انسانی سماج
سماج انسانی افراد کے اس مجموعہ کا نام ہے جو آپس میں کسی ربط کی بنیاد پر زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ایک لسانی وحدت کے ساتھ عمل پیرا ہوتا ہے۔ سماج کا قیام ایک فطری ضرورت ہے۔جس سے مفر ممکن نہیں کیوں کہ ایک انسان تنہا اور بلا کسی دوسرے کی مدد اور تعاون کے راحت اور خوبی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کو اپنی زندگی کو آسان اور قابلِ اعتماد بنانے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلا کھانے ہی کو لیجیے ۔ یہ روٹی جو ہم کھاتے ہیں ، اس کے روٹی بننے کے لیے کتنے ہاتھوں اور کتنے انسانوں کی محنت اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ زمین جو تنے والا کسان اورہل بنانے والا انسان جس سے کسان کھیت جوتا ہے، پھر غلہ کو آٹا بنانے کے لیے سل یا چکی بنانے والا انسان، پھر اس کو بازار میں لانے اور فروخت کرنے والا انسان، پھر لکڑی اور آگ مہیا کرنے والا انسان ، ان سب کے تعاون و تعامل کے بعد کھانے والے انسان کی روٹی تیار ہوتی ہے۔ اسی طرح لباس، مکان اور دیگر ضروریات زندگی، جس کی فہرست انسان کی زندگی کی وسعت اور تنگی کے لحاظ سے طویل یا مختصر ہوتی ہے، اسی طرح کے واسطوں در واسطوں کی محتاج ہوتی ہے اور اس سلسلے میں آپس کے تعاون ویکجہتی سے انسانی معاشرہ یا سماج بنتا ہے، جو زندگی کو مفید طریقوں کے مطابق ڈھالتا ہے اوراپنے ارد گرد کی سہولت اور وسائل سے حسب ضرورت فائدہ اٹھاتا ہے۔
عمل ِ تعلیم
پھر انسان اپنی زندگی کے تعاون و استفادہ، نیز مطالعہ و تجربہ سے حاصل کردہ فوائد کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے باقی رکھنا چاہتا ہے، تا کہ محنت و حصول تجربہ کے اس حصہ سے وہ مستغنی ہوسکیں جو انجام پا چکا ہے اور حصول تجربہ اور معلومات کے عمل کو اس کے آگے انجام دے سکیں ، اس کے لیے سالوں میں سکھانے اور تعلیم دینے کا عمل اختیار کیا جاتا ہے، جو در حقیقت تربیت و پرداخت کا ایک عمل ہے، جو انسانی افراد ایک متعین رجحان و ذوق کے لحاظ سے انجام دیتے ہیں۔
بے ضابطہ طریقہ سے تعلیم
ہم کو تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کے معاشرہ بننے کے بعد ہی سے سیکھنے سکھانے کا یہعمل شروع ہو جاتا ہے، چناں چہ سلیقہ مندوں ، تجربہ کاروں اور عمل پیرا لوگوں کو ان کے معاشرہ کے کم عمر ناواقف لوگ دیکھ دیکھ کر ان کی سلیقہ مندی اور تجربہ کاری اور عملی اندازوں کا کچھ نہ کچھ حصہ، کسی نہ کسی حد تک، خود بہ خود یا بالا رادہ حاصل کر لیا کرتے ہیں، اس اخذ و استفادہ کے لیے صرف عام عقل انسانی کا استعمال کافی ہو جاتا ہے اور یہ انسانی عقل ہمہ وقت انسان کے ساتھ رہتی ہے اور کام کرتی رہتی ہے۔ گھر میں بچے اپنی ماں کو، اپنے باپ کو مختلف کام اور انداز اختیار کرتے دیکھتے ہیں ، نیز ان کے والدین یا بڑے اپنے چھوٹوں اور نا واقف لوگوں کو بعض ایسے پہلوؤں کی طرف جو مخفی محسوس ہوتے ہیں راہ نمائی کرتے ہیں اور اس طرح خود بخود سیکھنے سکھانے کا عمل جاری ہو جاتا ہے، اور یہی دراصل بے ضابطہ تعلیم کی ایک شکل ہے۔
تعلیم بے ضابطہ سے با ضابطہ کیسے بنی؟
پھر یہی بے ضابطہ تعلیمی طریقہ باضابطہ تعلیم کی اساس اور بنیاد بنتا ہے اور وہ اس طرح کہ معاشرہ انسانی میں ہنر اور کام جیسے جیسے وسیع ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ نو عمر اور نا واقفوں کو بتانے اور سکھانے کی طرف توجہ کی جائے اور خصوصی راہ نمائی کی جائے۔ اسی سے باضابطہ تعلیم کا نظام وجود میں آیا ہے۔
با ضابطہ تعلیم کا آغاز
با ضابطہ تعلیم کی ابتدا کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کی باضابطہ شکل کا آغاز عبادت گاہوں ، مسجدوں اور مذہبی حلقوں سے ہوا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا کہ جب لکھنے پڑھنے کے رواج کے ہونے نہ ہونے سے قطع نظر عبادت کے نگرانوں، دینی و اخلاقی کام کے کوشاں اور دعوت و اصلاح کے حاملین اپنے اپنے معاشروں میں دینی اور اصلاحی معلومات وتعلیمات پیش کرتے اور اپنے اپنے معاشروں کو ان امور سے واقف کراتے تھے۔ ان کی مجلسوں کو، خواہ مدرسہ کی چٹائی، اسکول کی تپائی یا نصاب و نظام تعلیم کا بندھا ٹکا انتظام نہ ملا ہو، لیکن بندھے ٹکے نظام کے تحت مذکوربالا مقاصد کے سلسلے میں جو نتائج برآمد ہو سکتے تھے اس سے بہتر یا اس کے مساوی ضرور حاصل ہوتے رہے۔ پھر اسی تربیت و وعظ کے کام نے تربیت و تعلیم کی شکل اختیار کی ، تعلیم کے گرد تعلیمی حلقے بننے لگے اور کتابوں کی مدد سے معلمین باضابطہ طریقہ سے اس کام کو انجام دینے اور اس کی بتدریج بہترسے بہتر صورتیں اختیار کرتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے یہاں اس کی ابتدا” صفہ نبوی “سے ہوئی ، پھردینی تعلیم کے مرکزوں سے اس کی توسیع و ترقی ہوئی ۔ مراکش کے فاس شہر میں جامع القروین اور تونس میں جامع زیتونہ اور قاہرہ میں جامع ازہر، جن میں سے ہر ایک کی تاریخ ہزار سال سے زیادہ ہے، سب مسجدیں ہیں، جن میں دینی تعلیم شروع کی گئی اور اسی سے یہ عظیم تاریخی یو نیورسٹیاں بنیں۔ انگلستان میں آکسفورڈ، کیمبرج، فرانس میں سوربون یونیورسٹی سب گرجوں کے مدرسوں سے شروع ہوئے اور آج وہ عالمی سطح کی یونیورسٹیاں ہیں۔
قرآن وحدیث سے تعلیم کی ہمت افزائی
مسلمانوں کے لیے تو اخلاق و شرافت انسانی اور روحانیت اور مذہبی معلومات کے مضامین پر قرآن مجید سے زیادہ اہمیت اور اثر پذیری رکھنے والی کوئی کتاب نہیں ، اس میں جگہ جگہ علم کی تعر یف آئی ہے اور علم وتعلیم کا تذکرہ تعریفی انداز سے کیا گیا ہے ،فرمایا:” انما یخشی الله من عبادہ العلماء، ان الله عزیز غفور“ یعنی اللہ سے اس کے بندوں میں سے اصحاب علم ہی ڈرتے ہیں،بے شک اللہ غالب ہے اور مغفرت کرنے والا ہے۔ اور حضور صلی الله علیہ وسلم کو پہلی وحی کی ابتدا اقرا ء کے لفظ سے کی گئی۔ پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث شریفہ کی مدد سے مسلمان طالبین علم کو تعلیمی سرمایہ خوب ملا اور طالب علم کی ہمت افزائی بھی فرمائی گئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مسجد میں اسلام کا پہلا مدرسہ یعنی” صفہ“کی درس گاہ بنی ، جس سے عالم اسلام کے تمام مدر سے اور جامعات کا سلسلہ ملتا ہے۔
علم کے اسلامی معنی
حضور صلی الله علیہ وسلم نے علم کی ترغیب واہمیت میں یہ فرمایا کہ:”ان الملائکة لتضع اجنحتہا لطالب العلم رضا بما یطلب“ لیکن جس طرح ہر لفظ کو اس کے خاص دائرہ استعمال کے اندررکھتے ہوئے متعین کیا جاتا ہے، مثلاً ایک کسان جب معلومات کا لفظ استعمال کرے گا تو اس کے دائرہ زراعت و زمین سے متعلق معلومات مانی جائیں گی۔ اسی طرح مذکورہ بالا حدیث میں علم سے مراد وہ علم سمجھا جائے گا جو قرآن وحدیث کی راہ نمائی اور مدد سے حاصل ہوتا ہے۔
بکثرت مذہبی پیشواؤں ، قومی راہ نماؤں ، مربیوں اور معلموں نے تعلیم و تربیت کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ قرآن وحدیث میں تو اس کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ” بلغوا عنی ولو آیة“ کہ میری طرف سے بات پہنچا دو ،خواہ وہ صرف ایک ہی آیت ہو۔
ہر معاشرہ میں تعلیم کی فکر ہوتی ہے
انسان نے اپنے سماج و معاشرہ کی بقا اور تحسین و ترقی کے لیے باقاعدہ تعلیم کے ذرائع تقریباًہر زمانہ میں اختیار کرنے کی کوشش کی ہے اوراپنی صلاحیت علمی کے مطابق ان ذرائع کو مبہم وبے قاعدہ شکلوں سے متعین اور باقاعدہ شکلوں میں منتقل کیا ہے اور اپنے تعلیمی عمل کو بہتر طریقہ سے انجام دے کر سماج کی زندگی کو ترقی دی ہے اور جن معاشروں اور سماجوں نے تعلیم کو بے توجہی کا شکار ہونے دیا، وہ خاطر خواہ اور نمایاں فائدہ اٹھانے اور ترقی و طاقت کی منزلوں سے قریب تر ہونے میں کام یاب نہ ہوسکے ۔
موجودہ ترقی یافتہ یورپ و امریکہ کی ترقی و طاقت کی نشاة ثانیہ جب شروع ہوئیجب اس نے علم کی طرف توجہ اختیار کی، یورپ نے علم وتعلیم کی سر پرستی اور توجہ مسلمانوں کے اندلسی تمدن سے لی۔ جس میں مسلمانوں کے اپنے علوم و تجربات کے ساتھ قدیم یورپ کے علوم و تجربات کا بھی ایک حصہ تھا، جس کو مسلمانوں نے اپنے دنیاوی علوم کا ایک جز بنایا اور ان سے استفادہ کیا تھا۔ یورپ نے مسلمانوں سے اخذ کئے ہوئے اصول و معلومات کو بنیاد بنا کر، اس میں نئے تجربات کیے اور دنیاوی اور مادی علم وتعلیم کو آگے بڑھایا۔ حتی کہ موجودہ مادی دنیا کے استاد کا درجہ حاصل کر لیا۔ اور یہ افسوس ناک اتفاق ہے کہ یورپ کی ترقی کا زمانہ جو سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہوا مسلمانوں کی غفلت اورانحطاط کا زمانہ رہا ،جس کی وجہ سے دنیا کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر یورپ کی قوموں کے ہاتھوں میں منتقل ہوئی۔ ورنہ موجودہ مغربی تمدن سے قبل مسلمانوں کا تمدن ہی وہ تمدن تھا جس نے دنیا کے بیشتر آباد حصوں میں گہرا اثر ڈالا تھا اور مسلمان علمائے فلاسفہ نے اساتذہ وقت کا کردار انجام دیا تھا۔
مسلمانوں میں عمل تعلیم
مسلمانوں کے تعلیمی عمل کی ابتدا اسلام کی ابتدا کے ساتھ ہوئی ہے۔ ان کو قرآن مجید کی صورت میں معلم اعظم ملا تھا، جس نے نہ صرف ان کو بلکہ ساری انسانیت کو تہذیب و تمدن، علم و انسانیت کے صالح اورصحیح اصول بتائے اور ان پر عمل کرنے کی راہیں بھی تجویز کیں۔ پھر مسلمانوں نے قرآنی علم حاصل کرنے کے بعد دیگر قوموں کے حاصل کردہ معلومات اور ان کے علوم کا مطالعہ بھی کیا اور ان کے علمائے فلاسفہ کے خیالات کا جائزہ لیا اور ان سے حسب ضرورت فائدہ اٹھایا، پھر اس میں بیش قیمت اضافہ کیا، جس سے وہ نئی شکل میں ڈھل گئے ۔
یورپ بعد میں بیدار ہوا، چناں چہ اس نے اپنے مغربی علم و تمدن کی بنیاد مسلمانوں کے علم و تمدن پر رکھی، کیوں کہ مسلمان ہی اس کے قریبی قابل تقلید پیش رو تھے۔ لیکن قومی و وطنی عصبیت کی وجہ سے اپنا رشتہ تاریخ قدیم کے مغربی تمدنوں سے جوڑا اور روح اور مزاج انہی سے اخذ کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں قدیم رومی تہذیب اور یونانی فلسفے پر اپنی اخلاقی و تہذیبی زندگی کی بنیاد رکھی۔
یورپ سے استفادہ مغربی علم سے استفادہ
زندگی کے تجرباتی علوم میں ترقی اور کام یابی سے یورپ کو دنیاوی زندگی میں طاقت ملی اور اس کو مادی زندگی کے متعدد میدانوں میں غلبہ حاصل ہوا، اس کی وجہ سے دیگر قوموں کو جن میں مسلمان بھی ہیں ان علوم وتجربات اور کام یابیوں کا جائزہ لینے اور قابل استفادہ گوشوں میں استفادہ کرنے کی ضرورت پیش آئی، خاص طور پر اس لیے کہ مسلمانوں کی آخری صدیاں انحطاط اور علمی جمود میں گزریں، جس کی وجہ سے ہم ایک طرف دین اخلاق اور ان کی صفات اور اعلی نظریات میں اپنے اسلاف کے علوم و تجربات سے فائدہ اٹھانے کے ضرورت مند ہیں تو دوسری طرف دنیاوی ترقی و تمدن کے لیے ان انکشافات و تحقیقات سے فائدہ اٹھانے کی بھی ضرورت رکھتے ہیں جو ہمارے اسلاف کی کوششوں کے بعد ظہور میں آئیں اور جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس طرح ہمارے سامنے قابل استفادہ دو دورہیں، ایک ہمارے اسلاف کا اور ایک اغیار کا اور:”الحکمة ضالة المؤمن این وجدہا فہو أحق بہا“ کے اصول پر ہم کو سب سے فائدہ اٹھانا ہے، چناں چہ وسائل وطریقہائے تعلیم میں بھی جو مفید اور صالح اجزاء یورپ کے ماہرین علم تعلیم کے تجربے میں آئے ہیں ان سے بھی ہم کو فائدہ اٹھانا ہے۔
تعلیم اور اجتماعی زندگی کا ایک دوسرے پر اثر
تعلیم کا زندگی سے گہرا تعلق ہے ،دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرتے ہیں۔ تعلیم کے طریقے اور مضامین انھیں ذہنوں کی پیداوار یانتیجہٴ فکر ہوتے ہیں ،جو معاشرہ کے مختلف طبقات سے ابھرتے ہیں اور اپنے اپنے خیالات، مزاج اور افکار سے علیحدہ نہیں ہو سکتے ، وہ جو بھی نظام بناتے یا چلاتے ہیں اس میں ان کے اپنے ماحول سے اخذ کیے ہوئے احساسات و تصورات شعوری ولا شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس طرح پر ماحول میں طبقات کا غلبہ اور جن خیالات کا رواج ہوتا ہے وہ شعوری ولاشعوری طور پر اس ماحول کے نظام کے مقاصد و مضامین تعلیم میں سرایت کرتے ہیں۔
اسی طرح تعلیم بھی زندگی پر اثر ڈالتی ہے ، اس کا اثر بھی زیادہ اور ہمہ گیر ہوتا ہے ۔یوں تو با ضابطہ تعلیم اگر چہ معاشرہ کے ایک خاص طبقہ کو دی جاتی ہے ،یعنی کم عمر طبقہ اور بچوں کو، لیکن نتیجتاً وہ پورے معاشرہ پر محیط ہو جاتی ہے۔
اس کی وضاحت اس طور پر کی جاسکتی ہے کہ ہم جس نسل کو تعلیم دیتے یا دلواتے ہیں یہ نسلزیادہ سے زیادہ 20 سال کی مدت میں معاشرہ میں اپنی کمزور ترین و بے اثر سطح سے نکل کر معاشرہ کی موثرترین سطح پر آ جاتی ہے۔ وہ سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، یعنی جوان طبقہ، جو سماج کی ہر قوت و اہمیت کی ذمہ داری کا حامل بنتا ہے۔
اکبرالہ آبادی نے اس لحاظ سے تعلیم کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا۔
وہ قتل سے بچوں کے یوں بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یعنی اگر وہ بنی اسرائیل کے شیر خوار بچوں کو قتل کرنے کے بجائے ان کی تعلیم کا بندوبست کر دیتا ،جو قبطی اور فرعونی ذہن کے اساتذہ دیتے اور فرعونی ذہن کا نظام اور انتظام ہوتا اور مقاصد تعلیم بھی اس ذہن کے مطابق ہوتے تو پھر وہ بچے بڑے ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے بجائے فرعون کے مقاصد کے کام بن جاتے اور بغیر قتل کے نتیجہ قتل حاصل ہو جاتا، ایک مثال ہندوستان میں جب ہندی کا اجراء کیا گیا تو ہندی کی اس وقت کی حیثیت و حالت کو دیکھتے ہوئے لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن جب 30-25 سال مسلسل اس کی تعلیم دی گئی تو آج یہ نوبت آ گئی کہ وہ سماج کی اصل زبان بن گئی اور اب وہی ہندوستانی معاشرہ کی زبانِ اول ہے۔
اصول و مزاج سمجھنے کی ضرورت
اس بنیاد پر تعلیم ، نظام تعلیم ، نظریات تعلیم کی معاشرہ کی تربیت وتشکیل میں بڑی اہمیت ہے۔ اسی سلسلہ میں معاشرہ کے مزاج اور طبقات کے لحاظ سے تعلیم کی تفصیل کو اور اس سلسلہ میں سابق اہل علم تجربات وخیالات و معلومات کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم کے سلسلہ میں ہم کو اولاً باضابطہ تعلیم یعنی مدرسہ کے کام اور مقام کو اور اس کے اجزائے ترکیبی، یعنی طلباء اور مواد تعلیم، نیز نظریات تعلیم کے جاننے کی ضرورت ہے اور معاشرہ کے سلسلے میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گھر یلوزندگی کا تعلیمی کام کے سلسلہ میں کیا درجہ و مقام ہے، پھر مذہبی ذرائع کا تعلیمی لحاظ سے کیا اثر ہوتا اور ہو سکتا ہے۔ مقاصد تعلیم میں بھی متعدد پہلو آتے ہیں، مثلاً قومی ، جمہوری ، اخلاقی اور مقاصد حکومت و سیاست، ذرائع نشر و اشاعت کی ترقی سے پیدا ہونے والے اثرات و فوائد، نیز دیگر ذرائع و مقاصد تعلیم قابل مطالعہ و استفادہ ہیں۔
نیز یہ بھی جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ تعلیم و تربیت میں مخاطبین کا ذوق و مزاج، ان کی نفسیات اورشعوری کیفیات کیا ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں اور ان کا تعلیمی کام پر کتنا اور کیا اثر پڑتا اور پڑ سکتا ہے۔