئی ہے عشاء کی، عشاء کی نماز کے بعد فکر لگی ہوئی ہے فجر کی، ایسے ہی تلاوت ہے۔
ہم نے اپنے اکابر کو دیکھا کہ بہت مصروف ترین لوگ، جن پر امت کی ذمہ داریوں کے بڑے بڑے بوجھ تھے، ان کے مقابلے میں ہم سب فارغ لوگ ہیں، ان حضرات کا یومیہ قرآن کریم تلاوت کا معمول کم از کم پانچ سپارے تھا، ہمارے حضرات والد صاحب نوَّر اللہ مرقدہ ترغیب کے طور پر فرمایا کرتے تھے کہ بھائی پانچ نمازیں ہیں، فجر میں ایک سپارہ، ظہر میں ایک سپارہ، عصر میں ایک سپارہ، مغرب میں ایک سپارہ، عشاء میں ایک سپارہ، پانچ نمازیں ہو جائیں گی اور پانچ سپارے تلاوت ہو جائیں گے۔
پھر فرماتے تھے کہ اس کو آپ اور بھی آسان کر سکتے ہیں کہ آدھا سپارہ فجر سے پہلے پڑھیں، پتہ بھی نہیں چلے گا، اگر کوئی رواں قرآن کریم پڑھتا ہے ناظرہ، تو اس سے عام طور بیس منٹ لگتے ہیں، تو دس منٹ فجر سے پہلے، دس منٹ فجر کے بعد، ایک سپارہ ہوگیا۔
دس منٹ ظہر سے پہلے دس منٹ ظہر کے بعد، دس منٹ عصر سے پہلے دس منٹ عصر کے بعد، آپ کی نہ تعلیم، نہ کھیل، نہ مصروفیات، کوئی چیز متأثر نہیں ہوگی اور آسانی کے ساتھ آپ کے یومیہ پانچ سپارے ہوجائیں گے۔
لیکن یہ کب ہوگا؟ یہ تب ہوگا جب نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دوستی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوگا اور جب تلاوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے قرب کی جستجو اور فکر ہوگی، موقع بموقع روزہ رکھنے کی عادت ہوگی، مثلاً پیر اور جمعرات کا روزہ ہے، مثلاً ایام بیض کے تین روزے تیرہ، چودہ، پندرہ جو چاند کی تاریخیں ہیں، ان کا روزہ ، مثلاً زکوة فرض نہیں ہے تو کچھ نہ کچھ صدقہ اور خیرات- اور صدقہ اور خیرات میں یہ اصول یاد رکھیں، ہمارے ہاں عام طور پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ صدقہ تو امیر آدمی کا کام ہے، میں تو غریب آدمی ہوں، آپ پانچ روپے صدقہ کرسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کمیت کو نہیں دیکھتے، کیفیت کو دیکھتے ہیں، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گھر کا سارا مال جمع کر کے ایک پوٹلی لائے اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے مال کا آدھا لائے، تو اللہ تعالیٰ نے ترجیح کس کو دی؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال کو زیادہ پسند فرمایا، کیوں کہ وہ اتنا سا تو تھا، مگر وہ ان کا کل مال تھا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا صدقہ بہت زیادہ تھا، لیکن وہ ان کا آدھا مال تھا، چناں چہ آپ کے پاس پانچ روپے ہیں، آپ پانچ روپے صدقہ کریں، آپ کے پاس دس روپے ہیں، آپ دس روپے صدقہ کریں، عادت تو ڈالیں، صدقہ کرنے کی کوشش تو کریں ، صدقہ بلاوٴں کو ڈالتا ہے۔ (قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باکروا بالصدقة، فإن البلاء لا یتخطی الصدقة․ شعب الإیمان للبیہقی، التحریض علی صدقة التطوع، رقم ۳۰۸۲)
اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ پانچ لاکھ صدقہ کریں، نہیں، جو آپ کی حیثیت ہے، ان تمام چیزوں کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نماز اگر بے روح ہے، روزہ اگر بے روح ہے، تلاوت اگر بے روح ہے اور اسی طرح سے حج اور زکوة اگر بے روح ہے تو وہ جسم تو ہے، جیسے آدمی ہے اور اس کی روح نکل چکی ہو، تو ایسے آدمی کا اعتبار نہیں ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ایسے ہی یہ اعمال اگر بغیر روح کے ہیں تو پھر یہ اعمال فواحش سے نہیں روکتے، پچاس سال سے نماز پڑھ رہا ہے، لیکن جھوٹ بول رہا ہے، پچاس سال سے نماز پڑھ رہا ہے، لیکن بد نظری کر رہا ہے، غیبت کر رہا ہے، تو یہ نماز اس کو ان گناہوں سے کیوں نہیں روک رہی؟ اس لیے نہیں روک رہی، کیوں کہ نماز کے اندر روح نہیں ہے، اسی طریقے سے اور اعمال ہیں، تو تمام کے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوتے ہیں اس وقت جب ان کے اندر روح ہو اور روح پیدا کرنے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے، ریاضت کرنی پڑتی ہے، کوشش کرنی پڑتی ہے، جیسے دنیا کے چھوٹے چھوٹے کام سیکھے بغیر نہیں آتے، ایسے ہی اتنا بڑا کام جس کے ذریعے سے اللہ تعالی سے ملاقات ہو، جس کے ذریعے معراج حاصل ہو، اللہ کا قرب حاصل ہو، تو ہم یہ سمجھیں کہ یہ بغیر محنت کے ہو جائے گا، ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم وتب علینا انک أنت التواب الرحیم․