دینی کام کرنے والوں کے لئے رجوع الی اللہ کی ضرورت

idara letterhead universal2c

دینی کام کرنے والوں کے لئے رجوع الی اللہ کی ضرورت

استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان

دین کو عام زندگی میں لانے کے لیے آج مختلف پہلووٴں سے تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، علماء نے مدارس قائم کیے ہیں، تبلیغ کی محنت الحمد للہ زوروں پر ہے، جہاد کے پہلو سے بھی محنت ہو رہی ہے، بعض اہل خیر اپنا مال بھی خرچ کر رہے ہیں اور ان تمام محنتوں میں الحمد للہ بے تحاشہ اضافہ بھی ہوا ہے اور ہورہا ہے، لیکن کام پھر بھی پورا نہیں ہو رہا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ تو کچھ بھی ہو، لیکن ہمیں جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ انابت الی اللہ اور تعلق مع اللہ میں کمی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا دل دعا اور استغفار میں نہیں لگتا۔

انبیاء علیہم السلام کے معاملات ہمارے سامنے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کام یابیاں دی گئیں وہ بھی ہمیں معلوم ہیں، غزوہٴ بدر کا واقعہ اور کام یابی ہمارے سامنے ہے، لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا میں انہماک بھی ہمارے سامنے ہونا چاہیے کہ دعا مانگنے میں ایسی کیفیت تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی ترس آیا اور فرمایا کہ ”حسبک یا رسول اللہ“․ (صحیح بخاری، باب غزوة البدر، حدیث نمبر 3953)

یعنی بس کریں یا رسول اللہ! اتنا ہی کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زار وقطار روتے رہے اور اللہ سے مانگتے رہے، آج ہماری دعا رسم بن گئی ہے، ہم دعا پڑھ کے اللہ کو سناتے ہیں، مانگنے کی کیفیت نہیں ہوتی ، اس طرح دعا نہیں کی جاتی جس طرح اس کا حق ہے۔

آج پوری امت ذلت وخواری میں مبتلا ہے، حالاں کہ ذلیل یہودی ہونے چاہییں، ان کے لیے فرمایا گیا ہے ﴿وبآء وا بغضب من اللہ﴾ یعنی یہود اللہ کی طرف سے غضب میں مبتلا ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ذلت کی زندگی میں رہیں گے، لیکن آج معاملہ الٹ ہے، یہ تو صحیح ہے کہ اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا چاہیے، لیکن یہ کہاں صحیح ہے کہ اس کے لیے فکر نہ کی جائے؟ مقصد یہ ہے کہ ہم ادھورے مسلمان کامل موٴمن بن جائیں، اصل مرض یہی ہے کہ ہمارے اعمال رسم بن گئے ہیں اور ان میں نفسانیت بہت آگئی ہے۔

ہمارے اسلاف کے لیے اللہ نے دین پر چلنا بہت آسان کردیا تھا، اس کی وجہ یہی تھی کہ ان میں فنائیت للہ کی صفت کامل طور پر موجود تھی۔

مجالس علم و ذکر سے متعلق