امّ المومنین سید ہعائشہ صدیقہ رضی الله عنہا تمام ازواج مطہرات میں ایک خاص مقام رکھتی تھیں ، آپ کومجتہد صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے، بلکہ اصحاب رسول کو جب کسی مسئلہ میں مشکل پیش آتی تو آپ کے در اقدس پہ حاضر ہوتے اور اپنے مسائل پیش کرتے ، آپ رضی الله عنہا ان کا تشفی بخش جواب عنایت فرماتیں۔ ایک کثیر جماعت صحابہ و تابعین کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ کبار صحابہ کرام و صحابیات علیہم الرضوان کو آپ پر حد درجہ اعتماد تھا۔ مختلف علوم پر آپ کو مکمل دست رس تھی۔ آپ کے مایہ ناز شاگرد، بھانجے اور تربیت یافتہ حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے:”مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَا بِفَرِیضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَلَا بِفِقْہٍ وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا بِطِبٍّ وَلَا بِحَدِیثِ الْعَرَبِ وَلَا نَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ “․
( تذکرة الحفاظ )
ترجمہ: میں نے قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا عالم سیدہ عائشہ رضی الله عنہاسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ طبقات ابن سعد میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ” میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے زیادہ نہ کسی کو سنت رسولصلی الله علیہ وسلم کا عالم دیکھا، نہ کسی ایسے معاملے میں جس میں رائے کی حاجت ہو، ان سے زیادہ کسی کو فقیہ دیکھا اور نہ کسی آیت کے شان نزول میں ان سے زیادہ عالم دیکھا اور نہ فرائض میں کسی کو آپ سے بڑھ کر پایا ۔“
اسی طرح عطا بن ابی رباح یہ فرماتے ہیں:
”کَانَتْ عَائِشَةُ أَفْقَہَ النَّاسِ وَأَعْلَمَ النَّاسِ وَأَحْسَنَ النَّاسِ رَأْیَا فِی الْعَامَّةِ “․
یعنی ”عام معاملات میں حضرت عائشہ رضی الله عنہاسب سے بڑھ کر فقیہ ، سب سے بڑی عالمہ اوررائے و مشورہ میں سب سے بڑھ کر تھیں۔“
امام زہری ان تمام باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
”لوجمع عِلْمُ النَّاسِ کُلہم ثُمَّ عِلمُ أَزْوَاجِ النَّبِی صلی الله علیہ وسلم فَکَانت عائشة وُسْعٰہم علما“․(طبقات ابن سعد ، الإصابة فی تمییز الصحابة)
اگر تمام مردوں اور امہات المومنین کا علم ایک جگہ جمع کیا جائے تو حضرت عائشہ ہی کا علم سب سے وسیع تر ہوگا ۔
امام زہری رحمہ الله کا مقام اور مرتبہ کسی سے مخفی نہیں، ان کا قول سیدہ عائشہ کے بارے میں ایک حجت کا درجہ رکھتا ہے۔
علامہ ذہبی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ سیدہ صدیقہ علم کا بحر بے کنار تھیں۔ (تذکرة الحفاظ)
فقیہہ امت
ابن سعد نے محمود بن لبید سے روایت کیا ہے کہ:”ازواج نبی صلی الله علیہ وسلم نے کثیر احادیث حفظ کیں ، مگر نہ عائشہ ، ام سلمہ کے برابر“۔
سیدہ عائشہ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے عہد میں اپنی وفات تک برابر فتوی دیتی رہیں، ان پر اللہ کی رحمت ہو، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکے بعد آپ کے پاس اکابر صحابہ حضرت عثمان ، حضرت عمر رضی الله عنہما آدمی بھیج کراحادیث دریافت کیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے دور خلافت میں بھی فتوی دیتی تھیں۔(طبقات ابن سعد )
آپ کے تبحر علمی کے سبھی اصحاب پاک نا صرف معترف تھے، بلکہ اکابر صحابہ کرام کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہے اور مشکل مسئلہ میں آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا، گویا کہ وصالِ نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد آپ نے اُمت کی ہمیشہ راہ نمائی فرمائی ہے۔
حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوری رحمہم الله رقم طراز ہیں:
”حضرت عائشہرضی الله عنہاسے اکابر صحابہ کی ایک جماعت نے تفقہ حاصل کیا ہے اور روایت کی ہے۔
ان میں عمرو بن عاص ، ابو موسیٰ اشعری ، زید بن خالد جہنی ، ابو ہریرہ ، ابن عباس ، ربیعہ بن عمرو جوشی ، سائب بن یزید ، حارث بن عبداللہ بن نوفل وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ اور اکابر تابعین میں سعید بن مسیب ، علقمہ بن قیس ، عمرو بن میمون، مطرف بن عبد اللہ بن خیر ، مسروق بن اجدع ،اسود بن یزید نخعی کے علاوہ بہت بڑی جماعت ہے“۔ (خیر القرون کی درس گا ہیں، صفحہ نمبر:125)
کثیر الروایة
علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ:آپ کو آٹھ برس اور پانچ ماہ نبی کریم اکی صحبت و رفاقت میں رہنے کا شرف حاصل ہے۔(تذکرة الحفاظ )
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا شمار کثیر الروایہ صحابہ میں ہوتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں آپ کی مرویات کی تعداد2434 درج ہے، اس میں تکرار کو شمار کیا گیا ہے ۔ بغیر تکرار کے محدثین نے آپ کی مرویات کی تعداد2210 نقل کی ہے، جن میں 74 احادیث متفق علیہ،54 احادیث میں امام بخاری منفرد ہیں اور68 احادیث میں امام مسلم منفرد ہیں۔ بعض علماء نے آپ کو کثیر الروایہ صحابہ میں چوتھے، بعض نے چھٹے اور بعض نے ساتویں نمبر پر شمار کیاہے۔
حضرت مولانا سید سلیمان ندوی آپ کا علمی مقام ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
”روایات کی کثرت کے ساتھ ساتھ تفقہ اور قوت استنباط کے علاوہ سیدہ عائشہ کی روایتوں کی ایک خاص خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جن احکام اور واقعات کو نقل کرتی ہیں ، ان کے علل و اسباب بھی بیان کرتی ہیں۔ وہ خاص حکم جن مصلحتوں پر مبنی ہوتا ہے، ان کی تشریح کرتی ہیں“ ۔ (سیرت عائشہ)
علم الفرائض
علم الفرائض کو نصف علم قرار دیا جاتا ہے، قدرت نے آپ کو اس سے بھی حظ وافر عطا فرمایا تھا۔ آپ نے صحبت و رفاقت نبی صلی الله علیہ وسلم سے خوب خوب استفادہ کیا ، پھر اسے اُمت کو منتقل کرنے میں حق ادا کر دیا۔ ابن سعد مسروق سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:ان سے کہا گیا کہ کیا حضرت عائشہ فرائض اچھی طرح جانتی تھیں ؟ انہوں نے کہا:کیا خوب!قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے انہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب کی استانی دیکھا ہے کہ اکابر صحابہ کرام ان سے فرائض پوچھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد، الاستیعاب)
دیگر علوم
علم الانساب تو گویا آپ کو وراثت میں ملا تھا،کیوں کہ سید نا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ علم الانساب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، علم کلام کے بارے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا، جن میں رؤیت باری تعالیٰ، عصمت انبیائے کرام علیہم السلام اور سماع موتی پر آپ کے نظریات و خیالات سے منتظمین کو راہ نمائی ملتی ہے۔ علم تاریخ میں ہشام نے اپنے والد عروہ کا جو قول نقل کیا ہے وہ کافی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ:”تاریخ و انساب میں آپ رضی الله عنہ سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہ تھا۔“
حضرت عروہ کہتے ہیں کہ: میں نے فقہ ، طب اور شعر میں حضرت عائشہ سے زیادہ علم والا نہیں دیکھا۔
اشعار کے بارے میں حضرت عروہ ہی کے بارے میں ابن عبد البر نے الاستیعاب میں لکھا ہے کہ:ابوز ناد کہتے ہیں کہ میں نے اشعار کے حفظ کے بارے میں حضرت عروہ جیسا کسی کو نہیں دیکھا، ان سے پوچھا گیا: اے ابوعبداللہ!یہ اشعار آپ کو کس نے یاد کروائے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مجھے صرف وہی اشعار آتے ہیں جو میں نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے سنے ہیں، وہ بر موقع شعر سنایا کرتی تھیں ۔ (الاستیعاب لابن عبد البر )
آپ کو فصاحت وبلاغت میں نمایاں مقام حاصل تھا، اس میں سیدنا عمر اور سیدناعلی رضی الله عنہما کے بعد آپ کا درجہ ہے، آپ کے خطبات اس کی عکاسی کرتے ہیں جن میں جوش خطابت ، فصاحت و بلاغت ، اسرار و اشعار کی آمیزش ہوتی ، جیسا کہ ترمذی میں موسیٰ بن طلحہ کا یہ قول نقل ہے : ”مَارَأَیْتُ أَفْصَحَ مِن عَائِشَة“․
…”میں نے عائشہ سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں دیکھا۔“
تا ہم آپ اشعار نہیں کہتی تھیں ، البتہ شاعرانہ صلاحیت آپ میں خوب تھی ، علاوہ ازیں اللہ نے آپ کو مختلف علوم میں مہارت تامہ عطافرمائی تھی ، جن میں سے چند ہم نے اختصار سے پیش کیے ہیں۔ اسلامی تاریخ، غزوات ، سیر، نزول قرآن کی ترتیب و مقامات ، وحی کی کیفیت اور دیگر واقعات آپ ہی کے ذریعے امت تک پہنچے، آپ کی روایت کردہ احادیث، آپ کے فتاوی اور اقوال آج بھی امت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہیں اور تاقیامت آپ کا یہ فیض جاری و ساری رہے گا۔ استاذ المحدثین نام ور سیرت نگار حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی لکھتے ہیں: ”احکام شرعیہ کا چوتھائی حضرت عائشہ سے منقول ہے۔“ (سیرت المصطفی صلی الله علیہ وسلم ، جلد سوم)