امت محمدیہ اور اسلام

idara letterhead universal2c

امت محمدیہ اور اسلام

محدث العصر مولانا سید محمدیوسف بنوری

﴿ہَٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ﴾․ (اعراف:203)

اسلام جس کامل ترین شکل میں اُمت محمدیہ کے سامنے آج موجود ہے یہ بڑی کٹھن منزلیں طے کر کے یہاں پہنچا ہے اور دین اسلام کا یہ خوب صورت باغیچہ جس شان میں آج موجود ہے اور جس طرح یہ عالم اسلام پر سایہ فگن ہو رہا ہے اور اس کے شیریں پھلوں اور پھولوں سے اُمت لذت اندوز ہو رہی ہے اور اس کی روح پر ور خوش بوؤں سے قلب و دماغ کو سکون نصیب ہو رہا ہے یہ شہداءِ احد اور شہداءِ بدر کے پاکیزہ اور مقدس خونوں سے سینچ سپینچ کر سر سبز و شاداب کیا گیا ہے، اس کے پیچھے امت محمدیہ کے جان نثاروں کی عظیم الشان تاریخ ہے، گھر بیٹھے بٹھائے یہ نعمت ہمیں اور آپ کو آسانی سے میسر آ گئی ہے، ہمیں اس کی کیا قدر ہو سکتی ہے؟! اس کی قدر و قیمت تو صدیق وفاروق، عثمان و علی ، طلحہ وزبیر، سید الشہداء حمزہ و جعفر، ابن رواحہو خالد بن ولید( رضی اللہ عنہم) سے پوچھیے ، اس کی داستانیں ابو عبیدہ ، سعد بن ابی وقاص اور ابو موسیٰ اشعری سے سنیے، خباب و خبیب، بلال دعمار ، سلمان و ابو فکیہہ کی الم ناک زبانوں سے معلوم کیجیے ۔ آئیے !آپ بھی اسلام کی تاریخ کے سنہری اوراق کی کچھ ورق گردانی کیجیے اور فاتحین اسلام کے عظیم الشان واقعات اور کارنامے پڑھیے، شاید کچھ اسلام کی قدر وقیمت کا احساس ہو جائے! کہنا یہ ہے کہ یہ نعمت بڑی مشکلوں سے ہم تک پہنچی ہے،لیکن افسوس آج امت اس کی حفاظت کے فریضہ سے قطعا ًقاصر، بلکہ غافل نظر آرہی ہے۔

دین الہٰی کی تاریخ

اور زیادہ گہرائی میں جائیے تو اس دین ِالہٰی کی تاریخ اس سے بھی زیادہ قدیم نظر آتی ہے ، حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة و السلام نے اس دین ِاسلام کی خشت ِاوّل رکھی ہے، ان کے بعد آنے والے حضرات انبیائے کرام در سولان عظام پر کیاکیا گزری ہے اس کا کچھ اندازہ حضرت رسالت پناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہو سکتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں اُمت کے سامنے ہے:

”الأنبیاء أشد الناس بلاء، ثم الأمثل فالأمثل “․

ترجمہ:”سب سے زیادہ تکلیفیں انبیائے کرام کو اٹھانی پڑتی ہیں، پھر جو ان کے جتنا زیادہ قریب و مماثل ہو اس کو“۔

یعنی یہ” دین اسلام“ ان تمام ادیان الہٰیہ سماویہ کی آخری کڑی ہے ،جو جامع ترین کامل ترین شکل د صورت میں ہم تک پہنچا ہے ، پھر صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی الله عنہمنے کس کس طرح اس چمن کی آبیاری فرمائی ہے، پھر محدثین کرام نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاس قدسیہ اور احادیث نبویہ کی کس شان سے حفاظت فرمائی ہے اور کیا کیا محنتیں اس سلسلہ میں کی ہیں ، ایک ایک حدیث کے سننے اور محفوظ کرنے کے لیے کیسے کیسے طویل و شاق سفر کیے ہیں اور پھر اعدائے اسلام کی سازشوں اور تحریفات و تلبیسات سے کس طرح بچا بچا کر، اُمت کے سامنے یہ امانت پہنچائی ہے، حتی کہ اس کی حفاظت و صیانت کے لیے تقریبا ایک سو علوم ایجاد کیے ، الغرض اس امانت الہٰی کو ان حضرات نے کس طرح سینوں سے لگایا اور کس طرح تصنیفی سفینوں (کتابوں ) میں امت تک پہنچایا ، یہ اسلامی تاریخ کا زریں دور ہے ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ، دارمی و غیرہ و غیرہ تو اس گلستان کے چند پھول ہیں اور اسی بوستان کے چند باثمر پو دے ہیں جن کے ثمرات سے آج امت فائدہ اٹھا رہی ہے ۔

پھر اللہ جل مجدہ نے اس امانت ِالہٰی کے حِکم و مصالح کو سمجھنے سمجھانے کے لیے اور اس کی روح کو محکم بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے حضرات فقہائے کرام کو پیدا فرمایا ہے، کہیں علقمہ و اسود و شعبی و ابراہیم نخعی ہیں، کہیں قاسم بن محمد بن ابی بکر و سلیمان بن یسار وعروة بن الزبیر وسعید بن المسیب ہیں، کہیں عطاء بن ابی رباح ہیں، کہیں ابن سیرین و حسن بصری ہیں، کہاں تک گنوائیں؟ مدینہ ، کوفہ ، بصرہ، بغداد ، شام ، مصر و غیرہ بلاد اسلامیہ کے فقہائے تابعین کی فہرست بہت طویل ہے، اس اُمت مرحومہ کی ان نفوس طیبہ کی جن کو صحابہ و تابعین در محد ثین نے یہ امانت الہٰیہ سپرد کی ہے، پھر جو صحیح معنی میں ان اکابر امت کے علوم کے وارث بنے ہیں ان کی فہرست بھی بہت طویل ہے، شام میں امام عبد الرحمن اوزاعی ، مصر میں یزید بن ابی حبیب ولیث بن سعد،کوفہمیں سفیان ثوری ، امام ابو حنیفہ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی ، مدینہ میں امام مالک بن انس اور ان کے شیخ ربیعہ وغیرہ فقہائے سبعہ ہیں۔

پھر کچھ عرصہ بعد یہ امانت محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل کو سپرد ہوئی، جن کے آرا و افکار و اقوال امت کے سامنے مرتب و محفوظ اور مدون ہو کر پہنچے اور آج تک ان کے بتلائے ہوئے طریقوں اور مسلکوں پر اُمت عمل پیرا ہے ،ان میں جن کو زیادہ قبول نصیب ہوا ،بلکہ حدیث نبوی کی تعبیر کے مطابق ”ثم وضع لہ القبول فی الأرض“کے مصداق بنے وہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں ۔

کوفہ کی علمی و دینی حیثیت

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اتفاق سے اس سرزمین میں پیدا ہوئے جہاں علوم نبوت کا سب سے زیادہ ذخیرہ پہنچا، چناں چہ خلافت فاروقی کے عہد میں جب اسلام مشرق و مغرب میں پھیل گیا اور عراق میں کوفہ ایک مستقل اسلامی بستی بسائی گئی اور اس کو مرکزیت حاصل ہوگئی تو سب سے زیادہ صحابہ کرام اس سر زمین میں منتقل اور آباد ہوئے، بلکہ کوفہصحابہ کرام کا فوجی ہیڈ کوارٹر بن گیا ، حروب قادسیہ میں، یعنی ایران کی لڑائیوں میں آٹھ ہزار صحابہ کرام بتصریح مؤرخ ابن جریرطبری شہید ہوئے ہیں ، وہ سب کے سب اسی سرزمین میں سکونت اختیار کر چکے تھے، کو فہ میں ایک علاقہ قرشیشا کا تھا، جس میں تبصریح شیخ ابن ہمام چھ سو صحابہ کرام سکونت پذیر تھے ،اسلام کے اس عالمی مرکز کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام فقہا ئے صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود کو منتخب کر کے بھیجا تھا۔ جن کے بارے میں حسب روایت طبقات ابن سعد، فاروق اعظم کے یہ کلمات طیبہ انتہائی اہمیت رکھتے ہیں :

”آثرتکم بہ یا أہل القادسیة“․

”اے مجاہدین قادسیہ!اتم کو وہ شخص دے رہا ہوں جس کا میں خود محتاج ہوں “۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے اس سر زمین میں کچھ ہی عرصہ میں ایک ایسی عظیم جماعت تیار کر دی جس کو دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:

أصحاب عبد اللہ سُرُج ہذ القریة

عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے شاگرد اس شہر کے مشعل و چراغ ہیں۔

جس وقت حضرت علی کوفہ تشریف لے گئے ہیں عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ تو وفات پاچکے تھے، لیکن حضرت علی رضی الله عنہ کے استقبال کے لیے ان کے تلامذہ اور تلامذہ کے تلامذہ چار ہزار کی تعداد میں پہنچے تھے جس کا ذکر امام سرخسی نے مبسوط کی سولہویں جلد میں کیا ہے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر فرمایا:

”رحم اللہ ابن أم عبد، قد ملأ ہذہ القریة علماً وفقہا“․

ابن اُم عبد یعنی ابن مسعود پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں جنہوں نے اس شہر کو علم (حدیث)اور فقہ سے بھر دیا ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس قابلِ قدر اور سزا وار افتخارِ شہادت پر غور کیجیے ۔

بہر حال خلافت ِفاروقِ اعظم کے بعد اسلامی ملکوں میں صحابہ کرام کی کثرت تعداد کے اعتبار سے دنیا کا کوئی ملک بھی کوفہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر صحابی حدیث اور علم دین کا ایک سرچشمہ ہے ، اس لحاظ سے جہاں جتنے زیادہ صحابہ پہنچے وہاں اسی قدر زیادہ حدیث پہنچی اور جہاں جتنے زیادہ فقہائے صحابہ اور کبار صحابہ پہنچے وہاں اسی قدر زیادہ علوم نبوت کے چشمے جاری ہوئے، یہی وجہ تھی کہ عہد بنی امیہ اور پھر عہد بنی عباس میں جس کثرت سے محدثین کو فہ میں موجود تھے، کوئی ملک بھی اس کی ہم سری نہیں کر سکتا، محدث عجلی کا بیان ہے کہ کوفہ میں ایک ہزار پانچ سو صحابہ سکونت پذیر تھے، جن میں ستر صحابہ بد ریین تھے، یہ تو ان صحابہ کی تعداد ہے جو کوفہ کے مستقل باشندے تھے اور جو صحابہ دینی اور ملکی ضرورت کے تحت کوفہ تشریف لائے اور کچھ عرصہ عارضی طور پر قیام فرمایا ہے ان کی تعداد کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے ۔

اور ظاہر ہے کہ ان سب کی علمی اور دینی وراثت اہل عراق کو ہی منتقل ہوئی ہے، خصو صاًجب کوفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و کرم اللہ وجہہ کے عہد میں مرکز اسلام و مرکز خلافت بھی بن گیا تھا، اسی وجہ سے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کے علوم کے حاملین اور تلامذہ کوفہ ہی میں زیادہ رہے ہیں۔
پھر با قاعدہ طور پر حضرات صحابہ میں سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت و درایت اور ان کے فقہ کو پورے طور پر محفوظ کرنے والے عبد اللہ بن مسعود کے تلامذہ ہی تھے اور پھر تلامذہ کے تلامذہ تھے ، چناں چہ محمد بن جریر طبری مفسر و مورخ فرماتے ہیں:

”لم یکن أحد لہ أصحاب معروفون حرروا فتیاہ ومذاہبہ فی الفقہ غیر ابن مسعود، وکان یترک مذہبہ وقولہ لقول عمر، وکان لا یخالفہ فی شیء من مذاہبہ، ویرجع من قولہ إلی قولہ …“․

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے علاوہ کوئی صحابی ایسا نہیں جس کے تلامذہ نے باقاعدہ طور پر اس کے اقوال و فتاوی ومذہب کو مدون و مرتب کیا ہو اور ابن مسعود حضرت عمر کے قول کی بنا پر اپنے قول کو چھوڑ دیا کرتے تھے اور حضرت عمر کے مسلک کی کسی چیز میں بھی مخالفت نہیں کرتے تھے اور اپنے قول سے حضرت عمر کے قول کی طرف رجوع کر لیا کرتے تھے ۔

مسروق بن الاجدع جو کبار تا بعین کو فہ میں شمار ہوتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ :
میں نے صحابہ کرام کو قریب سے قریب تر ہو کر دیکھا ہے اور ان کی صحبت حاصل کی ہے، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تمام صحابہ کرام کے مختلف علوم چھ صحابہ میں سمٹ آئے ہیں، عمر فاروق، علی مرتضی ، عبد اللہ بن مسعود، ابو الدرداء ، زید بن ثابت ، اُبی بن کعب ۔پھر ان چھے حضرات کے علوم کو میں نے دو صحابہ میں مجتمع پایا ہے:حضرت علی اور حضرت ابن مسعود اور اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حضرات کے علوم کے وارث کو فہ والے ہی ہیں ۔

امام ابو حنیفہ اور ان کی خصوصیات

بہر حال صحابہ کرام کے علوم کے وارث تابعین بنے اور تابعین کے علوم حدیث و فقہ کے وارث وہ ائمہٴ اجتہاد ہوئے جن کے تفقہ اور مذاہب پر امت کی دین داری کا دارو مدار رہا ہے، ان ائمہ مجتہدین کے دور میں جو امام سب سے زیادہ ممتاز تھے وہ سفیان ثوری ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی اور ابو حنیفہ ہیں، پھر ان سب میں تفقہ اور اجتہاد کے اعتبار سے امام ابو حنیفہ سب سے زیادہ ممتاز اور مقبول ہوئے اور حق تعالیٰ نے ان سے وہ خدمت لی کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، امام ابو حنیفہ کے کمالات و خصوصیات ہمارا موضوع بحث نہیں، نہ ان کے کمالات کی تفصیل کی یہاں گنجائش ہے :
فی طلعة الشمس ما یغنیک عن زحل

آفتابِ عالَم تاب کے طلوع ہونے کے بعد زُحل ستارے کی روشنی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ حضرات محد ثین اور فقہائے مجتہدین میں سے جو مشائخ ابو حنیفہ کو میسر آئے، کسی اور امام کو میسر نہیں آئے، پھر فطرةً جو دقتِ نظر، تو قد فکر اور ذکاء کا حصہ وافر ابو حنیفہ کو ملا ہے اس میں کوئی ان کا ہمسر نہیں، پھر صبر و استقامت اور خیر خواہی کا جذبہ، فیض رسانی کی حرص اس قدر کہ عقل حیران ہے، غرض حق تعالے نے ابو حنیفہ کو وہ فطری ملکات عطا فرمائے جن کی نظیر ان کے معاصرین میں کہیں نہیں ملتی، ان کے مذاہب کی سب سے بڑی قابل قدر خصوصیت یہ ہے کہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد تاریخ اسلام میں ابو حنیفہ پہلے امام دین ہیں جس نے فقہی شورائی نظام قائم کیا تھا اور چالیس فقہاء و محدثین وائمہ کرام اس شوری کے ارکان تھے، ان میں سے چند کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :

امام ابو یوسف ، زفر، داؤد طائی ، اسد بن عمرو،یوسف بن خالد سمتی، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ،عافیہ از دی ، حمزہ زیات ،حبان بن مندل، فضیل بن عیاض وغیرہ وغیرہ۔

یہ چالیس ارکان کی جماعت مسائل فقہیہ میں کما حقہ، غور و خوض کے بعد مسائل متفقہ طور پر طے کرتی تھی ،کبھی کبھی ہفتوں بحث و تمحیص میں لگ جاتے تھے ، ابن ابی العوام سعدی اپنی کتاب ”اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ“میں لکھتے ہیں :

”کان أصحاب أبی حنیفة الذین دوّنوا معہ الکتب أربعین رجلاً کبراء الکبراء“․

امام ابوحنیفہ کی فقہ کو مرتب کرنے والے چالیس حضرات ایسے تھے کہ جو اکابر کے اکابر تھے۔

موفق مکی ، مناقب ابو حنیفہ میں لکھتے ہیں :
”وضع أبوحنیفة مذہبہ شوری بینہم، لم یستبد فیہ بنفسہ دونہم، اجتہاداً منہ فی الدین ومبالغة فی النصیحة للہ ورسولہ والمؤمنین، فکان یلقی المسائل مسألة مسألة، ویسمع ما عندہم ویقول ما عندہ، ویناظرہم شہراً أو اکثر حتی یستقر أحد الأقوال فیہا،ثم یثبتہا أبو یوسف فی الأصول حتی أثبت الأصول کلہا، وہذا یکون أولی وأصوب، وإلی الحق أقرب، والقلوب إلیہ أسکن، وبہ أطیب من مذہب من انفرد فوضع مذہبہ بنفسہ، ویرجع نیہ إلی رأیہ …“․

ابو حنیفہ نے اپنے مذہب کی بنیاد ان چالیس ارکان کے مشورہ اور اتفاق رائے پر رکھی تھی، ان کی آراکو نظر انداز کر کے اپنی شخصی رائے کو کبھی بھی مدار نہیں بنایا، اس کا مقصد اپنی جانب سے دین کے معاملہ میں انتہائی جد و جہد کا اور اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کی خیر خواہی کا حق ادا کرنا تھا، ابو حنیفہ فقہی مسئلے ایک ایک کر کے ان اراکین شوری کے سامنے پیش کرتے، ان کے دلائل سنتے، اپنے دلائل بیان کرتے، مہینہ مہینہ، بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے، یہاں تک کہ متفقہ فیصلہ ہو جاتا تو اس کے بعد کتب اصول میں درج کراتے، یہی سب سے بہتر، سب سے زیادہ درست اور حق سے سب سے زیادہ قریب طریق کار تھا، اسی سے دل مطمئن اور خوش ہو سکتے ہیں، بمقابلہ ایک شخصی مذہب کے، جس کو ایک فرد اپنی شخصی رائے سے تجویز کرے اور اپنی رائے پر ہی اعتماد کرے اور اسی کو مدار بنائے ۔

یہی وجہ ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی جیسے امام کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ:

”الناس کلہم فی الفقہ عیال علی أبی حنیفة“․

تمام امت فقہ میں ابو حنیفہ  کی محتاج ہے !

اور اسی وجہ سے ابن خلدون جیسے محقق مؤرخ کو بھی جو خود مالکی المذہب تھے اور اندلس کے مسلّم عالم تھے، کہنا پڑا کہ جوپختگی مذہبِ ابو حنیفہ کو حاصل ہوئی، مالکی مذہب کو حاصل نہ ہوسکی۔ (تفصیل کے لیے مقدمہ ابن خلدون دیکھا جائے)

امام ابوحنیفہ اور شرعی مسائل

امام ابو حنیفہ نے جو شرعی مسائل و احکام امت کے لیے املاء کر کے لکھوائے تھے ان کی تعداد کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، ان میں ایک قول یہ ہے کہ یہ مسائل و احکام بارہ لاکھ ستر ہزار سے بھی زائد تھے، یہی وجہ ہے کہ ابو حنیفہ کے مذہب کو عالم اسلام میں جو عروج و قبول نصیب ہوا ہے، تصور سے بالا تر ہے، چناں چہ کہا گیا ہے کہ تمام امت میں ابو حنیفہ کی متابعت واقتدا کرنے والے دنیائے اسلام کے نصف سے زائد مسلمان ہیں ، نصف اقل میں بقیہ تمام ائمہ کے متبعین شامل ہیں۔

انہی حقائق کے پیش نظر امام یحییٰ بن سعید القطان اور امام یحییٰ بن معین اور وکیع بن الجراح و غیرہ وغیرہ کبارِ محدثین کے متعلق محققین علماء اسمائے رجال کا بیان ہے کہ یہ ابو حنیفہ کا اتباع کرتے تھے ، گویا ”اجتہاد مطلق“ کا منصب اتنا اونچا اور اتنا دقیق و عمیق ہے کہ اتنے بڑے بڑے حضرات علماءِ ِمحدثین بھی ابو حنیفہ کی اتباع سے بے نیاز نہ ہو سکے، بلاشبہ ان کا اتباع یا ان کی تقلیدعام امت جیسی نہیں ہے کہ ہر ہر مسئلے میں امام کی تقلید کریں، بلکہ جو دقیق فقہی مسائل ایسے درپیش آتے تھے کہ یہ حضرات خود از روئے حدیث فیصلہ نہ کر سکتے تھے تو ان میں ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرتے تھے اور اسی پر فتویٰ دے دیا کرتے تھے، اس بنیاد پر امام ترمذی جیسے حضرات محدثین کو شافعی مذہب کا پابند بتلایا گیا ہے اور امام ابو داؤد جیسے محدث کو امام احمد بن حنبل کا متبع بتلایا گیا ہے، بہر حال حدیث ہو یا فقہ ،دین کے الگ الگ شعبے ہیں۔
#عمر ہر کسے را بہر کا رے ساختند

”لکل فن رجال“ معروف قولہ ہے ، اعمش ،جو ابو حنیفہ اورابویوسف کے شیخ تھے ، ایک موقعہ پر ان سے ایک مسئلہ پر چھا گیا جواب سے عاجز آئے ، ابو حنیفہ موجود تھے ، عرض کیا:”اجازت ہو تو جواب دوں؟“ فرمایا:”جی ہاں“جب ابو حنیفہ نے اسی حدیث سے جواب دیا جو اعمش کوبھی یاد تھی تو اعمش کو اس پر حیرت ہوئی اور بے اختیار فرمانے لگے :

”یا معشر الفقہاء، نحن الصیادلة، وأنتم الأطباء “․

اے فقہاء کی جماعت !ہم تو دوا ساز ہیں،طبیب تو تم ہو ۔

امام ابو یوسف کی موجودگی میں ایک دفعہ کسی نے کوئی مسئلہ دریافت کیا، پھر امام اعمش جواب سے خاموش رہے تو ابو یوسف نے باجازت شیخ جواب دیا ، فرمایا کہ:”اے یعقوب! ( امام ابو یوسف کا نام ہے) تمہارے والدین نے نکاح بھی نہیں کیا تھا اس وقت سے یہ حدیث مجھے معلوم تھی، لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے ۔“

ان واقعات کو حافظ حدیث حافظ ابن عبد البر مالکی نے ”جامع بیان العلم“ میں اپنی سند سے لکھا ہے اور اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں ، عرصہ ہوا کہ” الفرقان“ کے شاہ ولی اللہ نمبر میں راقم الحروف کا ایک طویل مقالہ اس موضوع پر شائع ہو چکا ہے، اس وقت قلم بر داشتہ چندحروف لکھ دیے تھے، شاید اہل انصاف نے قدر فرمائی ہو، باقی جن حضرات نے نہ ماننے کا عزم ہی کر لیا ہو، روئے سخن ان کی طرف نہیں ہے، آج کل جہاں اور فتنے اس ملک کے مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں یہ بھی ایک فتنہ بن گیا ہے کہ ایک طرف ایک جماعت پوری جہالت کے ساتھ اتباع سنت کے خلاف کرتی ہے اور مذہب حنفی کی آڑ لیتی ہے اور اس طرح یہ مذہب حنفی کو بدنام کرتے ہیں، دوسری طرف ایسے حضرات بھی موجود ہیں جو مقلدین ائمہ اور متبعینِ مجتہدین کو مشرکین سے کم نہیں سمجھتے اور ان کے خلاف لکھتے لکھتے، ابو حنیفہ کے خلاف بھی اپناز در قلم خرچ کر رہے ہیں ، بڑی شدید خلیج درمیان میں حائل ہے۔ انصاف اور اخلاص کے فقدان سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے، آج امت کفر و الحاد کے بحران میں مبتلا ہے ، نئی نسل بے دینی و بداخلاقی کے گہرے گڑھے میں گر رہی ہے اور ہمیں ایک دوسرے پر لعن و طعن سے ہی فرصت نہیں ملتی ، آج کفر و اسلام کا مقابلہ ہے، اسلام اور کمیونزم کا مقابلہ ہے، اسلام اور سرمایہ داری کا مقابلہ ہے ، تمام دین کی اقدار مسخ کی جا رہی ہیں، ماسکو اورواشنگٹن کے ساتھ مہبط وحی البلد الامین مکہ مکرمہ اور مہبط جبرئیل امین مدینہ طیبہ کا موازنہ کیا جا رہا ہے، ایک طرف سے دہریت والحاد کے ساتھ ساتھ جدید تہذیب و تمدن کا سیلاب آرہا ہے اور اسلامی اقدار کے مضبوط قلعوں کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے اور ہم تقلید اور عدم تقلید کے جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

#بسوخت عقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی است
اللہم اہد قومی فإنہم لا یعلمُون 

مقالات و مضامین سے متعلق