امت میں رائج مہلک منکرات ایک جائزہ

idara letterhead universal2c

امت میں رائج مہلک منکرات ایک جائزہ

مولا نا محمد اسجد قاسمی ندوی

اس وقت پوری دنیا میں مادیت اور شہوانیت کا جو سیلاب آیا ہوا ہے، اس نے تمام اخلاقی قدریں تہ و بالا کر ڈالی ہیں، معاشرتی نظام بے حیائی، بدکاری اور عریانیت کا مرکب بن چکا ہے، اخلاقیات کے نظام کو بے کرداری اور نفع پرستی کے مزاج نے زیروز بر کردیا ہے، معاملات کو سود اور حرام کی زنجیروں نے کچھ اس طرح چوطرفہ جکڑ رکھا ہے کہ امانت و دیانت ، صداقت و راستی اور خیر خواہی کے اوصاف آخری سانس لے رہے ہیں۔

انحراف اور بگاڑ کا یہ سیلاب پورے عالم میں آیا ہوا ہے اور مشرق ومغرب، عرب و عجم ، شہرود یہات ، کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔ احادیث کی صراحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی خطے یا معاشرے پر اللہ کی طرف سے اجتماعی قہر و عذاب کا نزول تین گناہوں کے رواج عام کے نتیجے میں ہوتا ہے: 1.. سود خوری 2.. زنا اور بد کاری 3.. زکوٰة کی ادائیگی میں مجرمانہ کوتاہی۔

ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے:جب کسی قوم میں سود اور زنا عام ہو جا ئیں تو وہ اپنے کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا لیتی ہے۔ (المستدرک:2/37)

آج یہی صورت حال ہمارے سامنے ہے ، سودی لین دین اور بدکاری کے فروغ نے وہ شکلیں اختیار کر لی ہیں کہ ان کا تصور بھی لرزہ طاری کر دیتا ہے ، اسی طرح زکوة کے تعلق سے مجرمانہ غفلت اور کوتاہی کی عام فضا بنی ہوئی ہے، ہماری انھیں بداعمالیوں کا خمیازہ قدرتی آفات کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

سود خوری کی و با عام

احادیث کی صراحت کے مطابق کسی قوم، خطے اور معاشرے پر اجتماعی آفت و عذاب کے آنے کا ایک بنیادی سبب سودی کاروبار اور سودی لین دین کا عام چلن ہے۔

شریعت نے حرام کاموں اور گناہوں کی جو تفصیل بتائی ہے، اس میں سود کا گناہ سر فہرست ہے، قرآن وحدیث میں سود کی شناعت و قباحت کے تعلق سے ایسے ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جو لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔

سورة البقرہ میں سود کی حرمت اور اس سے اجتناب کے حکم کے بعد ارشاد فرمایا گیا:﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ﴾ (البقرہ،آیت:279) ترجمہ:اگر تم سود کا کاروبار نہیں چھوڑو گے تو تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔

غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے شرک کے بعد بڑے سے بڑے گناہ کے بارے میں بھی اتنے سخت الفاظ اور اتنا سخت لب ولہجہ استعمال نہیں کیا، جتنا سخت لب ولہجہ لفظ سود کے بارے میں استعمال کیا ہے ، ”اعلان جنگ“ کے الفاظ انتہائی سخت وعید اور بدترین شناعت کے اظہار کے لیے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص امام مالک بن انس کی خدمت میں آیا اور عرض کیا :میں نے شراب کا ایک ایسار سیا اور نشہ میں چور شخص دیکھا جو چاند کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا ، اس پر میں نے کہا:اگر انسان کے پیٹ میں شراب سے بھی بدتر کوئی چیز اترنے والی ہو تو میری بیوی کو طلاق، آپ نے فرمایا:ابھی لوٹ جاؤ کہ میں تمہارے مسئلہ میں غور کرلوں، وہ دوسرے دن آیا تو بھی فرمایا:ابھی لوٹ جاؤ کہ میں تمہارے مسئلہ میں غور کرلوں، وہ تیسرے دن آیا تو فرمایا: تمہاری بیوی کو طلاق پڑ گئی، اس لیے کہ میں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میں انتہائی غوروتدبر کیا؛ مگر سود سے بدتر کوئی چیز نظر نہ آئی؛ اس لیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔(الجامع لاحکام القرآن :3/364)
سود کی بے برکتی اور نحوست کے وبال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا: ﴿یَمْحَقُ اللَّہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرہ، آیت:276) ترجمہ :”اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے“۔

سود اور صدقہ کی حقیقت، نتائج ، اغراض اور کیفیات سب متضاد ہوتے ہیں، صدقہ میں اپنا مال بلا معاوضہ دوسرے کو دیا جاتا ہے اور سود میں دوسرے کا مال بلا مالی معاوضہ کے لیا جاتا ہے، صدقہ کی غرض رضائے الہی اور ثواب آخرت ہوتی ہے؛ جب کہ سود کی غرض اللہ کے غضب سے نڈر ہو کر اپنی موجودہ دولت میں نا جائز اضافے کی ہوس ہوتی ہے، نتیجہ کا فرق قرآن کی اس آیت نے بتادیا کہ اللہ سود سے حاصل ہونے والے مال کی برکت و خیر مٹا دیتے ہیں؛ جب کہ صدقہ کرنے والے کے مال کو اور اس کی برکت کو بڑھا دیتے ہیں، کیفیات کا فرق یہ ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو متنوع اعمال خیر کی توفیق عطا ہوتی ہے اور سود خور بالعموم محروی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔

ایک حدیث میں فرمایا گیا:”الرِّبَا وَانْ کَثرَ فَانْ عَاقِبَتَہ تَصیر الیٰ قلٍ“ (ابن ما جہ:165، المستدرک:2/37) ترجمہ:سود کا مال اگر چہ بڑھ جائے، مگر اس کا انجام ہمیشہ بے برکتی اور کمی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

سود خور کے مال میں سود کی وجہ سے بہ ظاہر کتنا ہی اضافہ کیوں نہ نظر آتا ہو،لیکن :
1.. سود خور کے مال میں برکت نہیں ہوتی ۔ 2.. ایسے مال میں عام طور سے آفتیں لاحق ہوتی ہیں، نا جائز مصارف میں خرچ ہو جاتا ہے یا کسی ناگہانی آفت و حادثے کی نذر ہو جاتا ہے۔ 3.. سود خور مال کے اصل فوائد، یعنی عزت وراحت سے محروم رہتا ہے، اسے اسباب راحت چاہے جس قدر حاصل ہو جائیں، حقیقی راحت و اطمینان اور سکون کی کیفیات حاصل نہیں ہوتیں، پھر اس کی طبیعت میں سود خوری کی وجہ سے شقاوت ، تنگ دلی، بزدلی، مجنونانہ حرص و ہوس اور دناء ت اور بے رحمی کے جراثیم جڑ پکڑ لیتے ہیں، جس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں اس کی کوئی قدر و منزلت اور عزت و مقام باقی نہیں رہ جاتا۔

سورہ آل عمران میں ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․ ( سورة آل عمران /130)

ترجمہ:اے ایمان والو!کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو ،تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔

اس آیت میں زمانہ جاہلیت میں مروج سود کی ایک خاص صورت کا ذکر بہ طور مثال ہے، ورنہ سود کی حرمت کا حکم عام ہے، وہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر ہو یا نہ ہو۔

سود کی حرمت و شناعت کے تعلق سے احادیث نبویہ میں بہت مواد موجود ہے، بخاری و مسلم کی ایک روایت میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے امت کو سات ہلاک و برباد کرنے والی چیزوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور ان سات چیزوں میں شرک، جادو، قتل ناحق ، میدان جنگ سے فرار ہونا ، تہمت طرازی ، یتیم کا مال ناحق کھانے کے ساتھ سود خوری کا ذکر صریح الفاظ میں آیا ہے ۔ (بخاری:1/388)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں: ”لَعَنَ رسول اللہ اللہ آکل الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہ وَشَاہِدَیْہِ، وَقَالَ: ہُمْ سَوَاء (مسلم:2/27) ترجمہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے، سود کی تحریر لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا:یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے:1.. عادی شرابی 2.. سود کھانے والا 3.. ناحق یتیم کا مال اڑانے والا 4.. ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔(المستدرک:2/37)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی حدیث نبوی میں سخت وعید آئی ہے:”الربا ثلاث وسبعون بابا، أیسرہا مثل أن ینکح الرجل أمہ“․ (المستدرک :2/37) سود کے وبال تہتر قسم کے ہیں، ان خرابیوں میں سے ادنی اور کمتر قسم ایسی ہے ، جیسے کوئی شخص (معاذ اللہ) اپنی ماں کے ساتھ منھ کالا کرے۔

حضرت عبداللہ بن سلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :”الدرہم یصیبہ الرجل من الربا أعظم عند اللہ من ثلاثة وثلاثین زنیة یزنیہا فی الاسلام“ (ایضاً) ایک درہم کوئی سود سے حاصل کرے، اللہ کے نزد یک مسلمان ہونے کے باوجود33 بار زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔

دوسری روایت میں وارد ہوا:”الربا اثنان وسبعون حوبا، اصغرہا حوبا کمن أتی امہ فی الاسلام ودرہم من الربا أشد من بضع وثلاثین زنیة“․ (شعب الایمان المسیقی:4/392) سود کے بہتر گناہ ہیں، ان میں سب سے چھوٹا گناہ اس شخص کے گناہ کے برابر ہے، جو مسلمان ہو کر اپنی ماں سے زنا کرے اور ایک درہم سود کا گناہ کچھ اوپر30 زنا سے زیادہ بدتر ہے۔
حضرت حنظلہ رضی الله عنہ (شہید ِاسلام، جن کو فرشتوں نے غسل دیا تھا) کے صاحب زادے حضرت عبداللہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں:”درہم ربا یأکلہ الرجل وہو یعلم أشد من ستة وثلاثین زنیة․“ (مسند احمد:5/69 ، مجمع الزوائد:4/117) سود کا ایک درہم جسے کوئی جانتے ہوئے استعمال کرلے 36 مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ شدید جرم ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا:شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اوپر کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اچانک گرج بجلی اور کڑک محسوس کی ، پھر ایک ایسی قوم پر میرا گزر ہوا جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانوں جیسے تھے، جن میں سانپ بھرے ہوئے تھے، جو باہر صاف طور سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے بتایا:یہ سود خور لوگ ہیں۔ (ابن ماجہ:164، مسند احمد:2 /256)

حضرت عبداللہ بن مسعود آپ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:”ما ظہر فی قوم الزنا والربا إلا أحلوا بأنفسہم عقاب اللہ“(مجمع الزوائد :4/118) جس قوم میں زنا اور سود پھیل گیا انھوں نے یقینا اللہ کا عذاب اپنے اوپر اتار لیا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:جب اللہ کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو ان میں سود پھیل جاتا ہے۔ (مسند الفردوس الدیلمی :2/213)

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے منقول ایک حدیث میں انتہائی چشم کشا حقیقت کا بیان ہے :”لیأتین علی الناس زمان لا یبقی منہم أحد الا أکل الربا، فمن لم یاٰکل أصابہ من غبارہ“ (ابن ماجہ ) ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ کوئی بھی سود سے نہ بچ سکے گا اور کوئی شخص سود خوری سے بچ بھی گیا تو بھی سود کے دھویں اور غبار سے نہیں بچ سکے گا۔

مذکورہ احادیث اور بہ طور خاص اس حدیث کے تناظر میں ہم اگر موجودہ صورت حال کا تجزیہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق اٹھانوے فیصد افراد سود کی لعنت میں گرفتار ہیں، پورا تجارتی نظام سود پر منحصر ہو چکا ہے، دوفی صد با توفیق بندے ایسے ہیں جو سود خوری سے بچے ہوئے ہیں ؛ لیکن سودی نظام کی زنجیر نے عالمی معیشت و تجارت کو اس طرح جکڑ رکھا ہے اور سماج میں سود اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ ان با توفیق اور حلال کا روبار کرنے والوں کا حلال مال بھی پورے طور پر سود کے دھویں اور غبار سے محفوظ اور بچا ہوا نہیں رہ جاتا۔

اب جب کہ دنیا سودی لعنت میں جکڑے ہوئے تجارتی و معاشی نظام کا تجربہ کر چکی ہے اور اس کے اخلاقی، روحانی، تمدنی، اجتماعی اور معاشرتی نقصانات کا سامنا بھی کر چکی ہے اور اس کے نتیجہ میں بار بار مختلف شکلوں میں آنے والے قہر الہٰی سے بھی دو چار ہو چکی ہے، دنیا کے لیے سود سے بالکل پاک اسلامی نظام معیشت ( جو تمام انسانی طبقات کے لیے سراپا رحمت وخیر ہی ہے )کو اپنانے کے سوا کوئی اور متبادل اور چارہ کار باقی نہیں بچا ہے۔

سود کی مناسبت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی پوری ملت کے لیے انتہائی فکر انگیز ہے:”ان من أربی الربوا الاستطالة فی عرض المسلم بغیر حق“․ (أبو داود:کتاب الادب ) سب سے بڑا سود یہ بھی ہے کہ کوئی کسی مسلمان کی آبرو پر ناحق دست درازی کرے۔ مزید ارشاد ہوا:”إن أربی الربا عرض الرجل المسلم“․ (المستدرک: 2/37) بلا شبہ بدترین سود کسی مسلمان کی آبروریزی ہے۔

واضح ہو کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ ، بے جا تہمت طرازی، ناحق دست درازی اسی سود کا ایک حصہ ہے، جس کو ماں کے ساتھ زنا سے بدتر اور خدا کے غضب و عذاب کا موجب بتایا گیا ہے۔

بے حیائی کا سیلاب بلا خیز

بے حیائی، بے پردگی اور بدکاری کی لعنت اللہ کے قہر و عذاب کو دعوت دیتی ہے، شریعت نے حیا اور پردے کا انتہائی معقول نظام انسانیت کو دیا ہے اور ہر وہ سوراخ بند کر دیا ہے، جہاں سے بے حیائی کے جرثومے ابھر کر آسکتے ہوں ، قرآن نے زنا کو صاف الفاظ میں بے حیائی کا عمل، نا پسندیدہ اور برا چلن بتا کر اس کے قبح شرعی ، قبح عقلی اور قبح عرفی کا ذکر کیا ہے (النساء:22) اور اسے بے حیائی کا کام اور بری راہ قرار دے کر اس کے قریب تک جانے سے منع کر دیا ہے (الاسراء:32) اس طرح بے حیائی ، بے پردگی اور فحاشی کے تمام قولی فعلی ، تقریری و تحریری، لباسی و تصویری مظاہروں پر کڑی بندش عائد کر دی ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں فحاشی کا جو سیلاب بلا خیز آیا اور چھایا ہوا ہے، وہ قرب قیامت کی علامت ہے، جس کی پیش گوئی احادیث میں جا بجا فرمائی گئی ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی عورتیں کثرت سے ہوں گی جو بہ ظاہر لباس میں ہوں گی ، مگر لباس اتنا باریک ہوگا اور اس سے جسمانی خدو خال اس درجہ نمایاں ہوں گے کہ در حقیقت وہ برہنہ ہوں گی، وہ خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی اور مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی، ایسی عورتیں جنت کی خوش بو سے بھی محروم کر دی جائیں گی ۔ (مسلم:3941)

بے حیائی کے اس طوفان کے تین اسباب بالکل نمایاں ہیں:
1.. نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں بے انتہا تاخیر (اس کے اسباب کچھ بھی ہوں ) ۔ 2.. مخلوط نظام تعلیم و معاشرت ۔ 3.. مو بائل اور ٹی وی اور نیٹ کے ذریعہ فحاشی کا فروغ، زنا اور عریانیت میں مبتلا سماج پر احادیث کے مطابق عذاب الہٰی اور امراض و آفات کا نزول ہو کر رہتا ہے، ان آفات سے حفاظت کی تدبیر صرف یہ ہے کہ ملت کا ہر فرد خود بھی عفت مآب بنے اور اپنے گھر، خاندان اور سماج کو بے حیائی اور بے حجابی کی لعنت سے پاک کرنے کی مہم میں لگ جائے ۔

زکوة کے تعلق سے عمومی کو تاہی

اسلام کے ارکان میں نماز کے بعد دوسرا مقام”زکوة“کو حاصل ہے، قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کے ساتھ زکوة کا ذکر اور تاکید موجود ہے، یہ وہ فریضہ ہے جسے اسلام میں ستون و بنیاد کا درجہ دیا گیا ہے، کسی انسان کے صاحب ایمان ہونے کی شناخت کے لیے جو معیار قرآن نے طے کیا ہے، اس میں توحید ورسالت کے اقرار اور نماز کے بعد زکوة ہی کا ذکر ہے۔ (التوبہ :11)

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے لیے جو شرطیں متعین فرمائی ہیں، ان میں بھی زکوة کا ذکر ہے۔(سورة الحج :41)

جو لوگ اس فرض کو ادا نہیں کرتے ، ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب کی دھمکی قرآن وحدیث میں موجود ہے، دنیا میں بھی اس جرم کی نقد سزا کے طور پر بے برکتی، مال کا غلط مصارف میں ضیاع اور نقصان جیسی آفات مسلط کر دی جاتی ہیں۔

ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نے تحریر فرمایا ہے :” زکوٰة وصدقات کی برکت سے مال کا بڑھنا اور ان کے روکنے کی نحوست سے مال کا گھٹنا ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس سے کسی منصف مزاج کافر کو بھی مجال انکار نہیں ، مگر افسوس رنگ و بو کی ظلمت نے آج کے مسلمان کی نظر سے اس روشن اور چمکتی حقیقت کو بھی اوجھل کر دیا ، اس مسلمان معاشرے میں کتنے مسلمان ہیں جو فریضہ زکوٰة کے تارک ہیں ، انھیں اپنے مال کا چالیسواں حصہ نکالنا گوارا نہیں؛ مگر دوسری طرف یہ گوارا ہے کہ امراض ناگہانی آفات وحوادث یا ناجائز مصارف میں اس سے بھی دس گنا زائد مال نکل جائے ۔

ذیل میں ایک دشمن اسلام انگریز کا واقعہ درج کیا جارہا ہے، شاید کسی غافل مسلمان کی چشم عبرت وا ہو۔ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی قدس سرہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے بچپن میں اپنے والد صاحب سے اور دوسرے کئی لوگوں سے بھی یہ قصہ سنا کہ ضلع سہارن پور میں قصبہ بہیٹ سے آگے انگریزوں کی کچھ کوٹھیاں تھیں ، جن میں ان انگریزوں کے کاروبار ہوتے تھے اور ان کے مسلمان ملازم کام کیا کرتے تھے اور وہ انگریز دہلی کلکتہ وغیرہ بڑے شہروں میں رہتے تھے ،کبھی کبھی معائنہ کے طور پر آکر اپنے کاروبار کو دیکھ جاتے تھے، ایک مرتبہ اس جنگل میں آگ لگی، جو کبھی کبھی مختلف وجوہ سے لگتی رہتی تھی اور وہاں کے باغات و جنگلات کو جلا دیتی تھی ، ایک دفعہ اس جنگل میں آگ لگی اور قریب قریب ساری کوٹھیاں جل گئیں، ایک کوٹھی کا ملازم اپنے انگریز آقا کے پاس دہلی بھاگا ہوا گیا اور جا کر واقعہ سنایا کہ حضور! سب کو ٹھیاں جل گئیں ، آپ کی بھی جل گئی ، وہ انگریز کچھ لکھ رہا تھا، نہایت اطمینان سے لکھتا رہا، اس نے التفات بھی نہیں کیا ، ملازم نے دوبارہ زور سے کہا کہ حضور! سب جل گیا، اس نے دوسری دفعہ بھی لا پرواہی سے جواب دے دیا کہ میری کوٹھی نہیں جلی اور بے فکری سے لکھتا رہا، ملازم نے جب تیسری دفعہ کہا تو انگریز نے کہا کہ میں مسلمانوں کے طریقہ پر زکوة ادا کرتا ہوں؛ اس لیے میرے مال کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، وہ ملازم تو جواب دہی کے خوف کے مارے بھاگا ہوا گیا تھا کہ صاحب کہیں گے کہ ہمیں خبر بھی نہیں کی ، وہ انگریز کی اس لا پرواہی سے جواب سن کر واپس آگیا ، آکر دیکھا تو واقعی سب کوٹھیاں جل چکی تھیں ، مگر انگریز کی کوٹھی باقی تھی۔

فائدہ: اللہ کی شان کہ اسلامی احکام پر عمل کر کے غیر مسلم تو فائدہ اٹھائیں اور ہم لوگ زکوة ادا نہ کر کے اپنے مالوں کو نقصان پہنچائیں، کہیں چوری ہو جائے، کہیں ڈاکہ پڑ جائے، کہیں کوئی آفت مسلط ہو جائے۔(سود خور سے اللہ اور اس کے رسول کا اعلان جنگ /13-12 بحوالہ آپ بیتی :2/88)

اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے ، اگر اجتماعی طور پر کسی معاشرے یا خطے میں زکوة کا اہتمام ختم ہونے لگتا ہے، لوگ زکوٰة کی ادائیگی سے لا پروا ہو جاتے ہیں یا پائی پائی کے مطلوب حساب کے بجائے تخمینی طور پر زکوة ادا کر دیتے ہیں، تو ان کوتاہیوں کا وبال اجتماعی و بال و آفت (مثلاً قحط سالی و دیگر حادثات)کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، آج یہی صورت حال سامنے ہے، احادیث کی صراحت کے مطابق ایک دور ایسا آئے گا کہ زکوة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جائے گا، آج کا منظر نامہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔

ہمیں زکوٰة کے تعلق سے عمومی کوتاہی کے اس پہلو کو ضرور پیش نظر رکھ کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور پوری ملت کا یہ مجموعی مزاج بننا چاہیے کہ ہر صاحب نصاب شریعت کے اصول کے مطابق مکمل حساب کے بعد زکوة کی رقم نکالے اور واقعی مستحقین تک اسے پہنچائے۔

حاصل یہ ہے کہ اجتماعی عذاب کا باعث بننے والی مذکورہ تینوں چیزوں 1.. سود خوری کی وبائے عام، 2.. بدکاری اور بے حیائی کا سیلاب بلاخیز، 3.. زکوٰة کے تعلق سے عمومی کو تا ہی سے امت کا ہر فرد بہ صدق قلب تائب ہو اور مستقبل میں کبھی ان لعنتوں کے قریب نہ جانے کا پختہ عہد کرے، قرآنی بیان کے مطابق اللہ کی رحمت اور آفتوں سے حفاظت نیکوکاروں ہی کے قریب ہوتی ہے۔

مقالات و مضامین سے متعلق